بیلینس شیٹ ۔ مکمل ناول

”طویل علالت کے بعد جب میں ہسپتال سے ڈسچارج ہوئی تو مما پاپا نے مجھے اپنے ساتھ چلنے کا کہا، لیکن میں نے ان کے ساتھ جانے سے معذرت کرلی کیونکہ میری تباہی کی ذمہ دار صرف مما نہیں تھی پاپا بھی برابر کے شریک تھے۔ اگر مما بے پروا تھی تو پاپا کو اپنی مردانگی دکھانی چاہیے تھی۔ وہ گھر کے سرپرست تھے، ان کا تعلق دین دار گھرانے سے تھا، انہیں کیوں دکھائی نہیں دیا کہ ان کی بیوی اور بیٹیاں غلط راہ پر گامزن ہیں مجھے ان سے شکوہ ہے۔ انہوں نے کیوں نہیں روکا عمر کے اس حصے میں آکر اور میری حالت دیکھ کر انہیں اس چیز کا احساس ہوا کہ وہ غلطی پر تھے۔ ادھیڑ عمر میں مما کو اپنے سسرال والوں کی اچھائیاں دکھائی دے رہی ہیں جن کے ساتھ انہوں نے ساری عمر دقیانوسی کہہ کر ایک فاصلہ رکھا ۔“ فاطمہ کی اپنے والدین سے شکایت بجا تھی اور وہ ماضی میں ایسی کھوئی ہوئی تھی کہ ایک کے بعد ایک بات اسے یاد آتی جارہی تھی اور وہ پرت در پرت اپنے ماضی کو میرے سامنے کھول کر بیٹھی ہوئی تھی۔
”میری مالک مکان سلمیٰ آپا نے جب یہ دیکھا کہ میں کسی صورت اپنے گھر والوں کے ساتھ جانے پر تیار نہیں ہوں تو انہوں نے مجھے اپنے پاس اپنی بیٹی بناکر رکھ لیا اور میرے والدین میرے رویے سے مایوس ہوکر واپس چلے گئے۔ میں نے اپنے سب رشتے داروں سے کنارہ کشی اختیار کرلی حالانکہ جو بھی کچھ ہوا اس میں میری دونوں چھوٹی بہنوں کا کوئی قصور نہیں تھا، لیکن پتا نہیں کیوں میرا ہر رشتے سے اعتبار ہی اٹھ گیا تھا۔ زندگی کی چاہ ہی ختم ہوگئی تھی ایک زندہ لاش کی طرح میں سلمیٰ آپا کے گھر میں رہ رہی تھی۔“ فاطمہ اب کافی حد تک نارمل ہوگئی تھی۔
سلمیٰ آپا کے دو بچے تھے ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔ بیٹا میٹرک کا طالب علم تھا جب کہ بیٹی ایف ایس سی کر رہی تھی۔ ان کے شوہر جرمنی میں ہوتے تھے۔ ان کے پاس روپے پیسے کی کوئی کمی نہیں تھی۔ پانچ سو گز کا گھر ان لوگوں کے لیے کافی بڑا تھا۔ اسی لیے سلمیٰ آپا نے ایک کمرا اٹیچ باتھ، کچن اور ایک چھوٹے سے برآمدے پر مشتمل ایک پورشن بناکر اسے کرایہ پر دے دیا تھا جہاں فاطمہ نے اپنی زندگی کے بدترین ساڑھے تین سال گزارے تھے۔ صرف شاہ رخ کی محبت اور اچھے دنوں کی چاہ میں۔ سلمیٰ آپا ایک دین دار اور اچھے دل کی مالک خاتون تھی جو فاطمہ کے بنا کہے اس کے ہر مسئلے کو سمجھ جایا کرتی تھی۔ فاطمہ کے فاقے کے ایام میں اپنی جہاندیدہ نظروں سے فاطمہ کے کچھ کہہ بغیر اس کے حالت جان لیتی تھی۔ اس کے گھر کھانا بچوں کے ہاتھ ایسے بھجواتی تھی جس سے اس کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ فاطمہ اگر کرایہ دے دیتی تو ٹھیک ورنہ خود سے کبھی نہیں مانگتی تھی۔ ان ساڑھے تین سالوں میں انہوں نے کبھی کرایہ بڑھانے کی بات نہیں کی سلمیٰ آپا ایک سمجھ دار خاتون تھی۔ فاطمہ کے کچھ نہ کہنے کے باوجود بہت کچھ بغیر کہے ہی جان گئی تھی۔یہ ہی وجہ تھی جب فاطمہ ایک زندہ لاش کی طرح ان کے گھر کے ایک کونے میں پڑی رہتی تھی تو وہ اس کی اس حالت کو دیکھ کر پریشان ہوجاتی تھی۔ وہ جتنا اسے زندگی کی طرف لانے کی کوشش کرتی وہ اتنا ہی زندگی سے بیزار دکھائی دیتی ۔
”فاطمہ! بیٹا ابھی تک جاگ رہی ہیں آپ ؟ لگتا ہے ساری رات یہاں ہی گزاردی آپ نے؟“ سلمیٰ آپا فجر کی نماز پڑھنے کے لیے ٹی وی لاو ¿نج میں آئی تو فاطمہ کو لاو ¿نج کے خارجی دروازے پر بنے صوفے نما جھولے پر بیٹھا دیکھ کر بے ساختہ پوچھ بیٹھی۔ فاطمہ نے کہا کچھ نہیں صرف سر اٹھا کر انہیں دیکھا اس کی سرخ سوجی ہوئی نم آنکھیں انہیں اندر تک گھائل کر گئیں۔ اس کی آنکھوں میں کیا کچھ نہیں تھا اپنے بنجر ہونے کا دکھ، اپنی تذلیل اور بے مائیگی کا دکھ، اپنی بچپن کی محبت کے خاطر اپنا تن من دھن قربان کر کے اپنے آپ کو پیسہ کمانے کی مشین بنانے کے بعد اپنے اوپر بدچلنی کا لگایا ہوا الزام، اپنی زندگی کے حسین ماہ و سال اس مطلبی شخص پر وار دینا کا دکھ جس نے اسے محبت کا لارا دے کر اپنا الو سیدھا کیا۔
”آو ¿ فاطمہ میرے ساتھ فجر کی نماز پڑھو ۔“ سلمیٰ آپا نے لاو ¿نج میں قبلہ رُخ جائے نماز بچھاتے ہوئے کہا۔
”نہیں آپا آپ پڑھ لیں نماز، میرا دل نہیں کرتا نماز پڑھنے کا ۔“ نماز کے لیے فاطمہ کی بے پروائی نے سلمیٰ آپا کو اس کے لیے دعا مانگنے پر مجبور کردیا۔ اس دن سلمیٰ آپا کافی دیر تک مصلے پر بیٹھی فاطمہ کے لیے اللہ سے ہدایت مانگتی رہی جس طرح اپنے بچوں کے اچھے نصیب اور کامیابی کے لیے دعائیں مانگتی تھی۔ ان کے لیے ہدایت مانگتی تھی بالکل ویسے ہی فاطمہ کو بھی انہوں نے اپنی دعاو ¿ں میں شامل کر لیا تھا۔ ان کے دل میں اللہ کی طرف سے فاطمہ کے لیے نرم گوشہ پیدا ہوگیا تھا۔ ان کا دل کہتا تھا کہ فاطمہ کی ذرا سی راہنمائی اسے صحیح راستے پر لے آئے گی کیونکہ اتنے عرصے میں انہیں اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا کہ فاطمہ غلط نہیں تھی بلکہ وہ ماحول غلط تھا جس میں وہ پل کر جوان ہوئی تھی۔ وقت کا بہاو ¿ اپنی رفتار سے آگے بڑھتا جارہا تھا۔ فاطمہ کو سلمیٰ آپا کے گھر رہتے ہوئے دوسال ہوگئے تھے۔ ان ماہ و سال نے فاطمہ پر اپنے بڑے گہرے نقش چھوڑے تھے جو کچھ وہ ساری زندگی نہیں سیکھ سکی تھی۔ وہ ان دو سالوں میں بہت اچھے سے سیکھ گئی۔ یہ سب سلمیٰ آپا کی صحبت اور ان کے گھر کا ماحول تھا جس نے اسے سر سے پاو ¿ں تک اپنے رنگ میں رنگ لیا تھا۔ اس کے پہننے اوڑھنے، چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے اور بات کرنے کے انداز میں واضح فرق آگیا تھا۔ اب وہ بہت ٹھہر ٹھہر کر سلیقے سے بات کرنے لگی تھی۔ سلمیٰ آپا اور بچوں کو نماز پڑھتے دیکھتی تو خود بھی وضو کر کے نماز کے لیے کھڑی ہوجاتی، گو کہ دل اب بھی نماز میں نہیں لگتا تھا عجیب گھبراہٹ اور بے چینی اسے اپنے حصار میں لے لیتی تھی۔
