تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۲

اس نے آفس ٹیبل پر اپنے دونوں ہاتھ رکھتے ہوئے سرد آواز میں ان دونوں سے کہا۔
”ہم لوگ مصالحت کے لیے آئی ہیں کوئی درمیانی راستہ تو نکالنا چاہیے۔” شمشاد بیگم نے کچھ التجائیہ انداز میں کہا۔
”میں نہیں سمجھتا کہ میرے آپ کے ساتھ اتنے قریبی تعلقات ہیں کہ جن کے ختم ہونے کی صورت میں مصالحت کی ضرورت پڑے اور درمیانی راستہ تو بہت آگے کی بات ہے۔”
زرقا کو اب اندازہ ہوا تھا کہ وہ بے باک اور صاف گو نہیں صرف خود غرض ہے مگر اب خاصی دیر ہو چکی تھی۔
”اس طرح تو نہ کہیں، بہت گہرے تعلقات نہ سہی مگر ہمارے آپ کے ساتھ تعلقات تو تھے۔ خاص طور پر اب جب…”
اس نے شمشاد بیگم کی بات کاٹ دی۔
”یہ تعلقات تو آپ کی بیٹی کے اور بھی بہت سے مردوں کے ساتھ ہوں گے۔ ان میں تجدید اور مصالحت کہاں سے ہوتی ہے، میں نے جتنا وقت آپ کی بیٹی کے ساتھ گزارا۔ اس کی بہت اچھی قیمت ادا کی، اس سے زیادہ بڑی قیمت جتنی آپ کی بیٹی ڈیزرو کرتی ہے، قیمت وصول کرنے کے بعد اب آپ مجھ سے اور کیا چاہتی ہیں۔ جس طبقے سے آپ دونوں کا تعلق ہے۔ اس طبقے کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔ اچھی طوائف گاہک کے گلے کا ہار بھی کبھی نہیں بنتی اور آپ میرے پاؤں کی بیڑی بننا چاہتی ہیں۔”
وہ اب عجیب انداز میں مسکرا رہا تھا۔
”میں ایک ایسی عورت سے شادی کرلوں جسے کوئی کبھی بھی کچھ سکّے دے کر خرید سکتا ہو اور صرف شادی ہی نہ کروں ایسی عورت کی اولاد کو اپنی اولاد بھی تسلیم کروں! What a joke (کیا مذاق ہے) کیا میں آپ دونوں کو شکل سے اتنا ہی بے وقوف لگا تھا کہ آپ نے اپنے باقی سارے گاہکوں کو چھوڑ کر یہ مصیبت میرے گلے میں ڈالنے کی کوشش کی یا پھر آپ لوگوں کا طریقہ واردات ہی یہ ہے۔”
”یہ جھوٹ نہیں ہے سچ ہے۔ زرقا واقعی تمہارے بچے۔”
اس بار اس نے بڑی برہمی سے ان کی بات کاٹی I damn care کہ وہ کس کے بچے کی ماں بننے والی ہے، مجھے نہ بیوی کی ضرورت ہے نہ بچے کی آپ کو یہ غلط فہمی کیسے ہوگئی کہ میں آپ کی بیٹی کی اولاد کو اپنی اولاد تسلیم کرلوں گا اور اس کے نتیجے میں اس سے شادی بھی کرلوں گا۔ یہ کوئی فلم نہیں ہے۔ زندگی ہے جو عورت شادی کے بغیر یہ رسک لیتی ہے۔ اس کی اولاد اسی کی ہوتی ہے۔ اسے اس کا باپ ڈھونڈنے کی بے وقوفی نہیں کرنی چاہیے یہ میرا بچہ ہو تو بھی میں اسے کبھی اپنی اولاد تسلیم نہیں کروں گا بہتر ہے آپ اس کا ابارشن کروا دیں، یا کسی یتیم خانہ کو دے دیں یا پھر پال لیں۔ آپ کو آزادی ہے جو چاہیں کریں آپ جیسی عورتوں کے لیے یہ سب چیزیں نئی نہیں ہیں۔ بہت اچھی طرح ہینڈل کرسکتی ہیں آپ ایسے معاملات کو مگر دوبارہ میرے پاس کبھی مت آئیں۔”
