”ان سے کام چلے گا؟”
فوزیہ نے پیسے تھام کر گِنے اور احسان مندانہ انداز میں مُسکرا کر بولی۔” جی بالکل !بہت شکریہ۔”
” نہیں شکریے کی کیا بات ہے۔ اس فیلڈ میں لین دین تو چلتا ہی رہتا ہے۔ آج ہم دے رہے ہیں کل تم دوگی، یہ سب یونہی چلتا رہے گا، کیا سمجھیں؟”گوہر نے ذومعنی انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔
” جی سمجھ گئی۔آپ کو کبھی کسی چیز کی ضرورت ہوگی تو آپ فوزیہ بتول کو پیچھے نہیں پائیں گے۔” فوزیہ نے بھی مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
”سوچ لو،بہت بڑی بات کہہ رہی ہو۔” گوہر نے اسے آزماتے ہوئے کہا۔
” سوچ لیا جی۔ ہم گاؤں والے بات کے پکے ہوتے ہیں، زبان دے کر نہیں پھرتے۔”فوزیہ نے بڑے دھڑلے سے کہا۔
”چلیں یہ تو وقت آنے پر ہی پتا چلے گا۔ فی الحال آپ ان پیسوں سے کام چلائیں،اگر ختم بھی ہو جائیں تو ہم حاضر ہیں جتنے چاہیں گی مل جائیں گے۔”گوہر نے کہا۔
” بہت شکریہ جی!”یہ کہتے ہوئے فوزیہ نے پیسے پرس میں رکھ لیے۔
٭…٭…٭
فوزیہ سے بات ہونے کے بعد ماں بہت پریشان تھی اسی پریشانی کے عالم میں اُس نے منی سے کہا۔
” مُنی یہ تو بہت بُرا ہوا ،تیری بہن نے یہ کیا کیا؟ اچھی بھلی زندگی چھوڑ کر کوئی گھر سے اس طرح جاتا ہے۔”
” ہاں اماں لیکن عابد بھائی نے بھی تو اس کی زندگی عذاب میں ڈال رکھی تھی۔” مُنی نے بُرا سا منہ بناتے ہوئے ماں کو جواب دیا۔
” سارے مرد ہی ایسے ہوتے ہیں، اب عورتیں گھر چھوڑ چھوڑ کر جانے لگیں تو کیا ہو؟ تیری بہن نے بہت بُرا کیا مُنی بہت بُرا۔”ماں نے بہت دُکھ سے کہا۔
اسی وقت دروازے پر کھڑی اسما نے یہ ساری بات سن لی اور اندر آکر تنک کر بولی۔
” ہمیں تو پہلے ہی پتا تھا یہ کوئی نہ کوئی چاند چڑھائے گی۔ دیکھ لیا اماں اسی لیے میں اور تیرا بیٹا کہتے تھے کہ اس کو لگامیں ڈال کر رکھ،نہ جانے کس کے ساتھ گئی ہے وہ۔”
”تو زبان سنبھال کر بات کر ایسی نہیں ہے فوزیہ، وہ تو اس کے شوہر نے طلاق دے دی تو وہ غصے میں آکر نکل گئی۔”ماں نے فوراً اپنی بیٹی کا دفاع کیا۔
”اچھا اس نے آپ کوبتایا تو ہوگا کہ وہ کہاں گئی ہے؟” اسما نے بڑے طنزیہ انداز میں پوچھا۔
”ہاں جا جا اپنا کام کر مجھے معلوم ہے وہ کہاں ہے؟”ماں نے تنگ آکر جواب دیا۔
”اچھا لیکن وہ گھر کیوں نہیں آئی اماں؟”اسماپھر طنزیہ انداز میں بولی۔
”میں نے کہا نا کہ تو اپنے کام سے کام رکھ مت بول میرے معاملے میں ورنہ تجھے بھی رحیم سے کہہ کر گھر سے نکلوا دوں گی۔”ماں نے اسے دھمکاتے ہوئے کہا۔
” تیری کم عقلی ہے کہ تو ایسا کر سکتی ہے۔ تیری کسی اولاد پر تیرا اختیار نہیں،فوزیہ ہو یا رحیم۔”اسما نے مُسکرا کر طنز سے کہا۔
”ہاں تو اسی بات کا فائدہ اٹھاتی ہے اسما،تو اس وقت چلی جا میری نظروں کے سامنے سے۔” ماں نے آنکھوں میں آئے آنسو پونچھے اور بولی۔
