”کیا مجھے ایسا نہیں سمجھنا چاہیے؟”
”اگر کسی مرد یا عورت کی شادی نہ ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اس کی زندگی برباد ہوگئی۔ اگر واقعی یہ سمجھ لیا جائے کہ شادی ہو جانے کا مطلب ہے کہ آپ کی زندگی بے کار نہیں ہے اور آپ کی زندگی برباد بھی نہیں ہوئی تو پھر طلاقیں کیوں ہوتی ہیں۔ بہت سے لوگوں کے شوہر اور بیویاں کیوں مر جاتی ہیں۔ اس کے بعد ان میں سے بہت سے دوسری شادی نہیں کرتے، کیا ان کی زندگی برباد ہوگئی یا بے کار ہے۔ زندگی کے بے کار ہونے کا تعلق صرف شادی سے نہیں ہوتا۔ میں تمہیں ایسے سو لوگوں سے ملوا سکتی ہوں جن کا خیال ہے کہ شادی نے ان کی زندگی تباہ کر دی، زندگی کی بربادی کا تعلق صرف شادی سے نہیں ہوتا۔ اللہ نے صرف شادیاں کروانے کے لیے انسانوں کو پیدا نہیں کیا ہوگا۔ اس شخص میں خوبیاں اور خامیاں دونوں مخصوص تعداد میں ڈال دی ہوں گی۔”
فاطمہ اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ ربیعہ بہت زیادہ سنجیدہ ہو چکی تھی۔
”اس کے بعد اللہ ہر انسان کو زمین پر بھیج دیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ تمہاری آزمائشیں ہیں اور یہ تمہاری عمر کی حد ہے، تم کو اتنے سال زمین پر اس طرح کے حالات کے ساتھ رہنا ہے، یہ، یہ مسائل ہیں جو تمہیں زندگی میں پیش آئیں گے۔ اب رو کر ان کا سامنا کرو یا ہنس کر ان کا حل سوچنے کی کوشش کرو یا ان پر اور اپنی زندگی پر ماتم کرنا شروع کر دو۔ یہ سب تمہارے ہاتھ میں ہے، بہرحال تم کو اس سب کا سامنا تو کرنا ہی ہے۔ جن لوگوں کی شادی ہو جاتی ہے۔ ان کے لیے آزمائشیں اور طرح کی ہوتی ہیں۔ ہم زندگی کے امتحانی کمرے میں بیٹھ کر پیدائش سے موت تک مختلف قسم کے ٹیسٹ دینے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کر رہے ہوتے، ہر ٹیسٹ کا دورانیہ الگ ہوتا ہے، اس کی ٹائپ الگ ہوتی ہے۔ بعض کو سوال نامہ ذرا آسان مل جاتے ہیں، بعض کو خاصا مشکل، بعض کا سوال نامہ سلیبس پر پھیلا ہوا ہوتا ہے، بعض کا مختصر جوابات مانگتا ہے بعض کا طویل، بعض پیپرز خوبصورت ہینڈ رائٹنگ میں کرتے ہیں بعض بہت گندی لکھائی میں کرتے ہیں۔ مگر ایک بات تو طے ہے کہ ہم سب دے پیپرز ہی رہے ہیں اور یہ پیپرز کیسے بھی کیوں نہ ہوں، ان کا مارکر ایک ہی ہوتا ہے، اس کے پاس ہمارا پورا پروفائل ہوتا ہے ہمارے سارے کوائف ہوتے ہیں۔ ہر ضروری اور غیر ضروری خبر ہوتی ہے ہمارے بارے میں اور وہ میرٹ پر پوری دیانت کے ساتھ ہمیں مارکس دے دیتا ہے۔ اور وہ مارکر اللہ ہے۔
