علی ضیاء نے مُسکرا کر اس کی طرف دیکھااور کہا۔”یہ اس وقت کی قیمت بالکل نہیں جو تمہارے ساتھ گزارا۔ اس لحاظ سے تو یہ بہت کم ہیں،مگر پھر بھی میرا دل چاہ رہا ہے کہ تم اس سے اپنے لیے کچھ خریداری کر لو۔ ”
فوزیہ نے مُسکرا کر اس کاشکریہ ادا کیا اور روپے احتیاط سے اپنے پرس میں رکھ لیے۔
علی ضیاء نے گاڑی روکی اور فوزیہ نے گاڑی سے اُتر کر اندر کی جانب جاتے ہوئے پلٹ کر اُسے دیکھا اور مسکرا دی۔جواباً علی ضیاء بھی اس کی طر ف دیکھ کر مسکرایا اور گاڑی آگے بڑھا دی۔
٭…٭…٭
دوسرے دن گوہر کا فون آگیا، وہ بہت خوش تھا۔
” بھئی تم نے تو کل پارٹی میں دھوم مچا دی اور اعوان صاحب بھی بہت خوش تھے۔کیسی رہی پارٹی؟ سُنا ہے بڑی دھوم رہی تمہاری۔”
” اچھا آپ کو کیسے پتا؟”فوزیہ نے حیرانی سے پوچھا۔
”ارے بھئی بڑے فون آرہے ہیں۔ سب تمہارے بارے میں پوچھ رہے ہیں کہ وہ خوب صورت سی لڑکی کون تھی۔ ” گوہر نے بڑے خوش مزاج انداز میںجواب دیا۔
” لیکن…” فوزیہ سے آگے بات نہ ہوسکی،وہ بولتے بولتے رُک گئی ۔گوہر نے فوراً پوچھا۔
” لیکن کیا؟”
”مجھے تھوڑی شرمندگی تھی۔” فوزیہ نے جھجکتے ہوئے کہا ۔
”کیسی شرمندگی؟”گوہر نے سوال کیا۔
” بس وہ لوگ جب انگلش میں بات کررہے تھے تو مجھے شرمندگی ہورہی تھی۔ مجھے اتنی اچھی نہیں آتی نا۔”
” اس کی فکر نہ کرو، وہ انتظام بھی میں نے کردیا ہے۔” گوہر نے بے پروائی سے کہا۔ ”کل ایک ایسا بندہ تمہارے پاس بھیج رہا ہوں جو تمہیں بالکل گروم کردے گا۔ تمہیں نا صرف انگلش سیکھنی ہے بلکہ اپنا حلیہ بھی تبدیل کرنا ہوگا۔بس تیار رہو ،آنے والا وقت تمہارا ہے۔ محنت کرو اور جیسا میں کہہ رہا ہوں اس پر عمل کرتی رہو۔”
”جی ٹھیک ہے۔”فوزیہ نے سر ہلا کر جواب دیا۔
٭…٭…٭
اگلی صبح فوزیہ سو کر اٹھی تو دروازے پر دستک ہوئی ۔ اس نے دروازہ کھولا توایک عورت نما مرد جس نے بہت گہرا میک اپ کیا ہوا تھا، ”ہائے!” کہتا ہوا بے باکی سے اندر داخل ہوا اور فوزیہ کے گال پر بوسہ لیا۔ یہ ریحان عرف گوگی تھا۔فوزیہ سمجھنے کی کوشش کررہی تھی کہ وہ کون ہوسکتا ہے۔
”ہائے بے بی، ہاؤ آر یو؟”
وہ بہت پریشان ہوکر اُسے دیکھنے لگی ،اتنی جسارت تو کبھی کسی نے نہیں کہ تھی کہ یوں اس کے گال کو چوم لیتا۔
”میں ریحان قریشی عرف گوگی ہوں۔بے بی مجھے گوہر نے تمہارےmake over کے لیے بھیجا ہے۔”ریحان نے اس کی پریشانی بھانپتے ہوئے کہا۔
” اوہ اچھا! بیٹھو میں واش روم سے ہوکر آتی ہوں۔” فوزیہ کو فوراًیاد آگیا کہ گوہر نے آج کسی کو بھیجنا تھا۔
