باغی — قسط نمبر ۳ — شاذیہ خان

”بہت پیار کرتا ہوں تجھ سے،مان جا روبی۔خدا کے لیے مت تڑپا۔”عابد نے اس کا ہاتھ پکڑ کر جواب دیا۔
روبی نے کچھ سوچتے ہوئے اس کی طرف دیکھا۔
”اچھا مجھے اماں سے بات کرنے دے انہیں منانا پڑے گا۔”
”کسی کو بھی منا،مگر جلدی کرمجھ سے اب انتظار نہیں ہوتا۔”عابدنے اتاولا ہوتے ہوئے کہا۔
” لیکن اگر چودھری صاحب کے کہنے پر وہ واپس آگئی تو ہماری شادی مشکل ہوگی۔ ” روبی تشویش سے بولی۔
”چودھری صاحب کی بات کو منع کرنا میرے لیے مشکل ہوگا۔ ابھی تو وہ کچھ نہیں کہہ سکتے، لیکن اگر اس کی واپسی ہو گئی تو پھر کچھ بھی نہیں ہوسکتا تو سمجھ۔”عابد نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”اچھاتوفکرنہ کر میں کرتی ہوں کچھ ،تو بس خوش رہا کر۔”روبی نے لاڈسے کہا۔
” تو خوش رکھا کر نا تو دل توڑ دیتی ہے۔”عابدنے روٹھے لہجے میں جواب دیا۔
” نہیں ایک بار آ جاؤں تیرے گھر ہمیشہ خوش رکھوں گی میرا وعدہ ہے۔”روبی نے ہنستے ہوئے کہا۔تو عابد اس کی بات پر مسکرادیا۔
٭…٭…٭





ٹی وی پر ایک میوزک شوکے مقابلے کا اشتہار چل رہا تھا جس میں لوگوں سے کہا گیا تھا کہ اگر وہ اس پروگرام میں حصہ لینا چاہیں توآکر آڈیشن دے دیں۔
فوزیہ نے اشتہار دیکھا تو اس کا دل جیسے خوشی سے بھر گیا۔اس نے گوہر کو فون کر کے بتایا کہ وہ اس مقابلے میں شرکت کرنے کے لیے جانا چاہتی ہے۔گو ہر نے اسے منع کر دیا۔
”نہیں تم اس پروگرام میں نہیں جاسکتیں۔ ہم تمہیں اپنے لیے تیار کررہے ہیں۔ تم کیسے کسی اور پروگرام سے اپنی انٹری دے سکتی ہو؟”
” کیوں نہیں دے سکتی؟یہ اشتہار تو نہیں ہے ۔ ایک ٹی وی پروگرام ہے۔ ”فوزیہ نے اعتراض کیا۔
”دیکھو تمہارا پورٹ فولیو ہم نے مختلف کمپنیز کو بھیجا ہوا ہے۔کسی وقت بھی کہیں سے جواب آجائے گا۔ انہیں اعتراض ہوگا تمہارے اس پروگرام میں آنے پر۔”گوہر نے اُسے سمجھایا۔
”لیکن…” فوزیہ نے کچھ کہنا چاہا مگر گوہر نے فوراً اس کی بات کاٹ دی۔
”تم فکر مت کرو، میں آج ہی کچھ کرتا ہوں۔ ہوسکتا ہے آج ہی کوئی کلائنٹ بھیج دوں۔”
”ٹھیک ہے کلائنٹ بھی صحیح ہے مگر مجھے ایڈ چاہیے۔” فوزیہ نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا۔
” ٹھیک ہے ٹھیک ہے، میں بات کرتا ہوں۔”گوہر نے اسے ٹالنے والے انداز میں کہہ کر فون بند کر دیا۔
٭…٭…٭
” تم نے وعدہ کیا تھا گوہر، اتنا وقت گزر گیا اور کوئی نہ کوئی بہانہ تمہارے پاس تیار ہوتا ہے۔ یعنی اب تک تم مجھ سے جھوٹ بول رہے ہو۔”آج پھر کافی عرصہ گزرنے کے بعد فوزیہ نے گوہر سے شکوہ کیا۔
” میں نے جھوٹ نہیں بولا۔ میں واقعی کچھ کرنا چاہتا ہوں۔ بس کسی ایک اچھے اوربڑے موقع کے انتظار میں ہوں۔ ”گوہر نے ایک دفعہ پھراسے بہلانا چاہا۔
