باغی – قسط نمبر ۱ – شاذیہ خان

صحن میں دھوپ بکھری ہوئی تھی۔ ایک طرف پانی کا نلکا لگا تھا۔ پاس ہی دو بکریاں اور چند مرغیاں بھی ڈربے میں موجود تھیںجن کے آگے ان کا چارہ اور دانا پانی موجود تھا۔صحن میں تازہ تازہ مٹی کا لیپ ہوا تھاجس کی سوندھی سوندھی مہک فضا میں پھیلی ہوئی تھی۔پاس ہی نیم کا ایک درخت جس کے نیچے چارپائی بچھی تھی اس پر گول تکیہ دھرا تھا۔ دروازے سے گھس کر نلکے پر جلدی جلدی ہاتھ منہ دھونے کے بعد امام بخش چارپائی پر آ بیٹھا اورفوزیہ کی ماں کو پکارا۔
”لا بھئی فوزیہ کی ماں!کھانا دے بڑی بھوک لگی ہے۔”فوزیہ کی ماں نے اسے نلکے پر ہاتھ منہ دھوتے دیکھ کر ہی ٹرے تیار کرلی تھی جو لاکر چارپائی پر رکھی اور خود بھی ایک کونے میں ٹک کر بیٹھ گئی جیسے کچھ کہنا چاہتی ہو۔اس کے انداز میں ایک عجیب سی پریشانی،ایک ہچکچاہٹ سی تھی جیسے کچھ کہنا چاہ رہی ہو لیکن زبان تک بات آتے آتے رک رہی تھی۔ فوزیہ کے باپ نے محسوس کر لیا اور لقمہ منہ میں ڈالتے ہوئے پوچھنے لگا۔
”بول کیا کہنا چاہتی ہے،کچھ ہوا ہے آج؟”
”میں تو کہتی ہوں فوزیہ کے ابا! اب اس لڑکی کی شادی کردے۔ بہت پریشان کرکے رکھا ہوا ہے۔”فوزیہ کی ماں نے یاسیت بھرے انداز سے کہا۔
” میں پہلے ہی یہ سوچتا رہتا ہوں۔ بس کچھ گنجائش تو نکلے،پھراِسے بھی اپنے گھر کاکردوں۔”امام بخش نے روٹی کا ایک اور لقمہ منہ میں رکھتے ہوئے جواب دیا۔
”اٹھارہ سال کی تو ہوگئی ہے۔اب کردے اس کی شادی ،اس عمر میں نازیہ کی دو بیٹیاں تھیں۔”ماں نے اپنے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔ امام بخش نے سر ہلاتے ہوئے روٹی سالن میں بھگو کر منہ میں رکھی اور منہ چلانے لگا۔
” اختر کا باپ بھی رشتے کی بات کررہا تھا لیکن وہ رشتہ تو مانگ رہا ہے پر ساتھ شرطیں بڑی رکھ رہا ہے۔ کہہ رہا تھا کہ اختر کو بھی اپنے ساتھ کام پر رکھوں۔ میں نے کہا میرا اپنا کام نہیں چلتا، تیرے بیٹے کا کیا کام چلنا ہے۔ویسے فوزیہ تو مجھے کہہ رہی تھی کہ اسے آگے پڑھنا ہے۔ میرا دل چاہتا ہے اس کا شوق ہے کچھ ہاتھ میں ہو تو اسے پڑھاؤں۔”
”ہاں اب تو اس کا دماغ خراب کر ، نہیں، بس کافی ہے اتنا۔میٹرک تک پڑھ لیا۔ آگے کیا تیر مارے گی۔ بس جلدی سے اپنے گھر کا کردے۔ ”ماں نے اسے سمجھایا۔
”پھر تو بتا اختر کے باپ کو کیا جواب دوں؟وہ تو بہت جلدی مچا رہا ہے۔”امام بخش کے لہجے میں فکرمندی تھی۔
”صاف جوا ب دے دے۔ گھر جوائی رکھنے والے حالات نہیں ہیں ہمارے۔ ہماری تو اپنی دال روٹی پوری نہیں ہوتی،اسے کہاں رکھنا ہے۔ کوئی اور دیکھ جو اس کے ناز نخرے بھی اٹھا سکے۔اُس نکھٹو کو تو یہ چٹکیوں میں اڑا دے گی،بہت فرق ہے نازیہ اور فوزیہ میں۔ ” ماں نے اس کی بات تحمل سے سنی اور جواب دیا۔
”چل پھرمیں کسی اور کو کہتا ہوں رشتے کا ، تو ذرا ایک چائے کا کپ لادے۔ آج بہت تھک گیا ہوں۔ ”
”ٹھہر جا ابھی لاتی ہوں۔” ماں نے برتن سمیٹ کر اٹھتے ہوئے کہا۔
٭…٭…٭





