باغی – قسط نمبر ۱ – شاذیہ خان

”میں تو خود یہی چاہتی ہوں، اچھا رشتہ آئے میں آج ہی کردوں،مگردونوں باپ بیٹی کے آگے میری چلتی ہی کب ہے؟باپ چاہتا ہے کوئی کھاتا پیتا اپنا کام کرنے والا مل جائے تیری بہن کے اپنے بڑے نخرے ہیں۔ ”ماں نیند کے خمار میں ہولے سے بڑبڑائی۔
”اماں! میں رشتہ بتاؤں؟ بہت اچھا لڑکا ہے۔”رحیم نے موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے کہا۔
”ہاں بتا کون ہے؟”ماں دھیمی سی آواز میں پھر بُڑبُڑائی۔وہ بیٹے کے پاؤں دبانے پر نیند کے خمار میں گم ہورہی تھی۔
”وہ اپنا ساجد ہے نا ۔”اماں نے لیٹے لیٹے پٹ سے آنکھیں کھولیں اور ایک لات رحیم کو ماری اور اُٹھ کر بیٹھ گئی۔
”اسما کا بھائی ساجد، وہ تیرا سالا؟”ماں نے غصے سے پوچھا تو رحیم نے جلدی جلدی سر ہلایا۔
”دوبارہ نام بھی نہ لینا اُس کا، تو جانتا ہے کتنا لفنگا ہے وہ۔میں وٹہ سٹا نہیں کروں گی اور اس گھر پر لعنت بھیجتی ہوں میں۔ اب سمجھی تجھے ماں پر پیار کیوں آرہا ہے۔یہ بھی کوئی نئی چال ہے تیرے سسرال کی۔” وہ غصے سے لال پیلا ہوتے ہوئے بولی۔
”اماں بہت خوش رہے گی فوزیہ وہاں جا کر، ساجد بہت اچھا لڑکا ہے۔”رحیم نے ملتجیانہ انداز میں کہا اور دوبارہ چارپائی پر بیٹھتے ہوئے ماں کے پاؤ ں پکڑ کر دبائے۔
”ہر لڑکی کی قسمت تیری بیوی جیسی نہیں ہوتی رحیمے۔ میں جانتی ہوں فوزیہ کا گزارا ساجد کی ماں کے ساتھ ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کے لیے تو کوئی چھڑا چھانٹ ہو جس کے آگے پیچھے کوئی نہ ہو تو بہتر ہے۔دونوں ایک جیسی ہیں روز گھر میں فساد ہوگا، نہ بابا میں ایسا ہر گز نہیں ہونے دوں گی۔” ماں اپنے پاؤں اُس کی گرفت سے چھڑاتے ہوئے بولی۔
”یہ کیا بات ہوئی اماں، اتنا اچھا رشتہ ہے،مان جا اپنی فوزیہ عیش کرے گی۔”رحیم نے پاؤں دباتے ہوئے کہا۔
”تجھے پہلے تو اپنی بہن پر اتنا پیار کبھی نہیں آیا، اب میں سمجھی کیوں میرے پاؤں دبائے جارہے ہیں، چھوڑ میرے پاؤں جا دفع ہو یہاں سے، آیا بڑا۔ساجد بہت اچھا لڑکا ہے، ہونہہ۔”جھٹکے سے اپنے پاؤں چھڑاتے ہوئے بولی۔
”ماں تو ٹھنڈے دل سے سوچ تو سہی۔”رحیم نے ایک بار پھر ماں کو منانا چاہا تو وہ زور سے چیخی۔
”میں نے کہا نادفع ہو جا یہاں سے۔”وہ کان دبا کر ماں کے پاس سے اُٹھ گیا۔
٭…٭…٭