” تم نے وعدہ کیا تھا کہ تم بہت جلد میرے لیے کوئی نہ کوئی کام نکالو گے مگر وہ سب باتیں ہیں اب تک۔” فوزیہ نے غصے سے کہا۔
” نہیں باتیں نہیں ہیں میں واقعی کوشش کررہا ہوں۔ بہت جلدتم ایڈ کے لیے کام کرو گی۔” گوہر نے اس کے غصے کو کم کرنے کی کوشش کی۔
”مجھے تم پر اب کوئی اعتبار نہیں۔ میں کہہ رہی ہوں اگر جلد ہی تم نے کوئی ایڈ نہ دیا، تو میں بھول جاؤں گی کہ تمہارے ساتھ میرا کوئی کنٹریکٹ بھی ہوا تھا۔” فوزیہ نے انگلی اُٹھا کر اسے وارننگ دی۔
” تم ایسا نہیں کرسکتیں۔” گوہر بھی اس کی وارننگ پر تھوڑا غصے میں آگیا۔
” تم وعدہ خلافی کرسکتے ہو تومیں کیوں نہیں کرسکتی اور سن لو وعدہ خلافی سے مجھے شدید نفرت ہے۔” فوزیہ نے بہت بے پروائی سے دبنگ لہجے میں کہا۔
گوہر اس کے لہجے کو دیکھتے ہوئے تھوڑا ٹھنڈا ہوا اور بولا۔
”ارے بے بی!چنداغصے میں نہ آؤ۔ میں ایک دو دن میں کرتا ہوں تمہارے لیے کچھ نہ کچھ،فکر نہ کرو۔”
” تم نے مجھے بہت دنوں سے یہی لارا لگایا ہوا ہے۔ میں دو تین دن اور دیکھوں گی پھر میں بھول جاؤں گی کہ میں نے تمہارے ساتھ کوئی کنٹریکٹ کیا ہوا ہے۔”فوزیہ نے اسے دھمکی دیتے ہوئے کہا۔
”ارے ایسا موقع ہی نہیں آئے گا تم فکر مت کرو۔ چلو چھوڑ بتاؤ کافی منگواؤں تمہارے لیے؟” گوہر نے بات سنبھالنے کی کوشش کی۔
” تم فکر مت کرو، خوش رہا کرو اگر خوش نہ رہیں تو چہرہ مُرجھا جائے گا اور مرجھائے ہوئے چہرے والی ماڈلز کو کوئی پسند نہیں کرتا۔”گوہر کے لہجے میں اس کے لیے بہت فکر تھی۔
” دیکھومیں اب تمہاری ان میٹھی میٹھی باتوں میں نہیں آنے والی۔ اب جتنی جلدی ہو مجھے ایڈ دلواؤ ورنہ…”فوزیہ نے اس سے متاثر ہوئے بغیر کہا۔
” اچھا اچھا غصہ مت کرو،کرتا ہوں کچھ، تھوڑا مسکراؤ۔”گوہر نے مسکرا کرفرمائش کی اور فون اٹھا کر کسی سے بات کرنے لگا۔فوزیہ بہت غور سے اس کی بات سن رہی تھی۔
٭…٭…٭
فوزیہ اپنے کمرے میں بیڈ پر دراز تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔اس نے اٹھ کر دروازہ کھولا توسامنے ایک درمیانی عمر کا موٹا سا شخص کھڑا تھا جو اسے دیکھ کر مُسکرایا اور بولا۔
”میں عاصم عدیل ہوں مجھے گوہر نے بھیجا ہے۔کیا میں اندر آسکتا ہوں؟ ”
”جی آیئے آیئے۔” فوزیہ نے اسے رستہ دیتے ہوئے کہا۔
عاصم کی چال میں ذرا لڑکھڑاہٹ تھی جیسے اس نے نشہ کررکھا ہو۔ایک دم چلتے ہوئے اس نے گرتے گرتے صوفہ تھاما اور پھر سنبھل گیا۔ فوزیہ نے سنبھالنے کے لیے ہاتھ بڑھایا اور پھر کھینچ لیا اور پاس آکر پوچھا۔
” آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟”
”ہاں میں ٹھیک ہوں۔” عاصم نے سنبھلتے ہوئے جواب دیا۔
فوزیہ نے صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
” بیٹھیں۔”
”مس فوزیہ کتنے عرصے سے ہیں آپ اس فیلڈ میں؟” وہ صوفے پر تقریباً نیم دراز سا ہوکر بیٹھ گیا۔