‘سن ونجلی دی مٹھری تان وے میں تاں ہو گئی قربان وے’
فوزیہ اپنی بے سری آواز میں لہک لہک کر میڈم کاگانا گا رہی تھی اور ساتھ صحن کی بیرونی دیوار مٹی سے لیپ رہی تھی۔ اچانک اسی دیوار کے اوپر سے فاطمہ کی شکل ابھری،لیکن فوزیہ نے اس پر توجہ نہ دی اور خاموشی سے اپنے کام میں مصروف رہی اورجب فاطمہ پر نظر پڑی تو چونک گئی۔
”اوئے تو کہاں سے آرہی ہے اس وقت۔” فوزیہ نے چونکتے ہوئے پوچھا اور دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو گئی ۔وہ مٹی لیپنے کے ساتھ ساتھ ”سن ونجھلی دی مٹھڑی تان”کی تان بھی اُڑا رہی تھی۔
”یار فوزیہ آج میں تجھے اتنی زبردست خبر سنانے آئی تھی اور تو ہے بس گانے اور دیوار لیپنے میں لگی ہے۔دوست کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں۔ ” فاطمہ نے اسے لہک لہک کر گانا گاتے سنا تو چِڑ کر منہ بناتے ہوئے کہا۔ فوزیہ نے ہاتھ روکتے ہوئے حیرانی سے پوچھا۔
”ایسی کیا خبر ہے جو تو بتانے کو باؤلی ہورہی ہے۔” ابھی بھی اُس کے انداز میں بے پروائی تھی۔
”تجھے پتا ہے تیرے گھر کے آگے ایک کریموں اور پراندوں والی نئی دکان کھلی ہے۔”فاطمہ نے بڑے اشتیاق سے انکشاف کیا۔
”ہاں دو دن ہوئے ہیں آتے جاتے نظر پڑی تھی میری،پر جا کر دل خراب کرنا تھاجب جیب میں پیسے ہی نہ ہوںتو۔” فوزیہ نے بے پروائی سے منہ لٹکائے ہوئے کہا اور اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔
”میں بھی گئی تھی،بڑا اچھا سامان لا کرڈالا ہے اس نے دکان میں۔دکان کا مالک سب سامان دبئی سے لایا ہے۔” فاطمہ نے خوش ہو کر بتایا۔
”اچھاکیا کیا ہے؟”فوزیہ نے ہاتھ روک کر بھی اسی اشتیاق سے پوچھا۔ فاطمہ اس کے شوق کو جیسے ہوا دے رہی تھی۔
”اللہ کی قسم! سب تیری مرضی کا سامان ہے،لپ اسٹک، کولڈ کریم، پراندے اور چوڑیاں بھی بہت اچھی ہیں۔تیری قسم میرے پاس بھی پیسے نہ تھے لیکن دیکھ کر اور دل خوش کرکے آگئی،دل پشوری بھی کوئی چیز ہے فوزیہ۔ تو چل میرے ساتھ دکھاتی ہوںتجھے۔”فاطمہ نے قسم کھا کر اس کے شوق کو مزید ہوا دی اور اپنی کوشش میں کام یاب ہوگئی۔ فوزیہ کے اشتیاق کو ہوا لگ چکی تھی،وہ دکان پر جانے کے لیے بے تاب تھی۔
” اچھا ٹھہر ذرا میں کپڑے بدل لوں،ابھی آتی ہوں،دیکھ جانا مت۔” وہ اندر جاتے ہوئے اسے وارننگ دیتے ہوئے بولی۔
”ہاں ہاں میں یہیں کھڑی ہوں،تو جلدی سے آجا۔” وہ بھی اس کی بے تابی پر مسکرا کر بولی۔
٭…٭…٭
عابد کی دکان ایک درمیانے درجے کی دکان تھی جس میں دیسی اور دبئی کا مال بھرا ہوا تھا۔عابد جو اپنے حلیے سے قطعاً پینڈو نہیں لگتا دکان کی جھاڑ پونچھ میں مصروف تھا۔ چند دن پہلے ہی دبئی سے واپس آیا تھا۔چار سال سے بھائی کے ساتھ دبئی میںدکان چلا رہا تھا لیکن جب سے دبئی میں پراپرٹی کے حالات خراب ہوئے تھے وہاں نوکریوں اور دیگرکاروبار مندا ہوگیا تھا ۔بڑے بھائی نے اُسے سامان کے ساتھ واپس پاکستان بھیج دیا کہ جا وہاں جاکر ماں کا خیال بھی رکھ اور اپنا کام بھی جما۔دراصل اُسے بھائی کی نظر بازی کی بھی بہت شکایتیں مل رہی تھی۔ دبئی میں کسی ہندو عورت سے پٹتے پٹتے بچا تھا۔ عورت دیکھ کر ہی رال ٹپکنے لگتی تھی۔ اُس کی انہی چندباتوں کی بنا پر بڑے بھائی نے اسے واپس بھیج دیا تھا۔واپس آکر عابد بڑی تندہی سے اپنے کام میں جتا ہوا تھاکہ یہاں اپنی دکان جلد از جلد جمالے۔ آج بھی وہ اپنے کام میں مصروف تھا کہ ایک عورت دکان میں چلی آئی اور سامنے بنے شیلف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔
”بھائی وہ کولڈ کریم تو دکھاؤ۔” عابد نے کریم کی چند شیشیاں اٹھا کر اس کے آگے رکھ دیں۔
اس عورت نے ایک شیشی سے تھوڑی سی کولڈ کریم ہاتھ میں لگا کر چیک کی اور خوشبو سونگھ کر اپنا اطمینان کرلیا۔ اس کے بعدایک سکن لوشن عابد کی طرف بڑھاتے ہوئے اس کی قیمت پوچھی۔
”دو سو روپے۔”عابد نے مختصر جواب دیا۔





