”ہاں کیوں؟” فوزیہ نے سوالیہ انداز میں ہی کہا۔
” مشکل ہے۔”رعنا نے طنزیہ انداز میں جواب دیا۔
” نہیں میں کل باجی سے کہتی ہوں مجھے کوئی کام وام دلوائیں۔” فوزیہ نے بے پروائی سے کہا۔
”ہاں کام صرف و ہی دلوا سکتی ہیں،تم بات کرکے دیکھ لو۔تمہیں تو آسانی سے کام مل جائے گا۔” رعنا نے تھوڑا ذومعنی انداز میں کہا تو فوزیہ اس کی طرف دیکھ کر رہ گئی۔
٭…٭…٭
فوزیہ مالکن کے کمرے میں گئی،وہ کچھ لکھ رہی تھی۔اُس نے اپنا کام روک کر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا پھر پین کا ڈھکن بند کرکے پوچھا۔
” آؤ آؤ فوزیہ!کہو رات نیند تو ٹھیک آئی؟ کوئی مسئلہ تو نہیں ہوا۔”
”جی وہ سب ٹھیک رہا بس…” فوزیہ جیسے کچھ کہتے کہتے رُک سی گئی،دل میں آیا کہ چوری کے بارے میں بتائے پھر یہ سوچ کر خاموش ہو گئی کہ دریا میں رہ کر مگرمچھوں سے کیسا بیر۔
” اور کوئی بات، کہو کچھ کہنا چاہتی ہو؟” مالکن نے نظر اُٹھا کر فوزیہ کی طرف دیکھا۔
”بس میں چاہتی ہوں کہ فارغ نہ بیٹھوں۔ مجھے کوئی کام دلوا دیں۔”فوزیہ نے کہا۔
”تم بے فکر رہو یہاں کوئی فارغ نہیں بیٹھتا۔ سب سے کام کروایا جاتا ہے، ویسے تم کیا کرنا چاہتی ہو؟کچھ تو سوچا ہوگا اپنے مستقبل کے بارے میں۔”مالکن بے پروا انداز میں بولی۔
” کوئی بھی کام مل جائے، جس سے میں کچھ کما سکوں۔ مجھے اپنا اور اپنے بچے کا خرچہ خود اٹھانا ہے۔” فوزیہ نے التجائیہ انداز میں کہا۔
”کوئی نہیں بہت کام ہے، تمہارے لیے تم جیسی خوب صورت لڑکیاں فارغ نہیں بیٹھ سکتیں، مگر تھوڑا انتظار کرو۔” مالکن نے بہت غور سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے معنی خیز انداز میں کہا۔
”جی کیا مطلب؟” فوزیہ نے حیران ہوکر پوچھا ۔
مالکن نے اس کی بات پر معنی خیز انداز میں اسے دیکھا اورپاس کھڑی معاون راحیلہ سے کہا۔ ”راحیلہ انہیں اندر لے جاؤ اور دیکھو کوئی کام ہے تو فی الحال شروع کرواؤ۔”
”باجی کچن میں لگادوں ثریا کے ساتھ؟”راحیلہ نے پوچھا۔
مالکن نے آنکھوں ہی آنکھوں میں راحیلہ کو کوئی اشارہ کیا اور کہا۔ ”ہاں ٹھیک ہے، فی الحال کچن میں لگواؤ،پھر دیکھتے ہیں۔”
راحیلہ نے پلٹتے ہوئے فوزیہ کو اشارہ کیا۔” آؤ میرے ساتھ۔”
فوزیہ نے اٹھتے ہوئے”شکریہ” کہااور کمرے سے باہر نکل گئی۔
کچن میں اس کی ذمے داری روٹیاں پکانے،برتن دھونے اور سبزی کاٹنے کی تھی۔گاؤں سے تعلق کی وجہ سے اس نے باقی خواتین سے جلدی اور بہتر انداز میں یہ کام نمٹایا۔کچن انچارج اس سے بہت خوش تھی۔
٭…٭…٭
رات کے پچھلے پہر فوزیہ اور دیگر خواتین کمرے میں سوئی ہوئی تھیں کہ راحیلہ دبے پاؤں اندر داخل ہوئی اور فوزیہ کو سوتے سے جگادیا۔وہ گہری نیند سوئی ہوئی تھی آج سارا دن کچن میں کام بھی تو بہت کیا تھا۔ دیوار پر لگی گھڑی پر ساڑھے گیارہ بج رہے تھے۔ وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھی اورگھبرا کر پوچھا۔” کیا ہوا خیر ہے؟ ”
