باغی – قسط نمبر ۲ – شاذیہ خان

فوزیہ نے بستر پر لیٹے مسکراتے ہوئے اپنے ساتھ گل گوتھنے سے بیٹے کو دیکھا۔اتنے میں عابد کمرے میں داخل ہوا، اُس کے چہرے سے خوشی جھلک رہی تھی۔ وہ بچے کو اُٹھانے کے لیے جھکا تو فوزیہ نے بچے کو پرے ہٹا لیا۔
”کیا ہوا؟”عابد نے حیرانی سے پوچھا۔
”پہلے یہ بتا تو کہاں سے آرہا ہے؟”فوزیہ نے غصے سے پوچھا۔
اس نے بے پروائی سے دوبارہ بچے کوپکڑنے کی کوشش کی اور بولا۔
”شہر سے، کل تجھے بتایا تو تھا۔”انداز میں بہت بے پروائی تھی۔
”تو شہر گیا تھا یا اس حرّافہ کے ساتھ رنگ رلیاں منا رہا تھا؟”فوزیہ بچے کو دور ہٹاتے ہوئے غصے سے چیخی۔
”کون؟ تو کس کی بات کررہی ہے؟”عابد نے ہکلاکرپوچھا۔
”وہی روبی اور کون؟ تو کیا سمجھتا ہے تو کچھ بھی کرتا رہے گا مجھے پتا نہیں لگے گا؟”فوزیہ نے جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا۔
”فوزیہ تیرا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا؟”عابد اب تھوڑا سنبھلتے ہوئے غصے سے بولا۔
”ہاں میرا دماغ خراب ہوگیا ہے، لیکن تو سُن لے عابد! میں جان سے مار ڈالوں گی اسے بھی اور تجھے بھی جس دن میں نے اپنی آنکھوں سے اسے تیرے ساتھ دیکھ لیا۔”فوزیہ نے چیختے ہوئے کہا۔
”خدا کی قسم کسی نے تجھے بالکل جھوٹ بتایا ہے۔ میں کسی روبی کو نہیں جانتا۔” عابد نے جھوٹ بولتے ہوئے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھااور یقین دلایا۔
”تو سچ کہہ رہا ہے؟” فوزیہ اس کی بات سن کر قدرے نرم پڑ گئی۔
”تیری قسم۔”
”میری قسم نہ کھا تو اپنی ماں کی قسم کھا۔” فوزیہ اپنے سر سے اس کا ہاتھ ہٹاتے ہوئے بولی۔
” تو ماں کو کیوں لے آئی ہے بیچ میں؟ ”عابداس کی بات سن کر پریشان ہوگیا۔
”میں کہتی ہوں تو اپنی ماں کی قسم کھا عابد۔”فوزیہ نے اپنا مطالبہ دہرایا۔
”قسم کھانے والے جھوٹے ہوتے ہیں۔ ” عابد نے یہ کہہ کر اپنی جان بچانے کی کوشش کی۔
”تو اپنی ماں کی قسم کھا کہ تو کسی روبی کو نہیں جانتا ورنہ… ”فوزیہ اس وقت کسی شیرنی کی مانند دھاڑ رہی تھی اور عابد اس کی حالت دیکھ کر گھبرا گیا۔
”او! میری ماں کی قسم میں کسی روبی کو نہیں جانتا۔”عابد نے ہاتھ جوڑ کراپنی جان بچانے کو کہا۔
فوزیہ تھوڑا سوچ کر اُسے ٹٹولتے ہوئے بولی،جیسے یقین کرنے کی کوشش کررہی ہو۔ ”تو سچ کہہ رہا ہے؟”
” بالکل سچ۔”
”لیکن مجھے یقین کیوں نہیں آرہا۔”فوزیہ نے بے یقینی کے عالم میں کہا۔
”او چھوڑ ساری بات،لا میرے بیٹے کو دے مجھے۔” عابد نے اس کی گود سے بیٹے کو اٹھایا اور اس کے گال پر پیار کرنے لگا۔ فوزیہ نے بڑے غور سے اس کا چہرہ دیکھا جیسے اسے یقین نہ آرہا ہواور دوبارہ پوچھا۔
”عابد تو پھر سوچ لے، تو نے اپنی ماں کی قسم کھائی ہے۔ سخت پکڑ ہونی ہے۔”
” تجھے یقین کیوں نہیں آرہا، میرے لیے تجھ سے پہلے بھی کوئی نہ تھا اور تیرے بعد بھی کوئی نہیں،تیری قسم۔” عابد نے جان چھڑانے والے انداز میں کہا۔
