باغی – قسط نمبر ۱ – شاذیہ خان

او میرے ربّا! تو جانتی ہے وہ بچپن سے کتنا ضدی ہے ،اپنی بات پوری کرتا ہے۔تو اپنی ساس سے بات کر ورنہ میرا ایک ہی پتر ہے میں اُسے کھونا نہیں چاہتی۔” اسماکی ماں جیسے گھگھیاتے ہوئے بولی تو اسما نے فوراً ماں کی بات کاٹ کر کہا۔
”توبہ کر اماں وہ تو کبھی نہ مانے۔ ”
”تو رحیم کو کہہ ،وہ اپنے باپ سے بات کرے،سمجھا انہیں۔کل میں اور تیرے ابا آرہے ہیں، تو پہلے سے بات کرکے رکھ۔ دیکھ اسما نہ نہیں ہونی چاہیے، ورنہ تو اپنے اکلوتے ویر سے ہاتھ دھو بیٹھے گی۔”اب اس نے اسما کے دل کو جیسے مٹھی میں لے لیا۔
”اچھا دیکھتی ہوں اماں،کرتی ہوں کچھ۔” اسما نے ڈوبے دل کے ساتھ اس کی بات کا جواب دیااور فون بند کر دیا۔اس کی آنکھوں میں پریشانی امڈ آئی۔ وہ سوچ میں پڑگئی کہ کس طرح رحیم کی ماں اور باپ کو اس شادی کے لیے راضی کرے۔
٭…٭…٭
آج فوزیہ اور اس کی چند سہیلیاں گھر کے سارے کپڑے لے کر نہر پرآئی ہوئی تھیں کہ سب سکھیاں مل کر کپڑے دھوئیں گی۔ کپڑے تو کیا دھلتے مستیاں زیادہ ہورہی تھیں۔ اونچی اونچی آوازمیں قہقہے اور باتیں آنے جانے والوں کو ایک لمحے کے لیے ٹھہرنے پر ضرور مجبور کردیتے۔خوب صورت پگ ڈنڈی پر آتے جاتے چند لوگ نہر کے پاس بیٹھی کپڑے دھوتی اونچی اونچی آوازمیں ہنستی لڑکیوں کو دیکھ کر ایک لمحے کے لیے ٹھٹکتے ضرور تھے۔ پاس بیٹھی چند درمیانی عمر کی عورتیں بھی ان کی باتوں پر منہ بنا کر انہیںدیکھتیں اور پھر اپنے کام میں مصروف ہو جاتیں بلکہ کچھ تو اپنی جوانی کے دن یاد آنے پر اور تیز تیز ہاتھوں سے اپنے کپڑے دھونے لگتیں۔
”دیدوں کا پانی مرگیا ہے کم بختوں کا۔” کسی بزرگ خاتون کا جملہ لڑکیوں کے کانوں میں پڑتا تو وہ ہنس پڑتیں۔ فوزیہ کے ہاتھ میں ریڈیو تھا جس پر میڈم نور جہاں کے گانے چل رہے تھے۔ نہر پر ” سُن ونججھلی دی مٹھڑی تان وے”کی مدھرلے گونج رہی تھی۔ فوزیہ میڈم کی آواز پر وہیں بیٹھی بیٹھی جھومنے لگی۔ اُسے جھومتے دیکھ کر رابعہ چلائی۔ ”اُٹھ جا،اُٹھ کر ناچ۔بیٹھے بیٹھے کیا جھوم رہی ہے۔”
”او رہنے دے ابھی چاچی زلیخاں دیکھ لے گی تو ابا سے شکایت کر دے گی۔” دل چاہنے کے باوجود فوزیہ نے ہامی نہ بھری۔ ”رہنے دے فوزیہ ابھی چاچی تُوزلیخاں کو دیکھنا وہ بھی خود جھومنا شروع کر دے گی۔” منہ بناتے ہوئے رانی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کھڑا کردیا اور پھر وہ مستی سے جھوم ہی اُٹھی اور میڈم کی آواز کے ساتھ اس نے رقص شروع کردیا۔