راحیلہ نے ”شش” کہہ کر منہ پر انگلی رکھی اور اسے خاموش کراتے ہوئے کہا۔
”خاموشی سے میرے ساتھ آؤ،باجی نے بلایا ہے۔”
”اس وقت؟” فوزیہ نے پریشانی سے پوچھااور گھڑی کی طرف دیکھا۔ ”لیکن کیا بات ہے؟”
”آواز کو نیچا رکھ۔ میں نے کہا نا باقی سب بھی اُٹھ جائیں گے۔ بس خاموشی سے میرے پیچھے پیچھے آؤ۔” راحیلہ نے ڈپٹتے ہوئے جواب دیا۔
فوزیہ نے حیرت کے عالم میں دوپٹا کندھے پر ڈالا اور راحیلہ کے پیچھے پیچھے نکل آئی۔
راحیلہ اُسے کمرے کے پاس چھوڑ کر رفوچکر ہوگئی جہاں کرسی پر بیٹھی مالکن اس کا انتظار کررہی تھی۔ وہ فوزیہ کو دیکھتے ہی کرسی سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔
”آؤ آؤ فوزیہ! میں تمہارا ہی انتظار کررہی تھی۔”
‘باجی اس وقت کیوں بلایا ہے آپ نے؟”اس نے گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”تم نے کہا تھا ناکہ تمہارے لیے کوئی کام نکالوں؟”مالکن نے کہا۔
فوزیہ نے حیران ہوکر گھڑی کی طرف دیکھا،پونے بارہ بج چکے تھے۔بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا۔”مگر اس وقت؟”
”دراصل میں چاہتی ہوں باقی لڑکیوں کو پتا نہ چلے۔ورنہ انہیں اعتراض ہوگا کہ ہمیں چھوڑ کر نئی آنے والی لڑکی کے لیے کام نکال لیا۔”مالکن نے تھوڑا رک کر جواب دیا۔
”اچھا بہت شکریہ لیکن مجھے کرنا کیا ہوگا؟”فوزیہ خوش ہوکر بولی۔
”ایک ادارے کے سیکرٹری صاحب ہیں جن سے میں نے تمہارا ذکر کیا تھا کہ تم غریب اور بے سہارا ہو، کوئی نوکری وغیرہ کا بندوبست کردیں تمہارے لیے۔وہ کہنے لگے،اسے بھیجیں میرے پاس، اور ہاں یہ برقع لے لو، پہن کر جانا۔” وارڈن نے ایک برقع اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
”کیا میں یوں ٹھیک نہیں؟” فوزیہ نے پریشان ہوکر برقع تھامااور حیران ہوکر پوچھا۔
”سوال مت کروبس پہن لو،بے شک وہاں گاڑی سے اترتے ہی اتار دینا اور اب نکلو ڈرائیور کے ساتھ ویسے ہی بہت دیر ہوچکی ہے۔ اگر وہ اُٹھ گئے تو یہ موقع تمہارے ہاتھ سے نکل جائے گا۔” وارڈن نے ماتھا پیٹتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے،میں ابھی جاتی ہوں۔ ” فوزیہ نے کہا اور برقع پہن لیا۔
”اسے گاڑی تک چھوڑ آؤ باہر،سیکرٹری صاحب نے گاڑی بھیجی ہے۔”وارڈن نے راحیلہ کو ہدایت دی ۔
راحیلہ نے اثبات میں سر ہلایا اور فوزیہ کو لے کر باہر نکل گئی۔
فوزیہ جیسے ہی گاڑی میں بیٹھی، ڈرائیور نے بیک مرر سیٹ کرلیا اور بار بار شیشے میں اُسے عجیب سی نظروں سے دیکھا جیسے وہ کوئی کسبی عورت ہو جس کی معاشرے میں کوئی عزت نہیں ہوتی۔ وہ پورے سفر میں فوزیہ کو اسی طرح دیکھتا رہا اور وہ بے چینی سے پہلو بدلتی رہی۔ گاڑی ایک اپارٹمنٹ کے آگے رُک گئی۔ ڈرائیور نے اُتر کر اس کے لیے دروازہ کھولا۔ برقع اس نے اتار کر گول مول کیا اور گاڑی میں ہی پھینک دیا اور ڈرائیور کے ساتھ آگے بڑھ گئی۔