”جھوٹا!” فوزیہ نے مسکرا کر کہا اوراپنا چہرہ جھکا لیا۔عابدنے جان بچ جانے پر سکون کا سانس لیا۔
٭…٭…٭





روبی اور عابد نہر کنارے بیٹھے دنیاجہاں کی باتیں کررہے تھے ۔عابد روبی کو سونے کے کانٹے دے رہا تھا انہیں معلوم نہ تھاکہ محلے کے چند افراد نے انہیں دیکھ لیا تھا۔ وہ دونوں اس بات سے بے خبر مستقبل کے سہانے خوابوں میں گم تھے۔
”اُف عابد کتنے خوب صورت ہیں۔” روبی کے ہاتھ میںہلکے سے سونے کے کانٹے تھے۔
” تجھے اچھے لگے؟” عابد نے اشتیاق سے پوچھا۔
” بہت اچھے۔”روبی خوش ہوتے ہوئے کہا۔
” تو اپنے ہاتھ سے پہنا دے۔”کانٹے اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی۔
” دیکھ انہیں اب اپنے کانوں سے اتارنا مت۔ ” عابد نے کانٹے اس کے کانوں میں پہناتے ہوئے کہا۔
” تو نے میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری کی ہے۔ایساکبھی سوچنابھی مت، روبی انہیں اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھے گی۔” روبی نے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے بہت جذب اور خوشی سے کہا۔
”تو مجھ سے بہت محبت کرتی ہے؟ ”عابد کے لہجے میں اشتیاق تھا۔
”بہت!”روبی نے آنکھیں میچتے ہوئے جواب دیا۔
” میری قسم کھا۔” عابدنے بہت جذب سے کہا۔
” تیری قسم۔” روبی نے بھی اسی انداز میں جواب دیا ۔
” تو مجھے کبھی چھوڑ کر تو نہیں جائے گی۔”عابد نے محبت سے پوچھا۔
”ایسا سوچنا بھی مت۔” یہ کہتے ہی وہ عابد کی آنکھوں میں دیکھنے لگی اور دونوں مسکرانے لگے۔اس بات سے بے خبر کے گاؤں کی کتنی ہی آنکھیں ان دونوں کو اس حال میں دیکھ چکی ہیں۔
٭…٭…٭
فوزیہ کی ماں بچے کی پیدائش کا سن کر رہ نہ سکی اور فوزیہ کے پاس آ پہنچی۔اب وہ ہاتھ میں ایک شاپر لیے فوزیہ کے کمرے میں بیٹھی تھی اور نواسے کو دیکھ کر خوش ہو رہی تھی، پھر وہ فوزیہ کو شرمندہ شرمندہ سی شاپر دیتے ہوئے بولی۔
”اپنی اوقات کے مطابق مُنے کے چند کپڑے بنائے تھے، شاید تجھے پسند نہ آئیں اور تو اسے نہ پہنائے۔”
فوزیہ نے خوشی خوشی ایک ایک کپڑا اپنے بیٹے کے جسم سے لگا کر چیک کیا۔
” تو کیسی باتیں کررہی ہے اماں؟تو لائی ہے تو میں ضرور پہناؤں گی۔”
”تو نے اپنا شادی کا جوڑا جو نہیں پہنا تھا، تو میں سوچ رہی تھی کہ شاید یہ بھی …” فوزیہ کی ماں نے اُداسی سے کہا۔
” اماں اب اتنا بھی شرمندہ مت کر۔”فوزیہ نے شرمندہ ہوتے ہوئے جواب دیا۔
”نہ پتر شرمندہ تو تیری ماں ہے،یہ سب تیرے پتر کے واسطے لاتے ہوئے۔ ”فوزیہ کی ماں نے عجیب سے لہجے میں کہا۔
” او! بس کردے اماں، معاف کردے مجھے، بہت دل دُکھایا ہے میں نے تیرا۔”فوزیہ نے ہاتھ جوڑ کر اس کے ہاتھ تھام لیے۔
” پترماں تو ہمیشہ ہی معاف کردیتی ہے۔ اللہ نے اس کا دل ہی ایسا بنایا ہے۔”ماں نے اس کا دوسرا ہاتھ بھی اپنے ہاتھ میں لے کر تھام لیااور انہیں دباتے ہوئے پیار سے بولی۔