سردیوں کی آخری دم لیتی انگڑائی تھی اور دھوپ میں بھی اب اتنی تپش نہیں رہی تھی۔ نہر سے ملحقہ پگ ڈنڈی پر چودھری صاحب ہشاش بشاش اپنے خاص بندوں کے ساتھ چہل قدمی کرتے ہوئے آرہے تھے۔ ساتھ ساتھ اچھی فصل پر اللہ کا شکر بھی ادا کیا جارہا تھا۔
”اس بار فصل بہت اچھی ہوئی ہے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے اُس نے برکت ڈال دی۔ اوئے منشی رحیموسب سے پہلے غریبوں کا حصہ نکالنا تاکہ اگلے سال اس سے بھی زیادہ اچھی فصل ہو۔”
”اللہ تہاڈی حیاتی کرے چودھری صاحب! تُسی غریباں دا کنا خیال رکھ دے او۔”رحیمو خوشامدی انداز میںبولا۔
چودھری صاحب دھیمی آواز میں متانت سے بولے۔”رحیمو بے شک اللہ دیکھ رہا ہے وہ بندے کو دے کر بھی آزماتا ہے اور نہ دے کر بھی۔ دی ہوئی چیز کی آزمائش اور پکڑ بڑی سخت ہوتی ہے۔ بس بندے کو اس آزمائش سے بچنا چاہیے۔” چودھری صاحب نے ایک لمحے دونوں کانوں کو ہاتھ لگایا۔
رحیمونے ان کی بات سن کر جواب دینا اپنا فرض سمجھا اور بولا۔”پر چودھری صاحب تہاڈے ورگی سوچ ہر کسے دی نئیں ہوندی۔ جے سب دی ایہو سوچ ہو جاوے تے دنیا جنت نہ بن جاوے۔ تُسی انسان نئیں فرشتہ او فرشتہ۔”
چودھری صاحب نے نہایت انکساری سے جواب دیا۔ ”اوئے بس کر دے رحیمو! مینوں زمین تے ای رہن دے۔” دوسرے چاپلوس سلیم نے فوراً ٹکڑا لگایا۔ ”او چودھری صاحب رحیمو سچ کہہ ریا اے۔ بالکل چودھری صاحب بالکل ایویں اے۔ تُسی انسان نئیں فرشتہ اوچودھری صاحب فرشتہ۔”
فوزیہ ناچنے کے ساتھ ساتھ اونچی آواز میں گا بھی رہی تھی۔ دور سے اپنے ملازموں کے ساتھ آتے چودھری نے اُسے ناچتے دیکھ لیا۔ اب چودھری صاحب کا رخ اسی طرف تھا۔
”اب بس کر دے فوزیہ پچھلی واری تو بچ گئی تھی اب تیرے گھر والوں کو پتا چل گیا ‘ تو بہت مار پڑے گی تجھے کھلے میدان میں ناچ رہی ہے۔ کوئی شرم حیا نہیں ہے تجھے۔”چاچی نے غصے سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”ناں اس میں کیا برائی ہے؟ مرد بھی تو ناچتے ہیں ۔ اُنہیں تو کوئی کچھ نہیں کہتا،پھر میرے ناچنے پر پابندی کیوں بتا مجھے جواب دے اب بولتی کیوں نہیں؟”فوزیہ رک کر منہ بگاڑتے ہوئے بولی۔
اسی دوران چودھری صاحب اپنے بندوں کے ہمراہ اُس کے نزدیک آ گئے۔ساری لڑکیوں نے اُنہیں سلام کیا اور کھسک لیں۔ ”سلام چودھری صاحب!”فوزیہ نے بھی اپنے چلبلے انداز میں ماتھے پر ہاتھ رکھ کر سلام کیا اور جلدی سے کمر سے دوپٹا کھول کر سر پر اوڑھ لیا۔
چودھری صاحب نے سلام کا جواب دیتے اُسے جھڑکا۔”شرم نہیں آتی،کیا کر رہی ہے تو؟”
”وہ چاچی کہہ رہی تھی،میں توبس…”شرم کے مارے فوزیہ سے کوئی جواب نہیں بن پڑ رہا تھا۔
”تو پاگل ہے،تیرا دماغ نہیں کام کرتا؟کرتا ہوںآج تیرے باپ سے بات۔”چودھری صاحب دھمکی دیتے ہوئے وہاں سے آگے بڑھ گئے۔
”دیکھا نا کرا دیا مجھے ذلیل…”فوزیہ نے فاطمہ کو گھورتے ہوئے کہا۔
”لے دل تیرا اپناچاہ رہا تھا اورالزام مجھے دے رہی ہے۔”وہ دور جاتے چودھری صاحب کو دیکھتے ہوئے بولی۔
٭…٭…٭