خوب صورت کھیتوں میں چمکیلی دھوپ بکھری ہوئی تھی۔سرسوں کی فصل پک چکی تھی۔فوزیہ اور فاطمہ کھیت میں بیٹھی گنا چوس رہی تھیں۔
”سُن تو نے کل رات وہ فلم دیکھی تھی؟” فوزیہ نے فاطمہ سے پوچھا۔
”ہاں پوری دیکھی تھی۔ تُو تو جانتی ہے نہ مجھے کہ میں فلموں کے بغیر کیسے رہ سکتی ہوں۔ پورے ہفتے میں صرف ایک ہی دن تو آتی ہے فلم۔”فاطمہ نے گنا چوستے ہوئے جواب دیا۔
” اس کا جو ہیرو تھا وہ عابد سے نہیں مل رہا تھا؟”
فاطمہ گناچھیلتے چھیلتے اس کی بات سُن کر چپ سی ہو گئی۔
”ارے ہاں تو سچ کہہ رہی ہے، عابد تو بالکل اس ہیرو جیسا لگتا ہے۔”فوزیہ نے اس کی بات سنی اور مسکرا دی۔
”فاطمہ تجھے پتا ہے وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔”فوزیہ نے تھوڑا جھجکتے ہوئے کہا۔
”کیا؟ اس نے رشتہ بھیجا ہے تیرے گھر؟”فاطمہ نے پرجوش اندا ز میں پوچھا۔
”بھیجا تو نہیں ہے، لیکن وہ تو تیار بیٹھا ہے۔”فوزیہ نے تھوڑا شرماتے اور مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
‘ ”تو تُو کہہ دے اسے کہ بھیجے اپنی ماں کو تیرے گھر۔”فاطمہ بے صبری سے بولی۔
”میں نے ابھی سوچا نہیں ہے اس بارے میں۔”فوزیہ نے بہت سکون اور تحمل سے اسے دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
”تو سوچ نا،گاؤں کے سارے لڑکوں کو تو جانتی ہے۔ ایک نمبر کے آوارہ اور ویلے ہیں۔ عابد کا اچھا کاروبار ہے اور شکل و صورت بھی اچھی ہے۔”فاطمہ نے کہا۔
”ہاں لیکن ابھی میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ میں اُسے کیا کہوں؟”فوزیہ نے بے نیازی سے جواب دیا۔