اسما منہ بناتی ہوئی مڑ گئی اور فوزیہ کی ماں منہ پر دوپٹہ ڈالے رونے لگی۔ مُنی نے ماں کو چپ کرانے کی کوشش کی تو ماں نے اسے دھکا دے کر پرے کردیااور غصے سے بولی۔
”جا تو بھی دفع ہو منحوس،تو بھی اپنے بہن بھائیوں جیسی ہی ہے۔صحیح کہہ رہی ہے تیری بھابی تم سب بہن بھائی نمک حرام ہو۔”
٭…٭…٭
عابد گھر واپس آیاتو ماں اور بہن نے اُس سے فوزیہ کے متعلق پوچھا۔
”اماں میں نے دُکان کے آس پاس چند لوگوں سے خیر خبر لی لیکن وہ تو اپنے گھر بھی نہیں ہے۔” عابد کے لہجے میں پریشانی تھی۔
” کیا وہاں بھی نہیں ہے؟ تو پھر کہاں ہے؟تو نے کس سے پوچھا تھا؟ ”ماں نے حیرانی سے پوچھا۔
”اس کا چھوٹا بھائی ملا تھا ،وہ تو مجھ سے ہی فوزیہ کی خیر خبر پوچھ رہا تھا۔ اس کا مطلب ہے وہ وہاں گئی ہی نہیں۔” عابد نے جواب دیا۔
” ہائے وے ربا!تو کیا وہ کسی اور کے ساتھ بھاگ گئی۔” ماں نے گال پیٹتے ہوئے کہا۔
” پتا نہیں اماں لیکن وہ وہاں نہیں ہے۔”عابد نے جواب دیا۔
” بڑی کم بخت تھی،شادی کے بعد بھی آوارگی نہیں چھوڑی۔ تجھے ہی گھر لانے کا شوق تھا بھگت اب۔” ماں نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
” اماں بس آج تک اس غلطی پر پچھتا رہا ہوں۔ ایک دن شادی کے بعد سکون سے نہ رہنے دیا،کمینی۔پتا چل جائے کس کے ساتھ گئی ہے جان سے مار دوں گا۔”عابد نے اپنے بچے کو پیار کرتے ہوئے جواب دیا۔
”بھائی اب اس بچے کا سوچ ،اگر وہ واپس نہ آئی تو تیرے معصوم بچے کا کیا ہوگا؟” راجدہ نے پریشانی سے کہا۔
” کیا ہوگا؟ یہ میرا بچہ ہے اسے میں پالوں گا۔” عابدنے بہن کی گود سے جھپٹ کربچہ اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔
”تو دکان سنبھالے گا یا اس کو لیے بیٹھا رہے گا؟اماں کی بوڑھی ہڈیوں میں تو اتنا دم نہیں ہے کہ وہ اسے سنبھال سکیں۔” بہن ،بھائی اور اس کے بچے کے لیے پریشان ہو رہی تھی۔
” او پل جائے گا تو فکر کیوں کرتی ہے۔”عابد نے بے پروائی سے کہا۔
” بھائی ایک بات کہوں مانے گا؟” راجدہ نے کچھ سوچتے ہوئے بچے کو اس کی گود سے لیا اور پوچھا۔
” ہاں بول۔”اس نے حیرانی سے پوچھا۔
” چل رہنے دے پھر کبھی سہی۔” راجدہ نے بچے کو پیار کیا اور پھر کچھ سوچتے ہوئے منع کر دیا۔
٭…٭…٭
فوزیہ کے گھر والے عابد کے گھر گئے اور فوزیہ کے بارے میں پوچھا۔امام بخش نہایت غصے میں تھا۔
”اوئے عابد سچ سچ بتا کدھر ہے میری فوزیہ۔”
” ابا جی مینوں کی پتا،پرسوں مجھ سے لڑ کر نکل گئی تھی۔میں سمجھا تہاڈے کول ہوگی۔” عابد نے بے پروائی سے کندھے اچکاتے ہوئے قدرے غصے سے جواب دیا۔
” او جھوٹ نہ بک،سچ سچ بتا۔تو جانتا ہے، وہ شہر گئی ہے۔”فوزیہ کا باپ گرج کر بولا۔
