باغی – قسط نمبر ۱ – شاذیہ خان

”سُن میری منگنی ہوگئی ہے۔”فوزیہ نے افسردہ انداز میں کہا۔
”کیا؟”عابد نے ایک دم چونک کر فوزیہ کو دیکھا،جب اسے با ت کی سمجھ آئی توشدید دھچکا لگا اور پھر وہ لمحے بھر کو چپ سا ہو گیا۔
تھوڑے توقف کے بعد ایک نیل پالش فوزیہ کے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے بے پروائی سے پوچھا۔”کیا تو اُسے پسند کرتی ہے؟” وہ اس پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا کہ اُسے شدید دکھ ہواہے۔
فوزیہ نے عابد کو غور سے دیکھتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔
”وہ مجھے بالکل اچھا نہیں لگتا، ذلیل،کمینہ، لچا لفنگا۔” وہ دل کر بھڑاس نکالتے ہوئے بولی۔
”تو پھر تو نے ہاں کیوں کی؟”
”میری بھابی کا بھائی ہے اور ہماری برادری کا بھی ہے، ماں نے زبردستی کردی،میں تو نہیں چاہتی تھی۔”فوزیہ نے تلخ لہجے میں جواب دیا۔
”تو تو اڑ جاتی، منع کردیتی کہ وہ تجھے پسند نہیں ہے۔تیری مرضی کے خلاف تیری شادی کیسے ہوسکتی ہے۔”عابد نے غصے سے کہا۔
”ہاں تو اب اڑوں گی نا۔ سب کو بتاؤں گی کہ وہ مجھے پسند نہیں ہے۔ ویسے بھی منگنی ہوئی ہے کوئی شادی تو نہیں ہوئی اور سب جانتے ہیں میری مرضی کے بغیر کوئی میری شادی نہیں کرواسکتا۔” فوزیہ نے بڑے ناز سے جواب دیا۔
یہ سن کر عابد کے چہرے پر رونق آ گئی اوراس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ دو تین چیزیں جو فوزیہ نے اُٹھا کر اُسے تھمائی تھیں وہ شاپر میں ڈالیں اور ہچکچاتے ہوئے بولا۔
”ایک بات پوچھوں؟”
”ہاں پوچھ۔”فوزیہ نے پہلی بار اسے نظر اُٹھا کر دیکھا۔
”تجھے کیسا لڑکا پسند ہے۔ میرا مطلب ہے شادی کس سے کرے گی؟ کیاتیری کوئی پسند ہے؟”عابد نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔فوزیہ نے ایک نظر عابد پر ڈالی اور کچھ دیر سوچا کہ کیا جواب دے پھر ہمت کر ہی ڈالی۔
” جو میری ہر بات مانے، میری کسی خواہش کاانکار نہ کرے،جو میں چاہوں مجھے کرنے دے۔”فوزیہ نے غور سے عابد کو دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
”تو کیا کرنا چاہتی ہے؟”عابد نے حیرانی سے پوچھا۔
”میں ڈھیر سارا پڑھنا چاہتی ہوں، گلوکارہ بننا چاہتی ہوں اور مشہور ہونا چاہتی ہوں۔” فوزیہ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلا کر خواہش کا اظہار کیا۔
”یہ ساری خواہشیں تو میں بھی پوری کرسکتا ہوں۔”عابد نے چند لمحے سوچ کر اُسے جواب دیا۔
”مجھے سوچنے دے۔”فوزیہ نے الجھ کر اسے دیکھا اوربولی۔ نظروں ہی نظروں میں تولا کہ کیا جو بات عابد نے کہی ہے اس میں کوئی وزن بھی ہے،پھروہ اپنے خیالات میںالجھی ہوئی دروازے کی طرف بڑھ گئی۔ اس کے چہرے پر عجیب سی الجھن تھی جسے عابد نے محسوس کرلیا۔