وہ اب اپنے والٹ میں سے کچھ کرنسی نوٹ نکال رہا تھا۔ وہ رقم اس نے شمشاد بیگم کے سامنے میز پر پھینک دی۔




”یہ کچھ رقم ہے، ضرورت ہو تو لے جائیں اگرچہ مجھے آپ کو یہ نہیں دینی چاہیے۔ اب آپ لوگ جاسکتی ہیں مجھے کچھ ضروری کام ہے۔”
شمشاد بیگم نے میز پر پڑے ہوئے نوٹ اٹھالیے۔
مزید کچھ کہے غیر وہ دونوں وہاں سے نکل آئیں۔ دروازے سے باہر نکلتے ہوئے زرقا نے ایک بار مڑ کر اسے دیکھا وہ ایک بار پھر فون پر کسی سے باتیں کر رہا تھا۔ اس لمحے اسے پہلی بار خود سے نفرت محسوس ہوئی۔ اپنے آپ سے، اپنی ماں سے، اپنی زندگی سے، سامنے بیٹھے ہوئے اس شخص سے، اپنے جسم پر لپٹی ہوئی اس ساڑھی سے جس نے اسے اس کی نظروں کا مرکز بنایا تھا اور اس شخص کی اس اولاد سے جو ابھی تک اس دنیا میں نہیں آئی تھی، نفرت کا وہ لمحہ اس کے پورے وجود کو کھا گیا تھا۔
٭٭٭
شائستہ سائیکوانالسٹ کے سامنے کاؤچ پر نیم دراز تھی۔ ایک طویل عرصے سے وہ اس پارسی ڈاکٹر کے زیر علاج تھی۔ ہر ماہ ایک دن ایسا ضرور ہوتا تھا جب اس کا ڈپریشن اور احساسِ جرم ناقابل برداشت ہو جاتا تھا اور اس وقت وہ اسی طرح ڈاکٹر سدھوا کی طرف بھاگا کرتی تھی۔
”بعض دفعہ مجھے اپنا بیٹا اچھا نہیں لگتا۔ میں اسے دیکھتی ہوں اور مجھے یوں لگتا ہے جیسے اس سے الجھن ہونے لگتی ہے۔”
”کیوں؟”
”آپ جانتے ہیں۔”
”آپ اس سے نفرت نہیں کرتیں۔”
”نہیں۔”
”آپ اس سے محبت کرتی ہیں۔”
”پتا نہیں۔”
”وہ آپ کا بیٹا ہے۔”
”جانتی ہوں۔”
”اکلوتا بیٹا۔”
وہ اس بار ڈاکٹر کی بات پر خاموش رہی۔
”وہ آپ کا اکلوتا بیٹا ہے؟”
وہ اس بار چلائی ”جانتی ہوں۔ کتنی بار کہیں گے پھر بھی مجھے وہ اچھا نہیں لگتا۔ آپ اس کے بجائے کسی اور چیز پر بات کریں۔”
وہ بری طرح جھنجھلا رہی تھی۔
”مسز ہارون! آپ سب کچھ بھلا دیں۔ وہ سب کچھ بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ اب آپ کی زندگی میں اس سے زیادہ اہم چیزیں ہیں۔ کبھی آپ نے اندازہ لگانے کی کوشش کی ہے۔” وہ اب بھی خاموش تھی۔
”آپ کا شمار اس شہر کی خوبصورت ترین عورتوں میں ہوتا ہے۔”
شائستہ کے چہرے پر پہلی بار ایک مسکراہٹ ابھری۔
”شہر کے ایک بڑے صنعت کار گھرانے کی بہو، ایک چاہنے والے شوہر کی بیوی۔”
اس کی مسکراہٹ گہری ہوتی گئی۔ ”شہر کی ہر تقریب میں جس کا انتظار کیا جاتا ہے اور جہاں وہ چلی جائے وہاں اس کے علاوہ کسی دوسری عورت کو دیکھا جاتا ہے نہ سراہا جاتا ہے۔”
