بیلینس شیٹ ۔ مکمل ناول

”مجھے تو میرے گھر والے لڑکا سمجھتے ہیں۔ پہلے چھوٹی بہن کا مسیج آیا۔ آپی! مجھے معلوم ہے کہ اس وقت آپ کی کلاس ہورہی ہے۔ کلاس آف ہونے کے بعد نیچے مناما سے میرے لیے سینڈوچ لیتی آئیے گا۔ آج مما نے کھانے میں آلو بیگن بنائے ہیں اور پاپا اوپر آچکے ہیں۔ واپس نیچے نہیں جائیں گے۔ میں نے دوران کلاس اوکے کا مسیج کرکے غلطی کردی۔ مما سمجھی کے کلاس نہیں ہورہی شاید انہوں نے بار بار کال کرنا شروع کردی۔“
جیسے ہی کلاس آف ہوئی تو کسی کے کچھ پوچھنے سے پہلے ہی فاطمہ نے جھنجھلا کر کہا۔



”خیریت آنٹی کیوں بار بار کال کر رہی تھیں؟“ اس کو جھنجھلاہٹ سے باہر نکالنے کے لیے میں نے ایسے ہی اس سے پوچھ لیا۔
”پہلے تو مما کو یہ تشویش ہوئی کہ میں کلاس چھوڑ کر کہیں شاہ رخ کے(شاہ رخ فاطمہ کا خالہ زاد اور اس کا منگیتر تھا اکثر اسے لینے کوچنگ آتا تھا۔ اس نے پوری کلاس اور ٹیچرز سے اسے متعارف کرایا ہوا تھا) ساتھ ڈیٹ پر تو نہیں چلی گئی۔ اس کے بعد انہیں خیال آیا کہ آلو بیگن تو گھر میں کوئی بھی نہیں کھاتا سوائے مما کے اس لیے انہوں نے کہا کہ کلاس ختم ہونے کے بعد نیچے (وہ لوگ کیونکہ فلیٹ میں چوتھی منزل پر رہتے تھے اس لیے اپارٹمنٹ کے نیچے بنے ہوئے بازار کو نیچے کہتے تھے) دہلی سے نہاری روٹی لیتی آنا بہت آسان ہے نا جیسے اتنی لمبی لائن ہوتی ہے وہاں۔“ فاطمہ نے رونی صورت بنا کر جواب دیا۔ فاطمہ کی باتوں سے اندازہ ہوتا تھا کہ صرف فاطمہ ہی نہیں اس کی پوری فیملی دوست ہیں اپنے بھائی بھلکڑ جیسی۔
”مما واش روم جانا ہے۔“ میری سب سے چھوٹی بیٹی مناہل مجھے ماضی سے کھینچ کر حال میں لے آئی۔ مناہل کو دوبارہ سلاتے سلاتے میں خود بھی نیند کی وادیوں میں کھوگئی۔
اگلے دن دوپہر ایک بجے اس کی کال آئی۔ حفظ ماتقدم میں نے سیل فون لاو ¿نج میں ٹی وی ٹرالی کے اوپر ہی رکھ دیا تھا۔ میں نے جلدی سے کال ریسیو کی۔
”السلام علیکم! کیسی ہو فاطمہ؟ میں نے کل تمہیں کال کی تھی شاید تم بزی تھیں۔“ میں نے کال ریسیوکر کے فاطمہ سے بات کی اور کچن میں دم پر رکھے چاولوں کا چولہا بند کر کے اپنے بیڈ روم میں آکر بیڈ پر ریلیکس ہو کر بیٹھ گئی۔
”وعلیکم السلام! میں بالکل ٹھیک اور تم سناو ¿ بزی تو نہیں ہو۔“ فاطمہ نے انتہائی شائستہ لہجے میں مجھ سے کہا۔ اس کا بدلاو ¿ مجھے الجھن میں ڈال رہا تھا۔ کہاں وہ ٹام بوائے ٹائپ کی لڑکی۔ کہاں یہ۔
”نہیں، نہیں بزی نہیں ہوں۔ ابھی فری ہوئی ہوں۔ اب بچوں کے اسکول سے آنے تک فری ہوں اور تم سناو ¿ کتنے بچے ہیں تمہارے اور کیسی گزر رہی ہے زندگی۔“ میں نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔ درحقیقت میں جاننا چاہ رہی تھی کہ آخر ایسا کیا ہوا ہے جو فاطمہ جیسی ماڈرن لڑکی سر سے پاو ¿ں تک یکسر بدل گئی۔
”اگر تم کل فری ہو تو میرے گھر آجا و ¿ مل کر بیٹھیں گے پرانی یادیں تازہ کریں گے اور کوچنگ فرینڈز میں سے کسی سے کنٹیکٹ میں ہو تم ؟ “فاطمہ نے میری بات کو نظر انداز کر کے مجھے اپنے گھر مدعو کیا۔
”تم اپنا ایڈریس مجھے سینڈ کرو، کل سن ڈے ہے۔ ان شا اللہ میں لگاتی ہوں تمہارے گھر کا چکر۔“ میں نے ہامی بھرتے ہوئے کہا۔
