باغی – قسط نمبر ۲ – شاذیہ خان

دل تو میرا بھی واپس جانے کو نہیں چاہ رہا جی،آپ دیکھو کوئی ادھر سے پوچھنے بھی نہیں آیا۔ بس نام کے ماں باپ ہیں میرے۔”فوزیہ نے غصے سے کہا۔
”لیکن اب سوچ تو نے کرنا کیا ہے؟کیا چاہتی ہے تو؟”چودھرانی نے اسے کریدا۔
”میں نے کیا چاہنا ہے جی،جو چاہتی تھی کر دیا۔بتا تو دیا تھا میں نے اس کمینے سے شادی نہیں کرنی۔آپ جانتی تو ہیں جی میں اپنا کما لیتی ہوں،کسی کی محتاج نہیں ہوں۔”فوزیہ نے بڑی سادگی سے جواب دیا۔
”لیکن ایسے زندگی تو نہیں گزاری جا سکتی۔کبھی نہ کبھی تو تیرے ماں باپ نے تیری شادی کرنی ہی ہے۔تجھے ساری عمر بٹھا کر تو نہیں رکھ سکتے نا۔”چودھرانی نے غور سے اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے پوچھا۔ وہ اس کے دل کا حال جاننا چاہتی تھی اس لیے کرید رہی تھی۔
فوزیہ نے مسکراتے ہوئے منہ میں دوپٹہ لے کر شرمانے کی ایکٹنگ کی تو چودھرانی بھی مسکرا دی۔
”او جی وہ تو میں نے سوچ لیا ہے۔”فوزیہ نے کہا۔
”کیا سوچ لیا ہے؟کوئی اور ہے جس سے تو شادی کرنا چاہتی ہے؟” چودھرانی نے اسے مزید کریدا۔
”ہاں جی!” فوزیہ نے شرماتے ہوئے جواب دیا۔
”تو نے اپنی ماں کو بتایا تھا؟”چودھرانی نے آنکھیں سکیڑتے ہوئے استفسار کیا۔
”جی بس یہ بتایا تھا کہ جہاں وہ میری شادی کر رہی ہے میں نے وہاں نہیں کرنی،مگر میں کسی اور سے شادی کرنا چاہتی ہوں یہ نہیں بتایا کیوں کہ مجھے پتا تھا وہ بہت ناراض ہوگی۔”فوزیہ نے تفصیلاً جواب دیا۔
”تو بتاتی نا ماں کو کہ تو کس سے شادی کرنا چاہتی ہے تاکہ وہ باخبر ہوتی اور تیری شادی ساجد سے نہ کرتی۔”چودھرانی نے اسے سمجھایا۔
”میرے کہنے پر اس کی ماں رشتہ لے کر آئی تھی پر میری ماں نے بے عزت کر کے نکال دیا۔”فوزیہ نے منہ بنایا۔
”کون ہے وہ؟”چودھرانی نے حیرانی سے استفسار کیا۔
فوزیہ نے کچھ سوچتے ہوئے چودھرانی کی طرف دیکھا کہ آیا اعتبار کرے یا نہ،پھر کندھے اچکا کر بے پروائی سے بولی۔
”عابد نام ہے،ہمارے گھر کے سامنے دکان ہے اس کی،عابد کاسمیٹک والا،فاخرہ بی بی کا بیٹا۔”آخر اس نے دل کا راز کھول ہی دیا۔
”لڑکا تو بہت اچھا ہے،خاندان بھی ٹھیک ہے،اگر تو چاہتی ہے تو میں چودھری صاحب سے بات کروں؟” چودھرانی نے اس کے دل کا حال معلوم کرنے کے لیے کہا۔
”جیسا آپ بہتر سمجھو چودھرانی جی۔”فوزیہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
”ٹھیک ہے، میں کرتی ہوں آج چودھری صاحب سے بات۔چل تو یہ کپڑے لے جا اور اپنے ناپ کے بنا کر پہن لے اور ہاں میرے کمرے میں دیکھ لینا کوئی صفائی وغیرہ کی ضرورت تو نہیں ہے۔”
”جی چودھرانی جی میں دیکھ لوں گی۔”فوزیہ نے کہا اور کپڑے اُٹھا کر لے گئی۔
٭…٭…٭