تھوڑی دیربعدوہ شیشے کے سامنے کھڑی چہرہ صاف کر رہی تھی تو ریحان اس کے پاس آگیا اور انگلی سے اُس کا چہرہ چھو کر دیکھا۔
”اُف کتنی رف سکن ہے تمہاری،موسچرائزر کون سا استعمال کرتی ہو۔”ریحان نے پوچھا۔
” وہ کیا ہوتا ہے؟” فوزیہ نے حیرانی سے سوال کیا۔
”اوہ! بے بی تم واقعی بہت معصوم ہو۔”وہ زور سے ہنسا۔”ویسے کہاں سے آئی ہو؟”
”گاؤں سے۔” فوزیہ نے تھوڑا جھجکتے ہوئے جواب دیا۔
” بھاگ کر؟” ریحان نے اچانک پوچھا۔
”کہہ سکتے ہو؟ ”فوزیہ نے بے پروائی سے کہا۔
”کیوں؟پسند کی شادی کرنا تھی؟”ریحان نے ایک اور سوال کیا۔
”پسند کی شادی نے ہی تو عذاب میں ڈالا تھا۔”فوزیہ نے تاسف سے جواب دیا۔
”کیا مطلب؟”ریحان حیران رہ گیا۔
”مطلب کہ شادی ہوچکی تھی۔ طلاق دے دی اُس نے تو میں گھر سے نکل آئی۔”فوزیہ نے آرام سے بتایا۔
”ماں باپ کے گھر کیوں نہیں گئیں؟”ریحان نے تجسس سے پوچھا۔
”جاؤں گی ،مگر ابھی نہیں۔پہلے کچھ بن جاؤں ۔ابھی وہ قبول ہی نہیں کریں گے۔”فوزیہ نے ایک عزم سے جواب دیا۔
”ہاں یہ تو ہے، لیکن تمہیں محنت بہت کرنا پڑے گی اس کے لیے۔”ریحان نے کہا۔
” میں محنت سے نہیں گھبراتی، جتنی مرضی کروا لو۔ اپنے علاقے میں سب سے جی دار مشہور تھی میں۔ ایک ایک دن میں 30,30 پراندے بنالیتی تھی۔”فوزیہ نے بہت سادگی سے کہا۔
”یہاں گاؤں والے کام نہیں چلیں گے۔یہ شہر ہے یہاں کی فضا محنت نہیں کچھ اور بھی مانگتی ہے۔” ریحان زور سے ہنسا اور بڑے ذومعنی انداز میں بولا۔
” میں تیار ہوں۔”فوزیہ نے کندھے اُچکائے۔
” چلو ناشتا کرلو، پھر نکلتے ہیں، آج سے تمہاری ٹریننگ شروع۔”ریحان نے کہا اور وہ کچن کی طرف چلی گئی۔
٭…٭…٭
ریحان فوزیہ کو لے کر پہلے ایک بوتیک گیا۔وہاں سے خوب صورت ڈریس خریدا پھر ایک پارلر سے اس کا مینی کیور پیڈی کیور کروایا۔فوزیہ نے فیس پالش کے بعد ماسک اتارا تو اپنا چہرہ دیکھ کر وہ خود ہی حیران رہ گئی۔بالوں کی اسٹائلش کٹنگ نے اسے ایک بالکل نئی لُک دے دی تھی۔وہ بہت خوش نظر آ رہی تھی۔
ان کاموں سے فراغت کے بعد وہ دونوں گیسٹ روم میں بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ ریحان اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
”دیکھا کتنی خوب صورت ہوگئی ہو۔ یقین ہی نہیں آرہا وہی فوزیہ بتول ہے جو کل رف سکن اور رف بالوں کے ساتھ مجھ سے ملی تھی۔”
”مجھے توخود یقین نہیں آرہا بالکل میگزین کی ماڈلز کی طرح لگ رہی ہوں۔”فوزیہ کے لہجے میں بھی اپنے لیے بے یقینی اور خوشی دونوں کا عالم تھا۔
