تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۲

زرقا نے سامنے فون پر باتیں کرتے ہوئے شخص کو دیکھا اور اسے ایک بار پھر اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہونے لگا۔ وہ کسی طرح بھی اس شخص کے ساتھ اپنا موازنہ نہیں کر سکتی تھی جہاں موازنہ کرنا بھی ممکن نہ ہو، وہاں تعلق جوڑنا اور اس طرح کا تعلق جوڑنا جیسا وہ چاہتی تھی میرا فیصلہ غلط تھا۔ اس نے چند لمحے پہلے اس شخص کے منہ سے نکلے ہوئے لفظوں کو یاد کیا ہاں اسے غلط فیصلے کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے۔ مگر اب پچھتانے کا وقت گزر چکا تھا۔ اس نے ایک گہرا سانس لے کر دوبارہ اس شخص کو دیکھا۔ وہ ان کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ وہ بڑی سنجیدگی کے ساتھ فون پر باتیں کر رہا تھا۔ اس کا چہرہ بالکل بے تاثر تھا۔ اس کی آنکھیں سرد تھیں۔
اس نے اپنی اٹھائیس سالہ زندگی میں بہت سے مرد دیکھے تھے مگر کوئی بھی سامنے بیٹھے ہوئے شخص جیسا نہیں تھا اور ہر بار اس پر نظر دوڑاتے ہوئے وہ اسی احساس سے دوچار ہوتی تھی۔
اس نے اپنے آپ کو کھنگالنے کی کوشش کی جو کچھ وہ کچھ دیر پہلے اس سے کہہ چکا تھا۔ اس کے بعد بھی وہ اس سے نفرت محسوس نہیں کر پا رہی تھی۔ اس نے دوسری کرسی پر بیٹھی ہوئی اپنی ماں کو دیکھا ان کی پوری توجہ بھی اسی شخص پر مرکوز تھی مگر زرقا کے برعکس وہ خاصی اکھڑی ہوئی نظر آرہی تھیں۔ ان کے ماتھے کے بل باآسانی گنے جاسکتے تھے اور ان کی نظروں کی چبھن کوئی بھی محسوس کر سکتا تھا۔ وہ اب اپنے منہ میں دوسرا پان رکھ رہی تھیں۔
سامنے ریوالونگ چیئر پر بیٹھا ہوا شخص فون پر بات کرتے کرتے لاشعوری طور پر زرقا کو دیکھنے لگا۔ چند لمحوں کے لیے دونوں کی نظریں ملیں پھر برق رفتاری سے اس نے نظر چرالی۔ زرقا بے اختیار مسکرائی۔ یہ وہی نظر تو تھی جس نے پچھلے چھ ماہ سے اسے مفلوج کیا ہوا تھا۔ ورنہ اس کی قبیل کی عورتیں محبت میں کہاں گرفتار ہوتی ہیں اور ایسی حماقت تو بالکل بھی نہیں کرتیں جیسی اس نے کی تھی۔




زرقا نے پانچ ماہ پہلے اس شخص کو اپنی کزن شینا کے گھر ایک پارٹی پر دیکھا تھا۔ شینا فلم انڈسٹری کی ایک ابھرتی ہوئی ڈانسر تھی، جس نے پچھلے دو سال سے اپنے ڈانس نمبرز سے فلم انڈسٹری میں ایک طوفان اٹھایا ہوا تھا۔ جس فلم میں اس کا ایک ڈانس شامل ہوتا باکس آفس پر اس فلم کی کامیابی بھی یقینی ہوتی تھی۔
اس نے ایک طوفانی رفتار سے اپنی کامیابیوں کا سفر شروع کیا تھا اور بہت ہی کم عرصے میں شہر کے ایک پوش علاقے میں اس کا گھر ان بڑی بڑی پارٹیز کی وجہ سے مشہور ہوگیا تھا جن میں سیاست دانوں سے لے کر سرکاری افسران اور ایکٹرز سے لے کر صنعت کاروں تک ہر طبقے کے لوگ شرکت کرتے تھے۔ وہاں صرف ناچ گانا نہیں ہوتا تھا بلکہ بڑی بڑی بزنس ڈیلز بھی ہوتی تھیں اہم فائلز جنہیں سرکاری دفاتر میں آگے جانے کے لیے مہینوں لگ جاتے وہاں ایک ہی رات میں Approve کر دی جاتی تھیں۔ جن وزیروں سے ملنے کے لیے چھ چھ ماہ پہلے اپائنٹمنٹ لینا پڑتی تھی وہاں ہر قسم کے تکلفات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان سے ملا جاسکتا تھا صرف بریف کیس میں روپیہ ہونا ضروری تھا۔