” حجام کی بیٹی کا چال چلن ٹھیک نہیں لگتا چودھری صاحب۔”چودھری صاحب کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے ایک آدمی نے جیسے اُن کے غصے کو ہوا دی۔
”کیا ہوا اُس کے چال چلن کو؟”چودھری صاحب نے چونکتے ہوئے پوچھا۔
چودھری صاحب آپ نے دیکھا تو تھا،کیسے کھڑی ہو گئی تھی سب کے سامنے ناچنے۔ پورے گاؤں کے لڑکے الٹی سیدھی باتیں کرتے ہیں اس کے بارے میں اور آج بھی نہر پر سب کے سامنے…”
چودھری صاحب نے خفا ہوتے ہوئے اس کی بات کاٹی اور بولے۔”تو نہ کریںلوگ باتیں۔ دوسروں کے لڑکوں میں شرم حیا نہیں ہے کہ گاؤں کی بہن بیٹیوں کے بارے میں اس طرح باتیں کرتے ہیں،اور نہر پر وہ جو کررہی تھی وہ دوسری سیانی عورتوں کے درمیان ہی کر رہی تھی۔ایسی بات کوئی مرد کرتا تو تو باتیں بناتا یہ کوئی بڑی بات نہیںہے۔ ”
وہی آدمی شرمندگی سے بولا۔ ”لو کر لو گل۔ چودھری صاحب شرم حیا تو عورتوں کو کرنی چاہیے۔ لڑکوں کا تو کام ہی یہ ہوتا ہے۔”
”او رہن دے،کس نے کہا؟شرم و حیا مرد کو بھی کرنی چاہیے۔تجھ جیسیجاہلوں کا کام ہی یہی ہے دوسروں کی بہو بیٹیوں پر نام دھرتے ہیں،اپنے گریبانوں میں نہیں دیکھتے۔” چودھری صاحب نے غصے سے کہا۔
”چلیں چھوڑیں چودھری صاحب اس کی بات کا کیا بُرا ماننا۔اس کی اپنی کوئی بیٹی نہیں تو اس کا کسی کی بیٹی کے لیے دل نرم کیوںہو۔” ایک کمّی نے چودھری صاحب کے غصے کوٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔
”او رحیموبیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں،سب کی عزت برابر، بیٹی ہو نا ہو بیٹی کی عزت کرنا ہم سب پر فرض ہے۔کسی کی غلط بات دیکھو تو اپنی بیٹی کی طرح سمجھاؤ،آگ کی طرح پھیلا کر بات خراب مت کرو۔”
”جی چودھری صاحب۔” رحیمو کہہ کر پھنس گیا اور چودھری صاحب آگے بڑھ گئے۔
٭…٭…٭
سورج تقریباً غروب ہو چکا تھا۔ فوزیہ جیسے ہی گھر داخل ہوئی وہاں ایک ہنگامہ بپا تھا۔ فوزیہ کی بہن چارپائی پر بیٹھی رو رہی تھی۔ ایک کونے میں تینوں بچیاں نانی سے لپٹ کر رو رہی تھیں۔نازیہ کے گھر سے نکلنے کے بعد بچیاں بھی روتی ہوئی اس کے پاس آگئیں تھیں۔پاس کھڑی بھابی اسما بڑی اونچی آواز میںبُڑبُڑا رہی تھی۔
”روز روز منہ اُٹھا کے آ جاتی ہے۔ ذرا احساس نہیں کہ بھائی اور باپ کا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ ہماری کون سی فیکٹریاں لگی ہوئی ہیں جو ہم ان کو بھی کھلائیں۔”
”تیرا تو نہیں کھاتی،تو جا اپنا میاں اور اپنا کمرہ سنبھال۔ میری بیٹی ہے میں سنبھال لوں گی اُسے۔” ماں جو دیر سے یہ بڑبڑاہٹ سن کر غصے میں تھی تنک کر بولی اورنازیہ کو گلے لگا لیا اور دونوں ماں بیٹیاں مل کے رونے لگیں۔