”تم ان سے زیادہ خوب صورت ہو۔بس تھوڑاوزن بھی کم کرنا پڑے گا اور جس دن تم نے انگلش بولنی شروع کردی تو تمہیں کام یاب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔”ریحان نے کہا۔
فوزیہ نے بے پروائی سے سامنے رکھی پلیٹ میں سے ایک بسکٹ اُٹھا کر منہ میں رکھا۔
”ہاں میں وزن بھی کم کر لوں گی تم بالکل فکر نہ کرو۔”
”کھانے پینے میں احتیاط کروبے بی، کم سے کم کھاؤ۔ گاؤں کی لڑکیاں اتنی کانشئیس نہیں ہوتیں لیکن یہاں کی لڑکیاں کھاتی نہیں،سونگھتی ہیں۔ تمہیں بھی جم جوائن کرنا پڑے گا۔ ایک ڈائٹ پلانر بھی ارینج کرتے ہیں تاکہ وزن زیادہ تیزی سے کم ہو۔”ریحان نے اسے بسکٹ کھاتا دیکھ کر ٹوکتے ہوئے کہا۔
”وہ تو میں کر لوں گی لیکن بس تم میری انگریزی ٹھیک کروا دو۔”فوزیہ نے بے بسی سیبسکٹ واپس پلیٹ میں رکھ دیا۔
”وہ فکرنہ کرو، تم جلد ہی انگریزوں سے اچھی انگریزی بولو گی۔” ریحان نے مسکراتے ہوئے اس کی ہمت بڑھائی۔
٭…٭…٭
فوزیہ واش روم سے کمرے میں داخل ہوئی تو اچانک اُس کا موبائل بج اُٹھا۔ اُس نے نمبر پر نظر ڈالتے ہوئے ٹھنڈی سانس بھری اور لائن کاٹ دی۔اس کے شوہر عابد کا فون آ رہا تھا۔پھردوبارہ اور سہ بارہ کال آئی تب بھی اس نے کاٹ دی۔ریحان نے اتنی بار اسے لائن کاٹتے دیکھا تو بول اُٹھا۔
”کیا ہواکس کا فون ہے؟ اٹینڈ کیوں نہیں کررہی؟”
”کسی کا نہیں۔”فوزیہ نے جھوٹ بولنا مناسب سمجھا۔
دوبارہ فون کی بیل بجی تو اس نے پھر فون کاٹ دیا۔فوزیہ کے چہرے پر یک دم بہت پریشانی آ گئی۔اسی پریشانی میں اس نے ریحان سے پوچھا۔
” تمہیں پتا ہے دنیا میں سب سے زیادہ قیمتی چیز کیا ہے؟ ”
”ہر شخص کے پاس چیزوں کے قیمتی ہونے کا تصور بالکل مختلف ہے۔مطلب مجھ سے پوچھا جائے تو میرے لیے قیمتی چیز محبت ہے۔مجھے سب نے آج تک صرف استعمال کیا،کبھی محبت نہیں دی،لیکن ہوسکتا ہے تمہارے لیے یہ تصور بالکل مختلف ہو۔ ”ریحان نے اس کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
فوزیہ نے اس کی بات سنی اور ہولے سے مسکرائی، پھر بولی۔
”میرے لیے وفاداری سب سے قیمتی چیز ہے۔یہ جس شخص کا فون آرہا ہے اس سے میں نے بہت سی توقعات وابستہ کی تھیں،بہت محبت کی تھی میں نے۔میری زندگی میں آنے والایہ پہلا شخص تھا،لیکن اس نے وفاداری بدلنے میں دیر نہ لگائی۔”
” کون؟ ”ریحان نے حیرت سے پوچھا۔
”میرا شوہر تھا، ایک عورت کی خاطر اس نے مجھے بہت بے مول کردیا۔”فوزیہ نے اُداسی سے جواب دیا۔
”مرد سے وفاداری کی توقع کرنے والی عورت بے وقوف ہوتی ہے۔”ریحان بہت زور سے ہنسا۔
