بیلینس شیٹ ۔ مکمل ناول

اگلی صبح بچوں کے اسکول اور علی کے آفس جانے کے بعد میں حسب عادت اپنے بیڈروم میں آگئی۔ صبح نو سے دس بجے کی ٹائمنگ میں تھوڑی دیر سستاتی تھی۔ اس کے بعد سارا دن گھر، بچے، علی، ساس سسر اور دیگر کاموں میں اس قدر مصروف ہوتی کہ اپنا ہوش نہیں رہتا تھا۔ لیٹے لیٹے اچانک کچھ یاد آنے پر میں نے جلدی سے اپنے پرس میں سے وہ پیپر نکالا جس پر فاطمہ نے مجھے اپنا نمبر لکھ کر دیا تھا۔ میں نے جلدی سے اس کا نمبر ڈائل کیا، لیکن دوسری جانب بیل جانے کے باوجود کال ریسیو نہیں کی گئی۔ میں نے کئی بار کال ملائی مگر کال ریسیو نہیں کی گئی۔ تھک ہار کر میں نے مسیج میں اپنا تعارف لکھ کر سینڈ کردیا، مجھے لگا شاید انجان نمبر دیکھ کر کال ریسیو نہیں کی اس نے۔ سیل فون سائیڈ پر رکھ کر میں ماضی میں کھو سی گئی۔
سر شاہ خالد کے کوچنگ سینٹر میں اس وقت سر طلحہ گیلانی نے بی۔ کام پارٹ ون کی کلاس کو اکاو ¿نٹ میں بیلنس شیٹ کا ایک حسابی سوال وائٹ بورڈ پر حل کر کے اسٹوڈنٹس کو ایک سوال کلاس میں حل کرنے کے لیے دیا اور ایک ہوم ورک کے لیے جن اسٹوڈنٹس نے آئی کام کیا ہوا تھا انہوں نے تو آسانی سے بیلنس شیٹ کو بیلنس کردیا تھا، مگر انٹر سائنس کے اسٹوڈنٹس کے لیے بیلنس شیٹ کا بیلنس لانا مسئلہ کشمیر ہوگیا تھا جو حل نہیںہورہا تھا۔ میں اور میری کالج فرینڈ زرتاشہ کیونکہ آئی کام والے تھے۔ سو ریلکس بیٹھے سائنس والوں کو پریشان پریشان دیکھ رہے تھے۔
”او مائی گاڈ! بیلنس شیٹ کے بیلنس کو مجھ سے اللہ جانے کیا دشمنی ہے۔ مجال ہے جو کبھی میری بیلنس شیٹ بیلنس ہوجائے۔“ پیچھے سے آتی آواز پر سر طلحہ گیلانی سمیت پوری کلاس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک خوبصورت سی لڑکی جو انتہائی ماڈرن ڈریسنگ میں تھی، سر پکڑے اونچی آواز میں خود کلامی کر رہی تھی۔
”آپ کا نام کیا ہے؟“ سر نے اس لڑکی کو مخاطب کیا جو آس پاس کے ماحول سے بے نیاز بیلنس شیٹ کے بیلنس کو لانے کی سر توڑ کوششوں میں مصروف تھی۔ سر کے پکارنے پر بھی جب اس نے کوئی رسپانس نہیں دیا تو مجبوراً سر کو اس کی سیٹ تک جانا پڑا۔