فوزیہ نے اندر آتے ہی یہ سب منظردیکھا اور فوراً بچیوں کو پیار کیا پھر بہن کے پاس جا بیٹھی اور روہانسی صورت بنا کر ماں سے شکوہ کیا۔
”پھر بھیج دیا نا اُس کمینے نے، اماں تو ایک ہی دفعہ باجی کو گھر کیوں نہیں بٹھا لیتی۔ کیا فائدہ ایسی شادی کا؟وہ کمینہ ذرا ذرا سی بات پر واپس بھیج دیتا ہے۔”
ماں نے اسے ڈانٹ کر خاموش کر دیا۔ ”چپ کر جا بہنوئی ہے تیرا،کمینہ نہیں۔”پھر نازیہ کی طرف دیکھ کربولی۔”تیرا باپ آئے گا تو پوچھے گا اُس کمینے سے ،تو اپنا منہ بند رکھ۔ بے ادب نہ ہو تو۔”
”تو اسی لیے میری شادی بھی کرنا چاہتی ہے تاکہ میں بھی باجی کی طرح روتی رہوں اور پلٹ پلٹ کر تیرے در پر آتی رہوں۔” فوزیہ نے ماں کی طرف دیکھ کر کہا۔
ماں نے اس کی بات بہت تحمل سے سنی اور پھر آنکھوں میں آئے آنسوؤں کو پلو سے صاف کر کے بولی۔ ”بیٹیوں کے نصیبوں میں کیا لکھا ہے اس کی خبر کسے ہوتی ہے۔ اِس دن کے لیے نازیہ کی شادی تھوڑی کی تھی میں نے۔” بات مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی،غلام فرید نے کیا خوب کہا ہے:
عشق والی نہرو گے
کئی تریاں کر ماں والڑیاں
اک کو ہجیاں وی لنگ پار گیاں
کھڑیاں روندیاں شکلاں والڑیاں
اک سوہنیاں دے متھے واگ نئیں
باہوں لال تے اندروں کالڑیاں
غلام فرید اللہ کرم کرے
عیباں والیاں دے ہتھ لعلڑیاں
فوزیہ نے ماں کو دیکھتے ہوئے بے جگری سے کہا۔”میں اپنا نصیب خود لکھوں گی اماں۔ دیکھنا ایک دن تو فخر کرے گی مجھ پر، ایسی روتی بلکتی زندگی نہیں چاہیے مجھے۔” وہ نازیہ کی طرح اشارہ کر کے بولی۔
”ہر لڑکی کو ایک نہ ایک دن اپنے گھر جانا ہوتا ہے فوزیہ۔”ماں نے اسے سمجھایا۔
”کون سا گھر،کیسا گھر جہاں سے مار کرروز اِسے واپس بھیج دیا جاتا ہے؟ ”یہ سنتے ہی فوزیہ آپے سے باہر ہو گئی۔
”یہ اپنے اپنے نصیب کی بات ہے،تو اپنی بھابی کو دیکھ لے۔ جب سے آئی ہے کتنا لڑتی ہے’ کتنی زبان چلاتی ہے۔ کچھ کہتا ہے تیرا بھائی؟ بھیجتا ہے کبھی واپس اُسے؟”ماں نے حقارت بھری نگاہ بیٹے کے کمرے پر ڈالی اور نازیہ کو دلاسا دینے لگی۔
”بھابی نے تو بھائی کو الّو کا گوشت کھلایا ہے۔اُسے کچھ نظر ہی نہیں آتا سوائے اس ‘کُٹنی’ کے۔ نازیہ کیا تو بھی کوئی تعویذ گنڈا کر کے اپنے میاں کو قابو نہیں کرسکتی؟ ”فوزیہ نے ماں کی طرف دیکھتے ہوئے بڑے مزے سے کہا۔
یہ سن کر ماں نے اپنے گال پیٹے اور توبہ توبہ کرنے لگی۔ ”تو کیا سکھا رہی ہے بہن کو فوزیہ، ایسی عورتوں کا انجام بہت بھیانک ہوتا ہے۔”
فوزیہ بہن کے بال سنوارتے ہوئے طنزاً ہنس کر بولی۔”ماں انجام تو اس کابھی اچھا نہیں۔ دیکھ ذرا کیا حال ہو گیا ہے اِس کا۔ شادی سے پہلے کتنی پیاری تھی،اب دیکھ سارا رنگ روپ ہی اجڑ گیا ہے۔”





