باغی – قسط نمبر ۱ – شاذیہ خان

گاؤں کی سب سے الہڑ،بے باک اور منہ پھٹ مٹیار فوزیہ بتول تھی جو کسی کو خاطر میں نہ لاتی،جس راستے سے گزرتی نوجوان اپنا دل راہ میں بچھائے اس کی ایک نظر کو ترستے لیکن وہ کسی کو گھاس نہ ڈالتی بلکہ اکثر کو تو بے بھاؤ کی سُننی پڑتیں۔ میٹرک تک تو اس کے باپ نے جیسے تیسے اُسے سرکاری اسکول میںپڑھا دیا تھا لیکن آگے پڑھنے کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی جس کے لیے وہ خود کوشش کرتی کہ پراندے بناکر کچھ نہ کچھ جمع کرلے لیکن چھوٹے بھائی سے اتنا پیار تھا کہ اپنے لیے جمع کیے ہوئے پیسوں سے اس کی فیس ادا کر دیتی یا کتابیں وغیرہ خرید کر دے دیتی۔وہ منے سے پیار بھی بہت کرتی تھی۔ روزانہ اس کے ہاتھ میں خرچ کے پیسے تھماتی اور تاکید کرتی کہ پڑھ لکھ کر گھر کا بڑا مرد بن تاکہ باپ کا بوجھ کچھ کم ہوسکے۔بڑے بھائی رحیم نے تو اپنی اوقات دکھادی تھی۔ شادی کے بعد پورا زن مرید بن گیا تھا۔جورو کا غلام ہر کام بیوی سے پوچھ کرکرتا، اس کی وجہ سے بہن اور ماں سے جھگڑا کرتا۔ فوزیہ چوں کہ منہ پھٹ تھی اس لیے رحیم اورفوزیہ کی آپس میںبالکل نہ بنتی۔ رحیم کی بیوی اسما کو بھی فوزیہ سے اللہ واسطے کا بیر تھا۔ فوزیہ چوں کہ بھائی بھابی کی جی حضوری نہیں کرتی تھی اس لیے روزانہ کسی نہ کسی بات پر بہن بھائی میں تکرار ہوتی۔ تین بہنوں دو بھائیوںمیں فوزیہ کا نمبر تیسرا تھا ۔ بڑا بھائی رحیم پھر نازیہ ، فوزیہ، مُنی اور مُنا۔
مُنابہن بھائیوں میںسب سے چھوٹا تھا لیکن فوزیہ سے اس کی بہت بنتی تھی۔وہ خیال بھی تو بہت رکھتی تھی اس کی پڑھائی کا، اس کے کپڑوں کا اسی لیے منا اپنی ہر ضرورت باپ کے بہ جائے بہن سے ہی کہتا تھا۔روزانہ اسکول بھیجتے وقت فوزیہ اسے ایک کالا ٹیکا لگانا نہ بھولتی۔ اس کا خیال تھا کہ منابہن بھائیوں میں سب سے خوب صورت ہے اور اسے جلد نظر لگ جاتی ہے۔