فوزیہ کی ساری بات سُن کر چودھری صاحب نے امام بخش سے بات کرنے کا فیصلہ کیا اور اُسے بلا بھیجا۔ امام بخش چودھری صاحب کے سامنے ہاتھ جوڑے بیٹھا تھا۔چودھری صاحب نے اسے خود بلایا تھا اور اسے فوزیہ کے متعلق سمجھا رہا تھا۔
”تم اپنی بیٹی کی شادی وہاں کر دو جہاں وہ کہہ رہی ہے۔وقت بہت بدل گیا ہے،بچے سمجھ دار ہو گئے ہیں،ہم ان پر زبردستی نہیں کر سکتے،تو تو جانتا ہی ہے کہ وہ کہاں شادی کرنا چاہتی ہے۔”
”چودھری صاحب جانتا ہوں،ہم غلام ہیں آپ کے،جو آپ کا حکم۔”امام بخش نے ہاتھ جوڑ کر سر جھکائے ہوئے کہا۔
”بس اب اس کی شادی کر دے۔نیک کام میں دیر مت کر۔”چودھری صاحب نے اسے مشورہ دیا۔
”چودھری صاحب تابع دار ہوں،ہماری نسلوں نے آپ کا نمک کھایا ہے۔آپ اسے بھیج دیں،حکم کی تعمیل ہوگی۔”امام بخش نے لجاجت سے کہا۔
چودھری صاحب نے بات آگے بڑھائی۔
”ایک بات ہے امام بخش! وہ لوگ تمہاری برادری کے نہیں ہیں لیکن خاندان اس کا بھی کم نہیں بلکہ تجھ سے بڑھ کر ہی ہے۔لڑکا کماتا کھاتا ہے اور کیا چاہیے تجھے؟بسم اللہ کر۔اس لفنگے سے تو بہتر ہے جہاں تو اسے دھکیل رہا تھا۔ بچی کی زندگی خراب ہوجاتی۔”
”جی بہتر چودھری صاحب، جو حکم،آپ اسے کہہ دیں رشتہ لے کر آئے میں گھر والی سے بات کرتا ہوں۔”امام بخش نے اثبات میں سرہلاتے ہوئے جواب دیا۔
”ٹھیک ہے،شاباش۔دیکھو اب بچی کے ساتھ زبردستی کرنا ٹھیک نہیں،اسے گھر لے جا کر ڈانٹ ڈپٹ بالکل مت کرنا۔بچی جو کہہ رہی ہے کرنے دے۔میں بھیجتا ہوں ،لے جاؤ اسے۔” چودھری صاحب نے خوش ہوتے ہوئے کہااوراٹھ کر اندر چلے گئے،امام بخش وہیں بیٹھا فوزیہ کے بارے میں سوچتا رہا۔
٭…٭…٭
فوزیہ بڑے فخر سے گھر داخل ہوئی جیسے کوئی جنگ فتح کر کے آ رہی ہو۔امام بخش اسے صحن میں چھوڑ کر اندر کمرے میں چلا گیا۔فوزیہ کی ماں اور بہن بھائی اسے کن اکھیوں سے دیکھ رہے تھے۔وہ بھی سب پر فاتحانہ نظر ڈال کر ماں کے پاس جا کھڑی ہوئی اور اس کے چہرے پر غصّہ تلاش کررہی تھی۔ جو اسے نظر بھی آگیا لیکن اس نے بہت دھڑلے سے ماں سے پوچھا۔
”کیسی ہے اماں؟”
ماں نے کندھے پر رکھا فوزیہ کا ہاتھ جھٹک دیا۔
”زندہ ہوں، تو نے مارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔”
”میں نے پہلے ہی کہہ دیا تجھے کہ میرے ساتھ زبردستی مت کر،لیکن تم نے میری بات ہی نہیں مانی۔”فوزیہ نے کندھے اچکاتے ہوئے جواب دیا۔
نازیہ اُٹھ کر اس کے پاس آگئی اور غصے سے شرم دلاتے ہوئے بولی۔
”فوزیہ تو نے ہم سب کو گاؤں والوں کی نظروں میں گرا دیا ہے اور اوپر سے باتیں بنا رہی ہے۔”
پاس ہی کھڑا رحیم کیوں پیچھے رہتا،وہ بھی حقارت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
”میں تو پہلے ہی کہتا تھا یہ بہت بے حیا ہے،کوئی نہ کوئی گل ضرور کھلائے گی۔جی چاہتا ہے گلا دبا دوں اس کا۔”
”ہاتھ لگا کر دیکھ،چودھری صاحب نے کہہ دیا ہے تیرے ہاتھ توڑ دیں گے،اور سن میں کسی سے نہیں ڈرتی،کوئی غلط بات برداشت نہیں کروں گی تم لوگوں کی۔تم لوگ جو مرضی کہو،جو مرضی سمجھو مجھے کوئی پروا نہیں۔بے شرم کہو یا بے حیا بس مجھ سے زبردستی مت کرنا اور تو تو چپ ہی ہوجا بھائی،میں تیرے منہ نہیں لگنا چاہتی۔”فوزیہ نے انگلی اُٹھاتے ہوئے بھائی کو دھمکی دی اور اس کی طرف دیکھتے ہوئے زمین پر تھوک دیا۔وہ اندر سے بے بس ہوگیا تھا۔ چودھری صاحب کا نام سن کر جیسے ٹھنڈا پڑ گیا۔
”جا جا تیرے منہ کون لگتا ہے۔بے غیرت گھر والوں کی عزت مٹی میں ملاکر شیرنی بنی پھرتی ہے۔”اس نے زبان چلانے میں ہی عافیت سمجھی۔
میں شیرنی اور تو تو گیدڑ ہے اپنی جورو کے آگے۔”فوزیہ نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
”ماں سمجھا اسے،جان سے مار دوں گا اب اگر ایک لفظ اور بولی تو…”رحیم غصے سے آگے بڑھا اور ماں کو مخاطب کرتے ہوئے بولا۔
فوزیہ بھی تن کر سامنے آگئی۔”تو ہاتھ اُٹھا کر دیکھ مجھ پر۔”اسے جیسے کسی کی پروا ہی نہ تھی چودھری صاحب نے اُسے اپنا کندھا دے کر بھیجا تھا کہ اگر گھر والے ایسی ویسی بات کریں تو مجھے بتانا۔
”او بس کرو بے غیرتو! تم دونوں نے گھر میں کیا ذلالت پھیلائی ہوئی ہے۔جا تو دفع ہو اندر،کوئی میدان نہیں مار کر آئی جو اتنا اِترا رہی ہے۔دفع ہو جاکمینی۔”ماں کا پارہ اس کی بے غیرتی پر ہائی تھا۔
”کوئی میرے جیسے کام کر کے تو دکھادے،اتنی جی داری ہے کسی میں؟”فوزیہ نے ایک شان بے نیازی سے طنزاً سب کی طرف دیکھتے ہوئے کہااور اندر چلی گئی۔
٭…٭…٭





