اس نے پیار ہی اتنا دیا ان دنوں میں، بچے تو پیار کے بھوکے ہوتے ہیں۔”ماں نے بیٹی کو پیار سے دیکھتے ہوئے کہا۔
” بھائی میں ایک بات سوچ رہی ہوں۔”راجدہ نے کچھ سوچتے ہوئے عابد سے کہا۔
” کیا؟”عابد سوالیہ انداز میں پوچھا۔
”اگر فوزیہ واپس نہ لوٹی تو؟”راجدہ کے لہجے میں تشویش تھی۔
”وہ اب کبھی واپس نہیں آئے گی۔”عابد نے پورے یقین سے جوا ب دیا۔
” تو اس بچے کا کیا ہوگا؟تو نے سوچا کبھی۔”راجدہ نے بچے کو پیار کرتے ہوئے پوچھا۔
عابد نے بچہ اس کے ہاتھ سے لیا اور اس کے ماتھے پر پیار کیا۔
”کیا ہوگا ،میرا بیٹا ہے،اس کے لیے دوسری شادی کروں گا۔”
” لیکن اگر دوسری ماں نے اسے اتنا پیار نہ دیا؟”راجدہ نے ایک اور سوال پوچھا۔
”او! وہ وقت آنے پر دیکھا جائے گا۔ ”عابد نے بے پروائی سے جواب دیا۔
”دوسری ماں دوسری ہی ہوتی ہے، بھائی میرا بھی سوچ۔”راجدہ نے عجیب سے لہجے میں کہا۔
” کیا؟”عابد کو کچھ سمجھ نہ آیا۔
” اگریہ تو مجھے دے دے تو؟”راجدہ نے کہا۔
عابد نے بچہ اس کی گود میں واپس دے دیا اور بولا۔
”یہ تیرا ہی ہے،تو ہی اسے ماں بن کر سنبھال رہی ہے۔”
” نہیں بھائی تو اسے پورا پورا میرے نام لکھ دے۔”راجدہ نے عابد کا ہاتھ پکڑکر بہت مان سے کہا۔
”کیا مطلب؟”عابد اس مطالبے پر حیران رہ گیا۔
” میرا میاں کہہ رہا تھا کہ تو کتنا ہی پیار کرلے، اگر اس کی ماں دوبارہ آگئی تو وہ لے جائے گی۔ تو اسے مجھے لکھ کر دے دے۔”راجدہ نے تشویش سے کہا۔
” ارے یہ تو ہے ہی تیرا تو بتا کیا لکھنا ہے، ابھی لکھ دیتا ہوں۔”عابد نے بہت آرام سے کہا۔
”سچی بھائی؟ تو اسے مجھے دے دے گا،پھر میں کاغذات تیار کروا لوں؟”راجدہ نے خوشی سے کہا۔
”ہاں ہاں کروالے لیکن میرا بیٹا تیرا ہی ہے تو فکر مت کر۔” دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا اُٹھے۔
٭…٭…٭
ریحان کے ساتھ اس نے جہاں اور بہت کچھ سیکھا وہاں اس کی انگلش بھی بہت بہتر ہوگئی۔وہ وقتاً فوقتاً اسے اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے کے طریقوں کے علاوہ انگلش بھی سکھاتا رہا۔وہ میٹرک پاس تو تھی ہی،اس لیے بہت آسانی سے سب کچھ سیکھ رہی تھی۔
ایک دن فوزیہ شدید ڈپریشن میں رو رہی تھی۔ ریحان اس کے پاس بیٹھا تھا۔ وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولا۔
”دیکھو پریشان نہ ہو، سب ٹھیک ہو جائے گا۔”
”اگر میں جلد مشہور نہ ہو پائی تو گھر جا کر کیا منہ دکھاؤں گی۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے، میرا ڈپریشن بڑھ رہا ہے،رات کو نیند نہیں آتی۔”فوزیہ نے آنسو صاف کرتے ہوئے جواب دیا۔
”کچھ نہیں ہوتا، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ہماری فیلڈ میں نیند نہ آنے کی بیماری تو بڑی اچھی سمجھی جاتی ہے، لیکن تمہیں واقعی اس وقت سکون کی ضرورت ہے۔”ریحان نے اسے بہت پیار سے سمجھایا۔
”میں تین راتوں سے جاگ رہی ہوں، کب تک بغیر کام کے بیٹھی رہوں گی؟”فوزیہ بے چینی سے بولی۔