” میں بس ابھی آئی ہوں، زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔”فوزیہ نے بے پروائی سے جواب دیا۔
”ہاں لگ بھی رہی ہیں۔ نہ چائے کافی پوچھی اور نہ کوئی اور چیز، لگتا ہے میزبانی سکھانا پڑے گی آپ کو۔” عاصم نے مسکراتے ہوئے طنز کیا۔
”اوہ سوری، ابھی منگواتی ہوں، آپ کیا لیں گے۔”فوزیہ اس کی بات سن کر شرمندہ ہو گئی۔
”کافی ود سنیکس، ویسے بھوک تو نہیں مگرآپ جیسی خوب صورت خاتون کی صحبت میں بھوک چمکنے لگتی ہے۔ آپ ساتھ دیں گی میرا؟”وہ ذو معنی انداز میں بولا۔
” جی جی میں کچھ منگواتی ہوں۔”فوزیہ نے اس کی نظروں کا مطلب نہ سمجھتے ہوئے پریشانی سے کہا۔
تھوڑی دیر میں بیرا کھانے کا کچھ سامان لے کر آگیا۔ اس نے چند چیزیں پلیٹ میں ڈال کر پلیٹ عاصم کی طرف بڑھائی۔
”اتنی دور بیٹھ کر کھائیں گی تو کیا مزہ آئے گا فوزیہ؟ یہاں میرے پاس آکر بیٹھیں۔” عاصم نے ترچھی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
” کیا مطلب؟ آپ نے بات کرنی ہے جویہاں سے بھی ہوسکتی ہے۔” فوزیہ نے برا مانتے ہوئے کہا۔
”چلیں آپ نہیں آتیں تومیں خود آجاتا ہوں۔”وہ یہ کہتا ہوا اُٹھ کر اس کے پاس آگیا اور زبردستی فوزیہ کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کرنے لگا۔ فوزیہ نے غصے سے اپنا ہاتھ چھڑایا۔
”یہ کیا کررہے ہیں آپ؟”فوزیہ نے غصے سے کہا۔
” اب اتنی معصوم نہ بنو، بے شک نئی آئی ہو لیکن یہ سب تو جانتی ہی ہوگی۔اس فیلڈ میں یہ سب بھی بہت ضروری ہے۔” عاصم طنزیہ اندازمیں بولا۔
فوزیہ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اس نے ہاتھ میں پکڑا کانٹا اس کی آنکھ میں دے مارااور وہ بلبلا اُٹھا۔اس کے بعد فوزیہ نے اسے دھکے مار کر کمرے سے نکالا۔چوں کہ نشے میں تھا اس لیے زیادہ چوں چرا نہ کر سکا اور اسے غصے سے دھمکیاں دیتا ہوا چلا آیا۔
٭…٭…٭





دوسرے دن فوزیہ انتہائی غصے میں گوہر کے آفس گئی اور سامنے بیٹھے گوہر سے غصے میں کہا۔ ”تم نے کیا سوچ کر اُس کمینے کو میرے پاس بھیجا تھا۔ میں کوئی ایسی ویسی عورت ہوں؟”
”تم کیا سوچ کر اس فیلڈ میں آئی تھی؟کہ بڑی ستی ساوتری ہو؟”گوہر نے بھی اُسی طنزیہ لہجے میں جواب دیا۔
”ستی ساوتری نہیں ہوں تو بُری عورت بھی نہ سمجھو۔” فوزیہ نے فوراً کہا۔
”تمہاری جیسی عورتیں کیسی ہوتی ہیں میں خوب جانتا ہوں۔ زیادہ پارسائی دکھانے کی ضرورت نہیں۔ اگر عزت دار تھی تو گھر سے بھاگ کر کیوں آئی؟ گھر بیٹھی رہتی۔ تمہاری وجہ سے ایک بڑی ڈیل میرے ہاتھ سے نکل گئی۔” گوہر طنزیہ انداز میں لفظ چبا چبا کر بولا۔
”کیا مطلب؟”فوزیہ نے حیرت سے چلاتے ہوئے پوچھا۔