” مجھے میری ماں کی قسم ابا جی! مجھے کچھ نہیں پتا، کئی دنوں سے لڑ رہی تھی کہ میں نے اشتہاروں میں کام کرنا ہے، گانا گانا ہے۔ اب تو ہی بتا اس کی یہ خواہش کیسے پوری کرتا؟ مجھے کہہ رہی تھی ایجنسی والے کا فون آیا ہے، وہ بلا رہا ہے۔ میں نے کہا آرام سے بیٹھ کر گھر سنبھال، تو ناراض ہوکر نکل گئی۔ میں سمجھا تیرے پاس گئی ہوگی۔” عابد نے تیز ی سے اپنی بات مکمل کی۔
” نہیں وہ میرے پاس نہیں آئی۔میں نے تیرے حوالے کی تھی اپنی بیٹی، مجھے تو ہی ڈھونڈ کر دے،ورنہ چل چودھری صاحب کو جواب دے چل کر ۔” امام بخش نے غصے سے کہا۔
عابد نے جھوٹ موٹ اپنے بال نوچے جیسے اسے فوزیہ کی بہت فکر ہو۔
” میں کہاں سے لاؤں،میں تو خود پریشان ہوں۔ میرے بچے کا رو رو کر برا حال ہے ۔اتنی بے غیرت ہے، اس نے تو اپنے بیٹے کا بھی خیال نہ کیا۔ مجھے اور بچے کو چھوڑ کر چلی گئی اور اب تم لوگ میرے سر پر آگئے ہو۔”
”او! زیادہ ڈرامہ نہ کر جانتا ہوں تجھے بھی۔ ٹھیک ہے تو نہ مان،اب ساری بات چودھری صاحب کے پاس ہی ہوگی۔ وہ خود ہی نکلوائیں گے تجھ سے۔”امام بخش نے عابد پر طنز کرتے ہوئے کہا۔
یہ سب دیکھتے ہوئے عابد کی ماں بیٹے کی حمایت میں آگے بڑھی۔
”تو خواہ مخوامیں میرے بچے پر گرج رہا ہے۔ وہ تو خود ہی میرے بیٹے کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی تھی اور تو میرے بیٹے کے ساتھ جھگڑا کررہا ہے۔”
”ہاں ہاں جانتا ہوں تیرے بیٹے کو بھی، کیا کیا گُل کھلاتا پھر رہا ہے۔”امام بخش نے غصے سے ہاتھ اُٹھا کر اُسے بھی لتاڑ ڈالا۔
”اے جاجا !اپنی بیٹی کے کرتوت میرے بیٹے کے سر مت لگا ۔جا اور جا کر ڈھونڈ اپنی بیٹی کو۔اُٹھ نکل یہاں سے اور چودھری صاحب کی دھمکی ان کو دینا جو تجھے اور تیری بیٹی کو نہ جانتے ہوں۔ چودھری صاحب کو پتا ہے تیری بیٹی کو گھر سے بھاگنے کا شوق ہے،پہلے بھی بھاگ چکی ہے۔”فوزیہ کی ساس نے طنزیہ انداز میں جواب دیا۔
امام بخش غصے سے لرزتا ہوا اُٹھ کھڑا ہوا اور دھمکی دیتاہوا بولا۔
” ہاں ہاں ڈھونڈ لوں گا اور تم لوگوں کو بھی دیکھوں گا، لیکن چودھری صاحب کو جواب تو دینا پڑے گا تم لوگوں کو۔”
”ہاں جاجا کر جو دل چاہے کرلے ہمیں اس کا پتا ہی نہیں تو ہم کیا کرسکتے ہیں۔”عابد نے سسر کو جواب دیا۔
امام بخش اسے گھورتا ہوا دروازے سے باہر نکل گیا۔
٭…٭…٭
گوہر فوزیہ کو فون پر بات کرتے ہوئے کسی ہائی کلاس پارٹی کے بارے میں بتا رہا تھا۔
” تیار رہنا ایک بڑی پارٹی میں جانا ہے۔ ایک صاحب کو بھیج رہا ہوں ان کے ساتھ جانا ہے تمہیں۔ ایڈ میں آنے سے پہلے تمہیں زیادہ سے زیادہ لوگوں سے میل جول رکھنا ہوگا تاکہ ایلیٹ کلاس میں مشہو ر ہو جاؤ۔”
”ہاں ٹھیک ہے۔ میں بھی یہی چاہتی ہوں، مگر یہ صاحب کون ہیں جن کے ساتھ مجھے جانا ہے؟” فوزیہ نے سوالیہ انداز میںجواب دیا۔
”یہ ملک کے ایک بڑے انڈسٹریلسٹ ہیں۔ بس ان کے ساتھ اچھا ٹائم گزارو۔ یہ بڑے لوگوں سے تمہیں متعارف کروائیں گے۔ ”