اگلے ہی دن فوزیہ عابد کی دکان پر چلی آئی ۔دکان میں اس وقت کچھ گاہک موجود تھے۔فوزیہ ان کے جانے کا انتظار کرتے ہوئے دکان میں پڑی مختلف چیزیں دیکھنے لگی۔گاہکوں کے جاتے ہی عابد لپک کر اُس کے پاس آ گیا۔
”دیکھ میں نے تیری بات پوری کی،اب تو سیدھے سیدھے اپنی اماں کو میرے گھر بھیج دے۔” فوزیہ نے انگلی اُٹھا کر اسے کہا۔
”تُو تو واقعی بڑی جی دار ہے۔اب تو مجھے تجھ سے ڈر لگنے لگا ہے۔”عابد نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”اچھا؟کیا میں اتنی ڈراؤنی ہوں؟”فوزیہ نے بھی مسکراتے ہوئے اِٹھلا کر پوچھا۔
”ڈراؤنی نہیں،تو توبہت خطرناک ہے،بہت کچھ کر سکتی ہے۔”عابد نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے جواب دیا۔
فوزیہ نے اس کے سامنے ہاتھ لہرا یا اور کہا۔
”سوچ لے،تجھے بھی بتا رہی ہوں۔اب کوئی دوسرا رشتہ نہیں ہے،سیدھی طرح اپنی ماں کو بھیج۔میں نے اماں ابا کو بتا دیا ہے،اب انکار نہیں ہوگا۔”اس نے عابد کو یقین دلایا۔
”ہاں ہاں کرتا ہوں بات ،تو فکر مت کر۔تو نے اتنا کچھ کیا ہے،اب میں اماں کو راضی کر کے ہی رہوں گا،تو بے فکر ہو جا۔لے یہ لپ اسٹک رکھ،نئے شیڈز آئے ہیں،میں نے تیرے واسطے ایک الگ رکھ لی تھی۔”عابد نے شیلف سے اٹھا کر ایک لپ اسٹک اسے پکڑائی۔
” لگا کر دکھا۔”عابد نے ساتھ ہی فرمائش بھی کردی۔
”پھر سہی۔”فوزیہ نے لپ اسٹک واپس کرتے ہوئے کہا۔
”تو لگا تو سہی۔”عابد نے اصرار کرتے ہوئے کہا۔
فوزیہ نے اس کے ہاتھ سے لپ اسٹک لی اور ہونٹوں پر لگائی۔
”لے لگا لی،بتا کیسی لگ رہی ہوں؟”فوزیہ نے بڑے ناز سے پوچھا۔
عابد یک ٹک اسے دیکھنے لگا۔فوزیہ نے اس کی آنکھوں کے سامنے ہاتھ لہرایا۔
”بول نا،کیسی لگ رہی ہوں؟”
”ہائے لگتا ہے یہ رنگ صرف تیرے لیے ہی بنا ہے۔”عابد نے محبت پاش نظروں سے دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
فوزیہ یہ سن کر شرما گئی۔اس کے گالوں پہ حیا کی سرخی دوڑ گئی۔
”اچھا چل زیادہ باتیں نہ بنا،جا کر اپنی ماں کو منا اب،میں چلتی ہوں اماں نے۔” فوزیہ نے لپ اسٹک شاپر میں ڈالی اور مسکراتی ہوئی ایک نظر عابد پر ڈالتے ہوئے پلٹ گئی۔
”ہائے ظالم! اب تو جلدہی کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا،اماں تجھے جانا ہی پڑے گا۔”عابد خود کلامی کے انداز میں بُڑبُڑایا۔
٭…٭…٭





امام بخش نازیہ کے میاں کے ساتھ باتیں کرتا گھر میں داخل ہوا۔اندر آتے ہی اس نے نازیہ کو اپنے پاس بلایا۔
”او نازیہ! دیکھ کون آیا ہے،چائے پانی لا میاں کے واسطے۔”
نازیہ کچن سے نکلتے ہی احمد کو دیکھ کر ٹھٹک گئی۔بچیاں بھی باپ کو دیکھ خوف سے دیوار سے لگ گئیں۔جیسے کسی بھوت کو دیکھ لیا ہو۔
”جا پتر جا کر تیاری پکڑ،وہ تجھے لینے آیا ہے۔”امام بخش نے نازیہ کے پاس جا کر اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔
”لیکن…”نازیہ نے کچھ کہنا چاہا۔
”لیکن ویکن کچھ نہیں پتر،جو ہو گیا اس پر مٹی ڈال ۔تیرا میاں وعدہ کر رہا ہے کہ تو خود چپ رہے گی تو وہ کچھ نہیں کہے گا۔تو بھی زبان بند رکھا کر،اس کے آگے بولتی ہے تو معاملہ خراب ہوتا ہے۔”امام بخش سانس لینے کی خاطر رکا اور اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔
”دیکھ وہ خود آیا ہے تم لوگوں کو لینے۔جا پتر تیار ہو جا جانے کے لیے۔شادی کے بعد ماں باپ کی دہلیز بار بار نہیں پھلانگتے۔”
اچانک فوزیہ کمرے میں سے نکل آئی اور احمد کو دیکھ کر غصے سے بولی۔
”نہیں ابا نازیہ باجی بالکل نہیں جائے گی۔پہلے یہ معافی مانگے اس سے،چار لوگوں کے سامنے بات ہوگی کہ اب یہ ڈراما نہیں ہوگا،یہ بار بار بیوی کا ہاتھ پکڑ کر نہیں نکالے گا۔”
”تو چپ کر،تجھے کس نے کہا ہے بات کرنے کو؟چل اندر جا تو۔”امام بخش اسے ڈانٹتے ہوئے بولا۔
”دیکھ چاچا یہی نازیہ کو بھڑکاتی ہے اور اسی کی شہ پہ نازیہ مجھ سے بدتمیزی کرتی ہے۔بس تو سمجھ لے اس کی وجہ سے ہمارے گھر لڑائی ہوتی ہے۔”احمد سسر کی شہ پا کر بدتمیزی سے بولا۔
”ہاں تو جو چاہے کر لے،نازیہ کچھ نہ بولے،واہ کیا بات ہے۔”فوزیہ غصے سے شیرنی کی طرح گرجی۔
”بولے گی تو پٹے گی بھی۔”احمد نے بھی دو بدو جواب دیا۔
”تو ہاتھ اُٹھا کر تو دیکھ اب۔”فوزیہ نے اس کے سامنے جا کر تن کر کہا۔
”چاچا تو دیکھ رہا ہے نا تیرے سامنے اس کا یہ حال ہے تو …” احمد غصے سے بولا۔
”او تو چپ کر،یہ میاں بیوی کا معاملہ ہے۔تو مت بول،جا اندر دفع ہو۔”امام بخش نے فوزیہ کو دبکاتے ہوئے کہا۔
فوزیہ نے حیرت اور دکھ سے باپ کو دیکھا اور بولی۔
”ابا وہ پہلے تیری بیٹی ہے ،بعد میں اس کی بیوی۔وہ تیری بیٹی کو تیرے سامنے مارنے کی بات کر رہا ہے اور تو مجھے چپ رہنے کا کہہ رہا ہے۔”
”چاچا اسی بے شرم کی وجہ سے میں نازیہ کو لینے آیا ہوں کہ اس کے ساتھ رہ کر میری بیٹیاں بھی خراب ہوں گی۔”احمد نے فوزیہ کی طرف اشارہ کیا اور کہا۔
”میں کہہ رہا ہوں نا تجھے کہ چل اندردفع ہو،اور تو جا نازیہ اپنا سامان لے کر آ اور اپنے گھر جا۔”امام بخش دوبارہ فوزیہ کو ڈانٹنے لگا۔
نازیہ ”جی ابا جی” کہتی کمرے کی جانب بڑھ گئی۔فوزیہ بھی اس کے پیچھے پیچھے جا کر کمرے کا دروازہ زور سے بند کر کے نازیہ کے سامنے جاکر کھڑی ہو گئی اور نظروں ہی نظروں میں اُسے تولتے ہوئے پوچھا۔
”کیا تو واقعی چلی جائے گی اس کمینے کے ساتھ؟وہ پہلے بھی اتنی بار تجھے مار چکا ہے اور تو کھاتی رہی اب تو اُسے دھتکار دے۔”
نازیہ رو رہی تھی لیکن ساتھ ہی ساتھ اپنا سامان سمیٹنے میں لگی رہی۔
”تیرا میاں تجھے صحیح مارتا ہے،تو ہے ہی اس قابل۔تیرے پاس اتنی عقل ہی نہیں کہ سوچ سکے کہ تجھے کیا کرنا ہے۔میں نے کہا تو میری بات مان لی،تیرا میاں آیا اس کی بات مان لی اور سامان اُٹھا کر اس کے ساتھ چل دی۔”فوزیہ نے اس کے چلتے ہوئے ہاتھوں کو دیکھا اور طنزیہ بولی۔
”ہم عورتوں کا نصیب ہی یہی ہے۔ہمارا کوئی گھر نہیں ہوتاجب باپ کا دل چاہتا ہے اپنے گھر سے زبردستی نکال دیتا ہے،جب شوہر کا دل چاہتا ہے وہ اپنے گھر سے نکال دیتا ہے۔”نازیہ نے روتے ہوئے جواب دیا۔