آج بھی اسکول بھیجتے وقت فوزیہ نے چھوٹے بھائی کو کانوں کے پیچھے کالا ٹیکا لگایا اور گالوں پر ایک زور دار پیار کیا جسے مُنے نے منہ بناتے ہوئے صاف کیا۔
”اوہو باجی!”
”نظر نہ لگے میرے ویر کو،کتنا سوہنا لگ رہا ہے۔” اس نے یہ کہتے ہوئے ایک پیار بھری نگاہ بھائی پر ڈالی اور بیگ اس کے کندھے پر ڈالا۔”باجی! اب میں جاؤں؟”منے نے بڑے معصومانہ انداز میں پوچھا۔
”ہاں ہاں چل، تو نکل اسکول لگنے والا ہوگا مگر دیکھ سنبھل کر جانا اور راستے میں کسی سے بات نہ کرنا، تو بھی ہر کسی سے بات کرنے کھڑا ہو جاتا ہے۔” گیارہ سالہ منے نے اس کی بات سمجھ کر سر ہلایا اور بولا۔
”باجی تو فکر نہ کر،یہ بات تو مجھے روز سمجھاتی ہے۔”
”اور تو روز بھول جاتا ہے۔ ہر کسی سے بات کرنے کھڑا ہو جاتا ہے۔”فوزیہ نے بھی اس کے سر پر ایک چپت لگاتے ہوئے جواب دیا۔
”توبہ میری باجی،اب نہیں کرتاایسی غلطی۔”وہ کان پکڑتے ہوئے بولا۔
”دیکھ مُنے غلطی کرلیا کر مگر گناہ کبھی نہ کرنا۔” وہ معصومانہ انداز میں بولی اور اس کے ساتھ چلتی ہوئی کمرے سے نکل آئی۔
”دیکھ مُنے غلطی کی معافی ہے گناہ کی معافی نہیں۔”اس نے سمجھایا اورپھر اس کے پیچھے چل پڑی،منے نے منہ بنایا۔
”کیا مطلب باجی؟ ” اس نے ناسمجھنے والے انداز میں پوچھا۔
”چل چل تو اب نکل،تجھے دیر ہورہی ہے ۔باقی باتیں بعد میں۔”
وہ دونوں باتیں کرتے اب صحن تک آگئے تھے۔
”تو یہیں رک، دروازے پر مت آنا،میرے دوست مجھے چھیڑتے ہیں۔”
”ارے ایسے کیسے؟ میں تجھے دروازے تک چھوڑنے آؤں گی ۔چل میرے ساتھ،اور تیرے دوست کیوں چھیڑتے ہیں؟” اس نے حیرانی سے پوچھا۔
”وہ کہتے ہیں تو اتنا بڑا ہوگیا اور تیری بہن تیرا ہاتھ تھام کر دروازے تک چھوڑنے آتی ہے۔” وہ ڈر ڈر کر بولا۔
”ایک جھانپڑ دوں گی تجھے اور تیرے دوستوں کو،سب مذاق وزاق بھول جائے گاتجھے بھی اور تیرے دوستوں کو بھی۔” اس نے مصنوعی غصہ دکھایا۔
”باجی خرچا تو دے اسکول کا۔” دروازے پر کھڑے ہوکر منے نے فوزیہ سے کہا تو اس نے پلو میںبندھے نوٹ نکالے اور دس کا نوٹ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہنے لگی۔
”ہاں جب تو خرچہ مانگتا ہے تب تو تیرے دوست کچھ نہیں کہتے مگر بہن کی انگلی پکڑکر دروازے تک آنے پر باتیں بناتے ہیں۔” منا نوٹ پکڑ کر خوشی خوشی گلی میں بھاگ نکلا اور وہ دور تک اسے جاتا دیکھتی رہی کہ اچانک پیچھے سے ماں کی آواز آئی۔
”او ری فوزیہ! نی دروازے پر ہی کھڑی رہے گی یا اندر آکر کچھ کام وغیرہ بھی دیکھے گی۔”وہ منہ بناکر ماں کے پاس آگئی۔
”کیا تھا اماں ، تُو مجھے بھی پڑھا دیتی۔” اس نے صحن میں پڑی چارپائی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
”ہاں… پڑھا کر تجھے تیر سے تلوار کردیتی۔پہلے ہی دیدہ ہوائی ہے تیرا،چل کپڑے دھو۔” ماں نے بہت خفگی سے بڑ بڑاتے ہوئے جواب دیا۔
”فوزیہ کپڑے دھو… فوزیہ جھاڑو لگا… فوزیہ روٹی پکا… فوزیہ جوتے اُٹھا۔کتاب چھپوا کر دے دو ان ساری باتوں کی۔”یہ کہتے ہوئے وہ اندرونی کمرے کی طرف چلی گئی۔
”جوتے کھائے گی جس گھر میں جائے گی۔” ماں نے اُسے اندر جاتے دیکھ کرکہا۔
اندر جاتی ہوئی فوزیہ نے اس کی بات سن کر مڑ کرجواب دیا۔
”جوتے ایسے ہی کھاؤں گی؟دو آگے سے بھی ٹکاؤں گی۔” ماں نے اس کی بات سن کر چارپائی کے پاس پڑا جوتا اُٹھا کر پوری قوت سے اس کی طرف اُچھالا اور وہ چلائی۔
”اماں جوتی نہ ماریں۔”یہ کہہ کر اس نے دوڑ لگا دی۔
٭…٭…٭





