تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۲

”ہم سب خوش قسمت ہیں۔ زمین پر انسان بنا کر بھیجا جانا ہی ہماری خوش قسمتی کی علامت ہے۔”
”نہیں، صرف انسان ہونا کافی نہیں ہوتا۔ ان سب چیزوں کا ہونا بھی ضروری ہے جو آپ کے پاس ہیں۔” فاطمہ نے اس سے اختلاف کیا۔
”میرے پاس کیا ہے؟”
”ہر چیز، خوبصورتی، اچھا خاندان، دولت، پیار کرنے والے ماں باپ، شوہر، گھر، تعلیم، بچے کیریئر، سکون سب کچھ ہی تو ہے۔”
ربیعہ نے اس کی بات پر بے اختیار قہقہہ لگایا۔
”لوگ چیزوں کو اسی طرح دیکھتے ہیں جس طرح ہم انہیں دکھاتے ہیں۔ میں نے تم سے یہ کہا کہ میں اپنی زندگی اور اس میں موجود چیزوں سے خوش اور مطمئن ہوں تو تم میری زندگی پر رشک کرنے لگیں۔ مجھے خوش قسمت قرار دینے لگیں۔ میں اگر اس کے برعکس تم سے یہ کہتی کہ میں اپنی زندگی سے خوش نہیں ہوں تو تم مجھ پر ترس کھاتیں۔فرض کرو۔ میں کہتی مجھے ایک معذور ساس کی دیکھ بھال کرنی ہوتی ہے جو مجھے ناپسند کرتی ہے۔ اس کے لیے مجھے اپنا کیریئر بھی چھوڑنا پڑ رہا ہے۔ میرا شوہر بھی کچھ عرصے تک بینائی کھودے گا اور پھر شاید بچے بھی اور تب ان لوگوں کو سپورٹ کرنے کے لیے مجھے کام کر نا پڑے گا۔ میری اپنی ماں بھی معذور تھیں۔ کوئی بھائی نہیں صرف ایک بہن ہے وہ بھی اتنی دور کہ میں اس سے کچھ بھی شیئر نہیں کرسکتی۔ باپ بھی دوسرے شہر میں ہیں تم نے خوبصورتی کی بات کی تو میں کوئی الزبتھ ٹیلر نہیں ہوں۔ شاید کسی حد تک خوبصورت ہوں مگر کیا یہ خوبصورتی میرے گھریلو مسائل کا حل پیش کرسکتی ہے، تم نے کہا میرے پاس دولت ہے، دولت مند نہیں ہوں میں، ہاں یہ ضرور ہے کہ کسی حد تک مالی طور پر مستحکم ہوں مگر ایسی کسی فیملی سے تعلق نہیں ہے میرا کہ میری سات پشتیں آرام سے گھر بیٹھے عیش کرتی رہیں تم نے کیریئر کی بات کی تو کیریئر تو چھوڑ ہی رہی ہوں اور سکون جب اتنے بہت سے مسائل ہوں تو کیا سکون ہو سکتا ہے۔ اب مجھے بتاؤ۔ کیا اب بھی خوش قسمت سمجھتی ہو تم مجھے؟”
وہ عجیب سے انداز میں مسکراتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔ فاطمہ جواب دینے کے بجائے اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔




”میں نے تم سے کہا نا جو ورژن آپ لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ لوگ اسی کے مطابق آپ کی خوش قسمتی اور بدقسمتی کا تعین کرتے ہیں۔ آپ کی خوشی اور ناخوشی کا اندازہ کرتے ہیں۔”
”لیکن آپ مجھ سے بہتر تو ہیں نا۔” اس نے بے اختیار کہا۔
ربیعہ نے گہری نظروں سے اسے دیکھا۔ ”ہر انسان کی زندگی میں تین Phases (ادوار) ہوتے ہیں۔ جنہیں ہم کہتے ہیں ماضی، حال، مستقبل ہمارا ماضی ہمارے خاندان سے وابستہ ہوتا ہے۔ ہمارے ماں باپ سے۔ ان کی کامیابیوں سے، ان کی ناکامیوں سے، ان کی سماجی حیثیت سے، ان کی مالی استطاعت سے، ان کی خامیوں سے، ان کی خوبیوں سے، ہم ان کے نام سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔”
وہ اب بہت سنجیدہ نظر آرہی تھی۔
”پھر ہمارا حال شروع ہوتا ہے۔ ہماری اپنی شخصیت، ہماری خوبیاں، ہماری خامیاں، ہماری خوبصورتی یا بدصورتی، ہماری تعلیم، ہمارا کیریئر پھر وہ شخص جو ہماری زندگی میں آتا ہے اگر آتا ہے تو۔”