”او رہن دے اپنا فلسفہ،اگر موقع ملا تو میں کر کے دکھاؤں گی۔عورت نے خود کو کم زور بنایا ہوا ہے مرد کے سامنے۔میں تیری جگہ ہوتی تو ابھی اسے اپنے گھر سے ہاتھ پکڑ کر نکالتی جس طرح اس نے تجھے نکالا تھا۔”فوزیہ نے تڑخ کر جواب دیا اور پھر پوچھا۔
”اور یہ بتا کہ یہ آیا کس منہ سے ہے؟”
”ابا خود بلا کر لایا ہے،میرا اور میری تین بیٹیوں کا بوجھ ہے نہ اس گھر پر۔”نازیہ نے افسردگی سے جواب دیا۔
فوزیہ نے افسردگی سے اُسے دیکھا۔اسے بہن پر رحم آگیا ہاتھ پکڑ کر اس کے آنسو پونچھے۔
”باجی تو خود ہمت کر،اپنے آپ کو مضبوط کر،مت کر اس کی غلامی کچھ حاصل نہیں ہوگا۔”
نازیہ نے دکھ اور خوف سے اسے دیکھا اور بولی۔”خدا کے لیے مجھے مت پڑھا الٹی سیدھی پٹیاں،تو کیوں نہیں سمجھتی،وہ مرد ہے،طاقت ور ہے۔ہم گائے بھینسوں کا کام خاموشی سے مار کھانا ہے۔ مجھے زبان درازی نہیں کرنی چاہیے ،اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا سوائے رسوائی کے۔”
فوزیہ نے دیدے پھاڑ کر پوچھا۔
”کیوں گائے بھینس کیوں؟ تو عورت ہے باجی سمجھ اس بات کو تیرا اللہ ہی وارث ہے،میں بس دعا ہی کر سکتی ہوں تیرے واسطے۔رب تجھ پر رحم کرے،جا مارکھانے چلی جا اس کے ساتھ۔”
نازیہ اس کی بات سن کر رو پڑی،فوزیہ اُٹھی اور اس کے پاس جاکر اسے گلے سے لگا لیا۔
٭…٭…٭
عابد کی ماں آکر بڑے دھڑلے سے فوزیہ اور عابد کی بات پکی کر کے چلی گئی۔اس کا انداز بہت روکھا تھا۔امام بخش چاہتا تھا کہ فوزیہ کی رخصتی ایک ہفتے کے اندر ہی ہوجائے،وہ زیادہ دیر اسے اپنے گھر میں برداشت نہیں کر سکتا تھا۔عابد چاہتا تھا کہ شادی کی تیاری کے لیے فوزیہ اس کے ساتھ شہر چلے ۔فوزیہ ماں سے اجازت لینے کے لیے اس کے پاس آئی اور بتاتے ہوئے بولی۔
”عابد مجھے اور تجھے لینے آئے گا اماں، تیار ہوجا۔مجھے عابد کے ساتھ شاپنگ کے لیے جانا ہے،اگرتو بھی ساتھ چلنا چاہے تو چل ورنہ میں اکیلی ہی چلی جاؤں گی۔میں اور تو اس کے ساتھ شہر جائیں گے شادی کا جوڑا اور زیور لینے۔”
”لیکن میں نے تو تیرا شادی کا جوڑا بنا لیا ہے۔”ماں نے اس کی بات سنی اور حیرت سے کہا۔
”وہ کون پہنے گا،مجھے بالکل پسند نہیں ہے۔اسے رکھ دے،منی کے کام آئے گا۔” فوزیہ نے بے پروائی سے جواب دیا۔
ماں اس کی یہ بات سُن کر سکتے میں آگئی اور اس کی آنکھ سے آنسو بہنے لگے۔
”میں نے اتنے ارمان اور چاؤ سے بنایا تھا اور تو پہننے سے انکار کر رہی ہے۔تو بہت دکھ دے رہی ہے ہم سب کو۔”
”اگر اپنی خوشی پوری کرنا دکھ دینا ہے تو اماں مان لے میں دکھ دے رہی ہوں کیوں کہ میں اس طرح گزارا نہیں کر سکتی جیسا تو نے،نازیہ نے اور گاؤں کی باقی ساری عورتوں نے کیا۔میں سب کو دکھا دوں گی کہ فوزیہ بتول جیسی عورتیں ہر بات پر گزارا نہیں کرتیں۔”فوزیہ نے روکھے انداز میں ماں کو جواب دیا۔
ماں بے چاری کچھ کہنا چاہ رہی تھی لیکن دکھ سے کچھ بول ہی نہ پائی۔بات اس کے منہ میں ہی رہ گئی۔
”ہاں ہاں دے دے کوئی بددعا،تو اس کے سوا دے بھی کیا سکتی ہے۔اگر مائیں بیٹیوں کو دل سے دعائیں دیں تو وہ کبھی نہ روئیں۔”فوزیہ نے برجستگی سے کہا۔
”تو کیا سمجھتی ہے میں دل سے دعا نہیں دیتی؟” ماں نے یاسیت سے پوچھا۔
فوزیہ تلخ لہجے میں بولی۔” اماں دل پر ہاتھ رکھ کر پوچھ،نازیہ کے آنسو تیرے دل پرنہیں گرتے؟تجھے اس پر ترس نہیں آتا؟کیا سے کیا ہوگئی ہے وہ اور تو نے اور ابا نے اسے گھر سے نکال دیا اس درندے کے ساتھ۔ دعا دی تھی نا تو نے اس کو بھی،پھر کیوں نہیں لگی تیری دعا؟کیوں کہ تم دل سے نہیں بلکہ صرف اپنے فائدے کی دعائیں کرتے ہو۔”
”بس کر دے فوزیہ ایسی باتیں مت کر۔میرا دل پھٹ جائے گا۔”فوزیہ کی ماں نے آنسو بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھا اور جواب دیا۔
فوزیہ نے ماں کی باتوں کا کوئی اثر نہ لیا اور طنزیہ وار کرتے ہوئے کہا۔
”ہاں سچ برداشت نہیں ہوتا نا،چل چھوڑ سب باتیں۔کل عابد آئے گا گاڑی لے کر،اگر چلنا ہو تو بیٹھ جانا ورنہ میں تو جاؤں گی۔”
یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے میں چلی گئی اور ماں اسے دکھ سے دیکھنے لگی۔کتنی چاہت سے اس نے فوزیہ کے لیے شادی کا جوڑا بنایا تھا جو وہ دو لفظوں میں مٹی کرکے چلی گئی۔
٭…٭…٭