ریحان نے جیب سے گولیوں کا پیکٹ نکالا اوراس میں سے دو گولیاں نکال کر فوزیہ کو دیتے ہوئے کہا۔
” ارے تم فکر مت کرو، جلد ہی تمہارے لیے کام ہی کام ہوگا۔ابھی تمہارا سونا بہت ضروری ہے بے بی۔ تم ایسا کرو کہ یہ دو گولیاں کھاؤ اور سکون کی نیند سو جاؤ۔”
”یہ کیسی گولیاں ہیں؟”فوزیہ نے گولیاں ریحان کے ہاتھ سے لیتے ہوئے پوچھا۔
”یہ جادوئی گولی ہے۔”ریحان نے مسکرا کر جواب دیا۔
” کون سی گولی۔” فوزیہ کو کچھ سمجھ نہ آئی۔
ریحان نے پاس آکر اسے پانی کا گلاس تھمایا ۔
”جادوئی گولی، اسے کھا کر تم پرستان کی پری بن جاؤ گی۔ اُڑنے لگو گی۔ سب غم سب فکر بھول جاؤ گی اور کچھ یاد نہیں رہے گا۔”
” کاش میں پری بن سکتی۔”فوزیہ گولی نگلتے ہوئے بڑبڑائی۔
ریحان نے گولی والا پیکٹ اس کے پاس رکھا اور بولا۔
” یہ لو سنبھالو اور اب تم سونے کے لیے لیٹ جاؤ اور بس اچھے اچھے خیال ذہن میں لاؤ ۔”
”چلو ٹھیک ہے تم جاؤ اب۔”فوزیہ بستر پر بیٹھتے ہوئے بولی۔
”چلو میں نکلتا ہوں، کل ملاقات ہوگی۔ دروازہ بند کرلینا پھر سونا۔” ریحان اس کے گال تھپتھپاتے ہوئے بولا۔
”ہاں ٹھیک ہے۔میں کر لوں گی، تم فکر مت کرو۔” فوزیہ نے کہا،پھر اُٹھ کر دروازے تک آئی اور دروازہ بند کرکے دوبارہ بستر پر لیٹ گئی اور آنکھیں بند کرلیں۔
نیند ابھی بھی اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی لیکن آہستہ آہستہ نیند کی پری اس پر مہربان ہو ہی گئی۔
٭…٭…٭
چودھری صاحب کی پنچایت میں سب لوگ بیٹھے تھے اور فوزیہ کے بارے میں پوچھ گچھ ہورہی تھی کہ وہ گھر سے کیوں گئی۔چودھری صاحب نے قدرے غصے سے عابد کی طرف دیکھا اور اس سے پوچھا۔ان کے انداز میں بہت درشتی تھی جسے عابد نے اندر تک محسوس کیا۔
” دیکھ پتر! میں نے کہہ دیا تھا وہ میری دھی ہے اسے کچھ نہیں ہونا چاہیے پھر تو نے اس پر ہاتھ کیوں اُٹھایا۔”
عابد نے ہاتھ جوڑتے ہوئے جھوٹ موٹ آنسو پونچھے اور بولا۔
”مجھے میری ماں کی قسم چودھری صاحب! جو اس پر میں نے کبھی ہاتھ بھی اٹھایا ہو۔ ماں سے زیادہ کوئی عزیز نہیں ہوتا۔وہ خود ہی میرے ساتھ زبان چلاتی تھی۔ذرا ذرا سی بات پر لڑتی تھی، ضد کرتی تھی کہ میں نے ٹی وی پر جانا ہے، مجھے شہر لے کر چل۔اب آپ ہی بتاؤچودھری صاحب میرا چھوٹا سا بچہ اور ماں ہے میں سب کیسے چھوڑ کر اس کے ساتھ شہر چلا جاتا؟”
عابد کی بات سن کر فوزیہ کا باپ غصے سے کھڑا ہو گیا،اس کا جسم لرز رہا تھا۔”او یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ یہ بھی اس کے ساتھ بہت بدتمیزی کرتا تھا۔مارتا پیٹتا تھا اسے، ایک بار وہ مار کھا کر میرے پاس بھی آئی لیکن میں نے ہی اپنی بیٹی کو سمجھا بجھا کر واپس بھیج دیاتھا۔”
چودھری فوزیہ کے باپ کی بات کاٹتے ہوئے عابد سے مخاطب ہوا۔
”آخری بار کیا ہوا تھاجو تو نے اُسے مارا؟”