ساجد کی ماں صحن موجودہ گائے کے اپلوں کو ایک کونے میں بنی چھوٹی سی کٹیا میں ڈھیری کی صورت جما رہی تھی تا کہ بہ وقت ضرورت کام آسکے۔ ساتھ ساتھ غصے سے اس کی بُڑبُڑاہٹ بھی جاری تھی۔ اتنے میں ساجد صحن میں مسواک کرتا داخل ہوا اور ٹیڑھی نظر سے غصے میں بڑبڑاتی ماں کو دیکھااور اس کے پاس آگیا۔
آج اس نے دل میں پورا ارادہ کرلیا تھا کہ اپنی اور فوزیہ کی شادی کی بات کرکے رہے گا۔ حالاں کہ وہ جانتا تھا ماں فوزیہ کو سخت ناپسند کرتی ہے۔اسما سے لڑائی میں اکثر فوزیہ کی ہی جیت ہوتی اور اسما کی ماں کا بس نہیں چلتا تھا کہ اس کی چلتی زبان پرسیمنٹ ڈلوا کر پکا پکا ہی بند کروادے۔اس کا دل بُرا کرنے میں اسما کا بھی بہت ہاتھ تھا جو ہر دوسرے دن گھر آکر فوزیہ کی زبان درازی کے جھوٹے سچے قصے دل سے گھڑ کر سناتی،لیکن ساجد پر اس کی کسی بات کا کوئی اثر نہ ہوتا کیوں کہ وہ تو فوزیہ کو کب سے دل میں بسائے اس کے خواب دیکھ رہا تھا۔اُدھرفوزیہ اُسے سخت ناپسند کرتی تھی۔اسے لوفروں کی طرح باتیں کرتا ساجد ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔ وہ ذرا ذرا سی بات پر فری ہونے کی کوشش کرتا اورفوزیہ اکثر اسے جھاڑ دیا کرتی۔ ساجد کا خیال تھا کہ شادی سے پہلے ہر لڑکی یوں ہی نخرے دکھاتی ہے،شادی ہوجائے گی تو وہ بھی ٹھیک ہوجائے گی۔ اسی لیے آج اس نے اپنی ماں سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔
”اماں مجھے ایک بات کرنی ہے تجھ سے۔”
ماں نے اپلے ڈھیری کی طرف پھینکتے ہوئے ہاتھ جھاڑتے ہوئے اس کی طرف دیکھا اورپوچھا۔
”ہاں بول… تو کب سے پوچھ پوچھ کر بات کرنے لگا۔”وہ حیران ہوئی۔
”توبس میری شادی کرا دے۔”وہ ایک نادان بچے کی طرح مچلتے ہوئے بولا جسے اپنا کوئی من پسند کھلونا چاہیے تھا۔
”یہ صبح سویرے شادی کا بھوت کہاں سے چمٹ گیا تجھے؟” ماں نے خفگی سے پوچھا۔
”صبح سویرے کی کیا بات ہے؟کیا میں تجھ سے کہتا نہیں رہا شادی کا؟”ساجداسی انداز میں مسواک چباتے ہوئے بولا۔
”ٹک کر کوئی کام تو کر لے چار دن۔دو کمرے ڈال دے پکّے،پھر ہو جائے گی شادی بھی۔”ماںنے اس کی ہٹ دھرمی کو بچوں کی ضد سمجھ کر نظر انداز کر دیا۔
”تیری ایسی ہی باتوں کی وجہ سے مجھے غصہ آتا ہے تجھ پر۔”وہ منہ بناتے ہوئے بولا۔
”کہاں کروں رشتہ بتا؟ کون دے تجھے لڑکی؟”وہ خفگی سے بولی۔
”کیوں؟ تیرے بیٹے کو انکار کرنے کی جرأت کس میں ہے؟ پر ماںمیں نے شادی فوزیہ سے ہی کرنی ہے۔” وہ بچوں کی طرح ضد کرتے ہوئے بولا۔
”فٹے منہ تیرا… نہ تیری شکل اچھی ہے، نہ تیری بات۔ماں کے مقابلے میں لا رہا ہے اس چڑیل کو۔” ماں نے غصے سے پلٹ کر دیکھا۔
”اماں اسے چڑیل مت کہہ۔” ساجد نے منہ بنایا۔
”خبردار! میرے سامنے آئندہ اس کا نام بھی لیا تونے اپنی زبان سے۔یہ نہیں ہوسکتا،سن لے صاف صاف۔”
”تو بس ٹھیک ہے تو بھی بھول جا اپنے بیٹے کے سہرے کے پھول کھلانے کاخیال۔ میں نے بھی شادی نہیں کرنی۔” وہ غصے سے دروازے سے نکل گیا۔
”او ساجد!او ساجد سن تو، رک تو صحیح۔” ساجد کی ماں پریشانی سے چلاتی رہ گئی۔
٭…٭…٭