”او یہ شاپر تو لے جا۔”عابد پیچھے سے اسے آواز دیتے ہوئے بولا۔اس نے عابد کی بات پرکان نہ دھرے اور آگے بڑھ گئی۔
٭…٭…٭





عابد کا گھر گاؤں کے دوسرے گھروں سے کافی بہتر تھا۔ دبئی کا پیسہ اس گھر میں صحن سے لے کر کمروں تک نظر آتا تھا۔باہر صحن میں رکھی ہوئی مشین،ایک چھوٹا سا فریج،پکا صحن اور چھوٹا سا باورچی خانہ۔ دو کمروں پر مشتمل دونوں کمروں میں اچھی لکڑی سے کشیدہ کار مسہریاں جو گاؤں میں خال خال مگر اس کے گھر میں نظر آرہی تھیں۔عابد کا بھائی دبئی سے کما کر بھیج رہا تھا اسی لیے ان کے رہن سہن میں دبئی کا پیسا نظر آتا۔ماں بھی دیگر عورتوں کی بہ نسبت زیادہ بہتر کپڑے پہنتی اور اپنے بیٹوں پر اُسے غرور ہی بہت تھا۔ عابد شروع سے ہی سست تھا،دبئی میں زیادہ محنت نہ کرسکا۔ عابد خود تو واپس آگیا تھا مگر بھائی وہیں تھااور وہی کما کما کر بھیج رہا تھا۔
شام کو جیسے ہی عابد گھر داخل ہواماں اُس کے لیے کھانا گرم کر کے لے آئی۔مٹن قورما دیکھ کر عابد خوش ہو گیااور ماں کی تعریفیں کرنے لگا۔ عابد نے روٹی کا نوالہ سالن سے لگا کر مزے سے لقمہ منہ میں ڈالا اور بولا۔
”واہ ماں بکرے کا قورما تو کوئی بھی تیرے جیسا بنا ہی نہیں سکتا۔”اس نے جلدی سے دوسرا نوالہ منہ میں ڈالا تو اسے کھانسی آگئی۔ ماں نے جلدی سے پانی کا گلاس اُس کی طرف بڑھایا اور غصے سے بولی۔
”آرام سے کھا اتنی جلدی کیا ہے تجھے، کیا کھانا بھاگا جارہا ہے؟” عابد نے رک کر ماں کی طرف دیکھا اور کچھ سوچتے ہوئے بولا۔
”اماں میں ایک بات سوچ رہا ہوں۔”
”ہاں بول،کیا سوچ رہا ہے تو؟”ماں نے پوچھا۔
”اگر مجھے بعد میں اتنے اچھے کھانے نہ ملے تو۔” عابد جھجکتے ہوئے بولا۔
”بعد میں کب؟میرے مرنے کے بعد؟ اتنی جلدی مرنے والی نہیںمیں،کسی خوش فہمی میں نہ رہ۔”ماں غصے سے ہاتھ چلاتے ہوئے چیخی۔
”توبہ توبہ اللہ نہ کرے اماں۔ میرا مطلب تو تھا اگر میری بیوی اتنا اچھا کھانا نہ بناتی ہوئی تو؟ مجھے تو تیرے ہاتھ کی عادت ہے، تو میرے لیے کوئی اچھا کھانا پکانے والی ڈھونڈنا۔”عابد کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے بولا۔
”ہاں تو اور کیا ساری عمر میں اپنی ہڈیاں تو نہیں گلاؤں گی۔ سوچ رہی ہوں جلد کردوں تیری شادی۔”ماں نے سکون کا سانس لیتے ہوئے بے پروائی سے کہا۔
”پھر کوئی لڑکی دیکھی میرے لیے۔”عابد نے ماں کو ٹٹولنے کے لیے پوچھا۔
ماں نے مشکوک نظروں سے اُسے دیکھا اور پوچھا۔”تجھے بڑی جلدی ہے، کوئی ہے تیری نظر میں؟”
”اماں بس تو یونہی سمجھ لے۔”عابد شرماتے ہوئے بولا۔
”بتا وہ کون ہے؟ اچھی ہوئی تو کل ہی تیرا رشتہ لے جاتی ہوں۔” ماں بے تابی سے اپنی چارپائی سے کھڑی ہو گئی۔