ڈرائیور نے بنگلے کے دروازے کی گھنٹی بجائی تو دروازہ فوراً کھل گیا،غالباً آٹومیٹک لاک تھا۔ اس نے اشارے سے فوزیہ کو اندر جانے کا کہا۔ وہ اندر داخل ہوئی توٹی وی لاؤنج میں اس کا سامنا ایک درمیانی عمر کے موٹے سے شخص سے ہوا جو شکل ہی سے خبیث لگ رہا تھا۔ اُس نے اندر جا کر اسے سلام کیا تو موٹے شخص نے حیرانی سے پوچھا۔
”ہیلو آپ فوزیہ بتول ہیں؟”
”جی میرا نام ہی فوزیہ ہے۔ مجھے دارالآمان سے باجی نے بھیجا ہے کہ آپ کوئی نوکری وغیرہ دلوا دیں گے۔ ”فوزیہ نے آگے بڑھ کر جواب دیا۔
سیکرٹری نے حیرت سے فوزیہ کے حلیے پر سر سے پاؤں تک نظر ڈالی۔
”لیکن آپ کو نوکری کی کیا ضرورت؟ آپ ضرورت مند تو نہیں لگتیں۔ ”
” ضرورت مند کی شکل پر تو نہیں لکھا ہوتا کہ وہ ضرورت مند ہے۔”فوزیہ نے تپ کر جواب دیا۔
سیکرٹری نے فوزیہ کو صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خودسامنے والے صوفے پر بیٹھ گیا۔” مگر ہمارے ادارے میں تو بے سہارا عورتوں کو جگہ دی جاتی ہے اور آپ تو…”
”مجھے بھی بے سہارا ہی سمجھیں۔ ”فوزیہ نے بہت دکھی آواز میں کہا۔
” کیامطلب؟” سیکرٹری نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
”مطلب یہ کہ میں گاؤں سے شہر آئی ہوں کچھ کام کرنے اور ابھی میرے پاس نہ رہنے کا ٹھکانا ہے اور نہ کوئی نوکری، سمجھیں کہ بے سہارا ہی ہوں۔”فوزیہ نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
سیکرٹری اُٹھ کر اُس کے پاس ہی آکر بیٹھ گیا۔
” تم اگر مجھے اپنا سمجھو تو سب کچھ بتا سکتی ہو۔”
فوزیہ کو شاید اتنی ہمدردی ہی بہت تھی یا وہ سمجھتی تھی کہ اب اسے اس نوکری سے ہی کوئی shelter مل سکتا ہے۔اس نے اپنے بارے میں سیکرٹری صاحب کو سب کچھ بتانے کا فیصلہ کیا اورساری کہانی سنا دی۔
”دیکھو دنیا میں ہر شخص بے سہارا ہے،جیسے تم اپنے شوہر کے ہوتے ہوئے بھی بے سہارا ہو، میں اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے بھی بے سہارا اور تنہا ہوں تو ہم ایک دوسرے کا سہارا کیوں نہیں بن سکتے؟” سیکرٹری صاحب نے اس کی بپتا سنی اور اس کے قریب آکر بہت بے تکلفانہ انداز میں اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا،وہ ایک دم بدک کر پیچھے ہٹی۔
”کیا ہوا ؟”سیکرٹری نے اس کے بدکنے پر پوچھااور دوبارہ اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
”کیا میں غلط کہہ رہا ہوں؟”