” تو تُو بڑی مغرور ہے۔”فاطمہ نے منہ بناتے ہوئے کہا تو فوزیہ مُسکرانے لگی ۔
”اگر تیری جگہ وہ مجھے شادی کا کہتا نا تو میں فٹافٹ ہاں کہہ دیتی۔” فوزیہ اس کی بات سن کر مُسکرا کر گناچھیلنے کے ساتھ ساتھ کچھ سوچنے لگی۔
٭…٭…٭
شام ہوتے ہی رحیم اپنے باپ کے کمرے میں آگیا۔وہ فوزیہ کے رشتے کے لیے ایک بار اُسے قائل کرنے کی اپنی سی آخری کوشش ضرور کرنا چاہتا تھا۔ باپ نے اس کی ساری بات تحمل سے سنی اور نفی میں سر ہلا دیا۔
”دیکھ ابا اب میرا گھر تیرے حوالے ہے بچا لے اس کو۔” رحیم باپ کو متوجہ کرتے ہوئے گڑگڑایا۔
”اوئے تیرا گھر بچا کر میں اپنی بیٹی کو جہنم میں بھیج دوں۔ کیسا بھائی ہے تو۔”فوزیہ کا باپ چیختے ہوئے بولا۔
”تو بھی ہمیشہ بیٹیوں کی طرف داری کرتا ہے نا ،یہ بتا کیا برائی ہے ساجد میں؟”رحیم نے اسی انداز میں اس سے سوال کیا۔
”اس کی ماں کی زبان بڑی لمبی ہے۔ وہ نہیں جینے دے گی میری بیٹی کو، میں جانتا ہوںاچھی طرح اور لڑکے کا بھی چال چلن کون سا اچھا ہے؟”باپ نے قہر آلود نظروں سے بیٹے کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”ابا ساسوں کا کیا ہے، سب ایسی ہی ہوتی ہیں۔ لڑکے بھی شادی کے بعد سدھر ہی جاتے ہیں۔” رحیم ڈھٹائی سے بولا۔
”تیری ساس بڑی تیز ہے پتر، نہیںبنے گی فوزیہ کی اُس کے ساتھ۔میں بڑی اچھی طرح جانتا ہوں۔”فوزیہ کا باپ نفی میں گردن ہلاتے ہوئے بولا۔
”خدا کے لیے مان جا ابا، ورنہ تیری بہو اپنے گھر چلی جائے گی۔تو چاہتا ہے میرا گھر بھی برباد ہو جائے؟تیرے پوتا پوتی تجھ سے دور ہوجائیں۔”رحیم پھر گڑگڑایا۔اس کی بات سُن کر فوزیہ کا باپ کسی گہری سوچ میں غرق ہوگیا۔
٭…٭…٭