”وہی بتا رہا ہوں چودھری صاحب کہ اس نے مجھ سے کہا کہ میں نے شہر جانا ہے۔اشتہار میں کام کرنا ہے،اب بتاؤ چودھری صاحب میں اس کی بات کیسے مان لیتا؟”عابد نے بات بگڑتی دیکھ کر گڑگڑاتے ہوئے جواب دیا۔
فوزیہ کا باپ چودھری صاحب کے سامنے آگیا اور ہاتھ جوڑ کر بولا۔”وہ شہر میں ہی ہے چودھری صاحب۔ اس سے کہیں اس کی بیوی ہے،ڈھونڈ کر لائے میری بیٹی کو۔”
” میں نے فون کیا تھا اس نے فون بھی نہیں اٹھایا میرا۔”عابدنے اپنی جان بچاتے ہوئے کہا۔
”او تیری بیوی ہے تو ڈھونڈ کر لا اُسے۔مجھے نہیں پتا مجھے لڑکی چاہیے ہر حالت میں ۔تم دونوں سُن لو لڑکی کا پتا کرواؤ اور شہر جا کر ڈھونڈوکیوں کہ اس کا ذمہ میں نے لیا تھا۔”چودھری صاحب نے عابد کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔
”جو حکم چودھری صاحب! میں پھر اس سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں، لیکن وہ میرے ساتھ رہنے پر تیار نہیں۔”عابد سر جھکا کر بولا۔
” او تو پھر بھی کوشش تو کر،بیوی ہے تیری۔کیاتو ایسے ہی چھوڑ دے گا اس کو؟”چودھری صاحب کا غصہ کم نہیں ہو رہا تھا۔
”جو حکم چودھری صاحب! میں کوشش کرتا ہوں۔”عابد نے جواب دیا۔
”کوشش نہیں مجھے حل چاہیے۔ جلد از جلد تو اس سے بات کر اور لے کر آ۔”چودھری صاحب نے حکمیہ لہجے میں کہا۔
” جی چودھری صاحب تہاڈا حکم سر آنکھوں پر۔” عابد سر جھکائے ہوئے ادب سے بولا۔
پنچایت میں موجود لوگوں کے چہروں پر بہت غصہ تھا جسے عابد بھی محسوس کر رہا تھا۔
٭…٭…٭
فوزیہ چائے کا کپ اپنے سامنے رکھے صوفے پر بیٹھی خیالوں میں گم تھی کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی۔ وہ اپنے خیالوں سے چونکی اورکال ریسیو کر کے تھکے تھکے انداز میں فون اُٹھایا اور سکرین پر چمکتا نمبر دیکھ کربولی۔
”سلام ابا،بول کیسے فون کیا؟”
فوزیہ کے باپ نے کوئی تمہید باندھے بغیر اس پر چڑھائی کردی۔
”دیکھ فوزیہ!چودھری صاحب بہت ناراض ہیں تیرے اس طرح شہر آجانے پر،تو فوراً واپس آجا۔”
فوزیہ نے باپ کی پوری بات سن کر کچھ سوچا اور بولی۔
” ابا تو چودھری صاحب کو میرا سلام دینا اور کہناکہ اب فوزیہ کچھ بن کر ہی گاؤں واپس آئے گی،لیکن تو فکر مت کر اگر کچھ نہ بن سکی توتجھ پر بوجھ بننے کے لیے واپس نہیں آؤں گی۔”
”دیکھ توجذباتی باتیں چھوڑبس ایک بارچودھری صاحب سے مل لے وہ تیرے مسئلے کا حل نکال لیں گے، وہ کہہ رہے ہیں دونوں کو سمجھا بجھا کر…”
فوزیہ بات کاٹتے ہوئے بولی۔
”ابااس مسئلے کا حل صرف میں ہی نکال سکتی ہوں اور کوئی نہیں نکال سکتا،اگر کوئی نکال سکتا توآج میں در در کی ٹھوکریں نہ کھاتی۔”
”تو تُوواپس نہیں آئے گی؟”باپ نے قطعیت سے کہا۔
”نہیں ابا!ابھی نہیں۔”فوزیہ نے بھی اسی اندازمیں جواب دیا۔
”پھر توآج سے ہمارے لیے مر گئی فوزیہ۔”باپ غصے میں بولا۔
فوزیہ نے فون بند کر دیا اور اس کی طرف دیکھ کر لا یعنی طریقے سے مسکرائی۔
٭…٭…٭