”اماں تو سچ سچ بتا کہ تو نے مجھے معاف کردیا۔” اُسے اب بھی یقین نہیں آیا اس نے ماں کا دل دُکھا کر جرم بھی تو بہت بڑا کیا تھا۔احساس ِجرم اس کے اندر وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ رہا تھا۔
فوزیہ کی ماں نے اس کے ماتھے پر پیار کیا۔ ”او جھلّی! ماں اپنی اولاد کا کبھی دل سے برا نہیں چاہتی۔ بس غلطی پر جب دل بھر آتا ہے تو کچھ نہ کچھ کہہ دیتی ہے اور اس وقت تو دونوں فرشتے بھی کچھ نہیں لکھتے۔”
”اچھا تو بتا میرا بیٹا کیسا لگا؟”فوزیہ نے اپنے بیٹے کو ماں کی گود میں دیتے ہوئے پوچھا۔
” شکر ہے تجھ پر گیا ہے، تیرے جیسا ہے بالکل۔”ماں نے بچے کے ماتھے پر پیار کرتے ہوئے جواب دیا۔
” اچھا دیکھ یہ والا سوٹ پہنا دوں اس کو۔”فوزیہ نے ماں کا لایا ہوا ایک جوڑا اُٹھا کر ماں کو دکھایا۔ ماں اس کے ہاتھ سے جوڑا لے کر اپنے نواسے کو پہنانے لگی،فوزیہ مسکراتے ہوئے ماں کو دیکھتی رہی۔
٭…٭…٭





روبی عابد کی دکان پر پریشان سی آئی۔اس پر ایک نظر ڈالتے ہی عابد کو محسوس ہوگیا کہ وہ پریشان ہے۔ گاہک کو نمٹاتے ہی وہ تیر کی طرح اس کی طرف آیا اور اُسے پریشان دیکھ کر پوچھا۔
”روبی خیر تو ہے؟تو پریشان کیوں ہے؟” اس کے چہرے پر نظر ڈالتے ہی اُس نے پوچھا۔
”بس کچھ نہیں ویسے ہی۔”بات کرتے ہوئے بھی وہ تھوڑا تذبذب کا شکار تھی۔
”ویسے ہی تو کسی کا منہ نہیں لٹکا ہوتا،کوئی بات تو ہے۔”اس نے کریدا۔
” کہا ناکچھ نہیں۔” روبی نے روٹھے انداز میں اسے جھڑکتے ہوئے جواب دیا۔
عابد بھی منہ بناکر اپنے کام میں مصروف ہو گیا لیکن بُڑبُڑا کر بولا۔
”تو مجھے اپنا نہیں سمجھتی اس لیے نہیں بتا رہی۔”
” ایک تجھے ہی تو اپنا سمجھا ہے میں نے۔” روبی نے آنکھوں میں آنسو بھر کر اس کی طرف دیکھا۔
”تو پھر بول نا کیوں پریشان ہے۔” عابدنے اسے روتا دیکھ کر بے تابی سے پوچھا۔
”وہ بس ایک چھوٹا سا مسئلہ ہے لیکن میں حل کر لوں گی تو فکر نہ کر۔”روبی جیسے کچھ کہتے کہتے رُک گئی۔
”او تیری اور میری فکر کوئی الگ الگ ہے، تو بتا تو سہی۔” عابد نے اصرار کیا۔
”اچھا، تو اصرار کررہا ہے تو سُن!کل ابا کے کچھ ٹیسٹ کروانے ہیں شہر لے جا کر ،بہت پیسے چاہئیں ، سمجھ نہیں آرہا کس سے لوں پیسے؟” روبی نے تھوڑا جھجکتے ہوئے کہا۔
”او کردی نا غیروں والی بات، میرے ہوتے تجھے کسی اور سے پیسے مانگنے کی کیا ضرورت؟ تو بول تجھے کتنے پیسے چاہئیں؟” عابد نے غصے سے جیب سے بٹوہ نکالتے ہوئے پوچھا۔
”سچ بتا تو کردے گا پیسوں کا انتظام؟”روبی نے بہت محبت سے پوچھا۔
” او سچ کہہ رہا ہوں تو بتا کتنے چاہئیں؟” عابدنے اُسے یقین دلایا۔
”یہی کوئی چھے سات ہزار۔”روبی نے جھجکتے ہوئے کہا۔
عابد نے اس کی اتنی بڑی ڈیمانڈ سن کر بٹوے میں پیسے دیکھے اور پھر بٹوہ بند کرکے بولا۔
” بس، تو ٹھہر میں ابھی لاتا ہوں۔”
یہ کہہ کر وہ اندر گیا اور تجوری سے پیسے لا کر اس کے ہاتھ میں پکڑا دیے۔روبی پیسے ہاتھ میں لیتے ہوئے خوشی سے بولی۔
” او عابد تو نے میری کتنی بڑی پریشانی دور کردی۔”