”اماں وہ…”عابد نے تھوک نگلتے ہوئے کہا۔”اماں تو نا فوزیہ بتول کے گھر رشتہ لے جا۔”
”کیا؟تیرا دماغ تو ٹھیک ہے؟ وہ حجام کی بیٹی فوزیہ؟اُس کی تو منگنی ہوچکی ہے۔ آٹھ دن پہلے اُس کی سسرال سے مٹھائی آئی تھی بات پکی ہونے کی۔” ماں نے اس کے انتخاب پر غصہ کرتے ہوئے کہا۔
”مگر اماں وہ منگنی فوزیہ کی مرضی سے نہیں ہوئی۔ ” عابد بھی چارپائی سے کھڑا ہو گیا۔
”تجھے کیسے معلوم کہ اُس کی مرضی سے نہیں ہوئی۔ کہیں تیرا اور اُس کا کوئی…” ماں نے پہلے ترچھی نظر سے دیکھا اور پھر بات سمجھ آنے پر آنکھیں نکال کر پوچھا۔
”ارے نہیں اماں! دوسرے گاہکوں کی طرح وہ بھی میری دکان پر آتی ہے چیزیں وغیرہ لے جاتی ہے… مجھے اچھی لگتی ہے بس۔”عابد نے گھبرا کر صفائی پیش کی۔
”تجھے کوئی اور نہیں اچھی لگی،وہی رہ گئی ہے؟ اُس کی زبان درازی کے چرچے تو چار گاؤں تک مشہور ہیں اور پھر اپنی اور اس کی حیثیت میں فرق نظرنہ آیا تجھے؟” ماں نے ہاتھ لہراتے ہوئے کہا۔
”میں کچھ نہیں جانتا، بس میں شادی کروں گا تو اُس سے۔”عابد نے اصرار کیا۔
”تیرا دماغ تو خراب نہیں ہوگیاعابد۔” ماں نے غصے سے کہا۔
”میرا دماغ بالکل ٹھیک ہے اماں،اگر تو نے میری بات نہ مانی اور رشتہ لے کر نہ گئی، تو میں زہر کھا لوں گا یا سڑک بلکہ ریل کی پٹری پر لیٹ کر جان دے دوں گا۔” عابد نے غصے سے کہا۔
”تو پاگل تو نہیں ہوگیا،کیسی باتیں کررہا ہے۔” اب ماں نے حیرت سے عابد کو دیکھا۔
”ہاں میں پاگل ہوگیا ہوں، اگر فوزیہ سے میری شادی نہ ہوئی، تو تُو میری شکل نہیں دیکھے گی۔”
عابد پاؤں پٹختے ہوئے چلّایا اورباہر نکل گیا۔ماں حیرانی سے اُسے دیکھ رہی تھی کہ اچانک اس کا دماغ کیسے چل گیا۔
٭…٭…٭





فوزیہ چارپائی پربیٹھی چھوٹی بہن کی چوٹی گوندھ رہی تھی کہ اس کی ماں نے اُسے پیار سے بلایا۔
”اے فوزیہ، ذرا چودھری صاحب کی حویلی تو چلی جا۔”
”کیوں خیر ہے؟ وہاں کیاکام ہے؟” اتنے محبت بھرے انداز میں ضرور کوئی نہ کوئی سازش تھی۔ فوزیہ نے بھنویں اُٹھا کر ماں کو دیکھا۔
”ہاں بس خیر ہی ہے۔ چودھرانی سے تھوڑے پیسے مانگے تھے۔ وہ کہہ رہی تھی کل فوزیہ کو بھیج دینا۔” فوزیہ غصے سے منہ بنا کرچار پائی سے کھڑی ہو گئی۔
”میں نہیں جاتی،جب بھی کہیں سے کچھ مانگنا ہوتا ہے، تجھے فوزیہ یاد آجاتی ہے۔کیا میری شکل فقیرنیوں جیسی ہے؟”بلبلا کر اس نے ماں کو صاف جواب دے دیا۔
”لے توبہ کر، تو کیا اول فول بکتی ہے،توذراباتیںبنا لیتی ہے اس لیے بھیجتی ہوں تجھے، جا میری بچی۔”ماں نے پیار سے پچکارتے ہوئے کہا۔
”مجھے نہیں مانگنے پیسے، اب اُن کی بہو بھی آگئی ہے مجھے شرم آئے گی اس کے سامنے پیسے مانگتے ہوئے۔”اس نے صاف انکار کرتے ہوئے ماں کو دیکھا۔