حجلٔہ عروسی میں بیٹھی فوزیہ عابد کا انتظار کرنے کے ساتھ ساتھ کن اکھیوں سے کمرے کا جائزہ بھی لے رہی تھی کہ اس کی نند راجدہ کمرے میں داخل ہوئی۔اس کے ہاتھ میں تھمی ٹرے میں دودھ کا گلاس اور کچھ مٹھائی اور پھل وغیرہ تھے۔راجدہ نے ٹرے میز پر رکھی اوربولی۔
”لو بھابی کچھ کھا لو تھوڑا سا، بھائی نے تو مہمانوں کے ساتھ کھالیا تھا مگر تو نے ابھی تک کچھ نہیں کھایا۔”
”میرا دل نہیں چاہ رہا ابھی۔”فوزیہ نے کھانے سے انکار کر دیا۔اُسے دکھ ہوا عابد نے اس کے بغیر کیوں کھا لیا وہ عابد سے ناراض ہوگئی۔
”چلو تمہاری مرضی،یہ سب یہیں پڑا ہے،جب دل چاہے کھالینا۔”راجدہ یہ کہتی ہوئی پلٹ گئی اور پھر اچانک رک کر بولی۔
”بھابی بھائی تو اماں کے پاس ہے،اسے آنے میں تھوڑی دیر ہوجائے گی۔ تو اپنی کمر سیدھی کرلے۔”
فوزیہ نے گھڑی کی طرف دیکھا جہاں بارہ بج رہے تھے اور راجدہ کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔
٭…٭…٭
دلہن کے پاس جانے سے پہلے عابد ماں کے پاس بیٹھا اس کے پاؤں دبا رہا تھا اور وہ اسے بیوی کو قابو میں رکھنے کے گر سمجھا رہی تھی۔
”دیکھ اسے اس کی اوقات بتا دے،زیادہ سر پر نہ چڑھانا۔ ایک بار گھر سے بھاگ چکی ہے وہ، اب تو لگام ڈال کر رکھ۔ورنہ آگے بہت پچھتائے گا۔”
”اماں تو پریشان نہ ہو،مجھے پتا ہے کیسے قابو رکھنا ہے اُسے۔”عابد نے کندھے جھٹکتے ہوئے جواب دیا۔
”ہاں ہاں جانتی ہوں مگر تو نے ہی دماغ خراب کیا ہے اس کا،لیکن اب اس کو دبا کر رکھنا، زیادہ چھوٹ مت دینا۔”ماں نے فہمائش کی۔
”تو بے فکر رہ اماں میں…” وہ ماں سے جان چھڑانے کی فکر میں تھا۔ایک گھنٹے سے ماں اُسے دنیا جہان کی باتوں میں الجھائے رکھے ہوئی تھی۔
ماں نے اس کی بات کاٹی اور بولی۔
”میں کیسے بے فکر رہوں،اس نے تو شاید الو کا گوشت کھلا دیا ہے۔اس کے سوا تجھے کچھ نظر ہی نہیں آتا۔مرد بن مرد،زن مرید مت بن۔”ماں نے اسے ڈانٹا۔
”کیسی باتیں کر رہی ہے ماں،میں اب اتنا بھی بے غیرت نہیں کہ زن مرید بن کر اس کی غلامی کروں گا۔”عابد زن مریدی کا طعنہ سن کر غصے سے بولا۔
”تو بس قابو کر کے رکھ اسے،ابھی بتا دے اسے جا کر کہ اس گھر میں کیسے رہنا ہے؟تیری ماں،تیری بہن اور تیرے بھائی کی کیا حیثیت ہے گھر میں،انہیں کس مقام پر رکھنا ہے۔زیادہ چوں چرا کرے تو کاغذ دے کر باہر نکال دینا۔”ماں نے سفاکی سے سمجھایا۔
”ماں تو فکر ہی نہ کر،میں اسے سمجھا دوں گا،جو بیوی کو قابو نہ کر سکے بھلا وہ کیسا مرد۔”عابد نے ماں کو یقین دلایا۔
”پتر یہ بہت ضروری ہے۔اس کے دماغ میں جو خناس بھرا ہے اسے نکال دے ورنہ تو بھی مشکل میں پڑ جائے گا۔”ماں نے گویا اسے ڈرایا۔
”ٹھیک ہے اماں،اب جاؤں؟”اس نے بے زاری کی حالت میں اجاز ت لی۔
”ہاں جا، اللہ دے حوالے۔”ماں نے کچھ آیتیں پڑھ کر اس پر پھونکیں جیسے وہ محاذِ جنگ پر جارہا ہو اور وہ واقعی ایک محاذ پر ہی جارہا تھا،کیوں کہ کمرے میں فوزیہ اس سے سخت ناراض بیٹھی تھی۔
٭…٭…٭