کمرۂ امتحان میں آنے کے بعد یہ شور مچانے کے بجائے کہ فلاں کا پیپر آسان ہے، فلاں کو فلاں نقل کروا رہا ہے۔ فلاں کو کم سوال حل کرنے کے لیے دیئے گئے ہیں، فلاں کو زیادہ وقت دیا جا رہا ہے۔ فلاں کو زیادہ شیٹس دے دی گئی ہیں۔ فلاں کا پیپر کوئی اور حل کر رہا ہے۔ فلاں کو دی جانے والی شیٹ اور قلم مجھ سے بہتر ہے۔ فلاں کو پانی اور دوسری سہولیات دی جا رہی ہیں۔ فلاں کو کیلکولیٹر استعمال کرنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ فلاں نے کتاب کھولی ہوئی ہے۔ کیا بہتر نہیں ہے کہ ہم صرف اور صرف اپنے کوئسچن پیپر پر توجہ دیں۔ اس کو حل کریں یہ دیکھیں کہ اس میں سے کتنے سوال ہمیں آتے ہیں اور کتنے نہیں۔ جو سوال آتے ہیں، ان کا جواب ہم کتنی اچھی طرح دے سکتے ہیں اور جو نہیں آتے ان کا جواب لکھنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ اگر ہمیں پیپر کرنے کے لیے قلم نہیں ملا تو ہم اور کیا چیز استعمال کرسکتے ہیں، پینسل سے کر لیتے ہیں، کوئلہ استعمال کر لیتے ہیں، یا پھر اپنے خون سے کر لیتے ہیں، پانی نہیں دیا گیا تو پھر اس میں پیاس برداشت کرتے ہوئے بھی اپنا دھیان پیپر پر ہی رکھنا ہے۔ جتنی دیر ہم پیاس برداشت کرسکتے ہیں ہم کو کرنی ہے۔ مگر پیپر خالی نہیں چھوڑنا۔
خالی پیپر دیکھ کر کوئی ہمیں مارکس نہیں دے گا اور نہ ہی ہمارا یہ عذر مانا جائے گا کہ قلم نہیں تھا۔ پیاس لگ رہی تھی۔ وغیرہ وغیرہ… یہ بہتر تھا کہ تم اس جگہ پر شادی کرلیتیں جہاں تمہارے گھر والے چاہتے تھے، کم از کم پھر تمہیں کچھ چیزوں کے بارے میں شکایت نہ ہوتی۔”
فاطمہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
”میں نے کوئی لمبے چوڑے خواب نہیں دیکھے شادی کے بارے میں، خوابوں اور خواہشوں کی کوئی فہرست نہیں بنائی۔
مجھے اپنی خامیوں کا بہت اچھی طرح پتا تھا، اگر مجھے یہ توقع ہوتی کہ جس شخص کے ساتھ میری شادی کر رہے ہیں، وہ مجھے عزت اور محنت دے گا تو میں اس سے شادی کرلیتی مگر ایسا نہیں تھا۔ ایک خالی جگہ تھی جو وہ پرکرنا چاہتا تھا۔ بے عزتی اور ذلت کی بھی، تو ایک حد ہوتی ہے میں نے زندگی میں کبھی کسی سے یہ نہیں سنا کہ کوئی مجھ سے محبت کرتا ہے یا کسی کو میں پسند ہوں۔ میں نے ایسے لفظ زندگی میں کبھی نہیں سنے، کسی مرد کو تو چھوڑیں، میں نے کبھی اپنے ماں باپ سے ایسا نہیں سنا، گھر کے کسی شخص سے ایسا نہیں سنا، اور میں باقی زندگی بھی ایک ایسے شخص کے ساتھ گزارتی جو صرف یہ سمجھتا کہ اس نے مجھ پر احسان کیا ہے شادی کرکے… ایک نیکی کمائی ہے۔ وہ بھی کبھی مجھ سے یہ نہیں کہتا کہ اسے مجھ سے محبت ہے۔”
اس کی آنکھ سے ایک بار پھر آنسو بہنے لگے۔
”آپ کو احساس نہیں ہے ربیعہ! مگر یہ سچ ہے بھوک صرف کھانے کے لیے نہیں لگتی، بعض دفعہ لفظوں کے لیے بھی لگتی ہے۔ اس ایک جملے کے لیے بھی لگتی ہے کہ مجھے تم سے محبت ہے آپ کو پتا ہے، لڑکیاں کیوں گھروں سے بھاگ جاتی ہیں، وہ اس ایک جملے کے لیے بھاگ جاتی ہیں۔ صرف اس لیے کیونکہ انہوں نے اپنے گھر میں کبھی کسی سے یہ جملہ نہیں سنا ہوتا۔