”او کوئی شرم کی بات نہیں،جا لے کر آ۔ بڑی آئی شرم والی۔ مرضی ہوگی تو پورے گاؤں میں پھرتی رہے گی۔” اماں نے غصے سے اسے جھاڑا۔
”اماں میں نے کہہ دیا نا میں پیسے مانگنے نہیں جاؤں گی۔”
”تیرا تو باپ بھی جائے گا، چل جا کھڑی ہو۔”ماں نے غصے سے چیختے ہوئے کہا۔
”تو پھر ابا کو بھیج دے۔”فوزیہ نے بھی اسی انداز میں جواب دیا۔
”زبان چلاتی ہے؟ٹھہر ذرا۔”ماں نے غصے سے چپل اُٹھا کر اس کی طرف پھینکی جو سیدھے فوزیہ کے بازو پر جاکر لگی اور وہ بلبلا اُٹھی۔
”اُف اماں اتنی زور سے!” فوزیہ روہانسی ہو کر بولی۔
”چل جا بے غیرت نہ ہو تو ہر بات کا جواب تیار ہوتا ہے اس کے پاس۔”ماں بڑبڑائی اور فوزیہ منہ بسورتی رہ گئی۔
”اچھا جاتی ہوں، مگر دلہن کے سامنے نہیں مانگوں گی،اگر چودھرانی نے خود دے دیے تو ٹھیک ہے۔” وہ دھمکی دیتے ہوئے دروازے سے باہر نکل گئی۔
”حرام خور اپنی مرضی ہوگی، تو پورے گاؤں میں آوارہ گردی کرتی پھرے گی جو ذرا سا کام کہہ دو موت پڑ جاتی ہے۔”ماں نے جاتی ہوئی فوزیہ کو دیکھ کر بڑبڑا کر کہا۔
”تو کیا بوتھا گھما گھما کر دیکھ رہی ہے، سر سیدھا رکھ۔” یہ کہہ کر پاس بیٹھی مُنی کے سر پر زور دار تھپڑ مارا تو وہ رو پڑی۔
٭…٭…٭
فوزیہ جب چودھرانی کی حویلی میں داخل ہوئی توصحن میں کافی چہل پہل نظر آئی۔بھری دوپہر میں دو تین نوکرانیاں بیٹھی کام کررہی تھیں۔ ایک چارپائی پر پاپڑ سوکھ رہے تھے۔ صحن میں بچھی دیگر چارپائیوں پر مرچیں سوکھنے کے لیے پڑی تھیں۔چودھرانی کے پاس نوکرانیاں کھڑی ان سے کوئی ہدایات لے رہی تھی۔
”السلام علیکم چودھرانی جی!” فوزیہ نے مسکراتے ہوئے سلام جھاڑا۔
انہوں نے نظر اُٹھا کر دیکھا اور بولیں۔
”وعلیکم السلام فوزیہ! آجا ،آجا۔”
”السلام علیکم باجی۔” فوزیہ نے پاس کی چارپائی پر بیٹھی دلہن کو دیکھ کر دھیمی آواز میں کہا اوراپنا دوپٹا صحیح کیا۔
”وعلیکم السلام!” بہو نے جواب دیا۔
”یہ وہی فوزیہ ہے جس کا میں ذکر کررہی تھی۔ بہت اچھا گاتی ہے بلکہ ناچتی بھی بہت اچھا ہے۔ تیری شادی پر تو خوب ناچی تھی یہ۔”چودھرانی نے فوزیہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بہو سے کہا۔
”چودھرانی جی آپ کی ووہٹی بڑی سوہنی ہے۔”فوزیہ نے خوب صورت کپڑوں میں سجی ہوئی گڑیا کی مانند شرماتی لجاتی دلہن کو دیکھ کر کہا۔
”میرا ساجی بھی کوئی کم تو نہیں۔بہت ڈھونڈ کے چنا ہے یہ ہیرا میں نے اپنے بیٹے کے واسطے۔” چودھرانی کے انداز میں بیٹے کے لیے محبت کا اظہارتھا توفوزیہ نے بھی چودھرانی کی ہاں میں ہاں ملائی۔
”جی بالکل چاند اور سورج کی جوڑی ہے۔” چودھرانی نے بٹوے سے پیسے نکال کر اُسے پکڑائے۔
”یہ لے ماں کو دے دینا،اسے ضرورت ہے۔ گھر پر تیری کوئی خوشی کرنی ہے۔ تیری ہونے والی ساس بات پکی ہونے کی مٹھائی دے گئی تھی۔”
