”ہاں کیونکہ ان کا نصیب اچھا ہے، اس لیے وہ اپنی زندگیوں میں خوش و خرم ہیں۔“ فاطمہ نے اداسی سے سلمیٰ آپا کو ان کی بات کا جواب دیا۔
”نہیں خوش نصیب وہ نہیں تم ہو جسے رب تعالیٰ نے ہدایت کے لیے چنا ہے اور ہدایت نصیب والوں کو ملتی ہے۔ تمہیں دنیاوی محبت میں مبتلا کرکے اس محبت کی وجہ سے ملنے والی تکلیف اور اذیت کی آگ میں جلا کر تمہیں اس سانچے میں ڈھالا جس سانچے میں وہ تمہیں دیکھنا پسند کرتا ہے۔ مجازی محبت سے حاصل ہونے والا دکھ آپ کو ہمیشہ حقیقی محبت سے آشنا کرتا ہے اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے یہ ہمارا ایمان ہے کہ دنیا میں ملنے والے دکھ آخرت میں ہماری راحت کا سبب بنیں گے کیونکہ یہ دکھ اور ان دکھوں پر بہائے گئے آنسو ہمیں گناہوں سے ایسا پاک کردیتے ہیں جیسے پیدا ہونے والا بچہ ہر گناہ سے پاک ہوتا ہے ۔ تم سونا تھی رب العزت نے تمہیں دکھوں کی بھٹی میں پگھلا کر کندن بنا دیا ۔ اس کی اس کرم نوازی پر تم اس کی شکر گزار بن جاو ¿ اس کی رضا کے لیے تم کثرت سے توبہ کرو اور استغفار پڑھتی رہا کرو سب کچھ اللہ پر چھوڑ دو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اس نے کچھ تو سوچا ہوگا تمہارے لیے۔ وہ تمہیں ضائع نہیں ہونے دے گا اللہ نے کوئی شے بیکار نہیں بنائی، وقت آنے پر تمہیں بھی تمہاری زندگی کا مقصد پتا چل جائے گا ۔“ سلمیٰ آپا کی باتوں سے فاطمہ کو کافی ڈھارس ملتی تھی۔ اب وہ ڈپریشن میں اُداس گانے نہیں سنتی تھی جائے نماز بچھا کر سجدے میں گر جاتی تھی اب اس کا دل نماز میں لگنے لگا تھا۔
تیری بارگاہ میں اے خدا
جونہی سر کو میں نے جھکادیا
اسی وقت تیری خدائی نے
مجھے پستیوں سے اٹھادیا
میں کمزور تھا، میں حقیر تھا
تیرے در کا ایک فقیر تھا
تو نے ایک سجدے کے بدلے میں
مجھے کیا سے کیا بنادیا
رگ جاں سے تو قریب ہے
تو ہی لکھتا سب کے نصیب ہے
جسے چاہا پل میں گرادیا
جسے چاہا پل میں اٹھادیا
جب بھی اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتی تو ساتھ میں اپنے لیے وہ حوصلہ اور ظرف بھی مانگتی جس کی بدولت وہ شاہ رخ اور اپنے والدین کو معاف کر سکے۔ انہیں دنوں فاطمہ کے والدین اس سے ملنے پاکستان آئے تو فاطمہ کو سلمیٰ آپا کے رنگ میں رنگا دیکھ کر خوشی کے ساتھ ساتھ سکون کا سانس لیا۔
