بیلینس شیٹ ۔ مکمل ناول

بیلنس شیٹ
(novelette)
نشاءوقار
”ایکسکیوزمی آر یو کھنک؟“ امتیاز سپر مارکیٹ میں مہینہ بھر کی گروسری کی شاپنگ کرکے میں بل کی ادائیگی کرنے قطار میں کھڑی اپنی باری کا انتظار کر رہی تھی کہ پیچھے سے آنے والی کچھ اجنبی کچھ شناسا آواز پر میں نے چونک کر دیکھا۔
”یس آئی ایم!“ میں نے سوالیہ نظروں سے اپنے سامنے کھڑی کالے عبایہ اور کالے ہی اسکارف کا نقاب پہنے خاتون سے پوچھا جو ہاتھوں میں کالے دستانے اور پاو ¿ں میں کالے موزے پہنے ہوئے تھیں۔ دیکھنے سے صاف لگ رہا تھا کہ خاتون شرعی پردہ کرتی ہیں۔
”میں شبی فاطمہ! سر شاہ خالد کے کوچنگ سینٹر میں بی۔ کام کی کلاسز میں ہم ساتھ ہوتے تھے شریف آباد والے کیمپس میں۔ یاد آیا کچھ؟“ خاتون نے تفصیل سے اپنا تعارف کرایا اور میں نے حیرانی سے اسے دیکھتے ہوئے اپنی ٹرالی آگے بڑھائی۔
”کیا ہوا؟ پہچانا نہیں؟“ میری حیرانی کو اجنبیت سمجھتے ہوئے وہ ایک دم سے نارمل ہوگئی۔
”ارے نہیں یار پہچان لیا؟ “ میرے اتنا کہنے پر اس نے آگے بڑھ کر مجھے گلے لگالیا۔
”بس تمہاری ظاہری حالت کی وجہ سے تمہیں پہچاننے میں مجھے تھوڑی دقت ہوئی۔“ میں چاہ کر بھی اپنی حیرانی اس سے چھپا نہ پائی جسے اس نے کمال مہارت سے نظر انداز کر دیا ۔اس دوران ہم دونوں اپنے بل ادا کرکے سپر مارکیٹ کے باہر آکر کھڑے ہوگئے۔ اتنے میں علی جو گاڑی میں بچوں کے ساتھ بیٹھے میرا انتظار کر رہے تھے، مجھے دیکھ کر گاڑی میرے نزدیک لے آئے۔
”علی! ان سے ملیں، یہ میری کوچنگ فرینڈ شبی فاطمہ ہیں اور فاطمہ، یہ میرے شوہر علی مرتضیٰ ہیں۔“ میں نے علی اور فاطمہ کا تعارف کرایا۔ رسمی سی علیک سلیک کے بعد فاطمہ گاڑی میں میرے بچوں کی طرف اشتیاق سے دیکھنے لگی۔
”یہ تمہارے بچے ہیں کھنک ؟“



”جی جناب الحمدللہ! چلو بچو خالہ سے شیک ہینڈ کرو۔ ماشاءاللہ سے اللہ نے مجھے چار بچوں سے نوازا ہے۔ بڑے دونوں اپنی دادی کے پاس ہیں۔ چھوٹوں کو لے کر ہم لوگ شاپنگ پر آگئے۔“ میں نے بچوں کا تعارف کراتے ہوئے فاطمہ کو جواب دیا۔ اس دوران علی ٹرالی کا سارا سامان گاڑی میں منتقل کرچکے تھے اور خشمگیں نگاہوں سے مجھے گھور رہے تھے کیونکہ پیچھے سے آنے والی گاڑیاں مسلسل ہارن دے رہی تھیں۔ ایک تو اتوار اوپر سے مہینے کی شروع تاریخیں جس کی وجہ سے سپر مارکیٹ آنے والوں کا ہجوم اپنے عروج پر تھا۔
”یہ میرا موبائل نمبر ہے مجھ سے رابطے میں رہنا۔“ فاطمہ نے مجھے گاڑی میں بیٹھتا دیکھ کر جلدی سے مارکیٹ کے اداشدہ بل پر اپنا موبائل نمبر لکھ کر مجھ سے کہا اور تیزی سے پیچھے ہٹ گئی تاکہ علی گاڑی آگے بڑھالے کیونکہ پیچھے سے آنے والی گاڑیوں کے ہارن مسلسل بج رہے تھے۔ گاڑی تھوڑی سی آگے بڑھی تو میں نے بیک مرر سے دیکھا کے سفید کلر کی نیو ماڈل کرولا میں ایک آدمی اس کی ٹرالی کا سامان رکھ رہا تھا۔ حلیے سے وہ ادھیڑ عمر کا شخص ڈرائیور لگ رہا تھا جب تک وہ میری نظروں سے اوجھل نہیں ہوگئی میں تب تک بیک مرر سے اسے دیکھتی رہی۔ اس دوران وہ گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول کر اس میں بیٹھ چکی تھی۔ اس کی ظاہری اور مالی حالت کے علاوہ اس کا بات کرنے کا انداز اور لب و لہجہ اس فاطمہ سے یکسر مختلف تھا جسے میں جانتی تھی۔
”مما! دیکھیے بھائی جان مجھے ٹیبلیٹ نہیں دے رہے۔ کب سے اکیلے اکیلے گیم کھیل رہے ہیں اب میری ٹرن ہے۔ مجھے دلوائیے بھائی جان سے ٹیبلیٹ۔“ میری سب سے چھوٹی بیٹی مناہل نے روتے ہوئے مجھے اپنی جانب متوجہ کیا تو میں جو ابھی تک فاطمہ کے بارے میں سوچ رہی تھی، اُس کیفیت سے نکل کر سب سے پہلے اس پیپر کو اپنے پرس کی پاکٹ میں سنبھال کر رکھا۔
”یحییٰ! نہیں تنگ کرو چھوٹی بہن کو اب اس کی ٹرن ہے اسے دو ٹیبلیٹ۔“ میں نے دونوں بچوں میں جھگڑا نمٹایا اور علی کی طرف متوجہ ہوگئی جو حسب عادت کراچی کے بے ہنگم ٹریفک اور غیر ذمہ داری سے گاڑی ڈرائیو کرتے لوگوں کی وجہ سے غصّے میں لال پیلے ہورہے تھے۔” کراچی میں اگر آپ کو ڈرائیونگ کرنی ہے تو اپنی گاڑی احتیاط سے چلانے کے ساتھ ساتھ آس پاس چلتی گاڑیوں کو بھی بچانا ہے۔ سارے جہاں میں لوگ ڈرائیونگ کے دوران اپنی جان کی فکر کرتے ہیں اور یہاں اپنے علاوہ آس پاس کے لوگوں کی جان کی فکربھی آپ کو ہی کرنا پڑتی ہے ۔“ علی حسب عادت جب تک گھر نہیں
آگئے مستقل بڑبڑاتے رہے۔ باپ کو غصّے میں دیکھ کر بچے دبک کر بیٹھے رہے اور میرے دماغ سے بھی فاطمہ وقتی طور پر محو ہوگئی۔

Loading

Read Previous

مالک اور نوکر

Read Next

اسرار

2 Comments

  • Simply wish to say your article is as astonishing.
    The clearness in your post is simply cool and i can assume
    you are an expert on this subject. Well with your
    permission allow me to grab your feed to keep up to date with forthcoming post.

    Thanks a million and please carry on the rewarding work.

  • My brother suggested I might like this blog. He was entirely right.
    This post actually made my day. You can not imagine simply how much time
    I had spent for this information! Thanks!

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!