فوزیہ اور مُنا کھیتوں میں بنی پگ ڈنڈی پر جا رہے تھے۔ فوزیہ کے ہاتھ میں دودھ والا برتن تھااور مُنے نے کندھے پر بستہ لٹکایا ہوا تھا۔
”باجی! مجھے نازیہ باجی پر بڑا ترس آتا ہے، وہ ساری رات اُٹھ کر روتی رہتی ہے۔”منا افسردگی سے بولا۔
”مجھے بھی بڑا ترس آتا ہے اس پر، ہر وقت کھوئی کھوئی رہتی ہے۔” فوزیہ دکھ بھرے لہجے میں جواب دیا۔
”کاش میں کچھ کر سکوں نازیہ باجی کے لیے تا کہ اس کے حالات ٹھیک ہو جائیں۔”مُناکچھ سوچتے ہوئے بولا۔
”تو اچھی طرح اپنی پڑھائی پر توجہ دے۔ پڑھ لکھ کر کچھ بن جا، پھر میں اور تم دونوں ایک ساتھ رہیں گے۔”فوزیہ مسکراتے ہوئے بولی۔
”میں اسی لیے محنت کررہا ہوں تاکہ پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنوں اور ساری دنیا میں مشہور ہو جاؤں۔” منا پورے یقین سے بولا۔
”دیکھنامُنا ایک دن میں بھی مشہور ہو جاؤں گی۔”فوزیہ نے قدرے سنجیدگی سے کہا۔
”تو کیسے مشہور ہو جائے گی باجی، تُو تو لڑکی ہے، مشہور تو مرد ہوتے ہیں۔”منا حیرانی سے بولا۔
”تو گھر چل ذرا ۔بڑا آیا مرد کہیں کا، زیادہ باتیں نہ کر، چل شام سر پر آگئی ہے۔”فوزیہ نے لاجواب ہوکر ہلکی سی چپت اس کی گال پر لگاتے ہوئے کہا۔
٭…٭…٭
دن چڑھتے ہی رحیم کے ساس سُسرفوزیہ کے گھر آگئے اور صحن میں بیٹھنے کے بجائے سیدھے فوزیہ کے باپ کے کمرے میںچلے گئے جہاں فوزیہ کی ماں بھی موجود تھی۔وہ انہیں صبح صبح دیکھ ہی ٹھٹک گئی۔ سب لوگ چارپائیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔اسما کی ماں کے چہرے سے عیاں تھاکہ وہ زبردستی آئی تھی۔
اسما کے باپ نے امام بخش سے آہستہ آہستہ بات کرتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور التجائیہ انداز میں کہا۔
”بھائی اب سب کچھ تیرے سامنے ہے۔میرے بیٹے کی زندگی تیرے ہاتھ میں ہے۔ ”
”وہ تو ٹھیک ہے مگر…”امام بخش تذبذب کے عالم میں کبھی اسے،کبھی اپنے ہاتھ کو دیکھتا رہا اور پھر اس نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔
”ابا اگر مگر کی کیا بات ہے، اتنا اچھا رشتہ نہیں ملے گا۔ اکلوتا ہے، اچھا کماتا ہے اور کیا چاہیے فوزیہ کو۔” رحیم نے باپ کو راضی کرنا چاہا۔
”لیکن مجھے فوزیہ سے تو بات کر لینے دو۔” فوزیہ کے باپ نے دبے دبے لفظوں میں کہا۔
رحیم باپ کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر منانے کی کوشش کرنے لگا۔
”اس نے کیا کہنا ہے، فیصلہ تیرا ہوگاابا، تو جو چاہے گا وہ انکار تھوڑا کرے گی۔ گھر کا معاملہ ہے، تو سوچ لے ابا۔تیرے فیصلے سے میرا گھر بھی بسا رہے گا۔ یہ پوتا تیرا تجھے بہت پیارا ہے نہ اسی کی خاطر ہاں کردے۔”وہ جیسے گڑگڑا رہا تھا۔
امام بخش مخمصے اور تذبذب کا شکار تھا۔پوتے پر نظر پڑتے ہی اُسے بلا کر اس کے سر پر پیار کیا۔ فوزیہ کی ماں نے چپ چاپ حیران پریشان یہ صورتِ حال دیکھ کر کچھ کہنے کی کوشش کی کہ یک دم فوزیہ کا باپ بول اُٹھا۔
”ٹھیک ہے، مجھے یہ رشتہ منظور ہے۔”اس کے کہنے کی دیر تھی کہ کمرے میں سب کے چہرے خوشی سے کھل گئے۔
٭…٭…٭