”تو کہے تو میں تیرے ساتھ شہر بھی چلتا ہوں ٹیسٹ کروانے۔”عابدنے اسے خوش دیکھ کر خود بھی خوش ہوتے ہوئے اپنی خدمات پیش کیں۔روبی نے بڑے آرام سے منع کردیا۔
”او نہیں نہیں،چھوٹا جائے گا میرے ساتھ۔ دراصل ابا کچھ دنوں سے بہت کھانس رہا ہے۔ ڈاکٹر نے کہا ہے کہ شہر لے جا کر کچھ ٹیسٹ کروا لو، میں کل ہی چلی جاؤں گی ابا کو لے کر۔ ”
عابد نے اس کی طرف دیکھا اور اصرار کرتے ہوئے بولا۔”اچھا دیکھ لے،میں تو کہہ رہا ہوں چلتا ہوں تیرے ساتھ۔”
” تو فکر نہ کر، بس دعا کر ابا جلد ٹھیک ہوجائیں۔” روبی نے پریشان ہوتے ہوئے کہا۔
”او فکر نہ کر سب ٹھیک ہوگا۔ ”عابد نے اس کو دیکھ کر دلاسا دیا۔
”میں پھر چلتی ہوں، دعا کرنا سب ٹھیک ہو۔”یہ کہہ کر وہ باہر نکل گئی۔
٭…٭…٭





عابد گھر میں داخل ہواتوفوزیہ کچن میں بہت بُرے حلیے میں کام کررہی تھی۔ اس نے کھڑکی سے عابد کواندر آتے دیکھا اور ٹرے بنا کرلے آئی۔اتنی دیر میں وہ منہ ہاتھ دھو کر چارپائی پر بیٹھ چکا تھا۔فوزیہ نے ٹرے اس کے سامنے رکھی۔
”تو کبھی اپنے طرف بھی دیکھ لیا کر، کیا ماسیوں والے حلیے میں رہتی ہے ہر وقت۔” عابد نے اُسے دیکھتے ہوئے منہ بنا کر کہا۔
فوزیہ شرمندہ سی ہو کر اپنے کپڑوں کی وضاحت دینے لگی۔
” وہ ماجد کی طبیعت ٹھیک نہیں۔دو دن سے اسے سخت بخار ہے۔ اسی میں لگی ہوئی تھی، اس کا بخار نہیں اتر رہا۔ رات کو تیز ہو جاتا ہے۔”اس کے لہجے میں ایک فکر مند ماں کا دکھ تھا۔
”تو پٹیاں وغیرہ رکھ ٹھیک ہو جائے گا۔ بچے تو بیمار ہوتے ہی رہتے ہیں۔”عابد نے بے پروائی سے کہا۔
”عابد گاؤں کا ڈاکٹر کہہ رہا تھا کہ اگر آج بھی بخار نہ اترا تو اسے شہر لے کر جانا ،ہوسکے تو داخل کروا دے۔” فوزیہ نے تھوڑا پریشان ہوکر عابد کو بتایا۔
”تجھے پتا ہے اس میں کتنا خرچہ ہے؟” عابد نے آنکھیں پھاڑتے ہوئے حیرانی سے کہا۔
” لیکن عابد وہ بہت بیمار ہے۔”فوزیہ نے اسے سمجھایا۔
” تو دوائی دے نا، شہر والوں نے بھی وہی دوائی دینی ہے جو یہاں کا ڈاکٹر دے رہا ہے۔ میرے خیال میں تو اسے وقت پر دوائی نہیں دے رہی اسی لیے وہ ٹھیک نہیں ہورہا۔” عابد نے ساراالزام اس کے سر پر رکھتے ہوئے کہا۔
” یہ تو کیا کہہ رہا ہے عابد؟دن رات بھلا کر اسے دیکھ رہی ہوں اور تو کہتا ہے کہ میں اپنے بیٹے کا خیال نہیں رکھتی۔” فوزیہ پریشان ہوکر اونچی آواز میں بولی۔
” اوئے آوازاونچی مت کر، اونچی آواز والی عورتیں مجھے سخت زہر لگتی ہیں۔ ”عابدنے انگلی اُٹھا کر اُسے تنبیہہ کی۔
”اور تجھے اچھاکیا لگتا ہے۔ ذرا مجھے وہ بھی بتادے؟” فوزیہ نے کمر پر ہاتھ رکھ کر پوچھا۔
” کم از کم تو تو اچھی نہیں لگتی۔ ہر بات پر لڑنے جھگڑنے والی عورت بہت جلد مرد کے دل سے اتر جاتی ہے۔”وہ چارپائی سے اُٹھ کر کھڑا ہو ا۔
”اور عورت کے دل سے مرد کیسے اُترتا ہے تجھے یہ کسی نے نہیں بتایا؟” فوزیہ نے قدرے طنزیہ انداز میں پوچھا۔