” میں جب آئی تھی مجھے آپ کی بیوی پر رشک آرہا تھاکہ اتنے ہم درد انسان کی بیوی ہے وہ، مگر اب مجھے آپ کی بیوی پر ترس آرہا ہے۔اس میں اور مجھ میں کوئی فرق نہیں ہے۔میرا شوہر بھی عورتوں کے چکر میں رہتا تھا اور آپ بھی نئی نئی عورت سے غم بہلاتے ہیں۔” فوزیہ نے طنزیہ انداز میں جواب دیا۔
”اے لڑکی! زبان سنبھال کر بات کر، تو میری بیوی سے خود کو ملا رہی ہے۔ کہاں تو اور کہاں وہ۔” سیکرٹری انے ستہزائیہ انداز میں کہا۔
” آپ جیسے مردوں نے ہر عورت کوپیر کی جوتی بنا دیا ہے۔ چاہے وہ ہماری جیسی عورتیں ہوں یا آپ کے گھر میں موجود شریف زادیاں۔”فوزیہ نے جواب دیا،اس کے لہجے میں بہت دکھ اور طنز تھا۔
سیکرٹری نے فوزیہ کے ہاتھ پردوبارہ ہاتھ رکھا،فوزیہ نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔
سیکرٹری نے بات سنبھالتے ہوئے کہا۔ ”تم زیادہ جذباتی نہیں ہورہی؟ ہم اپنی بات مل بیٹھ کر بھی ختم کرسکتے ہیں۔ تم بتاؤ نوکری کے علاوہ تمہیں اور کیا کیا چاہیے؟”
” میں آپ سے کہہ رہی ہوں اپنی حد میں رہیں۔ مجھے ایسی ویسی عورت مت سمجھیں۔” فوزیہ نے اس سے دور ہٹتے ہوئے جواب دیا۔
”تمہارا کیا خیال ہے؟ دارالآمان والوں نے تمہیں اس وقت یہاں کس لیے بھیجا ہے؟”سیکرٹری نے ہنستے ہوئے اُسے دیکھاجیسے مذاق اُڑا رہا ہو۔
”میں جان چکی ہوں وہ جگہ طوائف کے کوٹھے سے بھی بدتر ہے، لیکن اگر آپ نے مجھ سے کسی قسم کی زبردستی کی کوشش کی تو میں شور مچا دوں گی بلکہ میڈیا اکٹھا کرلوں گی اور آپ کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے، سمجھے؟”فوزیہ نے دروازے کی طرف جاتے ہوئے دھمکی دی۔
” رکو بات تو سنو!”سیکرٹری پریشانی سے اس کے پیچھے لپکا۔
” میں جارہی ہوں، روک سکتے ہو تو روک کر دکھاؤ۔” فوزیہ دھمکی دیتے ہوئے جھڑکا اوردروازے سے نکل گئی۔
وہ بہت غصے میں واپس گاڑی میں آکر بیٹھ گئی۔ ڈرائیور نے بڑے غور سے اُسے دیکھا اور دستی گھڑی پر نگاہ ڈالی۔ پھر کندھے اچکائے جیسے اتنی جلدی واپسی پر حیران ہو۔ ڈرائیور نے تھوڑا حیرانی سے اس سے پوچھا۔
”کہاں چلنا ہے میڈم؟”
” واپس دارالآمان چلو۔”فوزیہ بہت غصے سے جواب دیا۔
ڈرائیورنے مرر سے اس کے غصیلے چہرے کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
” ویسے آپ جلدی نہیں آگئیں؟ میں سمجھا تھا…”
فوزیہ نے اس کی بات کاٹی اور کہا۔
”کیا سمجھے ہیں؟ کیا سمجھے تم کہ میں بھی ان حرافہ عورتوں میں سے ہوں جو ان جیسے شیطانوں کے پھندوں کا شکار ہوتی ہیں۔”
”جی وہ میرا مطلب…”ڈرائیور نے ہکلا کر جواب دیا۔
فوزیہ اونچی آواز میں خود کلامی کرنے لگی۔ اس پر غصے میں ایک ہیجانی سی کیفیت طاری ہوگئی۔ ”مجھے پھندوں میں پھنسنے کا کوئی شوق نہیں اس لیے جلدی واپس ہوگئی۔سب آدمی ایک جیسے ہوتے ہیں، شکل سے مسکین اور اندر سے خبیث،جو عورت کواپنی خباثت کے لیے صرف ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں۔ عورت کے لیے عزت کا کوئی معیار نہیں ان کے پاس۔جتنی بھی عزت دے دووہ عزت کے قابل ہی نہیں ہوتے۔ میں ہی بے وقوف تھی جوآج تک نہیںسمجھی اور اعتبار کرتی رہی اور اعتبار کھوتی رہی۔ واہ فوزیہ بی بی واہ کہاں کہاں دھوکا کھایا تم نے۔”