”آپ کا نام کیا ہے پلیز؟“ سر نے قدرے سخت لہجے میں اسے مخاطب کیا۔ سر کی آواز اور ان کو اپنی سیٹ کے پاس دیکھ کر وہ ایک دم بوکھلا کر کھڑی ہوگئی جس کی وجہ سے اس کی گود میں رکھا کیلکولیٹر اچھل کر نیچے گر پڑا۔
”میرا نام شبی فاطمہ ہے۔“ اس نے اپنا نام بتایا اور اپنی نوٹ بک سر طلحہ گیلانی کے سامنے رکھتے ہوئے روہانسے لہجے میں بیلنس شیٹ کے بیلنس نہ آنے کی شکایت کچھ اس طرح سے کرنے لگی، جیسے کوئی چھوٹا بچہ اپنی ماں سے دوسرے بچے کے تنگ کرنے پر اس کی شکایت کررہا ہو۔ اتنے میں کلاس آف ہونے کی بیل ہوئی۔
”آپ فکر مت کریں، بہت جلدی آپ کو بیلنس شیٹ پر مہارت حاصل ہوجائے گی۔“ سر طلحہ گیلانی نے فاطمہ کو پروفیشنل انداز میں تسلی دی(یہ الگ بات ہے کہ بی کام کے دو سالوں میں مجال ہے جو کبھی اس کی بیلنس شیٹ بیلنس ہوئی ہو) پھر وہاں موجود آئی کام والے اسٹوڈنٹ کو شبی فاطمہ کی مدد کرنے کے لیے کہا اور کلاس سے اسٹاف روم کی طرف روانہ ہوگئے۔ مجھے فاطمہ پہلی ہی نظر میں اچھی لگی اس کی معصومیت اور بے ساختگی مجھے بہت بھائی، جبکہ کلاس کے لڑکوں کو اس کی خوبصورتی اور بولڈ ڈریسنگ اور بولڈ اسپیکنگ نے اس کی طرف متوجہ کیا اور اس کی بولڈ اسپیکنگ نے تو ایک بار مجھے پوری کلاس میں شرم سے پانی پانی کردیا تھا۔
”کھنک! تمہاری فش(fish )پریگننٹ ہے ؟“ فاطمہ نے اچانک پوری کلاس کے سامنے میرے ہینڈ بیگ میں لٹکے ہوئے کی چین ( key chain) کو ہاتھ میں لے کر شرارت سے کہا تو میں نے اپنا سر پکڑ لیا۔ اُف! یہ فاطمہ بھی نا کیونکہ اس کی چین ( key chain)کو میں نے ایک فش ایکوریم سمجھ کر خریدا تھا جو ایک ڈولفن کی شکل کا بنا ہوا تھا اور اس کے اندر ایک چھوٹی سی فش تیر رہی تھی لیکن فاطمہ کی بات سن کر میں پوری کلاس کے سامنے شرم سے سرخ پڑگئی تھی۔
”کھنک بیٹا !کیا ہوا طبیعت تو ٹھیک ہے تمہاری۔“ ا می کے پکارنے پر میں چونک کر ماضی سے حال میں آئی۔
”اوہ سوری امی! گیارہ بج گئے۔ میری وجہ سے آپ لوگوں کا ناشتا لیٹ ہوگیا ۔“ امی کے پکارنے پر میں نے وال کلاک کو دیکھا جو گیارہ بجارہی تھی جبکہ امی ، ابو گیارہ بجے سے پہلے ناشتا کرلیتے تھے۔ اپنی غیر ذمہ داری پر میں بہت شرمندہ ہوئی اور کچن کی طرف دوڑ لگادی۔ امی، ابو کو ناشتا دے کر میں جلدی جلدی گھر کے کام نمٹانے لگی۔ سارا دن اتنا مصروف رہی کہ موبائل کی طرف دھیان ہی نہیں گیا۔ رات کو سونے سے پہلے الارم سیٹ کرنے کے لیے موبائل اٹھایا، تو اس میں دس سے بارہ مسڈ کالز شبی فاطمہ کی آئی ہوئی تھیں۔ اس کی مسڈ کالز نے مجھے دوبارہ اسے سوچنے پر مجبور کردیا۔ ویسے تو بیڈ پر آنے کے بعد سیکنڈوں میں نیند مجھ پر غالب ہوجاتی تھی اور اب یہ حال تھا کہ دماغ بار بار مجھے ماضی میں دھکیل رہا تھا۔
”یہ کس کا موبائل بار بار رنگ کر رہا ہے ہزار بار آپ لوگوں کو سمجھایا ہے کلاس شروع ہونے سے پہلے موبائل فون آف کردیا کریں۔“ سر طلحہ گیلانی نے جھنجھلا کر پوری کلاس کو گھورتے ہوئے کہا۔ اس سے پہلے کے کوئی مخبری کرتا کہ کس کا موبائل بار بار بج رہا ہے۔ فاطمہ نے بوکھلاہٹ میں موبائل آف کرنے کے بجائے کال ریسیو کرلی۔ اس کی اس حرکت پر پوری کلاس زعفران زار بن گئی۔ سر طلحہ نے بمشکل اپنی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے اسے کال پر بات کرنے کا اشارہ کیا اور خود پلٹ کر وائٹ بورڈ کے پاس آگئے۔
”کیا بات ہے کیوں بار بار کال کر رہی ہیں۔ میں نے ٹیکسٹ کیا تو تھا آپ کو” اوکے“ کا۔ کلاس کے تقریباً تمام اسٹوڈنٹس کی مسکراتی نظروں سے خائف ہو کر اس نے جلدی سے فون آف کرکے اپنے بیگ میں

ڈالا۔

Loading

Read Previous

مالک اور نوکر

Read Next

اسرار

2 Comments

  • Simply wish to say your article is as astonishing.
    The clearness in your post is simply cool and i can assume
    you are an expert on this subject. Well with your
    permission allow me to grab your feed to keep up to date with forthcoming post.

    Thanks a million and please carry on the rewarding work.

  • My brother suggested I might like this blog. He was entirely right.
    This post actually made my day. You can not imagine simply how much time
    I had spent for this information! Thanks!

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!