”بس کر دے اور دیکھ زبان مت چلا۔اوقات میں رہ اپنی، ہر بات پر لڑنا، ہر بات پرجھگڑنا، یہاں آنا ہی فضول ہے۔ بندہ اپنی بے عزتی کرواتا رہے۔ ”عابد کو اس کی بات گولی کی طرح لگی وہ غصے سے بکتا جھکتا باہر نکل گیا اور فوزیہ اس کے انداز پر دکھی ہوگئی۔
مرد پر اعتبار تو اُسے کبھی نہیں آیا تھا لیکن عابد اتنی جلد بدل جائے گا اُسے یقین نہیں آرہا تھا۔ لوگ صحیح کہتے تھے،مردکااعتبارکرناعورت کی بہت بڑی بے وقوفی ہے۔ابھی وہ اسی بات میں گم تھی کہ منے کے رونے کی آواز آئی۔وہ اس کی طرف لپکی اور اس کا دودھ بناکر لے آئی۔وہ اپنے بیٹے کے منہ سے دودھ کی بوتل لگائے پھر انہی سوچوں میں گم تھی کہ فاطمہ اندر داخل ہوئی۔فوزیہ جیسے اُسی کے انتظار میں تھی۔
”آ فاطمہ! میں تیرا ہی انتظار کررہی تھی،تو بتا کیا خبر لائی ہے۔”اس نے بے تابی سے فاطمہ سے پوچھا۔





فاطمہ اس کے پاس ہی بیٹھ گئی اور اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے سرگوشی میں بولی۔
”وہ کمینی ابھی بھی اس سے ملتی ہے، بلکہ دونوں ہاتھوں سے اسے لوٹ رہی ہے۔”
” قسم کھا تو ٹھیک کہہ رہی ہے؟” فوزیہ نے آنکھیں پھاڑتے ہوئے پوچھا۔
”تیری قسم فوزیہ! میں نے آج تک تجھ سے کبھی جھوٹ کہا ہے؟”فاطمہ نے فوزیہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی۔
فوزیہ غصے میں کپکپاتی ہوئی چارپائی سے اُٹھ کر کھڑی ہو گئی اور فاطمہ کی طرف دیکھ کر غصے سے کہا۔
” اب تو دیکھ فاطمہ میں کیا کرتی ہوں اس کمینی کے ساتھ۔ اس نے مجھے ایک عام سی عورت سمجھا لیکن میں بتا دوں گی کہ فوزیہ بتول کے مرد پر قبضہ کرنا اتنا آسان کام نہیں۔”
”لیکن فوزیہ اس میں جتنا قصور روبی کا ہے اس سے زیادہ تیرے میاں کا بھی ہے۔” فاطمہ نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
” تو کیا سمجھ رہی ہے میں عابد کو چھوڑدوں گی؟ اس بے وفائی کا جواب اسے بھی دینا پڑے گا۔” فوزیہ طنزیہ اندازمیں بولی۔
”تو کیا کرے گی فوزیہ؟”فاطمہ نے پریشانی سے پوچھا۔
”یہ تو دیکھتی جا، مجھ سے اپنی ماں کی جھوٹی قسم کھانے والا، جواب دینا پڑے گا اس کوہر بات کا۔”فوزیہ نے غصے سے کہا۔
”لیکن اگراس نے…”فاطمہ نے کچھ کہنا چاہا تو اس نے اس کی بات کاٹ دی۔
”لیکن اور اگر مگر کا وقت نہیں رہا فاطمہ! مجھے اس کا حل نکالنا پڑے گا،ورنہ میرا اور میرے بچے کا حق جو وہ اس بازاری عورت پر لٹا رہا ہے میں کیسے برداشت کرلوں۔میں چھوڑوں گی نہیں اسے، میرے لیے اور اپنے بیٹے کے علاج کے لیے پیسے نہیں اس کے پاس۔تو دیکھ میرا حلیہ، ایک سال میں میں کیا سے کیا بن گئی، کتنے وعدے کیے تھے اس نے کہ رانی بنا کر رکھوں گا اور اب چار دن میں ہی اپنی رانی بدل لی اس نے۔ میں اس کمینے کو چھوڑوں گی نہیں اسے جواب دینا پڑے گا۔” فوزیہ کے لہجے میں حسد اور رقابت کی تپش تھی۔
٭…٭…٭





فوزیہ شیشے کے سامنے کھڑی اپنے روکھے بالوں اور رنگ برنگے کپڑوں کو دیکھ کر خود سے باتیں کررہی تھی۔ پاس ہی چارپائی پر اس کا بیٹا سو رہا تھا۔ فوزیہ خود پر طنزکرتے ہوئے ہنسی۔
