سلمیٰ آپا کی چھوٹی بھابھی کو لاسٹ اسٹیج پر کینسر ڈائےگنوسٹ(daignost )ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ اپنی زندگی کی بازی ہارگئی۔ فاخر اپنی محبوب بیوی کے چلے جانے پر بکھر سے گئے تھے۔ سلمیٰ آپا کے کہنے اور زینب کی محبت میں فاطمہ فاخر کی زندگی میں شامل ہوگئی۔ فاطمہ نے بہت طریقے سے ناصرف زینب اورگھر کو سنبھالا بلکہ بکھرے ہوئے فاخر کو بھی سہارا دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ فاخر اور فاطمہ کے بیچ کی دوریاں ختم ہوگئیں۔ فاخر کی دی ہوئی عزت اور اس کا بے تحاشا خیال رکھنا فاطمہ کے دل کے نہاں خانوں میں فاخر کی محبت کا باعث بن گیا جبکہ فاخر کو فاطمہ کا زینب سے بے تحاشا پیار اور اس کے گھر کو جنت بنانا، اس کی صبر شکر کی عادت فاطمہ کو فاخر کے قریب لے آئی۔ یوں فاطمہ اور فاخر ایک خوشگوار ازدواجی زندگی گزار رہے تھے۔ ان دونوں میاں بیوی کی خوشیوں کا مرکز زینب تھی۔
فاطمہ جو ہر وقت اپنی زندگی کے عدم توازن پر قسمت سے نالاں رہتی تھی۔ آج اس کی زندگی کی بیلنس شیٹ کو قدرت نے کچھ ایسے بیلنس کیا تھا کہ لوگ اس کی زندگی پر رشک کرتے تھے۔ خود کھنک کو اس وقت فاطمہ پر رشک آرہا تھا۔ کیسے اندھیری رات کے بعد فاطمہ کی زندگی میں سویرا آیا تھا کہ اس کی دنیا اور آخرت دونوں بیلنس ہوگئی تھیں۔ بے شک ہدایت انہیں کو ملتی ہے جو اپنے لیے ہدایت مانگتے ہیں اور فاطمہ کے لیے تو ایک طرف سلمیٰ آپا نے نمازوں میں ہدایت مانگی تھی تو دوسری طرف مسجدالحرام اور مسجد نبوی میں زاروقطار روتے ہوئے فوزیہ اور ماجد نے اپنی پلوٹھی کی اولاد کے لیے ہدایت اور اس کی زندگی کی خوشیاں مانگی تھیں تو پھر کیسے ہدایت کے در فاطمہ پر نہیں کھلتے ۔
دھنک نے واضح محسوس کیا اپنے ماضی کو ورق ورق کھنک کے سامنے کھولنے پر فاطمہ کے چہرے پر کئی رنگ آجا رہے تھے لیکن فاخر اور زینب کے ذکر پر اس کے چہرے پر قوس قزح پھیل گئی تھی۔ کھنک نے ایک نظر آسمان پر پھیلی قوس قزح کو دیکھا اور دوسری نظر فاطمہ کے چہرے پر کھنک کے لیے یہ اندازہ لگانا مشکل ہوگیا کے قوس قزح سے سجا آسمان زیادہ حسین لگ رہا ہے یا فاطمہ کے چہرے پر بکھرے رنگ….
٭….٭….٭
فاطمہ جو ہر وقت اپنی زندگی کے عدم توازن پر قسمت سے نالاں رہتی تھی۔ آج اس کی زندگی کی بیلنس شیٹ کو قدرت نے کچھ ایسے بیلنس کیا تھا کہ لوگ اس کی زندگی پر رشک کرتے تھے۔ خود کھنک کو اس وقت فاطمہ پر رشک آرہا تھا۔ کیسے اندھیری رات کے بعد فاطمہ کی زندگی میں سویرا آیا تھا کہ اس کی دنیا اور آخرت دونوں بیلنس ہوگئی تھیں۔ بے شک ہدایت انہیں کو ملتی ہے جو اپنے لیے ہدایت مانگتے ہیں اور فاطمہ کے لیے تو ایک طرف سلمیٰ آپا نے نمازوں میں ہدایت مانگی تھی تو دوسری طرف مسجدالحرام اور مسجد نبوی میں زاروقطار روتے ہوئے فوزیہ اور ماجد نے اپنی پلوٹھی کی اولاد کے لیے ہدایت اور اس کی زندگی کی خوشیاں مانگی تھیں تو پھر کیسے ہدایت کے در فاطمہ پر نہیں کھلتے ۔
دھنک نے واضح محسوس کیا اپنے ماضی کو ورق ورق کھنک کے سامنے کھولنے پر فاطمہ کے چہرے پر کئی رنگ آجا رہے تھے لیکن فاخر اور زینب کے ذکر پر اس کے چہرے پر قوس قزح پھیل گئی تھی۔ کھنک نے ایک نظر آسمان پر پھیلی قوس قزح کو دیکھا اور دوسری نظر فاطمہ کے چہرے پر کھنک کے لیے یہ اندازہ لگانا مشکل ہوگیا کے قوس قزح سے سجا آسمان زیادہ حسین لگ رہا ہے یا فاطمہ کے چہرے پر بکھرے رنگ….
٭….٭….٭
2 Comments
Simply wish to say your article is as astonishing.
The clearness in your post is simply cool and i can assume
you are an expert on this subject. Well with your
permission allow me to grab your feed to keep up to date with forthcoming post.
Thanks a million and please carry on the rewarding work.
My brother suggested I might like this blog. He was entirely right.
This post actually made my day. You can not imagine simply how much time
I had spent for this information! Thanks!