”آپا! مجھے نماز میں سکون کیوں نہیں ملتا؟ میرا دل ہی نہیں لگتا نماز میں۔ اپنے آپ کو گھسیٹ کر جائے نماز تک لاتی ہوں۔ مجھے لگتا ہے اللہ تعالیٰ مجھ سے شدید ناراض ہیں، اسی لیے تو انہیں میرا اپنے سامنے کھڑا ہونا پسند نہیں ہے۔“ ایک دن فاطمہ دل برداشتہ ہو کر سلمیٰ آپا کی گود میں سر رکھ کر رودی۔
”تمہیں جب بھی ڈپریشن ہو، مایوسی ہو یا رونا آئے تم بس ایک کام کیا کرو وضو کر کے مصلے پر کھڑی ہوجایا کرو اور جس طرح میری گود میں سر رکھ کر روتی ہو اسی طرح سجدے میں سر رکھ کر یہ تصور کرو کہ تم نے اللہ کی گود میں سر رکھا ہوا ہے اور اس گود میں سر رکھ کر ہر بات کہہ ڈالو۔ اپنے سارے آنسو بہادو۔ اپنی زندگی کے سارے غم ،شکوے شکایتیں اس سے کہہ ڈالو۔ تم اللہ پاک کو بہت رحیم و کریم پاو ¿گی۔ جب تمہارا دل ہلکا ہوجائے گا، تو تمہارا خودبخود نماز میں دل لگنے لگے گا۔ اللہ کو اپنا رازدار بنالو وہ تمہارے راز کو راز رکھے گا۔ چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی بات اس سے شیئر کرو۔ اپنے لیے ہر وقت ہدایت مانگو۔ اپنی گناہوں کی معافی مانگو ،پھر دیکھو کس طرح سکون پاو ¿ گی ۔تم نماز میں بس یہ یاد رکھنا اللہ بہت محبت کرتا ہے تم سے بس تمہیں اس کی محبت کا شعور نہیں ہے۔ تم خوش قسمت ہو اللہ نے اتنے سارے لوگوں میں تمہارا انتخاب کیا ورنہ تمہاری دونوں چھوٹی بہنیں بھی اسی ماحول میں پلی بڑھی ہیں۔ انہوں نے بھی پسند کی شادیاں کی ہیں پھر وہ اتنی خوشگوار زندگی کیوں گزار رہی ہیں۔ کبھی سوچا ہے تم نے ؟ “

Loading

Read Previous

مالک اور نوکر

Read Next

اسرار

2 Comments

  • Simply wish to say your article is as astonishing.
    The clearness in your post is simply cool and i can assume
    you are an expert on this subject. Well with your
    permission allow me to grab your feed to keep up to date with forthcoming post.

    Thanks a million and please carry on the rewarding work.

  • My brother suggested I might like this blog. He was entirely right.
    This post actually made my day. You can not imagine simply how much time
    I had spent for this information! Thanks!

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!