عورت نے حیرانی سے بوتل واپس عابد کو پکڑائی اور پوچھا۔ ”اتنی زیادہ؟”
عابد نے ایک اور شیشی اٹھا کر اس عورت کی طرف بڑھائی۔”یہ دبئی کی ہے،یہ دیکھیں جی۔”
”ہاں ہاں سب یہی کہتے ہیں، بھلے اپنے ملک میں ہی بنی ہو۔” عورت نے طنزیہ ہنستے ہوئے کہا۔
”نہیں! میں کچھ دن پہلے ہی دبئی سے آیا ہوں۔ یہ زیادہ تر سامان وہاں کا ہی ہے۔ میری دکان تھی نا وہاں پر۔” عابد تھوڑا خائف ہوکر بولا۔
”اچھا! تو پھردبئی چھوڑ کر یہاں کیوں آئے۔” عورت نے حیرانی سے پوچھا۔
”بس جی اب وہاں کے حالات بھی اب پرانے والے نہیں رہے تھے، تو سوچا واپس اپنے ملک ہی چلا جائے عزت سے کماتے ہیں۔” عابد سر جھکاتے ہوئے تاسف سے بولا۔
عورت نے بوتل سے کریم نکال کر اپنے ہاتھوں پر ٹرائی کی۔کریم کی خوشبو سے اس کی آنکھوں میں پسندیدگی کی ایک لہرابھری جسے عابد نے بھی فوراً محسوس کرلیا۔ دبئی میں بھانت بھانت کی عورتوں سے اس کا واسطہ پڑتا تھا۔ عورت کی آنکھوں میں پسندیدگی اور ناپسندیدگی کو پہلی نظر میں بھانپ لیتا۔
”ہاں یہ تو ٹھیک ہے،کبھی نہ کبھی تو واپس اپنے ملک ہی آنا پڑتا ہے، خیر چلو یہ والا لوشن دے دو مگر پیسے کم کرو۔اتنا مہنگا بیچو گے تو کون خریدے گا؟ ”
”اچھا جی! جو بہتر سمجھو دے دینا۔”عابدنے بڑے آرام سے اورکریم ایک شاپر میں ڈال کر اس عورت کو پکڑائی ۔عورت نے چند روپے آگے بڑھا ئے جو عابد نے گن کر دراز میں ڈال دیے۔وہ عورت شاپر پکڑ کر دکان سے باہر نکل گئی۔اس کے جانے کے بعد عابد دوبارہ دکان کے شیشے چمکانے لگ گیا کہ ایک شیشے میں اسے فوزیہ کا چہرہ نظر آیا تو وہ چونک گیا اور پلٹ کر فوزیہ کی جانب دیکھا۔فوزیہ بے شک بہت خوب صورت نہ تھی لیکن اتنی پرکشش ضرورتھی کہ دیکھنے والا ایک نظر ڈالنے کے بعد دوبارہ ضرور دیکھتا اور یہی ہوا۔عابدبھی دوبارہ نہیں بلکہ ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگالیکن اچانک ہوش میں آکر فوزیہ سے نظریں پھیر لیں۔
فوزیہ ہر بات سے بے پروا دکان میں موجود سامان اُٹھا اُٹھا کر دیکھنے میں لگی تھی۔فاطمہ بھی اس کے ساتھ ہی تھی،لیکن دوسرا سامان دیکھنے میں مصروف۔عابد نے آگے بڑھ کر بڑی خوش مزاجی سے پوچھا۔
”کیا چاہیے جی؟’
فوزیہ نے ایک پراندے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔”ذرا یہ پراندہ دکھائیے گا۔”
عابد نے پراندہ اٹھا کر اس کی جانب بڑھایا جسے فوزیہ نے ہاتھ میں تھام لیا اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔ دراصل وہ پراندے کی بنائی دیکھ رہی تھی جو بہت ہلکی تھی۔وہ خود اس سے اچھا پراندہ بنالیتی تھی لیکن اس پراندے میں گھنگرو وغیرہ بہت خوب صورت لگے تھے جس پر فوزیہ کا دل آگیا تھا۔