عابد کمرے میں داخل ہوا اور پلٹ کر دروازہ بند کر دیا۔فوزیہ دلہن بنی بیٹھی تھی۔اس کے چہرے پر بڑا روپ چڑھا ہوا تھا۔وہ تھوڑی خفاخفا سی اور روٹھی روٹھی سی تھی۔اس نے عابد کو دیکھ کر سر جھکا لیا۔عابد اس کے پاس بیٹھ گیا۔اس نے ایک نظر گھڑی پر ڈالی۔
عابد نے مسکراتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑا اور تعریف کی۔
”توتو آج بہت پیاری لگ رہی ہے۔ قیامت ڈھا رہی ہے۔”
”میں نہیں بولتی تجھ سے،یہ بتا تو کہاں تھا اب تک؟”فوزیہ نے ہاتھ کھینچتے ہوئے روٹھے انداز میں کہا۔
”اماں کے پاس بیٹھا تھا،ابھی اتنی دیر تو نہیں ہوئی۔”عابد نے گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔اُسے فوزیہ کا انداز بُرا تو لگا لیکن اس نے خود پر قابو پالیا۔
فوزیہ غصے سے اونچی آواز میں بولی۔”ہاں ہاں تجھے کیا،میں انتظار میں جلتی رہوں اور تو ماں کے پاس بیٹھا اُس سے باتیں کرتا رہے۔”
”زبان بند کر اپنی،خبردار جو اونچی آواز میں مجھ سے بات کی۔”عابد سے اب برداشت نہ ہوسکا اس نے فوزیہ سے بھی اونچی آواز میں گرج کر جواب دیا۔
فوزیہ اس کے لہجے سے پریشان ہوگئی اور حیرت سے اٹک اٹک کر بولی۔
”عابد یہ تو مجھ سے کیسے بات کر رہا ہے؟”
عابد نے انگلی اُٹھا کر اُسے دھمکایا۔”جیسے تو مجھ سے کر رہی ہے۔”اب وہ اتنی زور سے دھاڑا کہ فوزیہ ایک دم چپ ہوگئی۔”تو اب بیوی ہے میری مجھ سے اب زبان سنبھال کر بات کر،آئندہ برداشت نہیں کروں گا۔”
”عابد…”فوزیہ نے حیرت بھرے لہجے میں کہااور ہکا بکا اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔
٭…٭…٭
صبح فوزیہ کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھاکہ عابد اپنے بستر پر نہیں ہے۔اُسے گزری رات کی ساری باتیں یاد آئیں اور پھر پرانی باتیں،خاص طور پر وہ وعدے جو عابد نے اس سے کیے تھے کہ میں تجھے رانی بنا کر رکھوں گا،تیری ہر خواہش پوری کروں گا۔ابھی وہ یہ ساری باتیں سوچ رہی تھی کہ عابد سر پر تولیہ رگڑتا ہوا کمرے میں آیااورشیشے کے آگے کھڑا ہو کراپنے بال سنوارنے لگا۔اس نے فوزیہ کی طرف نگاہ اُٹھا کر بھی نہ دیکھاپھر اچانک پلٹ کر فوزیہ کی طرف مڑا اور بولا:
”اٹھ جا بھلی مانس۔ اماں ناراض ہو رہی ہے کہ تو ابھی تک بستر پر پڑی ہے۔”
”میری مرضی بستر پر پڑی رہوں یا اُٹھ بیٹھوں، تو کون ہوتا ہے؟”وہ انتہائی بدتمیزی سے بولی تو عابداُس کے سر پر آ کھڑا ہوا۔
”او دیکھ صبح صبح میرے منہ مت لگ،آج ہماری شادی کی پہلی صبح ہے۔ تیری ایسی باتیں سننے کے لیے تجھ سے شادی نہیں کی۔”
فوزیہ نے اسے بہت غور سے دیکھا،اس کے چہرے پھر ابھی بھی غصے کے رنگ آ جا رہے تھے۔عابد کا انداز ایسا تھا جیسے رات جو کچھ ہوا اس کی اُسے کوئی پروا ہی نہیں ہے۔ عابد نے اسے اِس طرح دیکھنے پر کہا۔
” اوکیا گھور رہی ہے،چل اٹھ ناشتہ کرتے ہیں۔ تیرے گھر والے آتے ہی ہوں گے ناشتہ لے کر،دیر ہوگئی ہے۔”
”عابد تم مرد کتنے کٹھور ہوتے ہو۔شادی سے پہلے کتنے خواب دکھاتے ہو اور جب چڑیاپھنس جاتی ہے تو بدل جاتے ہو۔” فوزیہ نے آزردگی سے کہا۔ عابد نے نظر بھر کر اس کی طرف دیکھاتو اس کا دل پسیج گیا۔اس نے فوزیہ کا ہاتھ پکڑ کر چارپائی سے کھڑا کردیا۔
” او کوئی نہیں بدلا،بس تو اپنے غصے سے میرا غصہ بڑھا دیتی ہے۔آئندہ ایسا مت کرنا، دنیا سے لڑ لے مگر اپنے آدمی سے کبھی نہ لڑنا۔یاد رکھنالڑنے والی عورت آدمی کو کبھی اچھی نہیں لگتی۔” وہ فوزیہ کو رسان سے سمجھاتے ہوئے بولا۔
”اورتو بھی یاد رکھ لڑنے والا مرد بھی عورت کو اچھا نہیں لگتا۔” فوزیہ نے پھر ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
”اچھا چل چھوڑ،چل کر ناشتہ کر۔” عابد نے ان سنی کرتے ہوئے کہا۔وہ بات ختم کرنے کی کوشش کررہاتھا۔
”تو بھی ساجد کی طرح نکلا عابد۔”فوزیہ کچھ سوچتے ہوئے دوبارہ پھر غصے سے بولی۔
” دیکھ فوزیہ! آج تو اس کمینے کا نام لے لیا، آئندہ نہ لینا،میں برداشت نہیں کروں گا۔ چل ناشتہ کرنا ہے تو آجا، میں باہر تیراانتظار کر رہا ہوں۔ ”وہ بھی غصے سے کہتاہوا کمرے سے نکل گیا۔ فوزیہ خاموشی سے اس کی بات سن کر اُٹھ کر بیٹھ گئی۔
٭…٭…٭