فوزیہ کی ماں نے بات پکی ہونے پر اُس کے منہ میں ایک لڈو ڈالا تو اس نے ناراضی سے اس کا ہاتھ جھٹک دیا اور چیخ کر بولی۔
”اماں تو نے کس سے پوچھ کر میرا رشتہ طے کیا؟نہیں کرنی مجھے شادی، ابھی مجھے آگے پڑھنا ہے،بہت کچھ کرنا ہے۔”
ماں نے زمین پر گرے لڈو کو دیکھا اور غصے سے بولی۔” بس بہت پڑھ لیا تو نے،جو تیرے باپ اور بھائی نے فیصلہ کردیا ہے وہ مان لے۔”
فوزیہ نے ماں کو مطمئن دیکھ کر چبھتی آواز میںکہا۔ ”اماںکیا تو نہیں جانتی کہ اس کا چال چلن کیسا ہے؟ دوسرے گاؤں تک اس کی بدنامی پھیلی ہوئی ہے۔ گاؤں کی ہر لڑکی اسے بُرا بھلا کہتی ہے۔ ایک نمبر کا آوارہ ہے وہ۔”
ماں نے اُسے غصے سے دیکھا اور چیخ کر جواب دیا۔”لیکن یہ فیصلہ تیرے باپ اور بھائی کا ہے۔ میں کیا کرسکتی ہوں؟”
فوزیہ نے بہت تحمل سے ماں کی بات سُنی اور ہاتھ تھام کر التجائیہ انداز میں کہا۔” تو ابا کو سمجھا تو سکتی ہے کہ میں اس کے ساتھ خوش نہیں رہ سکتی،وہ بہت براہے۔”
”میں نے کہا تھا، پر وہ کہتا ہے فوزیہ وہاں خوش رہے گی اور پھر پوری برادری میں تیرے جوڑ کا اس کے علاوہ کوئی رشتہ بھی تو نہیں ہے۔ تیرے ابا کی چچا زاد بہن ہے بس ذرا غصے کی تیز ہے تو کیا ہوا۔ مجھے پتا ہے میری بیٹی سمجھ دار ہے، تو اس کے بیٹے کو بھی راستے پر لے آئے گی۔ شادی کے بعد سارے بگڑے ہوئے ٹھیک ہو جاتے ہیں۔”ماں نے بڑے نرم لہجے میں بیٹی کو سمجھایا۔
” تو چاہتی ہے کہ میرا حشر بھی نازیہ جیسا ہو، پر یاد رکھ اماں میں نازیہ نہیں ہوں جو مار کھا کے روتی ہوئی واپس آجاؤں۔ مجھ پر کسی نے ہاتھ اٹھایاتو کاٹ ڈالوں گی اس کے ہاتھ بیٹھ کر رونے والی نہیں ہوں میں۔” فوزیہ ماں کو نرم پڑتا دیکھ کر بپھر گئی اور تیز آواز میں بولی۔وہ غصے میں اس وقت بپھری ہوئی شیرنی لگ رہی تھی۔
”پتا نہیں کیا گھول کے پلایا ہے تیرے بھائی اور بھابی نے،پہلے تو تیرا باپ راضی نہیں تھا۔” ماں نے قدرے مخلصانہ انداز میں کہا۔اُسے فوزیہ سے کچھ کچھ ہمدردی بھی تھی لیکن باپ اور بیٹے کے فیصلے کے آگے وہ بہت مجبور تھی۔
فوزیہ اس کی بات سُن کر چارپائی سے چھلانگ لگا کر کھڑی ہوگئی اور کچھ سمجھنے اور نہ سمجھنے کے انداز میں پوچھا۔
”کیا مطلب؟ اچھا، تو یہ سارا کھیل اِن دونوں کا ہے، میں ابھی پوچھتی ہوں۔ مجھ میں تو ہزار کیڑے نکالتی ہے اور پھر اپنے بھائی سے شادی کے لیے میں ہی نظر آئی اسے؟پوچھوں تو ذرا نئے رشتے کے ساتھ کون سا بدلہ لینا چاہتی ہے مجھ سے؟”
ماں نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے روکتے ہوئے کہنے لگی۔”او ٹھہر جا ابھی کچھ نہ کہنا۔”
فوزیہ نے غصے سے جلدی جلدی چپل پہنی اورتن کربولی۔
”اماں میں آج چھوڑوں گی نہیں اس کمینی کو ،تو دیکھ میں پوچھ کر رہوں گی کون سا بدلہ لینا چاہتی ہے وہ مجھ سے اپنے آوارہ گرد بھائی سے میرارشتہ کراکر۔” یہ کہہ کر وہ دندناتی ہوئی شیرنی کی طرح کمرے سے نکل گئی اور ماں ہونقوں کی طرح چپ کھڑی دیکھتی رہ گئی۔اُسے پتا تھا یہ طوفان ایسے نہیں رُکے گا۔
٭…٭…٭