شینا کا گھر ہر مشکل کے لیے کھل جا سم سم بن چکا تھا۔ وہ زمین پر وہ جنت ارضی تھی جس میں انسان صرف رات کو داخل ہونا چاہتے تھے۔
اور اسی جنت ارضی میں زرقا نے ایک رات اس شخص کو بھی دیکھا تھا۔ بہت سے دوسرے لوگوں کے ساتھ وہ بھی شراب پی رہا تھا۔ زرقا کی نظر ایک بار اس پر پڑنے کے بعد اس سے ہٹ نہیں سکی۔
وہ ان دنوں فلموں میں چھوٹے موٹے رول کیا کرتی تھی اور پچھلے بارہ تیرہ سال سے وہ یہی کرتی آرہی تھی اس سے آگے بڑھ نہیں پائی۔
شاید، اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک بری اداکارہ تھی یا پھر اس کے چہرے پر ضرورت سے زیادہ بناوٹ تھی جو بھی تھا وہ فلم انڈسٹری میں ایک ایکسٹرا سے آگے نہیں بڑھ پائی اگرچہ اس کا چہرہ بھی خوبصورت تھا اور جسم بھی، اس کی آواز بھی خوبصورت تھی اور اسے لباس پہننے کا بھی سلیقہ تھا۔ اس کے باوجود اس کی قسمت نے یاوری نہیں کی۔ اس کی تمام کزنز اس کی طرح فلمز میں چھوٹے چھوٹے رول کرتی آہستہ آہستہ لائم لائٹ میں آنے لگی تھیں۔ اگرچہ ان میں سے کوئی بھی شینا جیسی طوفانی مقبولیت حاصل نہیں کرسکتی تھی مگر زرقا کی طرح گمنام بھی نہیں تھیں۔
اور اب ایک لمبے عرصے کے بعد زرقا اپنا شعبہ بدلنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ایکسٹرا سے گلوکارہ…، گلوکاری اس کے لیے کوئی نئی چیز نہیں تھی۔ فلموں میں ایکسٹرا کے طور پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ وہ نجی محفلوں میں رقص کرنے کے ساتھ ساتھ گایا بھی کرتی تھی اور وہ جانتی تھی کہ اس کی آواز میں وہ لوچ اور نغمگی تھی جو اس زمانے میں کسی بھی گلوکارہ کو لائم لائٹ میں لاسکتی تھی۔ مگر ساری بات اسی ایک موقع کی تھی جو اسے مل نہیں پا رہا تھا۔ نور جہاں کی آواز اس دور میں فلموں میں راج کر رہی تھی کسی بڑے سے بڑے موسیقار میں یہ جرأت نہیں تھی کہ وہ نور جہاں اور چند دوسری نامور گلوکاراؤں کے علاوہ کسی نئی لڑکی کو چانس دے کیونکہ اس کا فوری نتیجہ نورجہاں کی ناراضگی کی صورت میں ہوتا اور نور جہاں کا کسی بھی موسیقار کے ساتھ کام کرنے سے انکار اس کے کیریئر کے خاتمے کے مترادف تھا۔
کچھ یہی حال فلم پروڈیوسرز کا بھی تھا۔ نورجہاں کی ناراضگی کسی کو بھی گوارا نہیں تھی کیونکہ نور جہاں کے گانوں کے بغیر کوئی بھی فلم کامیاب نہیں ہو سکتی تھی۔
زرقا اپنے کیریئر کی اس اسٹیج پر تھی جہاں اسے کامیابی کی اشد ضرورت تھی۔ اداکارہ کے طور پر وہ کامیاب نہیں ہو سکتی تھی یہ وہ جان چکی تھی اور گلوکارہ کے طور پر آگے آنے کے لیے اسے کسی گاڈ فادر کی ضرورت تھی جو اسے ایسا موقع فراہم کرے جسے وہ کیش کروا سکتی اور شینا کے پاس وہ یہی موقع تلاش کرنے آئی تھی۔ شینا اس کی خالہ زاد تھی۔ زرقا کی ماں شمشاد بیگم کی منت سماجت پر شینا نے ان دونوں ماں بیٹی کو اس وقت تک اپنے گھر میں رہنے کی اجازت دے دی تھی جب تک کہ زرقا گلوکارہ کے طور پر کچھ گانے حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو جاتی۔ وہ زرقا کو ہر رات پارٹی میں نہ صرف گانے کا موقع فراہم کرتی بلکہ اسے بڑے بڑے فلم میکرز سے بھی ملواتی۔ مگر زرقا ابھی تک وعدوں کے علاوہ کسی بھی فلم میکر سے کچھ حاصل نہیں کر پائی تھی۔