ماں باپ، بہن بھائی، کوئی کبھی ان سے یہ نہیں کہتا کہ وہ ان سے محبت کرتے ہیں، کسی کو ان کی ضرورت ہے۔ ان میں کوئی خوبی ہے جو انہیں اچھی لگتی ہے۔ جب ساری عمر انسان خود پر انگلیاں اٹھتے دیکھتا ہے تو پھر ایک لمحہ وہ آتا ہے جب وہ وہاں سے بھاگ جانا چاہتا ہے۔ ایک وقت ایسا ہوتا ہے جب آپ سے کچھ بھی برداشت نہیں ہوتا۔” وہ بے حد تھکی ہوئی نظر آرہی تھی۔
”گھر میں غربت ہونے کا یہ مطلب ہے کہ آپ اپنی اولاد سے کبھی یہ بھی نہ کہیں کہ آپ کو اس سے محبت ہے۔ میرے نزدیک رشتوں کی ایک کورے کاغذ جیسی بھی اہمیت نہیں ہے۔ میں نے اپنی بتیس سالہ زندگی میں خون کو پانی بنتے دیکھا ہے۔ ماں باپ بہن بھائی، مجھے یہ سب لفظ لگتے ہیں۔ رشتے نہیں لگتے۔ اگر میرے اختیار میں ہوتا تو کیا میں خود کو ایسا بناتی۔
میرے اختیار میں ہوتا تو میں تو خود کو بناتی ہی نا، مجھ کو اگر یہ اختیار مل جاتا کہ میں خود کو جیسا چاہوں بنا لوں تو میں تو تب بھی خود کو کبھی نہ بناتی۔ گھر سے دنیا میں آنے کے بعد مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں تو کبھی گھر میں تھی ہی نہیں، میں تو پہلے بھی کچھ لوگوں کے ساتھ بس کسی ایک جگہ رہ رہی تھی۔ آپ بہت خوش قسمت ہیں۔ آپ کی ماں معذور تھیں مگر انہوں نے آپ کو جینا سکھایا۔ دوسروں کا ہاتھ پکڑ کر ان کی مدد کرنا، انہیں چلانا سکھایا۔ میری ماں معذور نہیں تھیں، میں معذور تھی۔ مگر میری ماں نے تو مجھے کچھ بھی نہیں سکھایا۔ زمین پر پیر تک جمانے نہیں سکھائے۔
ماں کرتی ہے نا یہ سب کچھ، وہ اولاد کو سکھاتی ہے کہ وہ اپنی خامیوں کے ساتھ زندگی کو کس طرح بہتر طریقے سے گزارے۔
میرے پاس بچپن یا جوانی کی ایسی کوئی یاد نہیں ہے جو مجھے خوشی دیتی ہو۔ یقین کریں ربیعہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ مجھ سے آج تک کسی نے اس طرح بھی بات نہیں کی جس طرح آپ نے کی ہے۔ جو لوگ ہمیں کڑوے اور تلخ نظر آتے ہیں ان کے اندر بھی مٹھاس ہوتی ہے۔ مجھے لگتا ہے میں زندگی میں کبھی کچھ نہیں کر سکتی۔ شہیر کو ایڈاپٹ کرنے کے بعد بھی مجھے اتنے خوف ہیں کہ، کہ میں آپ کو بتا نہیں سکتی۔ آپ کو پتا ہے، میں اس بچے سے ڈرتی ہوں، مجھے لگتا ہے کہ کل کو یہ بھی مجھ سے نفرت کرنے لگے گا۔ اگر اس نے مجھ سے اپنی وابستگی جھٹلا دی تو۔”
ربیعہ نے اس کا ہاتھ تھپتھپایا۔
”ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا۔ تم زندگی کو دوبارہ سے شروع کرو۔ تم میں ایسی کوئی خامی، کوئی برائی نہیں ہے جس کو تم ختم نہ کر سکو، ماضی کے بارے میں مت سوچو، اسے بھول جاؤ۔ اپنی اچھائیوں کو دیکھو، اپنے اسٹرونگ پوائنٹس کو دیکھو۔”
”کیا میرے اندر کوئی اچھائی ہے؟” اس نے عجیب سے انداز میں پوچھا۔
