بنتِ حوّا — عزہ خالد

پولیس نے مار مار کر اظہر کا حلیہ بگاڑ دیا۔ اظہر نے اپنا جرم قبول کرلیا سزا کا خوف اسے کھائے جارہا تھا۔
’’ابا… مظہر بھائی… مجھے یہاں سے نکالیں…‘‘ اظہر سلاخوں کے پیچھے کھڑا گِڑ گڑا رہا تھا۔
اظہر کی حالت دیکھ کر ان دونوں کو دکھ ہوا۔
’’فکر نئیں کر… ہم کچھ کرتے ہیں۔ مقصود احمد کے بڑے بھائیوں کے پاس جائیں گے ابھی… وہ جو کہیں گے ہم کریں گے… بس مقصود احمد کا خون معاف کردیں تجھے…‘‘ مظہر نے اسے تسلّی دی تھی۔
’’ابا… ان کے پاؤں پڑ جانا… وہ مجھے معاف کردیں… مجھے نکالیں یہاں سے… میرا دم گھٹتا ہے یہاں… پولیس والوں نے مجھے بہت مارا ہے۔‘‘ اظہر روتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
ان دونوں کو اس پر بہت ترس آرہا تھا۔
وہ دونوں وہاں سے مقصود احمد کے بھائی کے پاس گئے تھے۔
مقصود احمد کی بیوی اسے نشے اور جوئے کی لت کی وجہ سے کئی سال پہلے چھوڑ چکی تھی۔
مقصود احمد اپنی بری عادات کی وجہ سے بھائیوں کے لیے ہمیشہ مشکلات ہی بڑھاتا تھا عرصہ ہوا وہ اس سے قطع تعلق کرچکے تھے مگر…
مرنے کے بعد تو مقصود احمد ان کے لیے وہ ہاتھ تھا جو مرنے کے بعد سوا لاکھ کا ہوگیا تھا۔
پہلے تو مقصود احمد کے دونوں بھائی انہیں برُا بھلا کہتے رہے اور ان کی ایک نہ سنی۔ مگر وہاں بیٹھے رشتے داروں کے کہنے پر مظہر اور ابا کی بات سننے کو تیار ہوئے۔
گھنٹہ بھر ان کی منتوں سماجتوں کے بعد وہ اس شرط پر مانے کہ وہ پچیس لاکھ خون بہا لے کر اظہر کو معاف کردیں گے۔
’’پ… پ… چیس… لاکھ…‘‘ ابا اور مظہر حیرت سے منہ کھولے کھڑے تھے۔
’’اتنی رقم… کا بندوبست ہم کیسے کریں گے…‘‘