اور اسی دوران وہ اس شخص سے ٹکرا گئی۔ شینا اس شخص کو غیر معمولی توجہ دے رہی تھی اور اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ وہ مالی طور پر بہت بڑی آسامی تھا اور شینا کو اس سے اچھی خاصی رقم کی توقع تھی۔
پھر وہ اکثر پارٹیز میں وہاں آنے لگا اور ایسی ہی ایک پارٹی میں شینا نے ان دونوں کو آپس میں ملوایا۔
”آپ ساڑھی بہت اچھی باندھتی ہیں۔” تعارف کے فوراً بعد اس نے تبصرے نے اسے کچھ حیران کیا۔
”مجھ سے زیادہ اچھی باندھتی ہیں؟” شینا نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے خاص ادا سے پوچھا۔
اس نے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ بس دونوں کو دیکھتے ہوئے ہلکا سا مسکرایا اور اس گلاس میں سے شراب پینے لگا جو اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا۔
شینا کو اچانک کوئی نظر آیا اور وہ بجلی کی تیزی سے وہاں سے غائب ہو گئی اور زرقا اس کے ساتھ اکیلی رہ گئی۔
”آپ نے گانا سنا میرا؟” زرقا نے بات شروع کرنے کے لیے پوچھا۔
”گانا؟” وہ جیسے چونکا۔
”ہاں، ابھی کچھ دیر پہلے گایا میں نے؟” زرقا نے اسے یاد دلایا۔
”نہیں۔”
”کیوں؟”
”میں ابھی آیا ہوں۔”
”لیکن آپ یہاں اکثر آتے ہیں اور میں تو روز ہی گاتی ہوں۔” زرقا نے کچھ جتانے والے انداز میں کہا۔
”نہیں میں نے کبھی آپ کا گانا نہیں سنا۔”
”کیوں؟” زرقا نے اس بار کچھ حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔
”یہاں گانا سننے کون آتا ہے؟”
وہ اس کی بے باکی پر حیران ہوء یاور پھر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ ”ٹھیک کہا آپ نے، یہاں گانا سننے کوئی بھی نہیں آتا پوچھ سکی ہوں آپ یہاں کس لیے آتے ہیں؟” زرقا نے اتنی ہی برجستگی سے کہا۔
”آپ کے لیے آتا ہوں۔” وہ جانتی تھی یہ مذاق تھا لیکن اس کا دل چاہا یہ مذاق نہیں حقیقت ہو۔
ان کی گفتگو کا سلسلہ طویل ہوتا گیا۔
اور اس رات اس نے کئی گھنٹے اس شخص کے ساتھ رقص کیا اور بات صرف رقص تک محدود نہیں رہی۔ وہ جس طبقے سے تعلق رکھتی تھی، وہاں کچھ بھی معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ وہ شخص خوبصورت تھا۔ یہ اہم بات نہیں تھی اچھے اور اونچے خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ بھی ایسی قابل غور چیز نہیں تھی۔ اس کے پاس بے تحاشا روپیہ تھا اور وہ کسی پر بھی یہ روپیہ لٹانے پر تیار رہتا تھا یہ وہ قابل ذکر چیز تھی جس نے زرقا کو کسی مقناطیس کی طرح اس کی طرف کھینچا تھا۔ اس کا خیال تھا اسے جس گاڈفادر کی تلاش ہے وہ اسے مل گیا ہے۔