”پسند ہے تو شاپر میں ڈال دوں؟” عابد نے بڑے دکان دارانہ انداز میں کہا مگر اس کی نظریں فوزیہ کے چہرے پر ہی بھٹک رہی تھیں۔
”نہیں ابھی رکھ لیں بعد میں لے جاؤں گی۔” فوزیہ نے پراندہ واپس عابد کو دیتے ہوئے کہا۔عابد نے اس کی آنکھوں میں پراندے کے لیے پسندیدگی بھانپ لی تھی لہٰذاخاموشی سے پراندہ شاپر میں ڈال دیا۔
”یہ لپ اسٹک دکھاؤ۔”فوزیہ نے سامنے کاؤنٹر پر رکھی لپ اسٹک کی طرف اشارہ کیا۔عابد نے سامنے رکھی لپ اسٹک اٹھا کر پکڑائی۔ فوزیہ نے ہونٹوں پر لپ اسٹک لگا کر چیک کی، شیشے کو گھما پھرا کر دیکھااور فاطمہ کی طرف گھوم کر پوچھا۔
”دیکھ فاطمہ کیسی لگ رہی ہے؟”
”بہت اچھی لگ رہی ہے جی،یہ لے لیں۔” فاطمہ کے جواب دینے سے پہلے ہی عابد نے کہا۔
فوزیہ نے بُرا سا منہ بنا کر اسے گھورا پھر ہونٹوں پر لگی لپ اسٹک دوپٹے سے رگڑ رگڑ کر چھڑائی اورناراض ہوکر عابد کی طرف دیکھا۔فاطمہ نے اسے لپ اسٹک چھڑاتے دیکھا تو ٹوکا۔
”اچھی تو لگ رہی تھی کیوں چھڑائی۔” فوزیہ نے غصے سے عابد کو دیکھا اور بولی۔”اب اتنی اچھی بھی نہیں لگ رہی تھی۔” عابد نے دونوں چیزیں لفافے میں ڈال کر فوزیہ کو پکڑا دیں۔ فوزیہ نے لفافہ عابد کوواپس کرتے ہوئے کہا۔
” لیکن میں نے تو ابھی نہیں لینی،پیسے نہیں لائی میں۔”
”کوئی بات نہیں پیسوں کا کیا ہے،آتے جاتے دے دینا،اپنے محلے کی بات ہے۔”عابد تھوڑا فری ہوتے ہوئے بولا۔
”ہاںہاں اور کیا، فوزیہ تیرا گھر سامنے تو ہے پھر بھیج دینا کسی کے ہاتھ۔”فاطمہ نے آنکھ مارتے ہوئے فوزیہ کی ہمت بندھائی۔
”اور اگر میں پیسے نہ دوں تو؟”فوزیہ نے طنزکیا۔
”تو نہ دیں جی آپ کی اپنی ہی دکان ہے۔” عابد نے مُسکرا کر جواب دیا۔
”واہ! کیا سب کو ایسے ہی چیزیں بانٹتے ہیں۔”فوزیہ کے لہجے میں اب بھی طنزہی تھا۔
عابد نے ذومعنی انداز میں جواب دیا۔” نہیں سب کو تو نہیں بس…” وہ کہتے ہوئے ذرا رکااس نے پہلے فاطمہ اور پھر فوزیہ کی طرف دیکھااور بولا۔” بس محلے داروں کو، آپ کا اتنا تو حق ہے کہ پیسے بعد میں دے دینا۔”
”ہاں ہاں رکھ لے،پھر بھیج دے پیسے۔ پیسے کاکیا ہے،محلے کی بات ہے۔” فاطمہ نے پھر لقمہ دیا۔
فوزیہ نے ایک اداسے شاپر تھامتے ہوئے کہا۔”اچھا وہ تو ہے! خیر میں پیسے بھجوا دوں گی۔ فوزیہ کبھی مرد سے ادھار نہیں لیتی، شکریہ۔” وہ شاپر اُٹھا کر باہر کی جانب گئی لیکن چلتے چلتے اچانک مڑ کر اس نے ایک نظر عابد پر ڈالی جو اسی کو دیکھ رہا تھا۔وہ اسے دیکھ کر مسکرایا لیکن فوزیہ نے کوئی رسپانس نہ دیا اور سپاٹ چہرے کے ساتھ دکان سے باہر نکل گئی۔فوزیہ تو جیسے عابد کی دنیا ہی لے گئی تھی ۔ابھی تک گاؤں میں اسے فوزیہ جیسی لڑکی نہیں ملی تھی۔ آج فوزیہ کو دیکھا تو دل ہاتھوں سے پھسل گیا۔
٭…٭…٭