’’یہ ہمارا سردرد نہیں ہے… آپ کے بیٹے نے ہمارے بھائی کو قتل کیا ہے… اصولاً تو خون کا بدلہ خون ہے… ہمارا صبر دیکھیں… آپ کی عمر کا لحاظ کیا ہے ہم نے…
ورنہ ہمارے بھائی کی جان…‘‘
ان دونوں کا سرجھک گیا تھا۔ وہ مزید کچھ بولے بغیر گھر واپس آگئے تھے۔
سارا راستہ دونوں چُپ رہے تھے۔
ابا یہ حساب کتاب کرتے رہے تھے کہ کیا بیچیں تو رقم پوری ہوگی… اور مظہر یہ سوچتا رہا تھا کہ کہیں اس کا حق نہ مارا جائے…
’’کچھ بھی کریں… گھر بیچیں یا دکان… مگر میرے بچے کو بچالیں…‘‘ اماں اظہر کی حالت سنتے ہی پریشان ہوگئی تھیں۔
’’پچیس لاکھ کہاں سے آئیں گے… اتنی بڑی رقم…‘‘
سویرا بھی سوچ میں پڑ گئی تھی۔
’’گھر بیچ دیا تو رہیں گے کہاں…؟ اور دکان بیچ دی تو کھائیں گے کیا… کمائیں گے کیا…؟‘‘ مظہر ان دونوں میں ہی کچھ بھی بیچنے کو تیار نہ تھا۔
’’پھر… پھر کیا کریں… مرنے دیں اسے…؟
کیسے اپنے بیٹے کو موت کے منہ میں جانے دیں…‘‘
’’بیٹے کو سمجھایا ہوتا ناکبھی… اگر اسے روکتی تو آج یہ نوبت ہی نہ آتی… اس وقت تو بڑے مزے سے اس کی کمائی کھارہی تھیں… ایک مرتبہ بھی نہ پوچھا نہ بیٹا یہ لائے کہاں سے ہو…‘‘ شکیلہ طعنے دینے کے لیے میدان میں کود چکی تھی۔
’’مجھے کیا پتا تھا… میرے اللہ… کیا کروں میں…‘‘
زبیدہ بیگم نے پریشانی سے سرپکڑ لیا تھا۔
’’کسی سے قرض لے لیتے ہیں… عبدالرحیم صاحب نے کچھ سوچتے ہوئے مشورہ دیا تھا۔
’’پہلے بات تو یہ کہ اتنی بڑی رقم کوئی قرض دے گا نہیں… اور اگر دی بھی… تو قرض واپس بھی کرنا ہوتا ہے…‘‘ مظہر نے طنزیہ لہجے میں کہا تھا۔
’’پھر… تم ہی بتاؤ کیا کریں…؟‘‘
’’کچھ سوچتا ہوں میں…‘‘ مظہر کہہ کر اپنے کمرے کی طرف چل پڑا تھا۔
٭…٭…٭
’’میں نے اپنے دوست افتخار سے بات کی ہے وہ منصور احمد کے کزن کا بہنوئی ہے وہ بات کرلے گا اس سے…‘‘
’’اللہ کرے منصور احمد مان جائے…‘‘ زبیدہ بیگم نے ہاتھ پھیلائے دعا کی تھی اب ہر وقت اُن کے ہاتھ میں تسبیح ہوتی تھی وہ کسی نہ کسی وظیفے میں مصروف ہوتی تھیں۔
سویرا بھی اظہر کی رہائی کے لیے دل سے دعا گو تھی۔
مظہر کا فون بجا تھا۔
’’افتخار کا فون ہے… اس نے یقینا منصور احمد سے بات کی ہوگی…‘‘
مظہر نے ہیلو کہہ کر کال ریسیو کی تھی۔
سب سانس روکے مظہر کو دیکھ رہے تھے۔
’’کیا…؟‘‘
’’اچھا… ہاں… ٹھیک ہے میں سوچ کر بتاؤں گا…‘‘
مظہر نے بات کرکے فون ایک طرف رکھ دیا تھا۔
’’کیا ہوا؟… کیا کہا…؟‘‘ وہ بے قرار تھی جاننے کو… اماں بڑی امید سے اسے دیکھ رہی تھیں۔
’’وہ… منصور احمد نے کہا ہے… کہ وہ اظہر کو معاف کردے گا… مگر…‘‘ سویرا کے چہرے کا رنگ اڑ گیا تھا… سانس سینے میں اٹک گئی تھی…
اماں نے کہا تھا وہ اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر صبر کرے۔ مگر اسے صبر نہیں آرہا تھا۔
اس کی قسمت میں دوسروں کی غلطیوں کی سزا کیوں لکھی ہے…؟
اس کے خواب اس کی خواہش… کوئی حیثیت نہیں ہے ان کی… اس نے حسرت بھری نظروں سے اپنی کتابوں کو دیکھا تھا۔
اس کی آنکھوں میں خوابوں کے مقبرے بنتے جارہے تھے۔
وہ ایک ایک کرکے یونہی اپنے خوابوں کا گلا گھونٹتی رہے گی…
اس کا کیا قصور ہے…؟
اسے کس بات کی سزا دی جارہی ہے…؟
’’حوا کی بیٹی‘‘ کے نصیب میں ہی لکھا ہے کبھی ونی ہونا، کبھی کاری کیا جانا، کبھی خون بہا میں دے کر باپوں اور بیٹوں کو سرخرو کرنا۔ یا خاندانی دشمنیاں ختم کرنے کے لیے ان کی قربانیاں دیا جاتا…
لفظ رو رہے تھے… خوابوں اور خواہشوں کا ربط قائم تھا…
آنسو دامن پر بھی گررہے تھے اور دل پر بھی…
’’سویرا… اگلے ہفتے تمہارا مقصود احمد کے بڑے بھائی منصور احمد سے نکاح ہے…‘‘
منصور احمد کے بچے اس کے ہم عمر تھے۔ یا شاید اس سے بڑے…
اسے اظہر کی جان بچانے کے لیے قربانی دینا تھی…
اسے پچیس لاکھ روپے بچانے کے لیے قربانی دینا تھی…
رقم اب پچیس لاکھ سے پانچ لاکھ ہوگئی تھی جو گھر میں موجود سارے زیورات بیچنے کے بعد پوری ہوئی۔
اس کے اپنے ماں باپ کے نزدیک اب بہترین آپشن وہی تھی۔
ہفتوں، مہینوں، دنوں بازاروں میں چھوٹی چھوٹی چیزوں کی میچنگ ڈھونڈنے والی پاگل لڑکی اگلے ہفتے تیری بے جوڑ شادی ہے…




Loading

Read Previous

ادھوری زندگانی ہے — لعل خان (دوسرا اور آخری حصّہ)

Read Next

تھالی کا بینگن — کرشن چندر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!