فوزیہ نہا دھو کر نئے کپڑے پہنے خاموشی سے اپنی چارپائی پر بیٹھی تھی کہ اس کی سہیلیاں ہنستی ہوئی کمرے میں داخل ہوئیں،ان میں فاطمہ بھی تھی۔فاطمہ نے غور سے اس کے چہرے کو دیکھا جس پر اداسی کا پہرہ تھا۔
” کیا ہوا؟نئی نویلی دلہن تو نہیں لگ رہی، رو کر بیٹھی ہے؟”اس نے فوزیہ کے کان میں سرگوشی کی۔
”روئیں میرے دشمن،میں کیوں روؤں؟” فوزیہ نے تلملا کر جواب دیا۔
”تو پھر چہرے پر بارہ کیوں بج رہے ہیں؟” فاطمہ نے تفتیش کی۔
”نہیں بارہ نہیں بج رہے،بس اماں یاد آرہی ہے۔”فوزیہ نے جواب دیا۔
”ہاں وہ بھی تجھے یاد کر کے کل رات بہت رو رہی تھی۔” فاطمہ نے اسے بتایا۔
”لیکن فاطمہ وہ غم کے نہیں،خوشی کے آنسو تھے۔”فوزیہ نے عجیب سے لہجے میں کہا۔
”ہائے فوزیہ! ایسے مت بول۔”
فوزیہ اس کی بات سن کر طنز سے مُسکرا دی۔وہ جانتی تھی کہ فاطمہ اس بات کو نہیں سمجھے گی کل ماں نے رخصت کرتے ہوئے اسے گلے سے بھی نہیں لگایا تھا،وہ سخت ناراض تھی۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اس کے لیے رو رہی ہو اس نے فاطمہ کی خوش فہمی دور کرنا اپنا فرض سمجھا۔
ابھی اس کی سکھیاں اس سے باتیں کرہی رہی تھیں کہ پھر عابد کمرے میں داخل ہوا۔اس کے ہاتھ میں ناشتے کی ٹرے تھی جو اس نے فوزیہ کے پاس ہی لا کر رکھ دی۔سکھیاں عابدکو دیکھ کر کمرے سے نکل گئیں۔
”چل ناشتہ کرلے۔”عابد نے اُسے مناتے ہوئے کہا۔
”نہیں کرنامجھے ناشتہ۔”وہ بدستوررو ٹھی ہوئی تھی۔
”چل یہ رکھ منہ میں۔”عابد نے نوالہ بنا کر اس کی طرف بڑھایا مگر وہ ناراض ہی رہی اور عابد کا ہاتھ پیچھے ہٹا دیا۔عابد نے زبردستی نوالہ اس کے منہ گھسیڑ دیا اور ساتھ ہی ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنے لگا۔
”چل معاف کر دے،آج ہماری شادی کا پہلادن ہے۔یوں ناراض نہیں ہوتے۔”
فوزیہ اس کی بات سن کر نرم پڑ گئی۔
”چل اس بار ناراضی ختم ہو گئی ہے لیکن بار بار غصہ نہ کرنا۔”وہ اُسے وارننگ دیتے ہوئے بولی۔
”نہیں کرتا،چل اب توکچھ کھالے میری ماں۔”اس نے ایک اور نوالہ بناکر اُس کی طرف بڑھایا۔
”کھاتی ہوں لیکن تُو بھی کھا۔”اب اس نے عابد سے کہا۔
”تو کھلا۔” عابد نے بھی اس کو نرم پڑتا دیکھ کر فرمائش کردی اور ایک دوسرے کے منہ میں نوالہ رکھتے ہوئے دونوں مسکرادیے۔
٭…٭…٭