ریحان فوزیہ کو انگلش سکھانے کے ساتھ ساتھ اسے مختلف آداب محفل، لوگوں کے ساتھ بات کرنے اور پارٹیز میں چلنے پھرنے اوراٹھنے بیٹھنے کے متعلق ہدایات دے رہا تھا۔فوزیہ بھی ایک محنتی شاگرد کی طرح سیکھ رہی تھی مگر اسے انگریزی بولنے میں مشکل پیش آرہی تھی ۔اس نے منہ ٹیڑھا کر کے کہا۔
”کتنی مشکل ہے یہ انگلش، please to meet you، اب بندہ اپنی زبان میں کہہ دے، آپ سے مل کر خوشی ہوئی۔”
”بے بی یہ تمہیں سیکھنی پڑے گی جو ہیروئن انگلش نہیں بول پاتیں ان کا بہت مذاق اُڑایا جاتا ہے، حتیٰ کہ jokes بھی بنتے ہیں ان پر۔”ریحان نے اسے قائل کرنے کی کوشش کی۔
” اسی لیے میں پوری کوشش کررہی ہوں، مگرصرف کوشش ہی کرسکتی ہوں۔” فوزیہ نے زچ ہوتے ہوئے کہا۔
”آئی ایم پراؤڈآف یو، تم بہت اچھی کوشش کررہی ہو، کوئی مسئلہ ہی نہیں تم بہت جلد اچھی انگلش بولو گی۔ کیپ اِٹ اپ بے بی،زیادہ سے زیادہ انگلش فلمیں دیکھو گی تو انگلش امپروو ہوگی۔” ریحان نے اس کا حوصلہ بڑھایا۔
” ٹھیک ہے باس!” فوزیہ سر ہلا کر دوبارہ کتاب رٹنے میں مصروف ہو گئی ۔
٭…٭…٭
کچھ ہفتوں کے بعد ہی فوزیہ مکمل ماڈل روپ میں تیار ہوکر گوہر کے پاس گئی ۔وہ اسے قطعاً پہچان نہیں پایا، فوزیہ نے ایک ادا سے ہاتھ آگے بڑھا کر کہا۔
”ہائے آئی ایم کنول بلوچ۔”
گوہر نے حیرت سے اسے دیکھا اور اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
”oh wow Fozia what a change ”
“you think so?” کنول نے اٹھلا کر کندھے اچکاتے ہوئے پوچھا۔
“oh yes baby!” گوہر نے اس کے سراپے کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔
” تو پھر کب شروع کروا رہے ہیں کام؟ so you know i am ready for my work.،اب کام چاہیے مجھے۔”کنول نے اپنا مطالبہ دہرایا۔
”کرتا ہوں بات،بس یہی تبدیلی دیکھنا چاہتا تھا، تم تو دھوم مچا دو گی، اتنی جلدی groom ہوتے میں نے چند ایک ماڈلز کو ہی دیکھا ہے۔”گوہر نے گڑبڑاہٹ سے جواب دیا۔
”مجھے خوشی ہوئی کہ آپ کو مایوس نہیں کیا۔”کنول خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی۔
”اچھاچھوڑو بتاؤ کیا پیو گی؟”گوہر نے انٹر کام کی طرف ہاتھ بڑھاتے پوچھا۔
”بلیک کافی ود براؤن شوگر۔”فوزیہ نے اطمینان سے کہا اور ساتھ ہی سگریٹ سلگا لیا۔
”reallyاتنی جلدی بلیک کافی tasteڈویلپ ہوگیا؟”گوہر نے حیرانی سے پوچھا۔
”کسی چیز کا tasteڈویلپ ہونے کے لیے سال نہیں،لمحے چاہیے ہوتے ہیں۔”فوزیہ نے اپنی طرف سے فلسفہ جھاڑا۔
”اف چندا بے بی!آج ہر بات پردھماکہ کررہی ہو تم،اتنا سرپرائز میں زندگی میں نہیں ہوا۔”گوہر اس کی کایاکلپ پر بہت حیران تھا۔
”بس دیکھ لیں، مجھ میں یہ خاصیت بھی ہے کہ میں لوگوں کو سرپرائز بھی کردیتی ہوں،یعنی اب آپ کے پاس کوئی بہانہ نہیں چھوڑا میں نے۔” فوزیہ نے بڑے فخر سے کندھے پر پڑی نادیدہ گرد جھاڑی۔
”ہاں بالکل کوئی بہانہ نہیں رہا،اب تو کام دلوانا ہی پڑے گا۔تم فکر ہی مت کرو جلد ہی ایک بڑاکنٹریکٹ تمہارے ہاتھ میں ہوگا اور تم خوش ہو جاؤ گی۔”گو ہرنے اسے تسلی دی۔