” لیکن مجھے پارٹی میں جا کر کرنا کیا ہوگا؟ ”فوزیہ نے پوچھا۔
”ارے کچھ نہیں لوگوں سے ملنا جلنا بات چیت کرنا اور بس،پریشان مت ہو،وہاں جاکر خوش رہو گی۔ وہاں فوٹو گرافرز اگر تمہاری تصویریں کھینچیں تو تمہاری اچھی اور مسکراتی ہوئی تصویر آنی چاہیے کیوں کہ کل کے اخبارات میں یہ ساری تصاویر لگیں گی۔ ”گوہر نے جواب دیا۔
” میں سمجھ گئی آپ فکر نہ کریں۔” فوزیہ نے اسے تسلی دلانے والے انداز میں کہا۔
”ٹھیک ہے،بس میرا ڈرائیور پہنچ رہا ہوگا تمہاراڈریس لے کر۔بہت اچھی طرح تیار ہونا۔” گوہر نے اسے حکم دیتے ہوئے کہا۔
” جی ٹھیک ہے۔”فوزیہ نے کہا۔
اسی وقت دروازے کی بیل بجی،فوزیہ نے آواز سن کر کان سے فون ہٹالیااور کچھ لمحوں بعد بولی۔
”میرا خیال ہے ڈرائیوردروازے پرآگیا ہے، میں دیکھتی ہوں۔”
گوہر نے گڈ نائیٹ کہہ کر فون بند کر دیا۔
فون بند ہونے کے بعد اس نے دروازہ کھولا جہاں ڈرائیور ہاتھ میں شاپر لیے کھڑا تھا۔ وہ شاپر لے کر دروازہ بند کرتی ہوئی اند آگئی ۔اس نے شاپر کھول کر دیکھا تواس میں انتہائی قابل ِاعتراض کپڑے تھے۔
” اوہ میرے ربّا میں یہ کیسے پہنوں گی؟لیکن تھوڑی دیر کی ہی تو بات ہے اور پھر ساری ماڈلز ایسے ہی کپڑے پہنتی ہیں۔فوزیہ کوئی بات نہیں تجھے آگے جانا ہے تو ایسے سمجھوتے کرنے پڑیں گے۔” اس نے گھڑی کی طرف دیکھا۔ آدھا گھنٹا رہ گیا تھا۔ اس نے سوچا اورکپڑے تبدیل کرنے واش روم میں گھس گئی۔
پندرہ منٹ کے بعد وہ تیار ہوکر آئینے کے سامنے کھڑی ہو ئی اور خود کوہر زاویے سے دیکھا۔پھر آخری بار خود پرپرفیوم اسپرے کیا اور بیگ اُٹھا کر باہر نکل آئی۔گیسٹ روم کے ریسپشن پر آکر اس نے پوچھاکہ اس کو لینے کون آیا ہے توریسپشنسٹ نے ایک باوقار سے آدمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا۔
”وہ سامنے بیٹھے ہوئے صاحب آپ سے ملنے آئے ہیں۔”وہ آگے بڑھ گئی۔
آنے والے نے ہاتھ بڑھایا تو اس نے قدرے سوچ کر اس کاہاتھ تھام لیا، لیکن انداز میں تھوڑی جھجک تھی۔
”علی ضیاء اعوان کہتے ہیں مجھے اورتم؟”
”فوزیہ بتول۔”
”گوہر نے بہت کم تعریف کی ہے تمہاری۔ ” علی ضیاء نے اس پر ایک گہری نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
”جی…” فوزیہ مسکرا کر بولی۔
”تم تو اپنی تعریف سے زیادہ خوب صورت ہو۔”علی ضیاء نے دوبارہ ایک بھرپور نظر اس کے سراپے پر ڈال کرکہا۔
فوزیہ نے آج تک ایسی بے باک تعریف کبھی نہیں سنی تھی۔وہ تھوڑا گھبرا گئی اور ایک اچٹتی سی نظر اس پر ڈال کر اتنا ہی بول سکی ۔
”جی وہ…”
علی ضیاء نے ہاتھ سے آگے کی طرف اشارہ کیا۔ ”اب چلیں؟”
” جی۔”فوزیہ نے شرمندہ ہوکر جواب دیا۔
” جی کے علاوہ تمہیں کچھ اور کہنا نہیں آتا۔”علی ضیا ء نے رک کر کہا۔
فوزیہ نے دوبارہ ”جی” کہااور مسکرا دی۔
” لگتا ہے بہت سیکھنا پڑے گا تمہیں۔” علی ضیاء نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