وہ پلکیں جھپکے بغیر اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
”اس شخص کی خوبیاں، خامیاں، شخصیت، کامیابیاں، سماجی حیثیت، اسٹیٹس اس سے منسلک ہر چیز ہم سے وابستہ ہو جاتی ہے۔ یہ ہمارا حال ہوتا ہے۔”
وہ مدھم، پرسکون مگر مدلل انداز میں گفتگو کر رہی تھی۔
”آخری فیز ہمارا مستقبل ہے یعنی ہماری اولاد اور ان سے وابستہ ہر چیز، ان کی شخصیت، ان کا کیریئر اور زندگی میں سب سے اہم یہ تیسرا فیز ہوتا ہے کیونکہ یہ سب سے لمبا ہوتا ہے۔ جب ہم لوگوں میں موازنہ کرتے ہیں تو ان ہی تینوں Phases کی بنیاد پر کر رہے ہوتے ہیں۔ ابھی تم نے کہا کہ میں تم سے بہتر ہوں۔ کس Phase میں پہلے Phaseمیں؟ ہاں، ٹھیک ہے، اس میں میں تم سے بہتر ہوں۔ دوسرے میں؟ ہاں مان لیتے ہیں۔ میں اس میں بھی تم سے بہتر ہوں، مگر تیسرے اور سب سے اہم فیز کے بارے میں نہ میں کچھ جانتی ہوں نہ تم… نہ میں کچھ کہہ سکتی ہوں نہ تم… یہ بچہ تمہارا بچہ نہیں ہے پھر بھی تم اس کی ماں ہو۔ اس کی پرورش کرکے تم آئندہ پچیس سال کے بعد اسے کہاں لاکھڑا کر دیتی ہو، میں نہیں جانتی۔ میں اپنے بچوں کو کہاں تک لے جاسکتی ہوں۔ وہ بھی مجھے نہیں پتا،مقابلہ اس بات کا نہیں ہے کہ میں مالی لحاظ سے اپنے بچوں کو کتنا مستحکم کر دیتی ہوں، کتنی ڈگریز دلوا دیتی ہوں، یا افسر بنا دیتی ہوں، مقابلہ تو اس چیز کا ہے کہ کیا میں انہیں اچھا انسان بنا پاتی ہوں اور یہ چھوٹا سا لفظ اچھا انسان۔” اپنے اندر ایک پوری ڈکشنری کا مفہوم رکھتا ہے… شہیر ثوبان سمیع میری کسی بھی اولاد سے زیادہ بہتر اور اچھا انسان ہو۔ اس وقت تمہارا مستقبل تمہارا ماضی بھی ہوگا اور حال بھی۔”
”یہ بہت مشکل کام ہوگا۔” فاطمہ نے اعتراف کیا۔
”آسان کام کیا ہے زندگی میں؟” وہ اب جیسے اسے چیلنج کر رہی تھی۔
”دنیا آپ سے آپ کی Worth مانگتی ہے، وہ آپ سے پوچھتی ہے کہ آپ اسے کیا دے سکتے ہیں، اس کے بعد وہ آپ کی جگہ اور اہمیت کا تعین کرتی ہے۔ یہ طے کرتی ہے کہ اسے آپ کو کتنی عزت دینی ہے۔ اگر دنیا کو یہ احساس ہو جائے کہ آپ اس کے لیے کچھ نہیں کرسکتے تو وہ آپ کو آپ کی ساری خوبیوں سمیت اٹھا کر باہر پھینک دیتی ہے۔”
”اور میری کوئی… Worth نہیں ہے، دنیا کو دینے کے لیے میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔”
”ابھی یہ بات تم نہیں کہہ سکتیں ابھی تمہیں اپنی پوری زندگی گزارنی ہے۔ ابھی تو تم کو یہ طے کرنا ہے کہ تمہیں اور کتنا عرصہ Worthless رہنا ہے۔”
”کامیاب ہونے کے لیے کچھ تو ہونا چاہیے، کچھ تو ہونا چاہیے، کچھ تو پاس ہونا چاہیے۔ خالی ہاتھ کوئی کتنی دیر لڑ سکتا ہے اور میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ ماضی، حال، مستقبل کچھ بھی نہیں۔ بعض دفعہ مجھے لگتا ہے، میں دھند میں کھڑی ہوں وہ راستہ نظر نہیں آتا جہاں مجھ کو جانا ہے۔”
فاطمہ کو اپنے گالوں پر بہتے ہوئے آنسوؤں کا احساس ہوا۔
”دھند میں راستہ کبھی نظر نہیں آتا لیکن آپ قدم بڑھاتے رہیں تو آپ کی آنکھیں نہ سہی مگر پیر اپنے نیچے زمین ضرور پالیتے ہیں۔”