”فاطمہ کب تک یہاں رہوگی سلمیٰ کے شوہر اپنا بزنس پاکستان ٹرانسفر کر رہے ہیں۔ اگلے دو تین ماہ میں وہ ہمیشہ کے لیے پاکستان آجائیں گے۔ مناسب نہیں لگتا تمہارا اس طرح ان لوگوں کے ساتھ رہنا۔ تمہاری پھپھو نے تمہارا ہاتھ مانگا ہے۔ اپنے چھوٹے بیٹے راحیل کے لیے تمہارا دین کی طرف رحجان تمہیں ان کی فیملی میں ایڈجسٹ ہونے میں مدد دے گا۔ انہوں نے پہلے بھی تمہارے لیے راحیل کا رشتہ مانگا تھا، لیکن اس وقت تمہارا رحجان شاہ رخ کی طرف دیکھ کر وہ خود ہی پیچھے ہٹ گئی تھی۔“ فاطمہ کی والدہ فوزیہ بیگم نے فاطمہ کے بالوں میں پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ فوزیہ اور ماجد کے لیے فاطمہ کا بدلہ ہوا رویہ اور اپنی ناراضی چھوڑ کر ماں باپ سے محبت سے ملنا اپنے پچھلے رویے پر ان سے معافی مانگنا ان کی ہمت بڑھا گیا تھا کہ وہ اپنے آنے کا مقصد اس بتاسکے۔
”مما! آپ جانتی ہیں نا میں اجڑی ہوئی بنجر زمین ہوں جس پر کبھی ہریالی نہیں آئے گی۔ میں اپنے بنجر وجود سے راحیل کی زندگی بنجر نہیں کرسکتی۔“ فاطمہ کے لہجے کا خالی پن فوزیہ بیگم کو اندر تک تڑپاگیا۔ وہ بے ساختہ فاطمہ کو گلے لگا کر پھوٹ پھوٹ کر رودیں۔ فاطمہ نے فی الحال ان کے ساتھ جانے سے معذرت کر لی تھی، لیکن فوزیہ بیگم اس سے یہ وعدہ لے کر گئی تھیں کہ جب وہ اگلی بار آئے گی تو فاطمہ ان کے ساتھ چلے گی۔ انہی دنوں سلمیٰ آپا کی چھوٹی بھابھی کی طبیعت دوبارہ اتنی شدید خراب ہو گئی کہ سلمیٰ آپا کو مجبوراً ان کے ساتھ ہسپتال رہنا پڑا۔ ان کی ایک سالہ بھتیجی اور سلمیٰ آپا کے دونوں بچوں کا فاطمہ بہت اچھے سے خیال رکھ رہی تھی۔ یہ ہی تو وقت تھا سلمیٰ آپا کے احسانات کا قرض اتارنے کا۔ طاہر اور زوبیہ تو بڑے تھے اپنا خیال خود رکھ لیتے تھے لیکن ننھی زینب ابھی بہت چھوٹی تھی۔ باپ جاب پر اور ماں ہسپتال میں ایسے میں فاطمہ ہی تھی جو جی جان سے اسے سنبھال رہی تھی۔ روتی ہوئی زینب کو چپ کرانے کے لیے جب وہ اسے اپنے سینے سے لگاتی تو جہاں زینب پرسکون ہوکر اس کے کندھے پر سر رکھ کر خاموش ہوجاتی وہیں فاطمہ کی بے قرار ممتا کو قرار آجاتا۔ زینب بھی کچھ ہی دنوں میں فاطمہ سے مانوس ہوگئی تھی۔ زینب کو اپنے دونوں بازوو ¿ں میں بھر کر اسے بے تحاشا چومنے پر زینب کا کھلکھلا کر ہنسنا قدرت کو اتنا بھایا کہ زینب کو ہمیشہ کے لیے فاطمہ کی ممتا کی تسکین بنادیا اور وہ جو فاطمہ اپنی زندگی سے بیزار تھی جس میں جینے کی چاہ ہی ختم ہوگئی تھی جسے اپنا وجود ایک بے کار شے لگتا تھا اس کے وجود کو زینب کے لیے کارآمد
بنادیا۔