” کیا سیکھنا پڑے گا؟” فوزیہ نے حیرانی سے پوچھا۔
علی ضیاء نے اپنا بازو آگے کیا جیسے فوزیہ کا ہاتھ تھامنا چاہتا ہو۔ فوزیہ نے تھوڑا جھجکتے ہوئے اس کا بازو تھام لیا۔
”چلو راستے میں بتاتا ہوں۔” علی ضیاء نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
دونوں گاڑی میں بیٹھ گئے۔ علی ضیاء نے گاڑی میں بیٹھتے ہی نیرہ نور کی ایک خوب صورت غزل لگا دی۔وہ غزل سُن کر مسکرا دی۔
”کیا ہوا کیوں مسکرائیں؟” علی ضیاء نے اُسے مسکراتے دیکھ کر پوچھا۔
” یہ میرا سب سے پسندیدہ سونگ ہے۔”فوزیہ بہت اشتیاق سے بولی۔
” تمہیں میوزک پسند ہے؟” علی ضیاء نے حیرانی سے پوچھا۔
”میوزک تو زندگی ہے میری۔ اس کے بغیر تو کسی کام میں مزہ نہیں۔” فوزیہ نے بہت جذب سے جواب دیا۔
” گانا سننا پسند ہے یا گا بھی لیتی ہو۔” علی ضیاء نے اس سے سوال کیا۔
” مجھے سننا اور گانا دونوں پسند ہیں۔” فوزیہ نے مسکراتے ہوئے بتایا۔
”تو مجھے سناؤ کوئی گانا۔”علی ضیاء نے کار کی رفتار بڑھاتے ہوئے بڑے اشتیاق سے کہا۔
”آپ سنیں گے؟”
” ہاں ضرور!”
وہ آنکھیں بند کرکے گانے لگی۔ جب گانا ختم ہواتو وہ اپنی منزل پر پہنچ چکے تھے۔
”بھئی اس کے بھی قائل ہوگئے کہ اچھا گاتی ہو۔ بس تھوڑا ریاض کرو، بہت سی بڑی سنگرز کو پیچھے چھوڑ دو گی۔”علی ضیاء نے مسکراتے ہوئے کہا۔
” واقعی آپ کو اچھا لگا؟”فوزیہ نے اشتیاق سے پوچھا۔
”ہاں کیوں نہیں،بس تھوڑا سیکھ لو کسی استاد سے، اچھا گا سکتی ہو۔” علی ضیاء نے اس کی ہمت بندھائی۔
فوزیہ نے مسکراتے ہوئے اس کا شکریہ اداکیا۔
علی ضیاء نے دوسری طرف سے کار کا دروازہ کھولتے ہوئے اسے اترنے کا اشارہ کیا۔
” اب چلیں اندر؟”
وہ ”جی”کہہ کر کار سے اتر آئی اور علی ضیاء کے بازو میں بازو ڈال کر اندر کی جانب بڑھ گئی۔
٭…٭…٭
پارٹی میں پہنچتے ہی علی ضیاء نے سب سے فرداً فرداً فوزیہ کا تعارف کروا یا۔ کچھ لوگوں نے اس سے انگلش میں بات کرنے کی کوشش کی تو وہ کنفیوز ہوگئی۔ چند خواتین نے اس کے حلیے پر ناک بھوں چڑھائی۔ ایک خاتون نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے اس سے پوچھا،ہاؤآریو،توفوزیہ نے تھوڑا پریشان ہوکر علی ضیاء کو دیکھا، پھربہ مشکل بولی ok۔اس جھجک کو علی ضیاء کے ساتھ بہت سارے لوگوں نے محسوس کیا۔کچھ مسکرادیے توکچھ نے منہ بنالیا۔ میزبان خاتون نے اسے دیکھ کر بیرے کو اشارہ کیا اور اس سے پوچھا۔
?” “would u like some tea or cofee
” وہ… جی…”وہ مدد طلب نظروں سے علی ضیاء کو دیکھنے لگی۔
علی ضیاء نے فوراً اُس کی طرف دیکھااور اس کی ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہوئے کہا۔
”she likes tea ”
میزبان خاتون نے مسکراتے ہوئے ذومعنی انداز میں کہا۔
”oh! Ali you know all about her, very nice.”