فوزیہ بھائی کے کمرے میں داخل ہوئی۔ اس نے دروازہ کھٹکھٹانے کی زحمت بھی نہ کی۔ بھابی نے اُسے اس طرح اندر آتے دیکھا تو غصے سے دیکھ کر چار پائی سے کھڑی ہو گئی۔
”تجھے ذرا شرم نہیں آتی منہ اٹھا کر یوں اندر گھس آئی ہے؟”اسما نے غصے سے کہا۔
”ہاں بالکل ویسے ہی جیسے تو منہ اُٹھا کر ہمارے گھر گھس آئی ہے۔”فوزیہ نے اسی انداز میں جواب دیا۔
رحیم تیزی سے چارپائی سے اُٹھا اور چپل پہن کر فوزیہ کے سامنے کھڑا ہوگیا۔اُسے ڈر تھا کہ اب فوزیہ نے تو میری بیوی کی منڈھ کر بے عزتی کرنی ہے کیوں کہ اس رشتے پر وہ شیرنی غصّے سے بپھری ہوئی ہے۔اس نے طوفان کا رخ اپنی طرف موڑ لیا۔
”زبان سنبھال کر بات کر، تو اپنی بھابی سے بات کررہی ہے بے شرم۔”رحیم فوزیہ کو جھڑکتے ہوئے بولا۔
”یہ سب مل کر روز میری ایسے ہی بے عزتی کرتے ہیں۔” اسما نے میاں کی ہمدردی پاکر جھوٹ موٹ کا روتے ہوئے کہا اور منہ پر پلو ڈال کر چارپائی پر بیٹھ گئی۔
”اور یہ جیسے بہت معصوم ہے کوئی جواب ہی نہیں دیتی، تو یہ بتا میں ایسی بے شرم اور بُری ہوں تو تُو اپنے بھائی کا رشتہ کیوں لائی؟”فوزیہ منہ بناتے ہوئے جل کر بولی۔
”اس گھر کا بوجھ کم کرنے کے لیے یہ کررہی ہوںاور تو مجھ پر شک کررہی ہے۔” اسما یک دم کھڑی ہوگئی۔
”واہ واہ جانتی ہوں تیری ہمدردیاں۔ نہیں چاہئیں مجھے تیری ہمدردیاں اور بھائی!تو بھی سن لے مجھے نہیں کرنی ابھی شادی ۔”فوزیہ بھی انگلی اُٹھا کر بھابی کے سامنے کھڑی ہوگئی۔
”تو کیا تجھے گھر بٹھا کر رکھنا ہے؟ تیری بھی ڈولی اٹھے تو نازیہ کی طرح ہمارے سروں سے بوجھ ہٹے۔”رحیم غصے سے بولا۔
”نازیہ کا بوجھ کب ہٹا ہے بلکہ اب تو اس کی تین بیٹیوں کا بوجھ اور بڑھ گیا ہے۔ مجھے نہ سمجھنا اُس جیسی، کسی نے مجھ سے زبردستی کی تو دیکھ لینا۔” فوزیہ نے طنزیہ انداز میں جواب دیا۔
”کیا دیکھ لینا بول؟ کیا دیکھ لینا، کیا کر لے گی تو بول؟”رحیم غصے سے آنکھیں نکالتے ہوئے اس پر برس پڑا۔
”دیکھنا پھر کیا کروں گی میں۔” فوزیہ بھی آنکھیں مٹکا کر بولی۔
”دھمکی دیتی ہے کمینی…” رحیم نے اس کی بات سن کر ایک زور دار تھپڑ اس کے منہ پر مارا۔
فوزیہ گال پر ہاتھ رکھے چند لمحے پریشان سی ہکا بکا ٹکٹکی باندھ کر بھائی کو دیکھتی رہی۔آنکھ سے ایک آنسو نہ ٹپکا اور پھر پلٹ کر اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئی۔
٭…٭…٭
فوزیہ اور فاطمہ کھیت میں بیٹھی گرما گرم چنے اور مکئی کھا رہی تھیں۔فوزیہ اس وقت بڑی چہک رہی تھی جس پر فاطمہ قدرے حیران تھی۔اُسے معلوم تھا کہ فوزیہ اس رشتے کے لیے اتنی آسانی سے ماننے والی نہ تھی۔
”لے اور کھا،مجھے تو بڑی بھوک لگی ہے۔ کھانا پکنے میں ابھی دیر ہے۔” فوزیہ مکئی کا لفافہ اس کی جانب بڑھاتے ہوئے بولی۔