وہ دونوں دکان سے نکل کے فوزیہ کے گھر کی طرف آئیں اور دروازے پر کھڑے ہوکر باتیں کرنے لگیں۔ فاطمہ رشک سے فوزیہ کو دیکھتے ہوئے بولی۔ ”واہ ! بڑا فدا ہورہا تھا تجھ پر، مجھے تو کچھ ادھار نہیں دیا۔”
”تیری قسمت۔” فوزیہ کندھے اچکاتے ہوئے بڑے عام سے انداز میں بولی۔
”ہاں جانتی ہوں،تیری قسمت بہت اچھی ہے، ہر جگہ کوئی نہ کوئی فدا ہو جاتا ہے تجھ پر۔”
”لیکن تو جانتی ہے فوزیہ بتول کسی کو گھاس نہیں ڈالتی۔” فوزیہ نیبڑے فخر سیکہا۔
”ہاں وہ تو میں جانتی ہوں، محلے کے لڑکوں کو تو تُو پھاڑ کھانے کو دوڑتی ہے،کوئی تیری نظر میں جچتا ہی نہیں۔ساجد تو جان دیتا ہے تجھ پر۔”فاطمہ نے اسی انداز میں جواب دیا۔
”ہاں تو کیا غلط کرتی ہوں؟خود بتا کہ وہ سب کیااس قابل ہیں کہ ان کو منہ لگایا جائے۔ٹیڑھے میڑھے لفنگے اور ساجد کمینے کا تو تو نام بھی مت لے۔اُسے تو ہر دوسری لڑکی سے عشق ہوجاتا ہے۔گاؤں کی کوئی لڑکی نہیں چھوڑی اُس نے جس پر لائن نہ ماری ہو۔” فوزیہ نے منہ بناتے ہوئے گھمنڈ سے فاطمہ کو جواب دیا۔
”تجھے تو نہ جانے کس شہزادے کا انتظار ہے۔” فاطمہ نے اس کے گھمنڈ پر کہا۔ فوزیہ نے گردن اکڑا کر جواب دیا۔
”آئے گا ایک دن شہزادہ بھی، شہزادوں کی کیا کمی ہے مجھے،بلکہ فاطمہ میں اپنا شہزادہ خود ہوں۔دکھا دوں گی دنیا کوکہ فوزیہ بتول کو کسی مرد کی ضرورت نہیں ہے۔”
” ہاں جانتی ہوں تو بچپن سے ہی ایسی ہے،مردمار۔”فاطمہ نے مُسکرا کر اسے دیکھااور بولی۔ اس کی اس بات پروہ دونوں ہنس پڑیں۔
٭…٭…٭
نازیہ اپنے صحن میں بیٹھی گندم صاف کررہی تھی۔ ایک بڑی سی چادر پر پھیلی ہوئی کئی من گندم صاف کرکے اسے گاؤں کی چکی پر پسوانے کے لیے لے کر جانا تھا۔اس کے میاں احمد کوایسے کاموں کا کوئی شوق نہ تھا۔ گندم صاف کرتے کرتے صُبح سے شام ڈھل رہی تھی۔اس کے اردگرد اس کے اپنے اور محلے والوں کے بچے کھیل رہے تھے کہ اچانک احمد گھر میں داخل ہوا اورگردن اکڑائے گھر میں گھستے ہی کھیلتے ہوئے بچوں کو ڈانٹنا شروع کردیا۔ پہلے تو نازیہ نے بہت برداشت کیا کہ نہ سلام نہ دُعا آتے ہی بچوں کو برا بھلا کہنا شروع ہو گیا۔تھوڑی دیر بعدوہ بھی تپ گئی اور گندم پھٹکتے ہوئے ترچھی نظر سے اُسے دیکھا اورپوچھا۔
”کہاں تھا تو اب تک؟”
”تیری ماں نے تجھے اپنے مرد سے بات کرنے کی تمیز نہیں سکھائی۔نہ سلام نہ دعا،بس لٹھ لے کر پیچھے پڑ جا۔” احمد نے ٹیڑھی آنکھ سے اسے دیکھا۔