”بچی نہیں ہو تم، تم نے اس کے ساتھ جو کیا، کیا اس کے بعد وہ ہمیں کوئی اشتہار دے گا؟ اس کی اگلی پراڈکٹ کی ماڈل تم ہوتیں، میں تمہیں اتنا بے وقوف نہیں سمجھتا تھا فوزیہ بتول۔”گوہر مٹھیاں بھینچ کر چلایا۔
”ہاں واقعی میں اتنی عقل مند نہیں ہوں جتنا تم سمجھ رہے ہو، مگر حلال اور حرام سے ضرور واقف ہوں۔”فوزیہ نے طنزیہ انداز میں جواب دیا۔
”گھر سے بھاگی ہوئی ایک عورت کے منہ سے حلال اور حرام کا لفظ سن کر بہت اچھا لگا۔ اب تم مجھے یہ بتانا چاہ رہی ہو کہ تم بہت پارسا ہو۔” گوہر زور دار قہقہہ مار کر ہنسا اور طنز یہ انداز میں بولا ۔
فوزیہ اس کی بات سن کر ایک لمحے کے لیے ہکلائی پھر ہمت کر کے بولی۔”ہر غلط کام کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور میں نے آج تک وہ حد پار نہیں کی۔”
”تمہاری وجہ سے میرا کلائنٹ چلاگیا،اس کے لیے میں تمہیں معاف نہیں کروں گا۔” گوہر غصے سے پھنکارتے ہوئے بولا۔
”جاؤ بہت دیکھے میں تم جیسے دھمکیاں دینے والے۔ مجھے پتا ہوتا کہ تم اتنے گھٹیا ہو کہ عورتوں کی ڈیل کرتے ہو، تو میں کبھی تمہارے ساتھ کام نہ کرتی۔”فوزیہ بھی زخمی شیرنی کی طرح دھاڑی۔
”فوزیہ بتول زبان سنبھال کر بات کرو،ورنہ…”اس نے فوزیہ کو تھپڑ مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا۔
فوزیہ نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھاما اور ہاتھ زور سے جھٹکتے ہوئے بولی۔”یاد رکھنا گوہر! فوزیہ بتول نے کبھی اپنے شوہر کی مار نہیں کھائی تو دنیا کا کوئی مرد مجھ پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتا ۔”
گوہر لڑ کھڑا کر رہ گیا اور خجالت چھپاتے ہوئے بولا۔” جہنم میں جاؤ تم اور دفع ہو جاؤ یہاں سے۔پھر مجھے کبھی یہاں دکھائی مت دینا۔”
فوزیہ مڑ کر دروازے کی طرف چلی گئی اور بولی۔” جارہی ہوں، مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے ایسے گھٹیا انسان کے ساتھ کام کرنے کا۔ کبھی نہیں آؤں گی اب۔”
”جاؤ،جاؤ! بہت دیکھی ہیں بڑی بڑی باتیں کرنے والی جو کہتی ہیں کہ غلط کام نہیں کروں گی،انہیں آخر دوبارہ آنا ہی پڑتا ہے اور تم بھی آؤ گی۔میری بات یاد رکھنا فوزیہ بتول ضرور آؤ گی، یہ میرا دعویٰ ہے۔یہاں بیٹھ کر تم ایڈ کا کنٹریکٹ سائن کرو گی مگر اپنی نہیں میری شرائط پر۔”گوہر نے بہت غصے سے اپنی بات پر زور ڈالنے کے لیے ہاتھ سے اشارہ کیا۔
”ایسا دن کبھی نہیں آئے گا فوزیہ بتول کی زندگی میں،یاد رکھنا۔”فوزیہ نے ایک عزم سے کہا۔
” جاؤ زمانے کی ٹھوکریں کھاؤ گی تو واپس ضرور آؤ گی تم بھی،یاد رکھنا۔”گوہر نے انگلی اُٹھا کر اسے وارننگ دی۔
”دیکھیں گے۔” یہ کہتے ہوئے فوزیہ نے طنزیہ انداز میں کہہ کر زمین پر تھوکا اور درواز ے کی جانب بڑھی پھر پلٹ کر غصے سے ایک نظر گوہر پر ڈالی اور دروازہ زور دارطریقے سے بند کرتی باہر نکل گئی۔