”فوزیہ بتول تو بھی ایک عام سی عورت نکلی۔ بڑے بڑے خواب اور چھوٹی چھوٹی تعبیر پانے والی ایک بے مول عورت۔ کیا کیا خواب دکھائے تھے تجھے اس مرد نے،چار دن میں بھول گیا۔ دوسری عورت کے لیے بے مول کردیا تجھے۔ ”
وہ ہنستے ہنستے رکی اور دوبارہ سے طنزیہ انداز میں بُڑبڑائی۔
” فوزیہ بتول تجھے مشہور ہونے کا شوق تھانا،ہوگئی تو مشہور۔ کیا کیا وعدے کیے تھے اس نے تجھے اس گھر میں لانے کے لیے۔ آج کہتا ہے گھر بیٹھ، بچے پال، لیکن میں بتا دوں گی کہ فوزیہ بتول گھر بیٹھنے کے لیے پیدا نہیں ہوئی۔میں بغاوت کردوں گی، اس معاشرے سے اور دکھا دوں گی کہ عورت آدمی کی غلام نہیں۔عابد تو نے مجھ سے بے وفائی کرکے اچھا نہیں کیا، عابد بالکل اچھا نہیں کیا۔”
وہ تھوڑی دیر رُکی اور دوبارہ شیشے میں دیکھتے ہوئے سوچنے لگی۔
”لیکن تم کر بھی کیا سکتی ہو فوزیہ؟ اب تم صرف عابد کی بیوی نہیں ایک بیٹے کی ماں بھی ہو اور ماں کے پیروں میں اولاد زنجیر کی طرح ہوتی ہے۔”
اس نے ایک عزم کے ساتھ خود کوجواب دیا۔
” میں توڑ دوں گی یہ زنجیر، میں عام عورت نہیں ہوں۔دکھا دوں گی دنیا کو کہ اولاد بھی میرے پاؤں کی زنجیر نہیں بن سکی۔یہ سب میں اپنی اولاد کے لیے کروں گی، ورنہ گھٹ گھٹ کر میں بھی مروں گی اور میری اولاد بھی۔”
اس نے دوبارہ شیشے کی طرف دیکھا اورخود سے پوچھنے لگی۔
” فوزیہ بے وقوف عورت! اس معاشرے میں عورت کی مرضی کب چلتی ہے؟ اپنی مرضی چلانے والی عورتیں بہت جلد دوسرے جہاں سدھار جاتی ہیں،لیکن میں سب بدل کر رکھ دوں گی، میں فوزیہ بتول ہوں۔میں ایسے حالات سے گزارا کرنے والی عورت نہیں حالات بدلنے والی عورت ہوں۔ میں اپنے حالات خود بدلوں گی۔ دنیا دیکھے گی ایک دن،فوزیہ بتول جو کہتی ہے کرکے دکھاتی ہے۔”
٭…٭…٭





آج فوزیہ بہت اداس سی ماں کے گھرآئی ہوئی تھی ماں سبزی بناتے بناتے اس کی طرف دیکھنے لگی اور پوچھ بیٹھی۔
” کیا ہوا فوزیہ توخوش نہیں لگ رہی،تیرے گھر میں سب کیسا ہے؟ کوئی پریشانی ہے؟”
” بس اماں کچھ جی اچھانہیں۔ ”فوزیہ نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے جواب دیا۔
”کیا ہوگیا تیرے جی کو اورتوچھوٹے کو بھی نہیں لائی،گھرمیں سب ٹھیک توہے۔عابد توٹھیک ہے؟” فوزیہ کی ماں نے پریشان ہوکر پوچھا۔
”ہاں اماں …”وہ جیسے کہتے کہتے رک گئی اور اماں کو دیکھنے لگی،پھر کچھ سوچتے ہوئے بولی۔
” اماں ایک بات پوچھوں؟”
” ہاں پوچھ۔”ماں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
” اماں یہ بتا اپنے آدمی کو باندھ کر کیسے رکھا جاتا ہے،وہ کیا چیز ہے جس سے آدمی کو اپنا بنایا جاسکے۔” فوزیہ نے بہت اُداسی سے پوچھا۔ماں نے بہت غور سے اس کی طرف دیکھا اور پھر جسے ساری بات سمجھ میں آگئی۔