”نہیں خوش نصیب وہ نہیں تم ہو جسے رب تعالیٰ نے ہدایت کے لیے چنا ہے اور ہدایت نصیب والوں کو ملتی ہے۔ تمہیں دنیاوی محبت میں مبتلا کرکے اس محبت کی وجہ سے ملنے والی تکلیف اور اذیت کی آگ میں جلا کر تمہیں اس سانچے میں ڈھالا جس سانچے میں وہ تمہیں دیکھنا پسند کرتا ہے۔ مجازی محبت سے حاصل ہونے والا دکھ آپ کو ہمیشہ حقیقی محبت سے آشنا کرتا ہے اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے یہ ہمارا ایمان ہے کہ دنیا میں ملنے والے دکھ آخرت میں ہماری راحت کا سبب بنیں گے کیونکہ یہ دکھ اور ان دکھوں پر بہائے گئے آنسو ہمیں گناہوں سے ایسا پاک کردیتے ہیں جیسے پیدا ہونے والا بچہ ہر گناہ سے پاک ہوتا ہے ۔ تم سونا تھی رب العزت نے تمہیں دکھوں کی بھٹی میں پگھلا کر کندن بنا دیا ۔ اس کی اس کرم نوازی پر تم اس کی شکر گزار بن جاو ¿ اس کی رضا کے لیے تم کثرت سے توبہ کرو اور استغفار پڑھتی رہا کرو سب کچھ اللہ پر چھوڑ دو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اس نے کچھ تو سوچا ہوگا تمہارے لیے۔ وہ تمہیں ضائع نہیں ہونے دے گا اللہ نے کوئی شے بیکار نہیں بنائی، وقت آنے پر تمہیں بھی تمہاری زندگی کا مقصد پتا چل جائے گا ۔“ سلمیٰ آپا کی باتوں سے فاطمہ کو کافی ڈھارس ملتی تھی۔ اب وہ ڈپریشن میں اُداس گانے نہیں سنتی تھی جائے نماز بچھا کر سجدے میں گر جاتی تھی اب اس کا دل نماز میں لگنے لگا تھا۔
تیری بارگاہ میں اے خدا
جونہی سر کو میں نے جھکادیا
اسی وقت تیری خدائی نے
مجھے پستیوں سے اٹھادیا
میں کمزور تھا، میں حقیر تھا
تیرے در کا ایک فقیر تھا
تو نے ایک سجدے کے بدلے میں
مجھے کیا سے کیا بنادیا
رگ جاں سے تو قریب ہے
تو ہی لکھتا سب کے نصیب ہے
جسے چاہا پل میں گرادیا
جسے چاہا پل میں اٹھادیا
جب بھی اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتی تو ساتھ میں اپنے لیے وہ حوصلہ اور ظرف بھی مانگتی جس کی بدولت وہ شاہ رخ اور اپنے والدین کو معاف کر سکے۔ انہیں دنوں فاطمہ کے والدین اس سے ملنے پاکستان آئے تو فاطمہ کو سلمیٰ آپا کے رنگ میں رنگا دیکھ کر خوشی کے ساتھ ساتھ سکون کا سانس لیا۔
”فاطمہ کب تک یہاں رہوگی سلمیٰ کے شوہر اپنا بزنس پاکستان ٹرانسفر کر رہے ہیں۔ اگلے دو تین ماہ میں وہ ہمیشہ کے لیے پاکستان آجائیں گے۔ مناسب نہیں لگتا تمہارا اس طرح ان لوگوں کے ساتھ رہنا۔ تمہاری پھپھو نے تمہارا ہاتھ مانگا ہے۔ اپنے چھوٹے بیٹے راحیل کے لیے تمہارا دین کی طرف رحجان تمہیں ان کی فیملی میں ایڈجسٹ ہونے میں مدد دے گا۔ انہوں نے پہلے بھی تمہارے لیے راحیل کا رشتہ مانگا تھا، لیکن اس وقت تمہارا رحجان شاہ رخ کی طرف دیکھ کر وہ خود ہی پیچھے ہٹ گئی تھی۔“ فاطمہ کی والدہ فوزیہ بیگم نے فاطمہ کے بالوں میں پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ فوزیہ اور ماجد کے لیے فاطمہ کا بدلہ ہوا رویہ اور اپنی ناراضی چھوڑ کر ماں باپ سے محبت سے ملنا اپنے پچھلے رویے پر ان سے معافی مانگنا ان کی ہمت بڑھا گیا تھا کہ وہ اپنے آنے کا مقصد اس بتاسکے۔