وہ بھی بلبلا کر کھڑی ہوگئی۔”کیوں؟ ایسا کیا کہہ دیا میں نے؟صرف یہی پوچھا ہے کہ کہاں تھے اب تک؟ اور کیا سلام دعا صرف مجھے کرنا ہے تو اندر داخل ہوا تھا سلام کے بجائے بچوں کو گالیاں دینے لگا اور ایسا کیا پوچھ لیا میں نے کہ تو مجھے یہ جواب بھی نہیں دے سکتا۔”
”میں اب اپنے دن رات کا حساب تجھے دوں گا ؟ تو ہے کون؟ایسا حساب تو کبھی میری ماں نے مجھ سے نہیں لیا۔”اس نے بہت بدتمیزی سے جواب دیا۔
”تیری ماں تجھ سے پوچھ لیتی تو اچھا ہوتا،تیرا یہ حال تو نہ ہوتا۔” وہ طنزاً مسکرا کر کھڑی ہوتے ہوئے بولی۔
اس بات پر احمد نے جھنجھلا کر آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑا اورکمر کے پیچھے موڑ دیا۔”او! بہت زبان چلنے لگی ہے تیری،کس بات پر پھولتی ہے تو؟کیا دیا ہے تو نے مجھے؟یہ تین مردار بچیاں؟ ابھی تین بول دے کر فارغ کرسکتا ہوںتجھے،اوقات میں رہ اپنی۔”
نازیہ نے بھی منہ در منہ زبان چلائی۔” اور تو دے بھی کیا سکتا ہے اس دھمکی کے سوا۔مرد کے پاس عورت کو دینے کے لیے اس سوغات سے زیادہ کوئی گھمنڈ نہیں ہوتا۔”
”واہ جی واہ کیا بات ہے تیری ،بڑی باتیں آگئی ہیں۔جب بھی تو اپنی ماں اور بہن سے مل کر آتی ہے ایسی ہی زبان چلاتی ہے۔چل پھر تو نکل اوراسی کے پاس جا۔”احمدبڑے طنزیہ انداز میں اس کے گرد گھوم کر ہنستے ہوئے بولااور اس کاہاتھ پکڑ کر اسے گھسیٹتا ہوا دروازے کی طرف لے گیا۔ نازیہ اس کی خواہش کو سمجھ کر پلٹ کر واپس مڑی اور اندر جانے کی کوشش کرنے لگی۔
”نہیں جاؤں گی، یہ میرا گھر ہے ،چھوڑ دے مجھے ورنہ…”
”ورنہ کیا؟تو اپنی اس چڑیل بہن پر پھولتی ہے نا،جا بتا دے اس کو میں نے تجھے ”اپنے گھر” سے نکال دیا۔” احمد نے لفظ ”اپنے گھر”پر زور ڈالتے ہوئے کہا اورہاتھ پکڑ کر دروازے سے باہر نکال دیااور دروازے کی کنڈی چڑھا دی۔
دروازے کے باہر کھڑی نازیہ کافی دیر روتے ہوئے دروازہ پیٹتی رہی اورپھر تھک ہار کر اپنے باپ کے گھر کی طرف چل پڑی۔عورت ساری عمر دوسروں کے بنائے گھر میں اپنا حصہ ڈالتی ہے۔ عمر گزارتی ہے لیکن مکمل استحقاق والا گھر اسے کوئی نہیں ملتا۔نہ باپ نہ شوہر نہ بیٹا،سب کا یہی خیال ہوتا ہے رہنا ہے تو ہمیں تسلیم کرکے رہو ورنہ نکلو ”ہمارے گھر” سے۔ تسلیم و رضا کے اس کھیل میں جو مان جاتی ہیں ان کو عارضی رہائش مل جاتی ہے اور جو نہیں مانتی وہ گھر نکالا کے ساتھ ساتھ رسوائی کا داغ سجائے کٹی پتنگ بن کر زندگی گزارتی ہیں۔ واقعی عورت اور پتنگ میں کم ہی فرق ہے جس کی ڈور اس کی ملکیت،ڈور والے کی مرضی پر پتنگ اڑتی ہے، ڈولتی ہے ،کبھی کبھی کٹ بھی جاتی ہے اور ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔
٭…٭…٭