کافی آگئی تھی فوزیہ نے بڑے مزے سے کافی کاایک سپ لیا اور بڑی ادا سے کہا۔”چلیںدیکھتے ہیں کہ اب آپ اپنی بات کہاں تک پوری کرتے ہیں۔”
گوہر نے اسے آنکھوں سے ہی اثبات کا اشارہ کیا۔
٭…٭…٭
عابدنے اپنا بیٹاراجدہ کی گودمیں دیا جسے راجدہ نے خوشی خوشی پکڑ لیا۔اس کے شوہر نے ایک کاغذپر عابد کے دست خط لیے اور راجدہ کی گود سے بچے کواپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔
” بھائی تو نے مجھ پر بڑا احسان کیامُنے کو میری جھولی میں ڈال کر۔”راجدہ نے آنکھوں میں آئے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
”اوتجھ سے زیادہ میرا کون ہے اور دیکھ نا جس کی اولادہے اُسے تو کوئی پروا نہیں۔ تو نے ہی اتنے عرصے اسے سنبھالا ہے آگے بھی تو ہی سنبھال۔ اب تو یہ پکی طرح سے تیرا ہوگیا ہے۔”عابد نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے جواب دیا۔
”اماں لڈو کھا۔”راجدہ کے شوہر نے اپنی ساس کو مبارک دیتے ہوئے کہا۔
”تجھے بھی بہت بہت مبارک ہو۔ ”فاخرہ بی بی نے لڈو کھاتے ہوئے کہا۔
” بھائی اسے میں اپنے گھر لے جاؤں،تو جب کہے گا میں ملوانے لے آؤں گی۔”راجدہ نے بھائی کے منہ میں لڈو ڈالتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں ہاں اب یہ تیرا ہی ہے تو لے جا۔”عابد نے اسے بڑی آسانی سے اجازت دے دی۔
”تیرا بہت بڑا احسان ہے بھائی،یہ تحفہ دے کر تو نے مجھے خرید لیا ہے۔ ”راجدہ نے تشکر آمیز لہجے میں عابد کاہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔
” او چل جھلّی!اس میں احسان کیسا،بھائی ہی بہن کے کام آتے ہیں،چل تو لے جا اب۔”عابد نے مسکراتے ہوئے کہا۔راجدہ اور اس کا میاں ماں کو سلام کرتے ننھے ماجد کو لے کر گھر سے نکل گئے۔
٭…٭…٭
کنول بلوچ ایک سیلون میں بیٹھی لیزر سے hydro facial کروا رہی تھی۔ ریحان نے پاس بچھے صوفے پر ایک میگزین کی ورق گردانی شروع کردی۔
سیلون سے فراغت کے بعد دونوں قریب ہی موجود ایک ریستوران کھانا کھانے کے لیے آگئے۔ریحان نے اس کے آرڈر پر منگوائی سلاد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”واہ بھئی!ابھی کچھ عرصے پہلے چاولوں سے بھری پلیٹ پر ڈھیروں سالن ڈال کر کھانے والی آج یہ گھاس پھونس کتنے مزے سے کھا رہی ہے۔”
” وقت سب بدل دیتا ہے۔پہلے میں فوزیہ بتول تھی،آج میں کنول بلوچ ہوں اورمجھے بہت جلدی ہے اپنا وقت بدلنے کی۔”فوزیہ نے سوچتے ہوئے جواب دیا۔
”فوزیہ وقت اپنے وقت پر ہی بدلتا ہے۔ صرف ہمیں جلدی ہوتی ہے اور اکثر اسی جلدی ہی میں ہم سے غلطیاں ہوجاتی ہیں۔ ”ریحان نے بڑے فلسفیانہ انداز میں کہا۔
”میں کسی غلطی کے موڈ میں نہیں۔مجھے بہت جلد بہت سا کمانا ہے اور اپنے بچے کو ان سے واپس لینا ہے۔”فوزیہ نے بہت یقین اور عزم سے کہا۔
”ہاں تم اسی طرح محنت کرتی رہیں تو بچہ ایک دن تمہارے پاس ہوگا، فکر مت کرو بے بی۔” ریحان نے اسے تسلی دی۔