”ہاں یہ اب پتا چلا مجھے جب میں بے وقوف بن گئی۔”فوزیہ نے خلا میں تکتے ہوئے کہا۔
ریحا ن اُٹھ کھڑا ہوا اور بولا۔
” خیر چھوڑویہ سب باتیں،کل تیار رہنا۔ رینا سے ملنا ہے۔وہ تمہیں تمہارے فیوچر کے لیے کچھ tips دیں گی۔ میں اب چلتا ہوں،ٹھیک ہے؟ بے بی اب تم سو جانا ،بے وفاؤں کے بارے میں مت سوچتی رہنا۔ بے وفاؤں کو بے وفا بن کر دکھاؤ۔ کل جب تم مشہور ہو جاؤ گی تویہی لوگ یاد کریں گے تمہیں۔”
” ہاں وہی سوچ رہی ہوں۔” فوزیہ نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا۔
”اوکے میں چلتا ہوں، بائے۔” ریحان نے کہا۔
”بائے! ” فوزیہ نے ا بھی اسی انداز میں جواب دیا۔
٭…٭…٭
فوزیہ حیرت سے اپنے آپ کو آئینے میں دیکھ رہی تھی کہ ریحان بھی پاس آکر کھڑا ہوگیا۔ اس نے اُسی حیرت بھرے انداز میں ریحان کی طرف دیکھتے ہوئے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
”یہ میں ہوں؟”
”ہاں یہ تم ہو، کیا یقین نہیں آرہا؟” ریحان نے جواب دیا۔
”میں توبالکل کسی ماڈل کی طرح لگ رہی ہوں۔”فوزیہ خوشی اور حیرانی سے بولی۔
ریحان اس کے چہرے پر آئی خوب صورت لٹ کو چھیڑتے ہوئے بولا۔
” ہاں تو اس میں حیرانی کیسی؟ ابھی تو یہ ابتدا ہے آگے آگے دیکھو، بے بی دھوم مچا دو گی۔ ایک اشتہار میں آجاؤ پوری دنیا تمہیں جاننے لگے گی۔”
”میرے سارے خواب پورے ہو جائیں گے؟”فوزیہ نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔
”بالکل جو لوگ آج تمہیں بُرا بھلا کہہ رہے ہیں،کل تم سے اپنا رشتہ بتاتے ہوئے فخر محسوس کریں گے۔” ریحان مسکراتے ہوئے بولا۔
”ایک بار صرف ایک بار میں عابد کو ضرور بتاؤں گی کہ کسی عورت کو دھوکا دینے کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ تھوڑے پیسے آجائیں میں اپنا بیٹا اُس سے چھین کر لے آؤں گی۔” فوزیہ نے شیشے میں خود کو دیکھتے ہوئے سوچا۔
”کیا سوچ رہی ہوبے بی؟”ریحان نے اسے کسی سوچ میں ڈوبا دیکھ کر پوچھا۔”اب سوچنے کا نہیں کر گزرنے کا ٹائم ہے بی بی۔ بھول جاؤ پچھلی زندگی جس میں سوائے دکھوں کے کچھ نہیں رکھا۔آگے دیکھو زندگی کتنی خوب صورت ہے۔ لوگ کتنے خوب صورت ہیںجو تمہارے لیے اپنی تمام تر بانہیں کھولیں منتظر ہیں۔ بس اب تم گوہر سے کہو کہ کوئی ایڈ وغیرہ دے۔ میری طرف سے تم اسکرین پر آنے کے لیے بالکل تیار ہو۔”
”ہاں میں نے آج بات کرنی ہے، لیکن مجھے اب تک یقین نہیں آرہا کہ یہ میں ہوں۔” فوزیہ ابھی بھی شیشے میں اپنے سراپے کا جائزہ لے رہی تھی۔