”سب نصیبوں کے کھیل ہیں فوزیہ۔روپ والی روتی ہی دیکھی ہیں میں نے۔”ماں نے نازیہ کے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
”غلطیاں اپنی اور بات نصیبوں پر ڈال کر ساری گل ای مکا دو۔” فوزیہ ہاتھ جھاڑتی ہوئی چارپائی سے اٹھ بیٹھی اور طنزاً بولی۔”اماں میں دکھاؤں گی سب کو اپنا نصیب، میں خود بنا سکتی ہوں، بس تو دیکھتی جا۔ میں کرتی کیا ہوں۔”
”فضول نہ بکا کر فوزیہ، اللہ سے توبہ کر۔” ماں نے گال پیٹے۔فوزیہ نے اس بات پر منہ بنایا اور بچیوں کو لے کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
دن ڈھلتے ہی فوزیہ کا بھائی گھر میں داخل ہوا۔ صحن سے گزر کر سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا۔ اُس نے ماں اور بہنوں کی طرف دیکھنا تک گوارہ نہیں کیا۔
اندر کمرے میںغصے سے بھری اسما جیسے رحیم ہی کی منتظر تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ کھانے کو کچھ مانگتا،اسما نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
”دیکھ لے رحیمے!آج پھر آ گئی ہے تیری بہن لڑ کر۔”
‘ ‘کون؟”رحیم نے حیرانی سے پوچھا پھر ساری بات سمجھتے ہوئے خود ہی بولا۔ ”نازیہ؟”
اسما چارپائی پر بیٹھ گئی اور منہ بناکر بولی۔”باہر اس کے ساتھ ہمدردیاں جتائی جا رہی ہیں۔ میں کوئی سمجھانے کی بات کروں تو الٹا مجھے سننی پڑتی ہیں۔بھلائی کا تو زمانہ ہی نہیں رہا۔” وہ قدرے روہانسی ہو گئی۔
فوزیہ کا بھائی سیخ پا ہوتے ہوئے بولا۔”او تجھے کیا چٹی پڑی ہے سمجھانے کی۔ انہی ہمدردیوں نے تو بگاڑا ہے اُسے،روز روز لڑ جھگڑ کر آ جاتی ہے۔ آ لینے دے آج ابا کو، میں کرتا ہوں اُن سے۔ یہ روز روز کے تماشے میں برداشت نہیں کرسکتا۔”
کوئی فائدہ نہیں،ابا نے کچھ نہیں کرنا دیکھ لینا تو۔یہ روز روز کا تماشا ایسے ہی لگا رہے گا۔ مجھ سے نہیں ہوتا اتنے لوگوں کا کام۔” اسمانے اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے حتمی انداز میں کہا۔
رحیم نے اسما کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کے اُسے اپنی جانب موڑا اور بولا۔
”مت کر تو سارے ٹبرکا کام،تو میری بیوی ہے،اس گھر کی نوکرانی تو نہیں۔ میں ابھی کہہ دیتا ہوں اماں سے اپنی بیٹیوں سے کروائے کام۔ میری ووہٹی کچھ نہیں کرے گی۔”
”یہ اس مسئلے کا حل تو نہیں۔ میں کہتی ہوں ایسا کب تک ہوتا رہے گا۔ ابھی تو باقی دو اور بیٹھی ہیں بیاہنے کے لیے۔ مجھے تو یہ سوچ سوچ کر تیرا خیال آتا ہے کہ تو یہ سب کیسے کرے گا۔”اسما نے روتے ہوئے اپنے میاں کی طرف دیکھا ۔
”تو پھر تو بتا اِس کا کیا حل ہے؟”رحیم نے تفکر سے پوچھا۔