”بس اب میں نے اپنے بچے کے لیے ہی کام کرنا ہے۔ ڈھیروں ڈھیر کمانا ہیں۔ اُسے بڑا کرنا ہے، سوچ لیا میں نے،تم میرا ساتھ دو گے نا؟” فوزیہ نے ریحان کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔
” میں نے ہمیشہ لوگوں کا ساتھ دیا ہے۔ لوگ اپنا کام نکل جانے کے بعد مجھ سے بے وفائی کرتے ہیں، لیکن میں نے کبھی کسی سے بے وفائی نہیں کی۔ یوں سمجھو کہ ایک بے وفا کے بعد دوسرا بے وفا تیار کرتا ہوں اورلوگوں کے حوالے کردیتا ہوں۔میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہی ہوں بے بی۔”ریحان نے طنزیہ ہنسی کے ساتھ جواب دیا۔
”بہت عجیب سی باتیں کرتے ہو تم۔”فوزیہ نے مسکراکر کہا تو ریحان نے بھی محض مسکرانا ہی کافی سمجھا۔
٭…٭…٭
عابد ماں کے پاس بیٹھا اپنی شادی کی بات کررہا تھا۔اس نے فرمائشی انداز میں ماں سے کہا۔
”ماں تو روبی کے گھر میرا رشتہ لے جا۔”
” اتنی جلدی، تھوڑا وقت گزرنے دے عابد ورنہ لوگ باتیں بنائیں گے۔ ”ماں نے اسے سمجھایا۔
”اماں!لوگوں کواور کام ہی کیا ہے باتیں بنانے کے سوا،بنانے دے باتیں۔میں نے کہہ دیا تو بس جلدی سے میرا نکاح سادگی سے پڑھوا دے روبی کے ساتھ۔ اب تو مُنے کا مسئلہ بھی حل ہوگیا۔ تیرے کہنے پر میں نے وہ راجدہ کی گود میں ڈال دیا ہے۔”عابد کے لہجے میں جلد بازی تھی۔
”ہاں تو ٹھیک ہے اب تیری شادی ہوگی تو اللہ پھر تیرے گھر اولاد دے گا۔ وہ بے چاری تو عرصے سے اولاد کے لیے ترس رہی ہے۔ ساری عمر تیرا احسان رہے گا اس پر۔”ماں نے جواب دیا۔
”او! نا اماں بھائی کا بہن پر کیا احسان ہونا؟ بس میری بہن خوش رہے۔اچھا تو چھوڑ بس تو جلد از جلد میرا رشتہ لے کر جا روبی کے گھر۔ ” عابد نے اصرار کرتے ہوئے کہا۔
” اچھارک جا تھوڑا ،کرتی ہوں کچھ ۔باؤلا نہ ہو تو۔”ماں نے عابد کے سر پر ہلکا سا تھپڑ لگایا۔
٭…٭…٭
عابد جلد از جلد روبی سے شادی کرنا چاہتا تھا اسی لیے وہ روبی کو منا رہا تھا اور روبی مسلسل انکار کر رہی تھی۔
”عابد ابھی دن ہی کتنے ہوئے ہیں اُسے گئے ہوئے،لوگ کیا کہیں گے؟”روبی نے پریشانی سے پوچھا۔
” دیکھ روبی مان جا۔ تیرے لیے میں نے اس کو طلاق دی۔ تیرے لیے اپنا بچہ اپنی بہن کو دے دیا۔ اب اس سے زیادہ کیا کروں؟ جان دے دوں تیرے لیے؟”عابد نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔
”دیکھ عابد ابھی اس بات کو جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں۔ لوگ باتیں بنائیں گے۔ہم کیسے شادی کرسکتے ہیں۔”روبی نے اس کی حالت دیکھتے ہوئے قدرے سوچ کر جواب دیا۔
” مجھے کسی کی پروا نہیں،بس تو ہاں کردے۔میں اماں کو بھیج دوں گاتیرے گھر۔”عابدنے اصرار کیا۔
” تھوڑا اور وقت گزرنے دے عابد،ورنہ میرے گھر والے ہماری کہانی کو سچ سمجھیں گے۔”روبی نے نرم لہجے میں جواب دیا۔
”جو سمجھتا ہے سمجھتا رہے،میں اور انتظار نہیں کرسکتا۔تیرے بغیر مجھے اپناکمرہ کاٹنے کو دوڑتا ہے۔”عابد ہٹ دھرمی سے بولا۔
”ہائے اللہ اتنا پیار کرتا ہے تو؟”روبی نے حیرانی سے پوچھا۔