”خود پر یقین رکھو۔ جب ہمیں خود پر یقین آجاتا ہے، تو دنیا کو بھی ہم پر یقین کرنا پڑتا ہے۔” ریحان نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
” ہاں، لیکن تمہارا شکریہ کہ تم نے مجھ پراتنا کام کیا۔”فوزیہ نے شکر گزاری کے انداز میں جوا ب دیا۔
” ارے نہیں۔اس کام کے مجھے پیسے ملے ہیں۔یہ تومیراکام تھا،بس اوپر پہنچ کربھول مت جانا۔”ریحان فوراً بولا۔
” ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ اتنے بڑے شہر میں جہاں انسان کھو جاتا ہے صرف تم نے ہی تو مجھے دوستی دی۔ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ فوزیہ بتول اپنے دوستوں کو بھول جائے۔”فوزیہ اُسے دیکھ کر مسکرائی۔
ریحان نے بھی مسکراتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑ کر دروازے کی طرف جاتے ہوئے کہا۔”چلو کہیں کھانا کھاتے ہیں، مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے۔”
دونوں مسکراتے ہوئے پارلر سے باہر نکلے اور ایک ریستوران میں چلے گئے۔ریستوران میں زیادہ رش نہیں تھا،وہ دونوں بھی دروازے کے قریب ایک میز پر جا بیٹھے۔
ریحان اُسے بڑی محفلوں میں کھانا کھانے کے آداب سکھانے لگا اور چاولوں کی پلیٹ اُس کے سامنے بڑھائی۔
”اتنے سارے چاول کانٹے سے کھانا مشکل ہے۔ بندہ ہاتھ سے کھائے تو پیٹ بھی بھرے۔”فوزیہ نے منہ بناتے ہوئے کانٹا اٹھایا اور کہا۔
ریحان نے اس کا ارادہ بھانپتے ہوئے چاول کی پلیٹ واپس کھینچ لی۔
‘یہ سارے چاول نہیں کھانے،اب تم شہر میں ہو۔ٹھہرو میں ڈالتا ہوں۔” یہ کہتے ہوئے اس نے فوزیہ کی پلیٹ میں تھوڑے سے چاول ڈالے۔
”بس اتنے سے؟’ ‘ فوزیہ نے حیرانی سے پوچھا۔
”ہاں یہ بھی کھانے ہی ہیں، سونگھنے نہیں ہیں۔”ریحان نے مذاق کرتے ہوئے جواب دیا۔
فوزیہ نے تھوڑے سے چاول دیکھ کر منہ بنایا اور بولی۔
” اس سے میرا پیٹ نہیں بھرے گا۔”یہ کہتے ہوئے اس نے پلیٹ واپس رکھ دی۔
”پیٹ کس نے بھرنا ہے؟ اگر اسمارٹ ہونا ہے تو کھانے پر کنٹرول کرو۔ تمہیں پتا ہے یہ جتنی بھی ماڈلز ہیں یہ چار چار دن کھانا نہیں کھاتیں۔”ریحان نے کہا۔
”پھر کیا کھاتی ہیں۔”فوزیہ کے لہجے میں حیرانی تھی۔
” غم!”ریحان نے بھی اسی انداز میں جواب دیا۔
” وہ کیسے؟”وہ تعجب سے بولی۔
”غم اور وہ بھی ایک دوسرے کا کہ فلاں ماڈل کو وہ ایڈ مل گیا، فلاں کو یہ ایڈ مل گیا۔ بس اسی جھگڑے میں اُن کی ساری زندگی گزر جاتی ہے اور سب ایک دوسرے سے زیادہ اسمارٹ نظر آنے کی تگ و دو میں لگی رہتی ہیں۔”ریحان نے اس کی حیرت کو مد نظر رکھتے ہوئے تفصیلی جواب دیا۔