ساجد کی ماں نے روتے ہوئے اسما کو ساجد کی ضد کے بارے میں بتایا تو وہ ہکا بکا رہ گئی۔
فون پر اپنی ماں سے بات کرتے ہوئے اسما کی آواز بہت اونچی تھی۔وہ تقریباً چیختے ہوئے ماں سے بولی۔ ”یہ کیا کہہ رہی ہے تُواماں؟کیاساجد کا دماغ خراب ہوگیا ہے؟”
”میں خود حیران ہوں کیا جادو کردیا اس کٹنی نے،جب ہی کہوں کیوں بھاگ بھاگ کر تیری طرف آتا ہے۔” اسما کی ماں نفرت سے بولی۔
”یہ ہی دیوانہ ہو رہا ہے،وہ تو اسے منہ بھی نہیں لگاتی۔ یہی اس کے آگے بچھا بچھا جاتا ہے۔” اسما نے منہ بنایا اور بولی۔
” ایسی لڑکیاں گھر بسانے والی نہیں ہوتیں۔ ایک ہی میرا پترہے،ہائے وے اسما میں تو لُٹ گئی۔”ماں اپنا سینہ پیٹتے ہوئے بولی۔
”اماں سمجھا اسے،بہت تیز ہے فوزیہ زندگی حرام کر دے گی میرے ویر کی۔” اب اسما بلبلائی کیوں کہ اس شادی میں اسے اپنی شکست نظر آرہی تھی۔
” تو کیا سمجھتی ہے کہ میں نے سمجھایا نہ ہوگا، دوپٹہ قدموں میں ڈال دیا،دودھ نہ بخشنے کی دھمکی دی مگر اس نے تو کہہ دیا ہے کہ شادی کروں گا تو صرف فوزیہ سے ورنہ تیزاب پی لوں گا،مر جاؤں گا۔”اسما کی ماں اس پر خفا ہوتے ہوئے بولی۔ اسمانے ماں کی بات پر دل تھام لیا۔




Loading

Read Previous

آرٹیکل بی-۱۲ – عظمیٰ سہیل

Read Next

بدی کے بدلے نیکی

One Comment

  • Kmaaal drama and kmaaal kahani…lekin ansu se bhri hui. Zindagi ki talkhion se bhri hui…. Plz make it ava4in download form

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!