” سُن فوزیہ! میں پڑھی لکھی تو نہیں، لیکن یہ سبق مجھے کیا ہر عورت کو اچھی طرح یاد ہے کہ اپنے مرد کو کبھی اپنا نہیں بنایا جاسکتا۔” ماں نے بہت دانائی سے جواب دیا۔
”تو پھر وہ کون عورتیں ہوتی ہیں جو مرد کو قابو کرلیتی ہیں؟”فوزیہ نے حیرانی سے پوچھا۔
”کوئی عورت یہ سمجھے کہ اس نے اپنے مرد کو قابو کرلیااس سے بڑا بے وقوف کوئی نہیں۔ مرد کو صرف موقع کی تلاش ہوتی ہے بس موقع ملتے ہی کون تیرا نہ کون میرا۔” وہ طنزیہ اندا میں بولی۔
”ہاں تو ٹھیک کہہ رہی ہے اماں، مرد کو صرف موقع کی تلاش ہوتی ہے۔ ”فوزیہ نے بھی طنزیہ انداز میں جواب دیا۔
”کیا تو عابد کے ساتھ خوش نہیںہے؟”ماں نے جیسے بہت کچھ سمجھتے ہوئے پوچھا۔
”اماں عابد میرے ساتھ بے وفائی کررہا ہے۔” فوزیہ اتنی ہمدردی پر یک دم رونے لگی۔
”ہاں جانتی ہوں،آج کل اس کے چرچے روبی کے ساتھ ہیں۔ سارا محلہ مجھے آکر بتاتا ہے۔” فوزیہ کی ماں نے کچھ سوچتے ہوئے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔
”اماں تو سب جانتی ہے؟” فوزیہ نے حیرانی سے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا۔
”اس کی دکان میرے گھر کے سامنے ہے،کیسے معلوم نہ ہوتا؟”ماں نے اداسی سے جواب دیا۔
”لیکن تو نے مجھے تو نہ بتایا۔”اس کے انداز میں شکایت بھری ہوئی تھی۔
”یہ ساری باتیں ہر عورت کی زندگی کا حصہ ہوتی ہیں لیکن ایسی عورتیں آتی جاتی رہتی ہیں، تو کیا سمجھتی ہے میری زندگی میں ایسی کسی عورت کاکوئی حصہ نہیں۔”ماں نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
” تو کیا ابا بھی؟”فوزیہ نے حیرانی سے پوچھا۔





ماں طنزیہ انداز میں ہنسی اور بولی۔
” ہاں تیرا ابا بھی، لیکن میں نے بہت حوصلہ کیا تھا فوزیہ اس وقت۔ اس دوسری عورت کو جھیلتے وقت میں خود کہاں کہاں ٹوٹی تھی تجھے کیا خبر،لیکن یہ جانتی تھی وہ میرے بچوں کا باپ ہے پلٹ کر میرے پاس ہی آئے گا۔”
” لیکن اماں میرے اندر تیرا جتنا حوصلہ نہیں۔میں عابد کو چھوڑوں گی نہیں اور نہ اس حرافہ روبی کو۔” فوزیہ نے زچ ہوتے ہوئے ہاتھ جوڑے۔
”نہ نہ فوزیہ صبر کر، اس طرح تو اپنا گھر برباد کر لے گی۔”ماں نے اسے سمجھایا۔
”گھر رہا کب ہے اماں،عابد نے مجھ سے جتنے وعدے کیے تھے سب جھوٹے تھے۔”فوزیہ نے بے بسی سے کہا۔
”وہ مرد ہی کیا جو سچا وعدہ کرے، مگر تو اب اسے محبت سے قابو کر۔”ماں نے اسے مشورہ دیا۔
” کیسی محبت اماں، اسے دیکھنے کو دل نہیں کرتامیرا۔” فوزیہ نے طنزیہ انداز میں جواب دیا۔
” لیکن وہ تیرا شوہر ہے اور شوہر بھی وہ جسے تو نے خود چنا۔”
”یہی تو مشکل ہے اماں کہ یہ میرا فیصلہ تھا۔تجھ سے کچھ کہہ بھی نہیں سکتی،کوئی مدد نہیں مانگ سکتی، لیکن عابد اُسے اس بے وفائی پر میں چھوڑوں گی نہیں۔ ” وہ یہ سوچ کر خود کو تسلی دیتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی۔
”اچھا اماں چلتی ہوں۔ چھوٹا میری ساس کو پریشان کررہا ہو گا، پھر آؤں گی۔”یہ کہہ کر وہ دروازے سے باہر نکل گئی۔
٭…٭…٭