امام بخش آج صبح ہی مرغی دے کر گیا تھا کہ شام کو کسی دوست نے آنا ہے گھر بھی صاف کرلینا اور اچھی سی مرغی بھی پکا لینا۔ اسی لیے مُنی فوزیہ کے ساتھ مل کر اپنے اور فوزیہ کے مشترکہ کمرے کی چارپائیوں پر بچھی چادریں جھاڑ کر دوبارہ بچھا رہی تھی۔کمرے میں پڑا ایک چھوٹا سا بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی بھی آن تھا اور فوزیہ کی نظریں کام کرتے ہوئے بار بار بے چینی سے ٹی وی پر پڑ رہی تھیںجیسے اسے کسی پروگرام کاانتظار ہو۔ ٹی وی پر جمی نظروں کی وجہ سے وہ ٹھیک طرح سے بستر پر چادر نہیں ڈال پاتی، جس کا ایک سرا مُنی نے اور ایک سرا اس نے پکڑا ہوا تھا۔ مُنی جھنجھلا سی گئی ۔
”باجی ، بستر ٹھیک کرلو، پھر دیکھ لینا ٹی وی۔” ٹی وی اسکرین پر ایک فیشن شو میں ماڈلز ریمپ پر کیٹ واک کررہی تھیں جو فوزیہ کی پوری توجہ اپنی جانب مبذول کروائے ہوئے تھیں۔
”ٹھیک توکردیاہے بستر،اور کیا کروں؟صبح سے لے کر شام تک بس یہی کام تو رہتا ہے۔صفائی کرو، گند ڈالو، پھر صفائی کرو ، پھر گند ڈالو۔یہ جو امیروں کے گھر ہوتے ہیں، پتا نہیں یہ ہر وقت کیسے صاف ستھرے رہتے ہیں؟” اس نے یہ کہتے ہوئے حسرت سے ٹی وی کی جانب دیکھا جس پر بریک میں کسی ڈرامے کا پرومو چل رہا تھا جس میں گھر والے ایک خوب صورت ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوئے تھے۔ مُنی کی پوری توجہ ابھی بستر ٹھیک کرنے پر ہی تھی۔
”سن باجی آج مرغی پکنی ہے ہمارے گھر۔”مُنی نے اس کی توجہ ہٹانے کے لیے اپنے طور پر ایک بڑا انکشاف کیا۔
”اچھا! کون لایا ہے مرغی؟”تکیہ جھاڑتے ہوئے فوزیہ نے بھی اشتیاق سے پوچھا۔
”ابّا لایا ہے۔”مُنی بے پروائی سے بولی۔
”آج تو جمعہ بھی نہیں، پھر آج کس خوشی میں مرغی پکارہے ہیں؟” فوزیہ نے قدرے تشویش سے پوچھا۔
”اباکا کوئی دوست آرہا ہے ساتھ والے گاؤں سے،اپنے بیٹے کے ساتھ۔”مُنی نے اسی بے پروائی سے جواب دیا۔
”وہ جوابا سے نائیوں کا کام سیکھنے آیا تھا؟” فوزیہ نے بُرا سا منہ بناتے ہوئے مُنی کو یاد دلایا۔
”مجھے کیا پتا!” مُنی نے کندھے اچکاتے ہوئے جواب دیا۔
”مجھے پتا ہے، یہ وہی ہوگا اور ابا اگر اس کے لیے مرغی پکارہا ہے نا تو یاد رکھ مُنی!اباکی نیت خراب ہے۔” فوزیہ انتہائی خفگی سے بولی۔
”کیا مطلب؟” مُنی نے حیرانی سے پوچھا۔
”وہ اس کمینے کو میرے گلے ڈالنے کی کوشش کرے گا، پر فوزیہ بتول مر کر بھی اس سے شادی نہ کرے۔”فوزیہ انتہائی بگڑے ہوئے انداز میں بولی۔
”ہاں ہاں اور تو چوہدریوں کی بہو بننے کے خواب دیکھ رہی ہے۔ بھول جا باجی وہ بہت بڑے لوگ ہیں۔”مُنی ہنستے ہوئے دوسرے کمرے میں جاتے ہوئے بولی۔
”ہائے! بن ہی جاتی اگر چوہدرانی جی اپنے بیٹے کا رشتہ کہیں اورنہ طے کردیتی ۔”اس نے گہرا سانس لیتے ہوئے جواب دیا اور پھر کسی خیال میں گم ہو گئی اور ٹھنڈی سانس لے کر چارپائی پر بیٹھ گئی او رمیڈم کا گیت گنگنانے لگی۔
”میں تیرے سنگ کیسے چلوں ساجنا