ڈاکٹر سدھوا مدھم اور پرسکون انداز میں بڑی مہارت کے ساتھ گفتگو کر رہے تھے۔
”جس کے پاس کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔”
شائستہ کی مسکراہٹ غائب ہوگئی۔ ڈاکٹر سدھوا نے اپنی گفتگو جاری رکھی۔
”ہر غلطی ماضی کا حصہ بن جاتی ہے اور ماضی یاد رکھنے کے لیے ہوتا ہے نہ ہی پریشان ہونے کے لیے، جو چیز تکلیف دہ ہو جائے اسے بھلا دینا چاہیے۔
”مگر مجھے وہ سب کچھ بھلانا بہت مشکل لگتا ہے۔” اس نے اپنی بے بسی کا اظہار کیا۔
”کوشش کرنے سے سب کچھ ممکن بنایا جاسکتا ہے۔”
”میں کوشش کرتی ہوں مگر کچھ چیزیں مجھے ہر وقت وہ سب کچھ یاد دلاتی رہتی ہیں۔”
”آپ ان تمام چیزوں کو اگنور کرنے کی کوشش کریں جو آپ کو ان تمام واقعات کی یاد دلاتی ہیں۔”
”میں اگنور نہیں کرسکتی۔” اس نے اپنی بے بسی کا اظہار کیا۔
”کیوں؟ وہ کیا ہے جسے آپ اگنور نہیں کرسکتیں؟” ڈاکٹر نے نرم آواز میں پوچھا۔
کمرے میں خاموشی رہی۔
”وہ کیا ہے جسے آپ اگنور نہیں کرسکتیں جو آپ کو سب کچھ یاد دلانے کا باعث بنتا ہے؟” ڈاکٹر سدھوا نے نرم آواز میں ایک بار پھر اپنا سوال دہرایا۔
”ہارون کمال۔” شائستہ نے ایک طویل خاموشی کے بعد کہا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ ”مجھے اس سے…”
وہ اپنی بات مکمل نہیں کرسکی، کمرے میں انٹرکام بجنے لگا۔ڈاکٹر سدھوا نے انٹرکام پر دوسری طرف کی بات سنی اور انٹرکام بند کر دیا۔
”ہارون کمال آپ کو لینے آئے ہیں مسز کمال!”
انہوں نے شائستہ کو بتایا۔ ڈاکٹر سدھوا نے اپنے دس سالہ کیریئر میں اپنے کسی مریض کی آنکھوں میں اتنی وحشت اور خوف نہیں دیکھا جتنا انہیں اس وقت شائستہ کی آنکھوں میں نظر آیا تھا۔ وہ اب رونا بند کرچکی تھی۔
”ایک وقت ایسا آئے گا جب میں…”
وہ ایک بار پھر کچھ کہتے کہتے رک گئی۔ ڈاکٹر سدھوا نے پرسوچ انداز میں اسے دیکھا۔
٭٭٭
فاطمہ کو اندازہ نہیں وہ کتنی دیر بولتی رہی، وہ صرف یہ جانتی تھی کہ اس نے ربیعہ مراد کو اپنے بارے میں کچھ بتا دیا۔
اس کے ذہن اور دل میں جو کچھ تھا، اس نے جیسے اگل دیا، بچپن سے لے کر بتیس سال تک کی کہانی اسے سنا ڈالی۔
ربیعہ مراد بے حد خاموشی سے اس کی باتیں سنتی رہی، اس نے فاطمہ کو ایک بار بھی ٹوکنے کی کوشش نہیں کی، جب بہت دیر بعد فاطمہ خاموش ہوئی تو ربیعہ نے اس سے کہا۔
”اور ان سب حالات سے گزرنے کے بعد تم کو احساس ہونے لگا کہ تم ایک ایسی چیز ہو، جو بے مصرف ہے۔ بے کار ہے، اللہ کی
Scheme of work میں اس کے لیے کہیں بھی کوئی جگہ نہیں ہے؟”




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!