اسما نے منہ بناکر اچھا بننے کی کوشش کی اور بولی۔ ” نہ بابا مجھے بُرا بننے کا اتنا چاؤ نہیں ہے۔ میں نے کچھ کہہ دیا تو بات اور بگڑے گی۔تو خود ہی کوئی حل نکال، لیکن یہ بات کان کھول کر سن لے اگر تیری بہن کا روز روز آنا بند نہ ہواتو میں اپنے میکے چلی جاؤں گی۔” وہ روٹھ کر دوبارہ چارپائی پر بیٹھ گئی۔
رحیم اُسے مناتے ہوئے بولا۔”تو کیوں جائے گی اپنے گھر میں ابھی بات کرتا ہوں اماں سے بھیجے اُسے اپنے گھر سے۔”یہ کہہ کر وہ غصے سے کمرے سے نکل گیا اور اسما منہ پھلاکر اُسے دیکھتی رہی۔ اسے ذرا ڈر نہیں تھا کہ باہر ساس اور نندیں اس کے بارے میں کیا سوچیں گی۔
بچیاں بھوک سے چلانے لگی تھیں۔ اماں نے جلدی جلدی روٹیاں پکائیں اور فوزیہ پیار سے اُنہیں کھلانے لگی۔ نازیہ بھی سوچوں میں غرق نوالے توڑ رہی تھی اور ایک نوالے کے بعد کچھ لمحے خلا میں نہ جانے کیا کھوج رہی تھی کہ اتنے میں رحیم چیختے ہوئے کچن میں آیا۔
”اپنے گھر تجھے چین نہیںہے جو روز روز جھگڑ کر یہاں آ جاتی ہے۔”
نازیہ بھائی کی آواز پر منہ میں لقمہ ڈالتے ڈالتے ہڑبڑا کر چونک اُٹھی اس بے چاری کی زبان ہی گنگ ہو گئی۔ وہ بہ مشکل کہہ پائی۔ ”بھائی وہ… وہ… میں…”
”بھائی وہ لڑ کر نہیں آئی۔ اِس بار اس کے میاں نے ہاتھ پکڑ کر اُسے نکالا ہے۔ انصاف کی بات کر۔”فوزیہ بہن کی حالت دیکھ کر اُس کی طرف داری میںآگے بڑھ آئی۔
رحیم نے غصے سے فوزیہ کی طرف دیکھا اور بولا۔ ”تو مت بول بیچ میں۔ گھر میں سارے جھگڑے ہی تیری وجہ سے ہوتے ہیں۔ گزبھر لمبی زبان ہے تیری اور تو ہی اِسے الٹی سیدھی پٹیاں پڑھاتی ہے۔ ضرور اِس نے کوئی ایسی حرکت کی ہو گی۔ ایویں تو کوئی گھر سے نہیں نکالتا۔ کسی کا دماغ نہیں خراب ہوتا۔”
ماں بچیوں کو چھوڑ کر رحیم کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ ”او ! چپ کر جا بے غیرتا،جورو کے غلام۔ بہن پر ترس نہیں آتا تجھے؟جو بیوی نے کہہ دیا اُس پر یقین کر لیا۔” اُسے اپنی بیٹی پر بہت ترس آتا تھا اس پر یہ بے غیرت بیٹا جب ایسی بات کرتا تو ماں کا دل کرتا کہ زبان اس کے منہ سے کھینچ لے لیکن وہ اس سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکی۔
”میں صرف اُس کی باتوں پر یقین نہیں کرتا، دیکھ بھی رہا ہوں کیا ہو رہا ہے اِس گھر میں۔ میں کوئی اندھا نہیں ہوں ۔”رحیم ماں سے نظریں چراتے ہوئے بولا۔
”بول! کیا دیکھ رہا ہے تو۔ روتی بہن نظر نہیں آتی؟اُس کی معصوم بچیاں نظر نہیں آتیں؟ کم ظرفا اُن کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھنے کا روادار تو ہے نہیں اور کہتا ہے سب دیکھ رہا ہوں۔ تو وہ دیکھتا ہے جو تیری چہیتی تجھے دکھاتی ہے۔ جا میرا منہ نہ کھلوا۔” ماں نے غصے سے کہا۔