تو سمندر ہے میں ساحلوں کی ہوا!”
٭…٭…٭
دوپہر کا وقت تھا اور شدید دھوپ نکلی ہوئی تھی۔ فوزیہ کا باپ امام بخش درخت کے نیچے اپنی دکان لگائے ایک گاہک کی شیو بنارہا تھا۔پاس ہی دو گاہک بیٹھے ایک اخبار ہاتھ میں لیے خبریںپڑھنے سے زیادہ اس میں موجود اشتہارات پر تبصرے کر رہے تھے اور ان کا تبصرہ بھی زیادہ تر ان ماڈلز پر تھا جو کسی بھی اشتہار میں موجود تھیں، ان کی زیادہ تر باتیں سرگوشیوں میں تھیں۔ اڑتی اڑاتی کوئی بات آس پاس بیٹھے گاہکوں اور امام بخش کے کانوں تک بھی پہنچ جاتی تو وہ اس میں جواباً اپنا حصہ ضرور ڈالتے۔
تب ہی ایک گاہک اخبار پر موجود تصویر دیکھ کر بآواز بلند بولا۔
”توبہ توبہ!آج کل کی عورتیں کتنی بے حیا ہوگئی ہیں۔” وہ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے بولا۔
”میں تو ان کے باپ بھائیوں کے بارے میں سوچ کر حیران ہوتا ہوں، کیسے بے غیرت لوگ ہیں؟ ایسی حرکتوں پر کچھ بھی نہیں کہتے۔”ساتھ بیٹھے دوسرے گاہک نے بھی لقمہ دینا ضروری سمجھا۔
”بے غیرتی تو اس کو لگے جسے عورت کی کمائی کھانے کی عادت نہ ہو۔ یہ عورتیں جب کما کما کر گھر کے مردوں کو کھلاتی ہیںتو ان کی غیرت تو افیم پی کر سوجاتی ہے۔”حجامت بناتے ہوئے امام بخش نے دونوں کی طرف دیکھ کر طنزیہ کہا۔
”اچھا تو صفحہ تو پلٹ،گھنٹے سے بکواس کرے جارہا ہے اور دیکھے بھی جارہا ہے۔کوئی اور خبر بھی تو دیکھ۔”ایک گاہک نے اخبار کا صفحہ پلٹنے کے لیے ٹہوکا دیا۔
”تو نے بھی سارا دن بس ادھر بیٹھ کر اخبارہی پڑھناہوتا ہے یا کچھ کام دھندا بھی کرے گا؟” امام بخش نے اپنا ہاتھ روک کر گاہک کو جھڑکا۔
”ہاں ہاںکروں گا، کیوں نہیں کروں گا۔جب کام ملے گا تو ضرورکروں گا۔”پہلا گاہک اپنی صفائی میں بولا۔
”او سدھر جا!کل تیری بیوی چودھری صاحب کے گھر جاکر تیری شکایت کررہی تھی۔” امام بخش ہنستے ہوئے بولا۔
”اسے بیماری ہے میری شکایتیں کرنے کی۔کھیت میں چار گھنٹے کام کیا کرلیتی ہے، مجھے تو ہڈحرام اور کام چور ہی سمجھنے لگی ہے۔” گاہک منہ بناتے ہوئے غصے سے بولا۔
”ساری عورتیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔مجال ہے آدمی کو فارغ بیٹھا دیکھ کر برداشت کرلیں۔ایک میری بیوی ہے اس کی کمائی کے رونے ہی ختم نہیں ہوتے۔اُسے ہر وقت یہی شک رہتا ہے کہ میںپتا نہیں اپنی کمائی کس کو دے آیاہوں۔” دوسرا گاہک منہ بناتے ہوئے بولا۔
”میں تو اس حق میں ہی نہیں ہوں کہ لڑکیوں کو گھر سے نکالا جائے۔ بس دسویں تک پڑھاؤ اور اگلے گھر کا کردو۔ باقی اللہ اللہ خیرصلّا،کوئی گورنر تھوڑی لگ جانا ہے عورتوں نے۔”پہلے گاہک نے منہ بناتے ہوئے جواب دیا۔
شیو ختم کرتے ہوئے امام بخش نے جواب دیا۔ ”اور اگر کوئی لگ گئی نا تو سب سے پہلے وہ ان سارے مردوں کو ہی جیل میں ڈالے گی۔” اس بات پر وہ سب قہقہہ مار کر ہنسے لیکن پہلا گاہک کھسیانا ہوکر امام بخش کی طر ف دیکھنے لگاجیسے کوئی جواب نہ بن رہا ہو۔
٭…٭…٭