اس نے یہ بھی سوچا تھا کہ اس شخص سے وابستہ ہو کر وہ اس سنہری موقع کو حاصل کرسکتی تھی جو آج تک اس کے ہاتھ نہیں آیا اور یہ کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں تھی۔ اس کے طبقے کی اکثر عورتیں یہی کرتی تھیں کسی ایک بڑے شخص سے وابستہ ہو جاتیں اور پھر جتنے فوائد حاصل کرسکتیں کرتیں، خود شینا کی اس چکاچوند کر دینے والی کامیابی کی وجہ ایک بڑا سیاست دان تھا جو اپنا کالا دھن فلمز بنا کر سفید کر رہا تھا اور اس کی بنائی جانے والی ہر فلم میں شینا ضرور شامل ہوتی۔
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زرقا کو احساس ہوا کہ وہ بہت زیادہ عرصہ تک اس شخص کو اپنی مٹھی میں نہیں رکھ سکتی۔ وہ ایک اصطبل پر بندھا رہنے والا گھوڑا نہیں تھا۔ اسے ہر جگہ منہ مارنے کی عادت تھی اور زرقا کواحساس بھی ہوگیا کہ وہ اس کی محبت میں اس طرح گرفتار نہیں ہے جس طرح وہ سمجھ رہی ہے۔
اور تب ہی اس نے سوچا تھا کہ شادی کے بغیر وہ بہت عرصے تک اس کو اپنے ساتھ نہیں رکھ سکے گی اور اس کی اس سوچ نے اس کی ماں کو ہولا دیا تھا۔
”شادی؟ تم شادی کرو گی؟ پوری زندگی، پورا کیریئر تمہارے سامنے پڑا ہے اور تم شادی کرلو گی۔ تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے زرقا؟”
یہ ان کا فوری ردعمل تھا لیکن پھر زرقا نے اپنی ماں کے سامنے وہ کیلکولیشن رکھنا شروع کر دیں جو وہ اتنے لمبے عرصے سے کرتی آرہی تھی۔
اس شخص سے شادی مالی طور پر انہیں اتنا مستحکم ضرور کر دیتی کہ ایک لمبے عرصے تک انہیں مالی ضروریات سے بے نیاز ہونا پڑتا۔ مالی استحکام شاید اس کے کیریئر کو بھی سہارا دے دیتا اور اگر یہ سب نہ بھی ہو پاتا تب بھی وہ اس قابل ضرور ہو جاتی کہ ایک شادی شدہ زندگی گزارتی۔ قابل عزت نہ ہی مگر شادی شدہ زندگی وہ اٹھائیس سال کی ہو رہی تھی اور عمر کے ڈھلنے کے ساتھ ساتھ اس کے امکانات اور بھی محدود ہوتے جا رہے تھے۔ اس بااثر شخص سے شادی اس کے پیروں کے نیچے موجود کچے فرش کو پکا کر سکتی تھی۔
”مگر کیا وہ تم سے شادی کرے گا؟” اس کی ماں نے کچھ جزبز ہوتے ہوئے پوچھا ”وہ تو پہلے سے شادی شدہ ہے۔ میرا خیال ہے، اولاد بھی ہے اس کی۔”
”اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ شادی شدہ ہے یا اس کی اولاد ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ مجھ سے شادی کرے گا۔”
زرقا نے پراسرار انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔ ”جس مرد کی جیب میں روپیہ ہو اس کے ہاتھوں کے ساتھ ساتھ اس کے دماغ میں بھی سوراخ ہوتا ہے۔”
اس نے بڑے فخر کے ساتھ اپنی ماں سے کہا تھا۔
مگر اس وقت اس شخص کے سامنے بیٹھے اسے احساس ہو رہا تھا کہ اس کا یہ اندازہ غلط تھا۔ وہ اب فون رکھ کر ایک بار پھر ان کی طرف متوجہ ہو چکا تھا۔
”میرا خیال ہے، ہمیں جو بات کرنی تھی، ہم کرچکے ہیں۔ اب آپ دونوں یہاں سے جاسکتی ہیں۔”




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!