رحیم بھی اسی ماں کا خون تھا،اس نے پلٹ کر جواب دیا۔ ”تو ہر بات میں اسما کو کیوں گھسیٹتی ہے۔ اپنی بیٹی کے کرتوت نظر نہیں آتے۔ میاں سے زبان درازی کرے گی تو پٹے گی بھی۔”
”ماں صدقے اپنے غیرت مند پتر توں،تیری بیوی کیا کم بولتی ہے تیرے آگے؟تو اُسے کیوں نہیں مارتا؟گھر سے کیوں نہیں نکالتا بول۔”
ماں کا انداز رحیم کو غصہ دلا گیا۔وہ اپنی سبکی دور کرنے کے لیے بولا۔”ہاں ہاں تم لوگ تو چاہتے ہو میں اُس کے ساتھ جھگڑا کروں،ماروں اُسے تاکہ وہ بھی گھر چھوڑ کر چلی جائے اس کمینی کی طرح۔”نازیہ کی طرف ہاتھ اٹھا کر اس نے کہا تو ماں کے آگ لگ گئی۔
”ہم کیوں چاہیں گے ایسا ہو،لیکن تو بھی تو کم ازکم بہن سے ہمدردی کے دو بول کہہ، اُسے حوصلہ دے۔ آخر اُس کی بچیوں کا ماں جایا ہے تو۔”ماں چلاتے ہوئے بولی۔
نازیہ نے بھائی کی طرف دیکھ کر زور زور سے رونا شروع کردیا۔اُسے واقعی بھائی سے یہ امید نہ تھی کہ وہ اس کے سر پر ہاتھ رکھنے کے بجائے اس کو جانے کا کہے گا۔رحیم کی نظر میں یہ اس کا ایک اور ڈراما تھا۔ وہ سب کو قہرآلود نظروں سے دیکھتا ہوا گھر سے باہر نکل گیا۔
ماں نے غصے سے رحیم کو چشم پوشی کرتے دیکھا اور زمین پر تھوک دیا۔”بے غیرت کہیں کا۔”
شام سے صحن میں ایک عجیب سی اُداسی اُتر آئی تھی۔ بچیاں سہمی سہمی ایک کونے میں سمٹی ہوئی تھیں۔ فوزیہ کا باپ کھانا کھاتے ہوئے پریشان اور غضب ناک ہوکر فوزیہ کی ماں سے کہنے لگا۔ ”اب پھر تماشا کھڑا کر دیا ہے اِس نے۔ آخر کیا ضرورت تھی یہاں آنے کی؟”
”وہ اپنی خوشی سے نہیں آئی۔ اُس نے دھکے دے کر نکالاہے،وہ کیا کرتی؟”ماں نے کمرے کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
فوزیہ کے کمرے کا دروازہ بند تھا پھر بھی آوازیں اس تک آ رہی تھیں۔اس نے آہستہ سے جواب دیا۔ کیا کرتی ابا!عورت تھی نا،مجبور عورت جسے سوالات کے جواب دینے کے ساتھ ساتھ اپنی غلطی نہ ہونے پر ناکردہ گناہوں کا حساب بھی دینا تھا۔ شام کے سناٹے میں باہر سے آنے والی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ نازیہ فوزیہ کے کمرے میں چپ چاپ چہرے پر دکھوں کے آثار لیے صحن سے آہستہ سرگوشی نما آوازوں کو بہ خوبی سن رہی تھی۔




Loading

Read Previous

آرٹیکل بی-۱۲ – عظمیٰ سہیل

Read Next

بدی کے بدلے نیکی

One Comment

  • Kmaaal drama and kmaaal kahani…lekin ansu se bhri hui. Zindagi ki talkhion se bhri hui…. Plz make it ava4in download form

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!