”پورے محلے میں تیری بھابی کے گھر والوں نے مٹھائی بانٹی ہے۔ سب کو پتا لگ گیا ہے کہ تیری بات ساجد سے پکی ہوگئی ہے۔”فاطمہ نے مکئی کے چند دانے منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔
”لگ جائے پتا مجھے کیا؟میںنے وہاںشادی تھوڑی کرنی ہے۔ مٹھائی بانٹیں چاہے دیگیں چڑھائیں۔”فوزیہ نے بے پروائی سے کندھے اُچکا کر مکئی کے دانے منہ میں ڈالے اور بڑے آرام سے کہا۔
”لے تیرے ابے نے زبان دی ہے اور تو انکار کر دے گی؟” فاطمہ نے حیرت سے پوچھا۔
”ابے نے دی ہے نا۔ زندگی تو میری ہے،میں نے تھوڑی دی ہے۔”فوزیہ طنزیہ انداز میں بولی۔
”ہائے اللہ کیا کہہ رہی ہے،کیا رشتے سے انکار کر دے گی؟”فاطمہ نے گالوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا۔
”بالکل،میں تب بھی انکاری تھی اور اب بھی انکار کررہی ہوں اور نکاح کے وقت بھی انکار کردوں گی، تو دیکھنا یہ سارا ڈراما اُن کے اپنے سر پر پڑ جائے گا۔” فوزیہ سینہ تان کر بولی۔
”کیا کرے گی تو؟”فاطمہ نے خوف زدہ ہوکر پوچھا۔
”تو پریشان نہ ہو بس دیکھ میں کیا کرتی ہوں۔ منانے دے خوشیاں جی بھر کے، مٹھائیاں بانٹنے دے، یہی لڈو ان کے حلق میں پھنس جائیں گے، جو میرا خیال نہیں کرتا، تو میں کیوں کروں۔” فوزیہ ہنستی ہوئی بولی۔
”لیکن فوزیہ تو اپنے ماں باپ کا تو سوچ۔”فاطمہ نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”انہوں نے میرا نہیں سوچا، میں اُن کا کیوں سوچوں، چل تو بھی سوچنا چھوڑ مجھے کسی کی پروا نہیں۔” فوزیہ نے بے پروائی سے جواب دیا۔
”بہت بھوک لگ رہی ہے، اِن چنوں سے کچھ نہیں بنا، میں دیکھتی ہوں اماں نے چاول پکا لیے ہوں تو لاتی ہوں، دونوں مل کر کھاتے ہیں۔”فوزیہ اُٹھ کر ہاتھ جھاڑتے ہوئے بولی۔
”بات تو سن۔”فاطمہ نے اُسے روکتے ہوئے کہا۔
”بس کردے نہ باقی باتوں کوذرا ٹھہر جا۔” فوزیہ نے رعب سے اُسے سمجھایا اور گھر کی طرف چلی گئی۔
٭…٭…٭
فوزیہ عابد کی دکان میں داخل ہوئی اور ایک ایک کرکے چیزیں اُٹھا کر دیکھنے لگی۔ساتھ ساتھ ترچھی نظر سے عابد کو بھی دیکھ رہی تھی۔اس کے چہرے پر ہلکی سی پریشانی تھی جو عابد کی نظروں سے پوشیدہ نہ رہی۔ عابد کی نظر جیسے ہی اس پر پڑی وہ تیزی سے اس کے پاس آیا اور اسے پریشان دیکھ کر پوچھا۔
”آج بہت دنوں کے بعد چکر لگا ہے خیر ہے؟” فوزیہ کسی سوچ میں گم تھی۔
”آں… بس مصروف تھی۔”فوزیہ نے چونک کر مبہم سا جواب دیا۔
”ایسی بھی کیا مصروفیت کہ ہم یاد ہی نہ رہیں۔” عابد اُسے کریدتے ہوئے شوخی سے بولا۔





Loading

Read Previous

آرٹیکل بی-۱۲ – عظمیٰ سہیل

Read Next

بدی کے بدلے نیکی

One Comment

  • Kmaaal drama and kmaaal kahani…lekin ansu se bhri hui. Zindagi ki talkhion se bhri hui…. Plz make it ava4in download form

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!