٭…٭…٭





وہ روتے ہوئے اپنے کمرے میں داخل ہوئی اور ایک ایک کرکے اپنا سامان اکٹھاکیا۔ وہ روتے روتے بُڑبُڑا بھی رہی تھی۔”اف یہ میں نے کیا کرلیا؟ اُس نے کیا سمجھا مجھے کہ میں ایک بدچلن عورت ہوں۔ ایسے دھندے کرکے روزی کماؤں گی؟” بیگ کی زپ بند کرتے ہوئے وہ رُک کر سوچنے لگی۔” نہیں کبھی نہیں، کبھی نہیں۔ میں محنت کروں گی، لیکن اس وقت میں جاؤں کہاں؟ایسے گاؤں بھی نہیں جاسکتی۔ اس طرح جاؤں گی تو سارے گاؤں میں باتیں بنیں گی۔ ”وہ زوردار آواز میں چیخ چیخ کر روپڑی اور دونوں بازوؤں میں اپنا چہرہ چُھپا لیا۔”اف میں کیا کروں؟ یہ میں نے کیا کرلیا؟ فوزیہ بتول کیا کرلیا؟اپنا بچہ، اپنا گھر سب قربان کردیا، اس بے مول شوق کی خاطر؟”
اس نے اسی وقت گوہر کی دی ہوئی جگہ چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا اور اپنا سامان پیک کرنے لگی۔دل میں خیال آیا کہ گوگی کو بتادوں لیکن پھر رک گئی،وہ خاموشی سے یہ جگہ چھوڑنا چاہتی تھی۔اپنے دو بیگ اٹھائے گھر سے نکلی آئی۔اب اس نے ماؤف دماغ کے ساتھ چلچلاتی دھوپ میں سڑک پر چلنا شروع کردیا۔ جانا کہاں تھا، وہ یہ نہیں جانتی تھی بس نکل پڑی۔ اچانک لب ِسڑک اُسے ایک عمارت نظر آئی جس کی پیشانی پر جلی حروف میں دارالآمان لکھا تھا۔ وہ ایک دم رک کر عمارت کو دیکھنے لگی ۔
فوزیہ کچھ سوچتے ہوئے دارالآمان میں داخل ہوگئی۔ دارالامان کی مالکن نے فوزیہ کو سر سے پاؤں تک دیکھا۔
”مجھے یہاں رہنے کے لیے جگہ مل سکتی ہے؟” فوزیہ نے مالکہ سے پوچھا۔
”تمہارے حلیے سے تو نہیں لگ رہا کہ تم ضرورت مند ہو، کہیں بھاگ کر تو نہیں آئیں؟” مالکن نے پر تشویش انداز میں سوال کیا۔
فوزیہ نے کچھ سوچتے ہوئے ٹھہر ٹھہر کر جواب دیا۔” نہیں جی!میں گاؤں سے ہوں لیکن تھوڑا پڑھی لکھی ہوں۔ میرے میاں نے ایک دن مجھے بہت مارا اور طلاق دے دی تو میں شہر آگئی۔یہاں کچھ کام وام کرلوں گی۔”
” اور پھر کہاں رہیں؟”مالکن نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
فوزیہ نے کچھ سوچا اورسچ چھپانے کا فیصلہ کیا۔” وہ جی… وہ جی ایک دوست کے پاس۔”
”تو اب اُسے کیوں چھوڑا؟” مالکن نے پھر استفسار کیا۔
” اُس کا میاں مجھ پر نظر رکھتاتھا تو میں اس کا گھر چھوڑ آئی۔”فوزیہ نے جھجکتے ہوئے پھر جھوٹ بولا۔
”جس حلیے میں تم ہو اس کے بعد تو دنیا کا پارسا سے پارسا آدمی بھی تم پر نظر رکھے گا، لگتا ہے تازہ تازہ فیشل کروایا ہے۔” مالکن نیبہت غور سے اس کے کیوٹکس سے سجے ہاتھ، براؤن رنگے بال اور چہرے پر ہلکا ہلکا میک اپ دیکھتے ہوئے پوچھا۔
” جی آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ میری اسی دوست کا پارلر بھی تھا۔ اسی لیے اس کے پاس کام کرنے لگی تھی۔ ساتھ ساتھ یہ کام سیکھ بھی لیا۔”فوزیہ نے پھر ایک جھوٹ بولا۔