ابھی وہ یہ باتیں کرہی رہے تھے کہ فون کی گھنٹی بج اٹھی ۔ فوزیہ نے فون اٹھا کر دیکھا،ابا کا نمبر جگمگا رہا تھا۔ پھر کچھ سوچتے ہوئے اس نے فون ریسیو کرلیا۔
”ہاں ابا بول کیسا ہے؟”
”اوبے غیرت!کدھر ہے تو۔”دوسری طرف باپ غصے میں چلایا۔
”ابا شہر آگئی ہوں،اماں نے بتایا نہیں تجھے۔”فوزیہ نے بہت تحمل سے جواب دیا۔
”تو اپنے چھوٹے سے بچے کو بھی چھوڑ کر آگئی اتنی بے درد ہے تو۔”باپ غصے سے گرجا۔
”ابا اسی کی خاطر آئی ہوں، وہاں رہ کر مار کھاتی اور عابد کے آگے بھیک مانگتی توبہت جلد مر جانا تھا میں نے۔ تو دیکھنا میں آؤں گی ایک دن، لیکن اس وقت جب میں کچھ بن جاؤں گی۔”فوزیہ نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا۔
”او! زیادہ بڑی بڑی باتیں مت کر، شہراکیلی عورت کو اژدھے کی طرح کھا جاتا ہے۔” باپ نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
” اکیلی عورت کو کھاتا ہوگا ابا پیسے والی عورت کو کون کھاتا ہے۔”فوزیہ نے طنزیہ انداز میں جواب دیا۔
”اوچل زیادہ بکواس مت کر، فوراً لوٹ کر اپنے شوہر کے پاس جا۔” باپ کا غصہ کسی طور کم نہیں ہو رہا تھا۔
”کون سا شوہر جو بات بات پر طلاق دیتا ہے۔جااباتوبھی بہت معصوم ہے۔”فوزیہ کے لہجے میں اب بھی طنز تھا۔
”دیکھ فوزیہ میں کہہ رہاہوں،تواگراب نہ آئی توسن لے توآج سے مر گئی ہمارے لیے۔”باپ نے قطعیت سیکہااورفون بندکردیا۔فوزیہ فون کی طرف دیکھتی رہ گئی اور اس کی آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے۔ابا کو حالات نے کتنا تلخ بنادیا تھا۔
”مت رواُن لوگوں کے لیے جو صرف اپنے لیے سوچتے ہیں۔دیکھناجب تم کام یاب ہوجاؤپھریہی تمہارے گیت گائیں گے۔”ریحان نے اسے تسلی دی۔
فوزیہ نے آنسو صاف کرتے ہوئے سر ہلادیا۔
٭…٭…٭
فوزیہ کی ماں گھرمیں داخل ہوئی توفوزیہ کاباپ بہت غصے میں چارپائی پر بیٹھا ہوا تھا ۔ وہ فوزیہ کی ماں کو دیکھتے ہی کھڑا ہوگیا ۔
”وہ بے غیرت واپس آنے کو تیار نہیں، تیرے کہنے پر میں نے فون کیا تھا۔ تجھے ہی لاڈ چڑھ رہے تھے،اس نے صاف انکار کر دیا مجھے۔”وہ منہ بگاڑ کر چلایا۔
”کیا کہتی ہے وہ؟”ماں نے گڑبڑا کر پوچھا۔
”کہتی ہے ابامیں کچھ بن جاؤں پھر آؤں گی۔بے غیرت وہاں رہ کر کیا بنے گی، ٹھوکریں کھائے گی۔ گدھ بیٹھے ہیں وہاں اُسے نوچنے کے لیے۔خاک ڈالی ہے اس نے ہمارے سر پر۔”باپ نے کندھے پر پڑا رومال اتار کر جھاڑتے ہوئے دوبارہ کندھے پر ڈالا اورغصے سے بولا۔