فوزیہ اور فاطمہ چودھرانی کے گھر سے ان کے بیٹے کی شادی کے جوڑے پیک کروا کر آرہی تھیں کہ گلی کی نکڑ پر زور زور سے کسی عورت کے چیخنے کی آواز سنائی دی وہ دونوں ٹھہر گئیں۔
ایک آدمی اپنی بیوی کا ہاتھ گھسیٹتا ہوا زبردستی کھینچتا چلا جارہا تھا۔گلی کی نکڑ پر کھڑی فوزیہ اورفاطمہ یہ منظر دیکھ کر چند لمحے ٹھٹک گئیں۔
”آئند ہ گھر سے نکلی تو تیری ٹانگیں توڑ دوں گا میں۔تو کیا سمجھتی تھی کہ تیرے ماں باپ کے گھر سے لا نہیں سکتا تھا میں؟ چوہے کی طرح چھپ کر بیٹھ جائے گی۔گھر چل،وہ حشر کروں گا کہ یاد رکھے گی۔” وہ آدمی زور زور سے چیخ رہا تھا۔ گاؤں کی گلی عورتوں، مردوں اور بچوں سے بھری ہوئی تھی اور سب یہ سارا تماشا دیکھ کر خاموش کھڑے تھے۔کسی میں ہمت نہ ہوئی کہ آگے بڑھ کر اس آدمی کا ہاتھ پکڑتا۔ وہ آدمی اپنی بیوی کو گھسیٹتا ہوا ان کے سامنے سے گذر گیا۔
”دل کرتا ہے جوتا اٹھاؤں،اور ابھی گنجا کردوں اسے۔”فوزیہ نے غصے سے دانت کچکچا کر کہا۔
”وہ تو تب کرو نا جب پہلے ہی گنجا نہ ہو۔”فاطمہ نے منہ بناتے ہوئے اس کی ٹنڈ پر طنز کیا۔
”کتے بلیوں والی زندگی ہے اس گاؤں کی عورتوں کی۔ دیکھو سب کیسے کھی کھی کر کے ہنس رہی ہیں۔ کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ ہاتھ ہی پکڑ لے اس کا۔” فوزیہ غصے سے منہ بناتے ہوئے سب عورتوں کی طرف ہاتھ اٹھا کر بولی۔
”ہاتھ تو کوئی عورت تب پکڑے جب وہ خود نہ پٹتی ہو۔ان کے اپنے گھروں میں روز یہی سب ہوتا ہے، لیکن حرام خور مردوں کو بھی تو دیکھو کوئی آگے بڑھ کر نہیں بولا۔”فاطمہ نے طنز کیا۔
”چل نی چھوڑ،ان کے تو عذاب ہی نہیں ختم ہوتے،گھر چلتے ہیں۔”یہ کہہ کر فاطمہ نے فوزیہ کا ہاتھ گھسیٹا اور آگے بڑھ گئی لیکن فوزیہ پلٹ پلٹ کر دیکھتی رہی۔اس کے چہرے پر تاسف کا احساس تھا۔
٭…٭…٭