فاطمہ نے آنکھیں بند کرلیں۔ اسے ایک عجیب سا ڈپریشن ہونے لگا تھا۔
”آپ میرے بارے میں بہت کم جانتی ہیں۔ آپ کو میرے بارے میں اور جاننا چاہیے۔ آپ کو میرے بارے میں سب کچھ پتا ہونا چاہیے۔”
وہ اب ربیعہ کو نہیں دیکھ رہی تھی۔ وہ اب صرف بول رہی تھی۔
٭٭٭
فون کی گھنٹی بجنے لگی اور اس گھنٹی نے شائستہ کمال کی سوچوں کا تسلسل توڑ دیا۔ اس نے فون کا ریسیور اٹھا کر نیچے رکھ دیا کم از کم اس وقت وہ کسی سے بھی بات کرنا نہیں چاہتی تھی۔
ہارون کمال جا چکا تھا۔ کمرے میں اب اندھیرا تھا۔ اس نے بیڈ سائیڈ ٹیبل پر پڑا ہوا لیمپ آن کر دیا۔ اس کے سر میں عجیب سا درد ہونے لگا تھا۔ ہر بار ایسا ہی ہوتا تھا۔ ان تمام واقعات کی یاد اسے اسی کیفیت سے دو چار کر دیتی تھی جس میں وہ اب تھی۔ اسے کمرے میں اب عجیب سی گھٹن ہونے لگی تھی۔
وہ بے چینی کے عالم میں اٹھ کر باہر ٹیرس پر نکل گئی۔ مگر اس کے اضطراب اور بے چینی میں کمی نہیں آئی۔ وہ واپس کمرے میں چلی آئی سائیڈ ٹیبل کی دراز سے اس نے ایک سگریٹ نکالا اور اسے سلگانے لگی۔ بیڈ پر نیم دراز ہو کر وہ سگریٹ کے لمبے لمبے کش لینے لگی۔ اس کی بے چینی میں ابھی بھی کوئی کمی نہیں آئی۔ اسے اپنے بیٹے کا خیال آنے لگا۔ چند لمحوں کے لیے اس کی توجہ بٹی مگر پھر یک دم وہ بھی اس کے ذہن سے غائب ہو گیا۔ چند منٹوں میں اس نے سگریٹ ختم کر دیا۔ ایش ٹرے میں اسے پھینکتے ہوئے اس نے ایک اور سگریٹ سلگالیا۔ آنکھیں بند کیے سگریٹ کے کش لگاتے ہوئے اس نے یاد کرنے کی کوشش کی کہ اس کے بعد کیا ہوا تھا۔ وہ یاد نہیں کر سکی ۔ بعض یادیں کانٹوں کی طرح ہوتی ہیں اور اس وقت وہ بھی کانٹوں کے ایسے ہی جنگل میں کھڑی تھی۔
وہ کورٹ میرج آٹھ ماہ تک چھپی رہی اور وہ آٹھ ماہ اس کی زندگی کے بدترین ماہ تھے۔ پھر اس کے بعد کے چھ ماہ۔ جب وہ… اور پھر وہ مینٹل ڈس آرڈر… اور وہ چہرہ جسے اس نے کبھی نہیں دیکھا اور اس کا تصور… شائستہ کو اچانک احساس ہوا اس کا جسم پسینے سے بھیگا ہوا ہے۔ اس نے سگریٹ کو ایش ٹرے میں اچھال دیا۔
چند گہرے سانس لیتے ہوئے اس نے خود کو نارمل کرنے کی کوشش کی۔ اسے اپنے پورے جسم میں عجیب سے درد کا احساس ہونے لگا سائیڈ ٹیبل پر پڑا ہوا فون اس نے اپنے نزدیک کھینچ لیا اور ایک نمبر ڈائل کرنے لگی۔ نمبر ڈائل کرنے کے بعد اس نے کچھ دیر تک ریسیور اٹھائے جانے کا انتظار کیا۔ پھر وہ کسی سے بات کرنے لگی۔
”میں شائستہ کمال ہوں۔” اس نے فون پر کسی سے اپنا تعارف کروایا۔
”میں آپ سے ابھی ملنا چاہتی ہوں۔”
دوسری طرف سے جواب سننے کے بعد اس نے کہا۔
”میں ذہنی طور پر بہت ڈسٹربڈ ہوں۔ مجھے آپ سے ابھی اپائنٹمنٹ چاہیے۔” وہ اب الجھی ہوئی نظر آنے لگی۔
”میں نے کچھ بھی یاد کرنے کی کوشش نہیں کی۔ مگر مجھے لگتا ہے میں یہ سب کچھ کبھی بھی بھول نہیں پاؤں گی۔” وہ اب اپنی بے بسی کا اظہار کر رہی تھی۔
”تھینک یو ویری مچ۔ میں کچھ دیر میں آپ کے پاس پہنچ جاتی ہوں۔” اس نے فون بند کر دیا۔ اس کے چہرے پر اب کچھ اطمینان جھلکنے لگا تھا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!