بولتے بولتے تھک گئی تو اس نے کار کی سیٹ سے اپنا سر ٹکا لیا۔
وہ دارالآمان کے دروازے پر پہنچی، تو ڈرائیور اُسے چھوڑ کر چلا گیا۔ دروازے پر ہی چوکی دار اس کے بیگز لیے کھڑا تھا۔ وہ حیران رہ گئی۔ چوکی دار نے سر جُھکا کر بیگ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
” مالکن کا حکم تھا کہ یہ آپ کو دروازے پر ہی دے دوں،اندر نہ آنے دوں۔”
” اچھا، تو اس کو پتا تھا کہ میں اتنی جلدی پہنچ جاؤں گی۔” فوزیہ نے طنزیہ انداز میں کہا۔
” جی میں کیا کہہ سکتا ہوں،اُن کا حکم تھا۔” چوکی دار نے عاجزی سے کہا۔
فوزیہ پر ہیجانی کیفیت طاری ہوگئی اور وہ اول فول بکنے لگی،پھر دہاڑتے ہوئے بولی۔ ”اسے کہنا کہ فوزیہ بتول کہہ رہی تھی کہ توکُتی عورت ہے، کمینی اللہ اس کا بیڑا غرق کرے۔”
اسی دوران فوزیہ کا موبائل بج اُٹھا اس نے بیگ سے فون نکال کر ریسیو کیا، تو دوسری جانب ریحان بے تابی سے بولا۔ ”فوزیہ تم کہاں غائب ہو؟ میں کب سے تمہیں ڈھونڈ رہا ہوں۔”
ریحان کی آواز اسے دشت میں ٹھنڈی ہوا کی طرح محسوس ہوئی،اس نے بہت دکھی انداز میں جواب دیا۔
” میں گُم ہوگئی تھی ریحان، پتا نہیں کہاں۔مجھے خود علم نہیں کہ میں کہاں گُم ہوچکی ہوں۔”
”کیسی باتیں کررہی ہو فوزیہ۔ تم ٹھیک تو ہو؟”ریحان کے لہجے میں پریشانی تھی۔
‘ میں ٹھیک نہیں ہوں یا شاید میں ٹھیک ہی ہوں یا سب ہی غلط ہیں۔”فوزیہ نے کھوئے کھوئے انداز میں جواب دیا۔
”لگتا ہے تمہارا دماغ چل گیا ہے۔”ریحان نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا۔
” ہاں شاید۔” فوزیہ نے بے دھیانی سے کہا۔
ریحان نے اس سے پوچھا کہ وہ اس وقت کہاں ہے تا کہ وہ اسے لینے آ سکے۔اس نے اسی بے دھیانی میں دارالآمان کا نام لیا اور تھک کر وہیں روڈ پربیٹھ گئی۔
ریحان تھوڑی ہی دیر بعد وہاں پہنچ گیا اور اسے لے کر اپنے فلیٹ چلا آیا۔ تھوڑی دیر کے بعد فریش ہوکر وہ ریحان کے ساتھ کھانا کھارہی تھی۔ سامنے LCD آن تھی، مگر وہ کہیں بہت دور خیالوں کی دنیا میں گم تھی۔ اُس کے چہرے سے عیاں تھا کہ وہ بہت ڈسٹرب تھی۔
”تمہیں معلوم ہے کہ گوہر نے میرے ساتھ کیا کیا؟” فوزیہ نے ریحان سے پوچھا ۔
”ہاں میری بات ہوئی تھی اُس سے بتا رہا تھا کہ تم نے اسے بیچ راستے میں چھوڑ دیا۔ کافی investment کی تھی اس نے تم پر ۔”ریحان بتاتے ہوئے افسردہ ہوگیا۔
” وہ خبیث جھوٹ بول رہا تھا۔ لارے دے رہا تھا مجھے ایڈ دلوا دے گا، ٹی وی پر کام دلوائے گا۔” فوزیہ نے غصے سے کہا۔