”اتوار کا دن میرے ساس سسر میری اکلوتی نند کے ساتھ گزارتے تھے۔ اس لیے میں اپنے سارے باہر کے کام اتوار کو ہی نمٹاتی تھی۔“ کافی دیر تک ہم کوچنگ سینٹر، وہاں کی فرینڈز اور ٹیچرز کے بارے باتیں کرتے رہے۔ میں نے محسوس کیا جب بھی اس کی فیملی کے بارے میں بات کرتی وہ کمال مہارت سے بات بدل دیتی۔ جب اس نے ایک دو بار ایسا کیا تو میں نے بھی دوبارہ پوچھنا مناسب نہیں سمجھا۔ میں نے سوچا جب آمنے سامنے بیٹھیں گے تو ہر بات کھل کر سامنے آہی جائے گی۔ باتوں کے دوران پتا ہی نہیں چلا وقت کا ڈور بیل کی آواز پر میں نے جلدی سے فاطمہ کو اللہ حافظ کہا۔
”ٹھیک ہے پھر کل ملتے ہیں تم اپنا ایڈریس سینڈ کرو مجھے۔ میرے بچے اسکول سے آگئے ہیں۔ اللہ حافظ!“ تھوڑی ہی دیر میں فاطمہ کا مسیج آگیا جس میں اس نے اپنا ایڈریس اور کل آنے کی تاکید کی تھی۔ اگلے دن علی نے مجھے ظہر کی نماز کے بعد فاطمہ کے گھر ڈراپ کیا اور بچوں کو لے کر سی ویو چلے گئے۔ فاطمہ کے گھر سے تھوڑے ہی فاصلے پر سی ویو تھا۔ فاطمہ کے گھر کی ڈور بیل دینے پر وہاں بیٹھے چوکیدار نے مجھ سے پوچھا۔
”آپ کھنک بی بی ہیں ؟ فاطمہ بی بی کی دوست ؟“ چوکیدار کے استفسار پر میں نے ہاں میں سر ہلایا تو اس نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا اور مجھے اندر جانے کا کہہ کر خود انٹر کام پر اطلاع دینے لگا۔ فاطمہ کا گھر باہر سے جتنا حسین تھا اندر سے اس سے کہیں زیادہ خوبصورت تھا۔ گھر کے داخلی دروازے سے اندر جانے کے لیے سفید پتھروں سے راستہ بنایا ہوا تھا جو اندرونی دروازے کے باہر ایک چبوترے کی سیڑھیوں تک جارہا تھا جبکہ سیڑھیاں اور چبوترہ براو ¿ن پتھر کا بنا ہوا تھا اور دیکھنے میں ایسا گمان ہوتا تھا جیسے درخت کی لکڑی کاٹ کر بنایا گیا ہے، جبکہ دونوں اطراف میں خوبصورت لان تھے۔ میں کیونکہ خود پودوں کی بہت شیدائی تھی، اس لیے لان میں لگے طرح طرح کے پھولوں کی خوشبو مجھے اپنی جانب کھینچ رہی تھی۔ کچھ آسمان پر چھائے ہوئے بادلوں نے ماحول کو مزید خوبصورت بنا دیا تھا۔
”السلام علیکم !“ فاطمہ نے میرے نزدیک آکر مجھے سلام کیا اور گلے لگالیا۔
”اکیلی آئی ہو کھنک بچوں کو نہیں لائی۔“ مجھے اکیلا دیکھ کر اس نے پوچھا اور اندرونی دروازہ کھول کر مجھے لے کر اندر داخل ہوگئی۔ اندر انتہائی قیمتی اور خوبصورت ساز و سامان سے آراستہ لاو ¿نج اس گھر کے مکینوں کے ذوق اور اعلیٰ معیار کی ترجمانی کر رہاتھا۔ یہ سب چیزیں میری حیرانی میں مزید اضافہ کر رہی تھیں جس لڑکی کا بیلنس شیٹ پر کبھی بیلنس نہیں آیا جس کی زندگی ہمیشہ عدم توازن کا شکار رہی آج اس کی زندگی اتنی بیلنس کیسے ہوگئی تھی۔ اس کے بات کرنے میں اتنا سلیقہ، اس کے پہناوے میں، اس کے چلنے پھرنے ،اٹھنے بیٹھنے میں اتنا توازن۔ ان سب چیزوں نے مجھے بہت زیادہ متجسس کردیا تھا۔
”کھنک کھنک، کھنک۔“ فاطمہ کے پکارنے پر میں اپنی سوچوں سے باہر آئی اور اس کی طرف متوجہ ہوگئی۔

Loading

Read Previous

مالک اور نوکر

Read Next

اسرار

2 Comments

  • Simply wish to say your article is as astonishing.
    The clearness in your post is simply cool and i can assume
    you are an expert on this subject. Well with your
    permission allow me to grab your feed to keep up to date with forthcoming post.

    Thanks a million and please carry on the rewarding work.

  • My brother suggested I might like this blog. He was entirely right.
    This post actually made my day. You can not imagine simply how much time
    I had spent for this information! Thanks!

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!