”مجھ سے مت پوچھو، تم خود اپنے آپ کو دریافت کرو، دیکھو، تمہارے اندر کیا کیا ہے۔ میں تم کو کیوں بتاؤں کہ تم میں کیا کیا خوبی ہے تم مجھ کو بتاؤ کہ تمہارے اندر کون کون سی خوبی ہے۔ دیکھو کانٹوں والا ایک درخت ہوتا ہے۔ اس کے کانٹے سب کو چبھتے ہیں۔ کانٹوں کو کوئی استعمال نہیں کرتا۔ مگر اس درخت میں صرف کانٹے ہی تو نہیں ہوتے پتے ہیں، پھل ہوتا ہے، پھول ہوتے ہیں، اس کی جڑیں ہوتی ہیں، تنا ہوتا ہے، لکڑی ہوتی ہے، کانٹے نقصان دہ ہوتے ہیں مگر باقی چیزیں تو نہیں۔ تم دیکھو، تمہارے اندر کیا ہے۔ فاطمہ مختار کی شخصیت کے صرف تاریک پہلو تو نہیں ہوں گے۔ دنیا میں کسی انسان کو صرف خوبیوں یا صرف خامیوں کے ساتھ پیدا نہیں کیا گیا۔ ہر شخص میں دونوں چیزیں ہوتی ہیں۔ مگر جس طرح کوئی اپنے دائیں ہاتھ کا زیادہ استعمال کرتا ہے اور کوئی بائیں ہاتھ کا۔ اسی طرح کسی کی خامیاں اس کی پرسنالٹی پر غالب آجاتی ہیں۔ اور کسی کی خوبیاں۔”
”ربیعہ! کیا آپ میں خامیاں ہیں؟”
ربیعہ اس کے سوال پر بے اختیار ہنسی۔
”تم میری ساس سے پوچھو۔ وہ تمہیں میرے بارے میں اصل معلومات دیں گی۔”
”وہ تو آپ کے بارے میں جان بوجھ کر ایسی باتیں کہیں گی۔ وہ آپ کو پسند نہیں کرتیں اس لیے مگر کیا آپ میں خامیاں ہیں؟”
”نہیں بھئی، ساس بڑی پیاری چیز ہوتی ہے، ہر بات تو وہ غلط نہیں کہتی۔ کچھ ایسی خامیاں ہیں مجھ میں، جن کی وہ نشان دہی کرتی ہیں اور وہ تب بالکل ٹھیک ہوتی ہیں۔ تم مراد سے پوچھو، وہ میری خامیوں کی ایک لمبی فہرست تمہارے سامنے رکھ دے گا۔”
وہ اپنے شوہر کا نام لے رہی تھی، فاطمہ نے اس کی آنکھوں میں چمک دیکھی۔
”تم میرے بچوں سے پوچھو… تو وہ دس گھنٹے میری خامیوں کے بارے میں بولیں گے۔ دنیا میں کوئی شخص صرف خوبیوں کا مجموعہ بن کر نہیں آتا۔ لیکن اگر تم یہ چاہو کہ میں اپنی خامیاں تمہیں گنوانا شروع کر دوں تو وہ میں کبھی نہیں کروں گی۔ میں اپنی کمزوریاں تمہارے ہاتھ میں کیوں تھما دوں، اور یار! مجھے اپنے آپ سے پیار ہے۔ میں یہ تو کہتی ہوں کہ مجھ میں خامیاں ہیں مگر وہ گنوا نہیں سکتی۔ بالکل ویسے ہی جیسے میں یہ کہتی ہوں کہ مراد میں خامیاں ہیں مگر مجھے اس سے پیار ہے، میں ان خامیوں کو گنوا نہیں سکتی۔ بالکل ویسے ہی جیسے مجھے اپنے بچوں سے پیار ہے اور میں ان کی خامیاں نہیں گنوا سکتی یا جیسے مجھے اپنی ساس سے پیار ہے اور یہ کہنے کے باوجود کہ ان میں خامیاں ہیں میں ان کی خامیاں نہیں گنوا سکتی۔”
فاطمہ اس کا چہرہ دیکھتی رہی، اس کے چہرے پر بے تحاشا سکون اور اطمینان تھا۔
”لوگوں کے سامنے اپنی غلطیاں ضرور تسلیم کرلو۔ اور معذرت بھی کرلو۔ اس میں بھی کوئی حرج نہیں مگر ان کے سامنے اپنی خوبیوں یا خامیوں کو گنوانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ان کو خود اپنے بارے میں اندازہ لگانے دو۔ اپنے آپ پرکھنے دو۔”
فاطمہ یک دم مسکرا دی۔ ”آپ بہت، بہت عجیب ہیں۔” ربیعہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی۔