آج عابد کے ساتھ فوزیہ کا شہر جانے کا پروگرام تھا وہ اس کے ساتھ فلم دیکھنا چاہتی تھی لیکن رات سے اچانک اماں کی طبیعت خراب ہوگئی جس کی وجہ سے عابد کو اسے لے کر شہر جانا پڑا لیکن وہ وہاں سے فوزیہ کے پسندیدہ تحفے لانا نہ بھولا۔ فوزیہ غصے میں بھری بیٹھی تھی کہ اچانک عابد گنگناتا ہواکمرے میں داخل ہوا۔اس کے ہاتھ میں گجرے، میگزین اور جلیبیوں کا ایک شاپر تھامگر فوزیہ نے اس کی طرف دیکھا ہی نہیں۔ عابد اس کی طرف دیکھتا ہواچارپائی پر اس کے پاس ہی بیٹھ گیااور فوزیہ کا چہرہ گھما کر اپنی طرف کیا۔
”تو ناراض ہے؟”عابد نے پوچھا۔
”تجھے کیا؟تجھے میری پرواہے؟”فوزیہ نے اس کی طرف دیکھا اور تڑخ کر بولی۔
”کیوں نہیں پروا، بیوی ہے تو میری۔”اس نے اسی انداز میں جواب دیا۔
”اچھا تجھے یاد ہے میں تیری بیوی ہوں؟”فوزیہ نے طنز کا ایک اورتیر چلایا۔
”دیکھ اماں کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا بہت ضروری تھا،بیمار تھی وہ بہت۔ہفتہ ہوگیا تھا دوائی ختم ہوئے۔آج بھی نہ جاتا تو طبیعت زیادہ خراب ہوجاتی۔” عابد نے اسے پیار سے سمجھایا۔
” تو پھر مجھ سے وعدہ کیوں کیا تھاکہ فلم دیکھنے چلیں گے؟” فوزیہ نے غصے سے کہا۔
یہ سُن کرعابد نے کوئی جواب دینے کے بجائے شاپر سے گجرے نکالے اور اسے پہنانے کی کوشش کی تو فوزیہ نے غصّے سے ہاتھ کھینچ لیاجیسے ابھی بھی شدید ناراض ہو۔
”کوئی بات نہیں،اب ہم کل چلے جائیں گے۔فلم کون سااتر گئی ہے۔چل غصہ تھوک دے،یہ دیکھ میں تیرے لیے کیا لایا ہوں۔’ ‘عابد نے اسے منانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔”او چل چھوڑ غصہ معاف کردے یار!ماں کا خیال بھی تو میں نے ہی رکھنا ہے۔”اس بار اس نے مضبوطی سے فوزیہ کے ہاتھ تھام کر اس میں گجرے چڑھا دیے۔
اس کی زبردستی پر فوزیہ نے منہ تو بنایا مگر ہاتھ نہیں کھینچا۔عابد نے گجرے پہناتے ہی شاپر سے جلیبی نکال کر فوزیہ کے منہ میں ٹھونسی، وہ تھوڑا منہ بناتے ہوئے ہنس پڑی اور بولی۔
”تو بہت جھوٹا ہے۔”
عابد نے شاپر سے ایک فیشن میگزین بھی نکال کر اسے دیااور کہا۔
”یہ لے،یہ دیکھ تیری پسند کی ایک اور چیز لایا ہوں۔”
فوزیہ نے میگزین دیکھا تو جیسے کِھل اٹھی اور سرورق پر حدیقہ کیانی کی تصویر دیکھی اور اشتیاق سے بولی۔
”ہائے اللہ کتنی خوبصورت لگ رہی ہے؟عابد تو کیا چیز لے کر آیا ہے قسم سے۔”
عابد کے چہرے پر فوزیہ کو خوش دیکھ کر خوشی اتر آئی۔
”اچھا لگاتجھے ؟”عابد نے پوچھا۔
” بہت اچھا،بلکہ بہت بہت اچھا۔”فوزیہ نے آنکھیں میچ کر کہا۔





وہ آہستہ آہستہ میگزین کے صفحات پلٹ رہی تھی اور ان پر موجود تصاویر پرہاتھ پھیر رہی تھی۔عابد اسے دیکھ دیکھ کر خوش ہورہا تھا اوراس کے منہ میں جلیبیاں بھی رکھ رہا تھا۔ اچانک صفحے پلٹتے پلٹتے وہ رک گئی۔ایک اشتہار تھا جس میں مری کا ٹور پلان کیا گیا تھا۔ اس نے میگزین عابد کی طرف بڑھایا اور کہا۔
”عابد دیکھ یہ اشتہار،کتنا خوب صورت ہے مری۔ہم گھومنے پھرنے چلیں ؟”
”ہاں چلتے ہیں،تھوڑا ٹائم اچھا گزر جائے گا۔چل پھر تو تیاری پکڑ میں پیسوں کا انتظام کرتا ہوں۔”عابد نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”ہائے عابد تو کتنا اچھا ہے۔”فوزیہ عابد کا ہاتھ پکڑتے ہوئے خوشی سے بولی۔
”تیری خاطر تو عابد کچھ بھی کرسکتا ہے۔بس تو خوش رہا کراور مجھ سے ناراض نہ ہوا کر۔”عابد نے اسے پیار سے دیکھتے ہوئے کہا تو وہ اس کی بات پر مسکرادی۔
٭…٭…٭
عابد اماں کے کمرے میں آیا،ماں کے پاس راجدہ بیٹھی تھی جو اسے دوائی پلا رہی تھی۔عابد نے ماں کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”کیا حال ہے اماں تیرا؟”
” ٹھیک ہوں،ماں مرے یا جیئے،تجھے کیا؟”عابد نے ماں کی تلخی کو نظرانداز کیااور بہن سے پوچھا۔
”تو کب آئی راجدہ؟”
” بھائی ابھی آئی ہوں،ماں نے فون کرکے بلایا ہے اس کی طبیعت بہت خراب تھی۔”راجدہ نے جیسے جتانے والے انداز میں بتایا اور طنزیہ انداز میں مُسکرا دی۔
”اچھا تو رہے گی ابھی؟اچھی بات ہے۔”عابد نے خوشی سے کہا۔اُسے تسلی ہوگئی تھی کہ وہ ماں کو اکیلا چھوڑ کر نہیں جارہا۔
”ہاں بھائی، میاں سے کہہ کر آئی ہوں میری ماں کی طبیعت جب تک ٹھیک نہیں ہو جاتی میں نہیں آؤں گی۔ ”وہ بڑی معصومیت سے جتا رہی تھی جسے عابد بھی سمجھ رہا تھا۔
”اس کی بیوی کو کیا خبر کے دوسرے کمرے میں کوئی کھانس کھانس کر پانی کو ترس گیا ہے۔”عابد کی ماں نے شکایتی انداز میں کہا۔
”ارے اماں توآواز دے لیا کر نااُسے۔”عابد نے کہا۔
”میں کیوں دوں آواز ،اسے میری کھانسی کی آواز سنائی نہیں دے رہی،وہ خود نہیں آکر پوچھ سکتی؟”ماں زور سے بولی۔




Loading

Read Previous

گائے کے سینگ

Read Next

غریب لکڑہارا

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!