”تمہارے شوہر نے تمہیں کیوں چھوڑا؟ کہیں تمہارے کردار کا مسئلہ تو نہیں تھا؟”مالکن نے پھر تشویش کا اظہار کیا۔
فوزیہ تھوڑا تلخ سا ہوئی۔ ”نہیں جی کریکٹر لیس نہیں ہوں میں۔آپ بتائیں جی لوگوں کو جو عورت اچھے حلیے میں رہے اورخوش نظر آئے وہ کریکٹر لیس کیوں لگتی ہے؟ ”
مالکن نے بھنویں اُچکا کر اس کی بدتمیزی کو ٹوکا۔ ”تم زبان دراز بھی لگتی ہو۔ ویسے یہ شہر ہے یہاں کوئی کسی کی نہیں سنتا۔ ہر باتsmartly dealکرنا پڑتی ہے۔ زبان چلانے اور خود کو کچھ سمجھنے والی عورتیں یہاں اکثر ناکام رہتی ہیں۔”
”جی میں تو ایسے ہی بات کرتی ہوں، کسی سے نہیں ڈرتی۔ گاؤں میں بھی سب مجھ سے ڈرتے تھے۔” فوزیہ نے کندھے اچکاتے ہوئے بے پروائی سے جواب دیا۔
دارالآمان کی مالکن اسے غصے سے جھاڑتے ہوئے بولی۔
”یہ گاؤں نہیں شہر ہے۔یہاں کے طور طریقے بالکل الگ ہیں۔سب کی ماننا اور پھر اپنی منوانا پڑتی ہے۔”
” جی آپ کہہ تو ٹھیک کہہ رہی ہیں، لیکن یہ بتائیں مجھے یہاں جگہ مل جائے گی؟” فوزیہ نے جیسے مصلحتاً ہار مانتے ہوئے کہا۔
” ہاں ٹھیک ہے تمہیں راحیلہ کے ساتھ تمہارے کمرے میں بھیجتی ہوں۔ راحیلہ انہیں کمرا نمبر تین کی عورتوں کے پاس لے جاؤ۔”مالکن نے کچھ سوچنے کے بعد ایک عورت سے کہا۔
پاس کھڑی راحیلہ نے سر جھکایا۔ ”جی باجی بہتر۔” فوزیہ سر جھکائے اس کے ساتھ چل پڑی۔ مالکن اسے جاتے ہوئے بہت غور سے دیکھتی رہی جیسے اسے اس کی چال سے پرکھ رہی ہو۔
دونوں بیگ تھامے فوزیہ کمرے میں داخل ہوئی اور جیل نما کمرے کا جائزہ لینے لگی۔ ایک کونے میں ایک گندا سا گدا بچھا تھا۔ راحیلہ نے فوزیہ کی طرف دیکھتے ہوئے گدے کی جانب اشارہ کیا جیسے کہنا چاہ رہی ہو یہ تمہارا ٹھکاناہے۔ ساتھ ہی چند گدے اور پڑے تھے جن میں عورتیں بیٹھی گپیں ہانک رہی تھیں جو فوزیہ کو دیکھ کر یک دم چپ ہوگئیں اور اس کا حلیہ دیکھ کر آنکھوں آنکھوں میں ایک دوسری کو اشارے کرنے لگیں۔
راحیلہ نے گدے سے ملحق الماری کی طرف اشارہ کیا اور بولی۔
” اپنا سامان اس میں رکھ لو اور کسی چیز کی ضرورت ہے تو صبح ملے گی۔”
”اچھا ٹھیک ہے بس ایک چادر مل جائے اس پر بچھانے کے لیے کافی ہے۔”فوزیہ نے گدے پر نظر ڈالی اور کہا۔
”او ہو اب فلم سٹار بھی اس جگہ آنے لگیں، بڑا نخرہ ہے اس میں۔لگتا ہے کوئی ڈراما شوٹ کروانے آئی ہے۔” پاس بیٹھی ایک درمیانی عمر کی شاطر سی عورت اس کی فرمائش سن کر بولی۔
”او کہاں سے آئی ہے تو؟”ایک اور عورت نے رعب دار آواز میں پوچھا۔
”گاؤں سے آئی ہوں۔” فوزیہ نے اسے دیکھے بغیر جواب دیا۔
”لگتا تو نہیں تیرے حلیے سے۔”پہلے والی شاطرعورت نے طنزاً کہا۔
”تو کہاں سے آئی ہے؟” فوزیہ نے الٹا اس سے پوچھا۔
