بنتِ حوّا — عزہ خالد

اظہر اور محنت…
’’کیا کام کیا ہے تو نے…؟‘‘ اماں نے مشکوک نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔
’’اماں… آم کھائیں آم…… پیڑ نہ گنیں… آج کام کا پہلا دن تھا… اب دیکھنا کچھ ہی دنوں میں کیسے وارے نیارے ہوتے ہیں… اپنا کاروبار شروع کروں گا میں…‘‘
اظہر نے جیب سے بٹوہ نکالا تھا۔ بٹوے میں لال ہرے نوٹ بھرے ہوئے تھے۔
اظہر نے کئی نوٹ اماں کے ہاتھ پر رکھے تھے۔
’’لے… بیٹے کی پہلی کمائی… دعا کر کہ اللہ برکت دے میری کمائی میں…‘‘
’’یہ ایک دن میں اتنی محنت کیسے کرلی تو نے…‘‘
’’فکر نہ کر اماں… کہیں ڈاکا نہیں مارا… نہ ٹھگی ماری… محنت سے کمائے ہیں…
تو جو روز سمجھاتی تھی… وہ بات میری سمجھ میں آگئی ہے۔
اس طرح بیٹھ کر کھانے سے تو قارون کا خزانہ بھی ختم ہوجائے گا…‘‘
’’ارے خالہ… آپ بھی نا… بے چارے پر ایسے ہی شک کررہی ہیں جب وہ کہہ رہا ہے کہ محنت سے کمایا ہے… تو کیا ضرورت ہے اتنے سوال جواب کی…‘‘
لائیں میں یہ برفی پلیٹ میں ڈال کر لے آتی ہوں…‘‘
برفی دیکھ کر ہی شکیلہ کے منہ میں پانی آگیا تھا اور برفی بھی مین روڈ کی بڑی دکان کی…
’’دیکھا بھابھی کی سمجھ میں میری بات آگئی ہے…‘‘ اظہر کی بات سُن کر کچن کی طرف جاتی شکیلہ خوشی سے نہال ہوگئی تھی۔
اماں کی حیرت اب خوشی میں بدل گئی تھی۔
چلو اظہر سدھر گیا ہے… کمانے لگ گیا ہے… انہیں اور کیا چاہیے…
دروازے پر دستک ہورہی تھی سویرا کچن میں بھابھی کے ساتھ کام میں مصروف تھی۔
’’جاؤ… دیکھو کون ہے‘‘ سویرا نے ہاتھ دھوئے اور دروازے کی طرف چلنے لگی۔ دروازہ کھولا تو باہر پھپھو کھڑی تھیں۔
’’السلام علیکم…‘‘