فوزیہ ماں سے مل کر واپس جانے کے لیے نکلی تو اسے عابد کی دکان سے روبی نکلتی دکھائی دی جو خوشی خوشی ہاتھ میں شاپر ہلاتی گلی میں جا رہی تھی۔ وہ اس کے پیچھے پیچھے گئی اور گلی کے نکڑ پر جا کرایک دم اس کے آگے آ کھڑی ہوئی۔ روبی چونک کر رک گئی اور اسے دیکھ کر ہکلا کر بولی۔
” فوزیہ تو…تو کیسی ہے؟”
” بڑی جی دارنی ہے تو،فوزیہ بتول کے میاں پر ہاتھ صاف کررہی ہے بھئی واہ! بڑا حوصلہ ہے تیرا۔” فوزیہ نے کمر پر ہاتھ ٹِکا کر بہت غصے سے طنز کیا۔
”تجھے غلط فہمی ہوئی ہے فوزیہ، میں تو یہ چیزیں خریدنے گئی تھی اس کی دکان پر۔” اس نے ہاتھ میں پکڑا لفافہ فوزیہ کے آگے کیا اور ہکلائی۔ فوزیہ نے اُس کے ہاتھ سے لفافہ جھپٹتے ہوئے اندر سے چیزیں نکال کر دیکھیں۔
” اچھا جی! تجھے روز ہی کچھ نہ کچھ چاہیے ہوتا ہے عابد کی دکان سے؟سُنا ہے روز آتی ہے،یہ چوڑیاں وغیرہ روزچاہیے ہوتی ہیں تجھے؟”
” نہیں میں روز تو نہیں آتی۔”روبی ہکلاتے ہوئے گھبرا کر بولی ۔
‘ ‘اچھا تو پھر محلے والوں کو روز تیرا بھوت نظر آتا ہے؟” فوزیہ زور سے چیخی ۔
”دیکھ فوزیہ تو غلط سمجھ رہی ہے میرے اور عابد کے درمیان ایسی کوئی بات نہیں۔” روبی پھر ہکلائی اور ایک قدم پیچھے ہٹی۔
فوزیہ نے آگے بڑھ کر اس کے منہ پر ایک زور دار تھپڑ مارا۔ روبی لڑ کھڑائی۔ اب اس نے اس کے بال پکڑ کر سر اوپر کیا اور بہت طنز سے کہا۔
”دیکھ روبی اپنی اوقات میں رہ،ورنہ فوزیہ بتول کو اپنی اوقات میں لانا آتا ہے۔”
” چھوڑ دے فوزیہ چھوڑ دے مجھے،تجھے یہ تھپڑ بہت مہنگا پڑے گا۔”روبی نے اپنے بال چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے اسے دھمکایا۔
” اچھا دھمکی بھی دیتی ہے اور وہ بھی فوزیہ بتول کو۔” فوزیہ نے بالوں کو ایک اور جھٹکا دیا اور ایک اور زور دار تھپڑ اور اس کے منہ پر مارا اور پھر لگا تار مارتی چلی گئی۔ روبی نے خود کو چھڑانے کی بھرپور کوشش کی لیکن ناکام رہی۔ اتنے میں چند عورتیں اس کے پاس جمع ہوگئیں۔ ایک عورت فوزیہ کو پکڑتے ہوئے روکنے لگی۔
” اے فوزیہ چھوڑ اسے، کیا جان لے گی۔”
فوزیہ نے اُسے زور سے دھکا د یا اور بولی۔”ہاں جان لے لوں گی اس کی تو، چھوڑ دے مجھے۔”
” جتنا قصور اس کا ہے اس سے زیادہ تیرے میاں کا ہے ،اس سے پوچھ جا کراس کو کیوں پیٹ رہی ہے؟” دوسری عورت نے اسے پکڑتے ہوئے کہا۔
” وہ تو میں پوچھ ہی لوں گی لیکن پہلے اس کمینی کو تو سبق دے دوں۔” فوزیہ نے روبی کوایک اور تھپڑ مارا۔
اتنے میں ایک بزرگ عورت نے آگے بڑھ کر روبی کو چھڑایا اور فوزیہ سے کہا۔” او چھوڑ دے اسے اور جا گھراپنے۔ اُدھر اپنے عابد کی خبر لے۔”
” اب تو عابد کے آس پاس بھی نظر آئی تو چیر کر رکھ دوں گی۔” فوزیہ نے روبی کو چھوڑتے ہوئے کہااور غصے سے اُسے گھورتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

گائے کے سینگ

Read Next

غریب لکڑہارا

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!