”میں تو شہر کی ہوں، میرے میاں نے چھوڑ دیا تو یہاں آگئی۔”عورت نے جواب دیا۔
”لگتی تو نہیں شہر کی، اتنا گندا حلیہ رکھے گی تو شوہر نے تو چھوڑنا ہی ہے۔”فوزیہ نے روکھے اور طنزیہ لہجے میں جواب دیا۔
”اے !زبان سنبھال کر بات کر۔” عورت نے غصے سے کہا۔
”یاد رکھنا طنز کا جواب صرف طنز ہوتا ہے۔ نخرہ صرف ان کا ہوتا ہے جو اپنے نخروں کو سنبھالنا جانتے ہوں، تم بھی اپنے کام سے کام رکھو۔”فوزیہ نے انگلی اٹھا کر وارننگ دی۔
” اچھا جی! پانی میں رہ کر مگرمچھوں سے بیر تجھے مہنگا پڑے گا۔”دوسری عورت نے طنزیہ انداز میں کہا۔
فوزیہ نے ایک کپڑے سے گدا جھاڑا اور برملا کہا۔”مجھے کسی چیز کی پروا نہیں۔ تم اپنے کام سے کام رکھو اور مجھے میرا کام کرنے دو۔” یہ کہہ کر اُس نے بیگ سے ایک دوپٹا نکال کر گدے پر بچھایا اور لیٹ گئی۔
صبح اس کی آنکھ کھلی تو دیکھا تقریباً سب سو رہے تھے۔ اس نے بیگ سے برش اور ٹوتھ پیسٹ نکالا اور باتھ روم کی طرف چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد واپس آئی تو بیگ کھلا پڑا تھا اور اس میں سے کافی چیزیں باہر بکھری ہوئی تھیں۔ وہ حیرانی سے سب کو دیکھنے لگی۔ سب ہی سو رہے تھے تو پھر بیگ میں سے سامان کس نے نکالا۔ اُس نے سامان چیک کیا تو کافی چیزیں کم تھیں وہ سر تھام کربیٹھ گئی۔
دوپہر کے وقت سب ایک کمرے میں کھانا کھا رہی تھیں۔ ہنسی مذاق بھی چل رہا تھا۔ ایک تھالی اور کٹوری سب کے آگے رکھ دی گئی جس میں دال اور دو چپاتیاں تھیں۔ اس نے تھالی اُٹھا کر دیکھی اور بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کیا۔ دال بہت پتلی تھی مگروہ خاموشی سے کھانا کھا نے لگی۔ایک عورت جو شکل سے سیدھی سادی لگ رہی تھی، اس کے پاس آکر بیٹھ گئی اورسرگوشی سے پوچھا۔
”بھاگ کر آئی ہو؟”
فوزیہ نے اس کی طرف دیکھ کر اثبات میں سر ہلادیا۔
” کیوں؟ ” اس عورت جس کا نام رعنا تھانے سوال پوچھا۔
”شوہر مارتا تھا، ایک دن اس نے طلاق دے دی،تو شہر آگئی۔”فوزیہ نے آرام سے جواب دیا۔
” کیا ماں باپ نہیں ہیں؟ ”رعنانے ایک اور سوال کیا۔
” ماں باپ، بہن بھائی سب ہیں۔ ”فوزیہ نے رسان سے جواب دیا۔
”تو ان کے پاس کیوں نہیں گئیں؟” رعنا نے حیرت سے پوچھا۔
” کچھ بننا چاہتی تھی۔ وہ تو دوبارہ شوہر کے پاس بھیج دیتے،پھر مار کھاتی طلاق لیتی اور آجاتی، یہ سلسلہ چلتا رہتا۔ میں نے سوچا راستہ بدل کر دیکھو۔”
”پھر کیا ملا؟”رعنا سوالیہ انداز میں پوچھا۔
”ابھی تک کچھ نہیں مگر حاصل کرلوں گی، مجھے یقین ہے۔”فوزیہ نے بہت اعتماد سے کہا۔
”یہاں رہ کر؟”رعنا نے اچنبھے سے سوال کیا۔




Loading

Read Previous

گھوڑا، ہرن اورشکاری

Read Next

باغی — قسط نمبر ۴ — شاذیہ خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!