”مما! آپ جانتی ہیں نا میں اجڑی ہوئی بنجر زمین ہوں جس پر کبھی ہریالی نہیں آئے گی۔ میں اپنے بنجر وجود سے راحیل کی زندگی بنجر نہیں کرسکتی۔“ فاطمہ کے لہجے کا خالی پن فوزیہ بیگم کو اندر تک تڑپاگیا۔ وہ بے ساختہ فاطمہ کو گلے لگا کر پھوٹ پھوٹ کر رودیں۔ فاطمہ نے فی الحال ان کے ساتھ جانے سے معذرت کر لی تھی، لیکن فوزیہ بیگم اس سے یہ وعدہ لے کر گئی تھیں کہ جب وہ اگلی بار آئے گی تو فاطمہ ان کے ساتھ چلے گی۔ انہی دنوں سلمیٰ آپا کی چھوٹی بھابھی کی طبیعت دوبارہ اتنی شدید خراب ہو گئی کہ سلمیٰ آپا کو مجبوراً ان کے ساتھ ہسپتال رہنا پڑا۔ ان کی ایک سالہ بھتیجی اور سلمیٰ آپا کے دونوں بچوں کا فاطمہ بہت اچھے سے خیال رکھ رہی تھی۔ یہ ہی تو وقت تھا سلمیٰ آپا کے احسانات کا قرض اتارنے کا۔ طاہر اور زوبیہ تو بڑے تھے اپنا خیال خود رکھ لیتے تھے لیکن ننھی زینب ابھی بہت چھوٹی تھی۔ باپ جاب پر اور ماں ہسپتال میں ایسے میں فاطمہ ہی تھی جو جی جان سے اسے سنبھال رہی تھی۔ روتی ہوئی زینب کو چپ کرانے کے لیے جب وہ اسے اپنے سینے سے لگاتی تو جہاں زینب پرسکون ہوکر اس کے کندھے پر سر رکھ کر خاموش ہوجاتی وہیں فاطمہ کی بے قرار ممتا کو قرار آجاتا۔ زینب بھی کچھ ہی دنوں میں فاطمہ سے مانوس ہوگئی تھی۔ زینب کو اپنے دونوں بازوو ¿ں میں بھر کر اسے بے تحاشا چومنے پر زینب کا کھلکھلا کر ہنسنا قدرت کو اتنا بھایا کہ زینب کو ہمیشہ کے لیے فاطمہ کی ممتا کی تسکین بنادیا اور وہ جو فاطمہ اپنی زندگی سے بیزار تھی جس میں جینے کی چاہ ہی ختم ہوگئی تھی جسے اپنا وجود ایک بے کار شے لگتا تھا اس کے وجود کو زینب کے لیے کارآمد
بنادیا۔
Tags: Alif Kitab novels Read online umera Ahmed write online اردو اشتیاق احمد الف کتاب الف کہانی الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ الف نگر انسپیکٹر جمشید سیریز انہیں ہم یاد کرتے ہیں باجی ارشاد سلسلہ وار ناول شریکِ حیات عمیرہ احمد قرنطینہ ڈائری کہانیاں نیکی سیریز
2 Comments
Simply wish to say your article is as astonishing.
The clearness in your post is simply cool and i can assume
you are an expert on this subject. Well with your
permission allow me to grab your feed to keep up to date with forthcoming post.
Thanks a million and please carry on the rewarding work.
My brother suggested I might like this blog. He was entirely right.
This post actually made my day. You can not imagine simply how much time
I had spent for this information! Thanks!