گاؤں میں چودھری صاحب کے بیٹے کی شادی کی تقریب تھی اس لیے ہر گھر میں خوشی تھی،یوں لگتا تھا کہ ان کے اپنے گھر کی شادی ہے۔چودھری صاحب بہت دیالو طبیعت کے تھے،آج تو پورا گاؤں ان کی حویلی میں موجود تھا کیوں کہ سب کو پتا تھا کہ پورے گاؤں کے غریبوں کے لیے آج دیگوں کے منہ کھول دیے جائیں گے۔ قورمہ اور بریانی کبھی کبھارتوپیٹ بھر کر ملتا تھا،اس لیے آج کوئی بھی یہ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتا تھا۔فوزیہ بھی خوب تیاری کے ساتھ پہنچی ہوئی تھی اور سب سکھیوں کے ساتھ مل کرکر ہلہ گلہ کر رہی تھی۔ بینڈ باجے والے بھی آئے ہوئے تھے جو مختلف گانوں کی دھنیں بجا رہے تھے۔ مردانے میں بھی رونق تھی لیکن یہاں زنانے میں کھلے صحن میں لڑکیوں بالیوں نے رونق لگائی ہوئی تھی جسے دیکھ دیکھ کر چودھرانی خوش ہورہی تھیں۔
فوزیہ سب کے درمیان ڈھول لے کر بیٹھی اور میڈم نور جہاں کا کوئی گانا گا رہی تھی۔ آواز کہیں کہیں بے سُری سی ہو جاتی مگر چودھرانی کے پاس کھڑی عورتیں فوزیہ کی تعریف کرتی ہوئی خوش ہورہی تھیں ۔محفل میں موجود ایک شخص اس کی تعریفوں سے جل کر راکھ ہورہا تھااور وہ تھی اسما جو ان دونوں کے ساتھ آئی تھی اور اب پچھتارہی تھی۔
”جہاں فوزیہ پہنچ جائے بس میلا لگ جاتا ہے،گاؤں بھر میں رونق لگائے رکھتی ہے۔”ایک عورت نے کہا۔
”صحیح کہہ رہی ہیں باجی۔اس کو ناچنے گانے کا شوق ہی بہت ہے،ہر شادی میں پہنچ جاتی ہے۔”محلے کی ہی دوسری عورت نے مُسکراتے ہوئے جواب دیا۔
”اے فوزیہ!یہ گانا رہنے دے۔مسرت نذیر کا کوئی شادی والا گانا گا۔”پاس بیٹھی ایک لڑکی نے فوزیہ سے کہا۔




Loading

Read Previous

آرٹیکل بی-۱۲ – عظمیٰ سہیل

Read Next

بدی کے بدلے نیکی

One Comment

  • Kmaaal drama and kmaaal kahani…lekin ansu se bhri hui. Zindagi ki talkhion se bhri hui…. Plz make it ava4in download form

Leave a Reply to Zeejay Cancel reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!