”ایسا نہ بول،تیری بیٹی ہے وہ اور تو یہ بھی تو دیکھ کہ عابد نے کتنا دُکھ دیا ہے اُسے ۔ ”ماں نے تڑپ کر اسے سمجھایا۔
” اوئے مرد ایسی باتیں کرتے ہی رہتے ہیں،لیکن عورتیں ایساکرتی ہیں تو آوارہ کہلاتی ہیں توبڑی تعریف کرتی تھی نااپنی بیٹی کی ناک کٹوا دی تیری بیٹی نے۔”باپ بے پروائی اور غصے سے بولا۔
”ہائے نی فوزیہ!تیری وجہ سے تیری ماں کو کیا کیا سُننا پڑ رہا ہے۔”شوہر کی باتیں سنتے ضبط کرتے ہوئے فوزیہ کی ماں نے سر جھکا کر سوچا۔وہ بیٹی کی بھی سنتی تھی اور شوہر کی بھی،مجبور تھی کچھ کہہ نہ پاتی۔
٭…٭…٭
فوزیہ ایجنسی کے دفتر میں گوہر کے ساتھ بیٹھی تھی۔باتوں باتوں میں گوہر نے ایک پیپر فوزیہ کے آگے رکھتے ہوئے اُسے بتایا کہ یہ ایک کنٹریکٹ پیپر ہے۔فوزیہ سمجھی کسی ایڈ کا ہوگا۔
”مگر کس ایڈ کا؟” فوزیہ نے بے ساختہ پوچھا۔
”ایڈ کا کنٹریکٹ بھی بن جائے گا، لیکن یہ ایک چھوٹا سا کنٹریکٹ ہے۔پہلے یہ سائن کرو۔” گوہر نے جواب دیا اور مزید کہا۔”یہ اس بات کا کنٹریکٹ ہے کہ تم صرف ہمارے ساتھ ہی کام کرو گی۔دو سال تک کسی اور کے ساتھ کوئی ایڈ نہیں کرو گی۔”
”ہاں وہ توٹھیک ہے لیکن کوئی ایڈ بھی تو ملے،جس کے لیے تم نے بلایا تھا۔” فوزیہ نے سوالیہ انداز میں کہا۔
”مل جائے گا اتنی جلدی بھی کیا ہے؟تم ذرا اپنے آپ کو تو دیکھو ۔تھوڑا گروم کرو پھر ایڈ ہی ایڈ ہیں تمہارے لیے۔”گوہر کے لہجے میں بے پروائی کی جھلک تھی،پھر اس نے کنٹریکٹ پیپر فوزیہ کے آگے کرتے ہوئے کہا۔
”لو یہ سائن کرو،اس میں ہم نے تمہارا نام بھی تبدیل کردیا ہے اور تمہیں کنول بلوچ کا نام دیا ہے۔ کیوں کنول بلوچ ٹھیک ہے نا؟”
”جو آپ بہتر سمجھیں مجھے کوئی اعتراض نہیں۔”فوزیہ نے کنٹریکٹ پر سائن کرتے ہوئے کہا۔اسے بالکل دل چسپی نہیں تھی کہ نام کیاہے اسے صرف ایک ایڈ کی خواہش تھی۔کیا پتا نام بدل کر قسمت بھی بدل جائے یہی سوچ کر اس نے گوہر کو جواب دیا۔
”چلو مبارک ہو کنول بلوچ۔اب باقاعدہ طور پر تم ہماری ایمپلائی ہو، ہماری ذمہ داری ہو۔ بہت جلد اسی طرح ایک ایڈ کا کنٹریکٹ سائن کرو گی۔”گوہر نے خوشی سے کہا۔
”ان شاء اللہ!اچھا اب ڈرائیور سے کہیں مجھے واپس چھوڑ آئے۔رات کافی ہوچکی ہے۔” فوزیہ نے بھی مسکرا کر جواب دیا۔
”اوکے میں ڈرائیور سے کہتا ہوں۔” گوہر نے کہا۔
٭…٭…٭
راجدہ فوزیہ کے بچے کے ساتھ کھیل رہی تھی۔پاس ہی اس کی ماں بیٹھی تھی،اتنے میں عابد آگیا اور بچے کو راجدہ کے ساتھ کھیلتا دیکھ کر خوش ہو کر بولا۔
” ارے واہ! چند دن میں یہ تجھ سے بڑا مانوس ہوگیا ہے۔ دیکھ اماں کیسے کھیل رہا ہے۔”