”I think so”علی ضیاء نے جواب دیا اورزور دار قہقہے کے ساتھ فوزیہ کو اشارہ کیا۔
”فوزیہ آپ پلیز جا کر کچھ کھانے کے لیے لے لیں۔”
فوزیہ جلدی سے ”جی!”کہتے ہوئے آگے لگی ٹیبل کی جانب بڑھ گئی۔
علی ضیاء نے فوزیہ کے جانے کے بعد دوسری خواتین سے کہا۔
”فوزیہ نئی ہیں ماڈلنگ کی فیلڈ میں،اس لیے تھوڑا کنفیوزہیں۔بہت جلد آپ انہیں ایک بڑے ایڈ میں دیکھیں گے۔”
میزبان خاتون نے خوشی کا اظہار کیا جب کہ ایک دوسری خاتون نے ناک بھوں چڑھاتے ہوئے بولی۔
”اوہ! اچھا مگر ذرا حلیہ وغیرہ بھی ٹھیک کرواؤ ان کا،کیسے کپڑے پہننے ہوئے ہیں۔”
”فکر نہ کریں، سب سیکھ لیں گی آہستہ آہستہ۔” علی ضیاء نے بے پروائی سے اس خاتون کو جواب دیا۔
پھر سب آپس میں ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے۔ فوزیہ ٹیبل کے پاس کھڑی سوچ رہی تھی کہ اتنے مزے مزے کے کھانے ہیں پھر بھی سب لوگ اتنا کم کم کیوں اپنی پلیٹ میں ڈال رہے ہیں۔ دوسرے لوگوں کی دیکھا دیکھی اس نے بھی بہت تھوڑا سا کھانا اپنی پلیٹ میں ڈالا اور ایک کونے میں کرسی پر بیٹھ کر کھانے لگی۔تھوڑی دیر کے بعد علی ضیاء بھی اس کے پاس آکر بیٹھ گیا۔کھانے کے دوران اس سے باتیں کرتے وقت بہت اچھا کٹ گیا۔
”تم پریشان اور کنفیوز سی ہو،کیا یہاں آنا اچھا نہیں لگا؟”واپسی پرعلی ضیاء نے اس سے پوچھا۔
” نہیں بہت مزہ آیا،بس میں تھوڑا شرمندہ سی تھی کہ سب کتنی اچھی انگریزی بول رہے تھے اور میں…” فوزیہ نے قدرے شرمندگی سے جواب دیا۔
”تم بھی بول سکتی ہو اس میں کیا ہے؟”علی ضیاء نے بڑے مزے سے اس کی ہمت بندھائی۔
” اچھا وہ کیسے؟”فوزیہ نے حیرانی سے پوچھا۔
”تمہیں صرف ذرا سا گروم کرنے کی ضرورت ہے۔ ”علی ضیاء نے بے پروائی سے کہا۔
” گروم؟ ”فوزیہ کی نظروں میں استفسار تھا۔
علی ضیاء نے چٹکی بجاتے ہوئے کہا۔
” میرا مطلب ہے کسی استاد کی خدمات لینی پڑیں گی۔ تمہیں سیکھنے کی ضرورت ہے۔کچھ دن میں وہ تمہیں ماسٹر کر دے گا اور تم بھی سب کی طرح فر فر انگریزی بولو گی، مسئلہ ہی کوئی نہیں۔”
”کیا واقعی ایسا ہوسکتا ہے؟” فوزیہ نے پوری آنکھیں کھول کرجوش جذبات سے کہا۔
” بالکل، کیوں نہیں ہوسکتا؟ بہت عقل اور سمجھ ہے تمہارے پاس۔ بس اُس کو پالش کرنے کی ضرورت ہے اور تم سیکھنا بھی چاہتی ہو تو کیوں ممکن نہ ہوگا۔”علی ضیاء نے کہا اور پھر اپنے بٹوے سے کچھ نوٹ نکال کر اسے دیتے ہوئے کہا۔ ” اچھا یہ رکھ لو۔”
” یہ کیا ہے؟” فوزیہ نے حیرانی سے نوٹ تھامے اور پوچھا۔
” یہ کچھ بھی نہیں، بس اتنی اچھی شام میرے ساتھ گزارنے کا تھوڑا سا معاوضہ اور بس۔” علی ضیاء نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
”مگر یہ تو بہت زیادہ ہیں۔” اس نے روپے گنے اور حیرانی سے کہا۔