”لارا اس نے نہیں تمہارے میاں نے لگایا تھا۔ تم کیا گوہر کی بہن تھیں یا رشتہ دار جس نے اتنا پیسہ لگایا تم پر؟انہیں تو تم سے یہی بزنس کروانا تھا لیکن مجھے تم پر حیرت ہے فوزیہ کہ تم اتنی معصوم تو نہیں لگتیں۔ ”ریحان نے کہا۔
”ہاں شاید مجھ سے غلطی ہوئی کہ میں نے سمجھا نہیں یا سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کہ عورت سے مرد کو صرف یہی سب چاہیے ہوتا ہے،بغیر اپنے مطلب کے کوئی مرد کسی عورت کا کوئی کام نہیں کرتا۔”یہ کہہ کر وہ رونے لگی تو ریحان نے اس کے پاس آکر اسے ٹشو پیپر پکڑایا۔
”عورت سے سارے مرد بزنس ڈیل کرتے ہیں، بنا مطلب کے کوئی کسی کا کام نہیں کرتا، سمجھی؟”
” ہاں سمجھی بلکہ بہت اچھی طرح سمجھ گئی۔” فوزیہ نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
” کیا سمجھی؟”ریحان نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
” یہی کہ یہ جگہ میرے جیسی عورتوں کے لیے نہیں ہے۔” فوزیہ نے بہت دُکھ سے جواب دیا۔
” پھر کہاں جاؤ گی؟”ریحان نے پوچھا۔
” کہیں بھی جہاں عزت کی روٹی مل سکے۔ ” فوزیہ نے کہا۔
”اکیلی عورت کے لیے دنیا کا سب سے مشکل کام عزت کی روٹی کمانا ہے، سمجھتی ہو اس بات کو؟” ریحان نے اسے سمجھایا۔
”ہاں، لیکن میں ایک کوشش ضرور کروں گی۔”فوزیہ نے پر عزم لہجے میں کہا۔
”میں تم سے کوئی ہمدردی نہیں کروں گا کہ دنیا میں یہی سب ہورہا ہے۔اب تم خود فیصلہ کرلو کہ اس دنیا میں رہنا ہے یا اپنی دنیا بنانے کے لیے کوئی اور راستہ چننا ہے۔”ریحان نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔
”کیا کروں،کوئی اور راستہ نظر بھی تو نہیں آرہا، بغیر عزت کا سودا کیے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔” فوزیہ جیسے زچ سی ہو گئی تھی۔
ریحان نے ایک نظر اس کے چہرے پر ڈالی اور کافی کا کپ اس کے ہاتھ میں پکڑایا۔ ”دیکھو یہاں ہر ماڈل، ہر ایکٹرس کا ایک گاڈ فادر ہوتا ہے، جو اسے اوپر تک لے جاتا ہے، لیکن اس اونچائی تک جانے کی ایک قیمت ہوتی ہے جو سب کو چکانی پڑتی ہے۔”
ہاں گاڈ فادر… اور اس گاڈ فادر میں نہ تو کوئی گاڈ والی بات ہوتی ہے اور نہ فادر والی۔” فوزیہ نے طنزیہ انداز میں کہا۔
”ہاں تمہاری بات صحیح ہے لیکن یہاں نام کمانے کے لیے کسی نہ کسی کے ساتھ جُڑنا پڑتا ہے۔”ریحان نے اس کے طنز کو محسوس کرتے ہوئے برملا کہا۔
” معلوم ہے اس جڑنے کے لیے کتنی بڑی قیمت دینی پڑتی ہے؟” فوزیہ نے دُکھ سے کہا۔
”ہاں وہ تو ہے مگر اب فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے۔” ریحان بولا۔
”یہی فیصلہ کرناتو مشکل ہے۔” فوزیہ نے بہت پریشانی سے کہا۔
ریحان نے اس کی پریشانی کو کم کرنے کے کے لیے اس کی توجہ بٹانا چاہی۔
”کافی پیو اور آرام سے سوچو ،پھر فیصلہ کرو۔ ”
٭…٭…٭