”میں تمہیں بتاؤں فاطمہ! کہ پہلی دفعہ جب میں نے تمہیں دیکھا تو مجھے تم بھی بہت عجیب، بہت مختلف لگیں۔ تم میں بھی کوئی چیز کوئی بات ایسی ہے جو اسٹرائک کرتی ہے، میں ہر ایک کو اس طرح پکڑ پکڑ کر سمجھانے نہیں بیٹھتی مگر تم… تم میں بھی کچھ ہے ضرور… یہ جو اتنی بھاری ذمہ داری تم نے اپنے کندھوں پر لی ہے، یہ ہر کوئی نہیں لیتا اور کم از کم اتنی فرسٹریشن یا ڈپریشن میں نہیں، جتنی میں تم نے اس بچے کو گود لیا۔ اس کا مطلب ہے کہ تم نے ابھی خواب دیکھنے چھوڑے نہیں ہیں زندگی کو گزارنے کی امنگ ہے تمہارے اندر۔ اور یہ ہر انسان میں نہیں ہوتی۔ بڑے فیصلے کرنے سے پہلے بہت زیادہ سوچنا چاہیے اور جب ایک بار فیصلہ کرلیں تو اس پر جم جانا چاہیے پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا چاہیے۔ ایک دن گھر میں بیٹھ کر اپنی زندگی کا تجزیہ کرنا اپنے لیے مقاصد طے کرنا، اپنی خامیوں کے ساتھ سمجھوتہ کرنا کہ ہاں ٹھیک ہے اس چیز میں میں پیچھے ہوں یا یہ چیز میرے پاس نہیں ہے۔ اپنی خامیوں کا جائزہ لینا ان عادتوں سے فوراً پیچھا چھڑا لینا جو تمہاری شخصیت کو مسخ کر رہی ہیں۔ مگر جہاں تک چھوٹی موٹی خامیوں کی بات ہے تو ٹھیک ہے کوئی مسئلہ نہیں۔
تمہیں غصہ آتا ہے بالکل نارمل چیز ہے۔ کوئی پریشانی والی بات نہیں اگر صحیح بات پر آتا ہے مگر اگر ہر بات پر آتا ہے تو پھر کچھ غلط ہے۔ لوگوں سے تم کو نفرت ہے، یہ نفرت تمہیں کم کرنی ہوگی۔ لوگ صرف برے ہی نہیں اچھے بھی ہوتے ہیں۔ مستقبل صرف تمہارے لیے ہی نہیں سب کے لیے ایک سوالیہ نشان ہوتا ہے۔ اس لیے اس کے بارے میں پریشان اور خوفزدہ ہونا چھوڑ دو۔ آسکر وائلڈ نے کہا ہے جو لمحہ گزر گیا اس پر پچھتائیں مت، جو آنے والا ہے، اس کے بارے میں پریشان نہ ہوں۔ صرف اس پل کے بارے میں سوچیں، جس میں آپ جی رہے ہیں۔ میں ایک دو دن تک کراچی واپس چلی جاؤں گی۔ دوبارہ لاہور آنا کب ہو، میں نہیں جانتی۔ کوشش کروں گی تم سے دوبارہ ملوں، یہ بھی ممکن ہے دوبارہ کبھی ملاقات نہ ہو، مگر تم میری باتوں پر غور ضرور کرنا۔ میرے والد یہاں ہیں تمہیں جب کبھی کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہو تو تم ان کے پاس آسکتی ہو۔ چاہو تو مجھ سے رابطہ بھی کرسکتی ہو۔ مگر یہ ضرور یاد رکھنا کہ اپنی زندگی کے راستے تمہیں خود ہی طے کرنے ہیں۔ لوگ تمہیں رستہ دکھا سکتے ہیں مگر تمہارا ہاتھ پکڑ کر منزل پر کوئی نہیں لے کر جائے گا۔ تم سے بہت ساری باتیں ہوئیں۔ اب بس آخری بات کیونکہ ہم الگ ہو رہے ہیں، اور الگ ہونے سے پہلے ایک دوسرے کے بارے میں اچھی باتیں کہنی چاہئیں۔ میں نہیں جانتی کہ ان چند ملاقاتوں میں تم نے مجھ سے کچھ سیکھا ہے یا نہیں مگر میں نے تم سے بہت کچھ سیکھا ہے۔”
فاطمہ کے چہرے پر حیرانی دوڑ گئی۔ ”مجھ سے؟”