’’وعلیکم السلام… جیتی رہو‘‘ پھپھو نے بڑی محبت اور شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور گھر اندر داخل ہوئی۔
’’کیسی ہیں آپ… کئی دنوں بعد چکر لگایا…‘‘
’’میں ٹھیک ہوں… تم کیسی ہو؟ اور امی کہاں ہیں تمہاری…‘‘
’’اندر کمرے میں ہیں… میں بلا کر لاتی ہوں…‘‘ وہ صحن میں رکھے تخت پر بیٹھ گئی تھیں سویرا امی کو بلانے چل پڑی تب ہی اس کی نظر پھپھو کے ہاتھ میں پکڑے شاپر پر پڑی تھی اس میں مٹھائی کا ڈبا تھا۔ اسے تجسس ہوا تھا آخر اس مٹھائی کے ڈبے کی کیا وجہ تھی۔
’’کیسی ہو ثمینہ… کئی دن بعد چکر لگایا‘‘ زبیدہ بیگم نے نند سے سلام دعا کے بعد پوچھا تھا۔‘‘
’’میں ٹھیک ہوں بھابھی… آپ کیسی ہیں… بس مصروفیت میں گھر سے کم ہی نکلنا ہوتا ہے… اور آج تو میں بڑے ضروری کام سے آئی ہوں…‘‘
’’چلو… کسی کام بہانے ہی سہی پر تمہیں بھابھی کی یاد تو آئی… سویرا… جاؤ پھپھو کے لیے چائے پانی کا بندوبست کرو…‘‘
وہ سویرا کی طرف متوجہ ہوئیں سویرا کچن میں چلی گئی تھی مگر اس کے کان صحن میں بیٹھی امی اور پھپھو کی باتوں میں ہی لگے تھے۔
’’بھائی کہاں ہیں؟‘‘ ثمینہ بیگم نے ادھر ادھر نظر دوڑاتے ہوئے پوچھا تھا۔
’’وہ تو اس وقت دکان پر ہی ہوتے ہیں۔ خیریت…؟‘‘
وہ… میں سویرا کا رشتہ مانگنے آئی ہوں اپنے جہانگیر کے لیے… خالی ہاتھ نہیں جاؤں گی… یہ مٹھائی بھی ساتھ لے کر آئی ہوں…‘‘
ثمینہ بیگم نے مٹھائی کا ڈبا بھاوج کی طرف بڑھایا تھا۔
جسے انہوں نے مسکراتے ہوئے تھام لیا۔
’’تمہاری بھتیجی ہے… ہم کون ہوتے ہیں تمہارے انکار کرنے والے…‘‘
ثمینہ بیگم کا چہرہ کھل اٹھا تھا۔
کچن میں کھڑی سویرا کے چہرے پر بڑی خوبصورت مسکراہٹ تھی۔ جہانگیر ایک خوبرو اور سمجھدار نوجوان تھا اور پھر پھپھو کے گھر کا ماحول ان کے گھر کے ماحول سے قدرے بہتر تھا۔
٭…٭…٭
اظہر کی یہ ’’محنت کی کمائی‘‘ زیادہ دن راز نہ رہ سکی۔ اسے جوئے کی لت پڑ چکی تھی قسمت اس پر اتنی مہربان تھی کہ وہ ہمیشہ جیت جاتا۔
ابھی بھی وہ اپنے مخالف سے پچاس ہزار روپے جیتا تھا اور فخر سے گردن اکٹرائے پیسے سمیٹ رہا تھا۔
ہارنے والا مقصود احمد اسے یوں بازی پر بازی جیتتے دیکھ کر دانت پیس رہا تھا۔
’’اظہر تُو تو مٹی کو بھی ہاتھ لگائے تو وہ سونا بن جائے… واہ کیا قسمت پائی ہے تو نے…‘‘ مبشر اور انور اس کے دائیں بائیں واہ واہ کررہے تھے مقصود احمد چڑگیا تھا فوراً ایک اور بازی لگانے کو کہا۔
اظہر کا ابھی گھر جانے کا موڈ تھا مگر مقصود احمد کا چیلنج کرتا انداز دیکھ کر اس نے ارادہ کینسل کردیا۔
ایک لاکھ…
اوکے… ڈن…
’’واہ بھئی بلّے بلّے… اب کہ ہمارا شیر بڑا میدان مارے گا…‘‘ مبشر اور انور اظہر کا کندھا تھپتھپا رہے تھے اظہر کی گردن مزید اکڑ گئی۔
خوش قسمتی تو جیسے اظہر کی جیب میں تھی۔
اسے جیتتے دیکھ کر مقصود احمد بپھر گیا اور اب وہ پیسے دینے سے انکاری تھا۔
اظہر اور اس کے بیچ جھگڑا ہوگیا۔
بات ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ تبھی انور یا مبشر میں سے کسی نے اظہر کے ہاتھ میں ڈنڈا تھمایا۔
لڑائی کے دوران اظہر نے وہ ڈنڈا مقصود احمد کے سر پر زور سے دے مارا۔
بانس کا وہ موٹا ڈنڈا مقصود احمد کے دماغ کے کسی حساس مقام پر لگا اور وہ وہیں ڈھیر ہوگیا۔
مقصود احمد کے بے جان جسم کو دیکھ کر اظہر کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔
اس نے مبشر اور انور کو دیکھا۔
’’او… تم نے اسے مار دیا… اظہر تو نے مقصود احمد کو جان سے مار دیا…‘‘ اظہر کے ہاتھ ڈنڈا چھوٹ کر نیچے گرا تھا۔
وہ نفی میں سرہلا رہا تھا۔
’’بھاگ… اظہر بھاگ جا…‘‘
اظہر کو گھر آئے ابھی زیادہ دیر بھی نہ ہوئی تھی کہ پولیس گھر پہنچ گئی تھی۔
’’کہاں ہے اظہر…؟‘‘
’’وہ… گھر پر… نہیں ہے…‘‘ ابا نے پسینہ صاف کرتے ہوئے لڑکھڑاتی ہوئی آواز سے انکار کیا تھا۔
’’بزرگو… آپ ایک طرف ہوجاؤ… ہم خود ڈھونڈ لیں گے…‘‘ پولیس والا ابا کو ایک طرف ہٹاتے ہوئے گھر میں داخل ہوا تھا۔
’’میرے بیٹے کا قصور کیا ہے…؟‘‘
’’قصور… واہ… بیٹا قتل کر آیا ہے اور باپ قصور پوچھ رہا ہے…
’’نہیں… یہ جھوٹ ہے… میرے بیٹے نے کچھ نہیں کیا…
’’تقریباً دس سے زیادہ چشم دیدگواہ ہیں ہمارے پاس…
بہتر یہی ہے اسے خود ہمارے حوالے کردو… ورنہ اسے تو زمین کی تہ سے بھی نکال لیں گے…‘‘
’’وہ… گھر پر نہیں…‘‘ مظہر نے انکار کیا تھا۔
گھر کی خواتین کمرے کی کھڑکی سے یہ منظر دیکھ رہی تھیں…
ابھی کچھ دیر پہلے اظہر خوف سے کانپتا گھر میں داخل ہوا تھا۔
’’اماں مجھے بچالو… میں نے کچھ نہیں کیا…
’’کیا ہوا…؟‘‘
اماں میں نے اسے نہیں مارا… وہ خود مرگیا…‘‘
’’کیا ہوگیا… کیا بکواس کررہا ہے تُو… جا سویرا پانی لے کر آ اس کے لیے…‘‘ اظہر کے سانس پھولے ہوئے تھے ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ بھاگتا دوڑتا گھر پہنچا ہے۔
سویرا فوراً پانی لے آئی تھی اماں نے اسے اپنے ہاتھ سے پانی پلایا تھا دو گھونٹ بھر کر اس نے گلاس منہ سے ہٹا دیا تھا۔
مظہر شکیلہ اور ابا وہیں کھڑے تھے…
ابھی اظہر پوری بات بھی نہ بتا پایا تھا کہ گیٹ پر دستک ہوئی۔
’’اماں… ابا… مجھے چھپالو… پولیس آگئی…‘‘
اظہر خوفزدہ ہوکر اماں کے سینے سے لگ گیا تھا۔
اب کے زور سے دروازہ پیٹا گیا تھا ایسا لگ رہا تھا دروازہ توڑ دیا جائے گا۔
اماں نے اسے سٹور میں چھپا دیا تھا۔
مگر اظہر پولیس کی نظروں سے بچ نہیں پایا۔
کانسٹیبل اسے کالر سے کھینچتے ہوئے باہر نکال لایا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

ادھوری زندگانی ہے — لعل خان (دوسرا اور آخری حصّہ)

Read Next

تھالی کا بینگن — کرشن چندر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!