”میں نے وہاں شادی نہیں کرنی، آپ اماں کو سمجھائیں۔”فوزیہ نے پیسے تو پکڑ لیے، مگر چودھرانی کی بات سن کر غصے سے منہ بناتے ہوئے بولی جیسے منہ میں کڑوا بادام آگیا ہو۔





”کیوں کیا ہوا؟ کیا تجھے پسند نہیں لڑکا؟”چودھرانی نے حیرت سے پوچھا۔
”چودھرانی جی نہ شکل ہے اور نہ عقل ہے۔”فوزیہ نے جواب دیا۔
” مردوں کی تو کمائی دیکھی جاتی ہے فوزیہ! شکل عقل کون دیکھتا ہے۔ چل پگلی جہاں ماں باپ کہتے ہیں چپ چاپ کر لے شادی۔”چودھرانی نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”چودھرانی جی! کماتا بھی تو کچھ نہیں،بے کار پھرتا رہتاہے۔ سارا دن لفنگوں کے ساتھ گلی کی نکڑ پر کھڑا آتی جاتی لڑکیوں کو چھیڑتا ہے۔ محلے کی ہر لڑکی اس سے بچتی ہے۔” فوزیہ چودھرانی کے پاس آکر بیٹھ گئی اورعاجزی سے بولی۔
”ایسا ہے تو پھر تیری ماں نے ہاں کیوںکی؟” چودھرانی نے حیرت کا اظہار کیا۔
”وہ تو آپ اماں سے پوچھو، میں نے کہہ دیا ہے مجھے کوئی نہیں کرنی ایسے شخص سے شادی۔” فوزیہ نے ٹکا سا جواب دیا۔
”اچھا چل ابھی تو گھر جا ،میں کروں گی تیری ماں سے بات۔” چودھرانی کچھ سوچتے ہوئے بولی جیسے اسے بہلانے کی کوشش کر رہی ہو۔فوزیہ کی باتوں نے اسے بھی سوچ میں ڈال دیا تھا۔انہیں پتا تھا لڑکی اپنی بات کی پکی ہے اگر نا کہہ دیا تو جان چلی جائے گی ہاں نہیں کرے گی۔ انہوں نے سوچا کہ ایک بار فوزیہ کی ماں کو ضرور سمجھائیں گی۔
٭…٭…٭
فوزیہ غصے سے دندناتی ہوئی گھر میں داخل ہوئی۔ ماں نے چارپائی پر سبزی بناتے بناتے نظر اُٹھا کر اسے دیکھا۔فوزیہ نے چودھرانی سے لیے ہوئے پیسے ماں کے آگے پھینکے اورغصے سے بولی۔
”یہ لے پکڑ پیسے،مجھے پتا ہوتا تُویہ پیسے میری رسم کے لیے منگوا رہی ہے تو میں کبھی بھی نہ جاتی۔”
”تیری رسم کے لیے منگوائے تھے، تیرے جنازے کے لیے تو نہیں منگوائے جو تو اتنا بگڑ رہی ہے۔”ماں نے بھی اُسی انداز میں بے پروائی سے جواب دیا۔
”اماں سچ بتا تجھے مجھ پر ذرا ترس نہیں آتا۔ اس لفنگے سے شادی کیسے کروں؟” فوزیہ نے ایک نظر ماں پر ڈالی اور اُس کاہاتھ پکڑ کر دھیمے انداز میں بولی۔
ماں نے کوئی جواب نہ دیا تو پھر اس نے غصے سے جھنجھلاتے ہوئے کہا۔
”تو ابا کو سمجھا اماں! مجھے اس لفنگے سے شادی نہیں کرنی، نہیں کرنی، نہیں کرنی۔”
”بہت سمجھایا ہے، لیکن تیرا باپ کہتا ہے کہ شادی کے بعد سب ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ تیرا بھائی کیا کم تھا؟ وہ بھی لچا لفنگا ہی تھا۔”ماں نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”سن لے اماں! میں بھی پھر اپنی ہی کروں گی۔” فوزیہ نے انگلی اُٹھا کر دھمکی دی۔
”کیا کرے گی تو؟ میری چٹیا کٹوائے گی، ہمیں لوگوں کے سامنے رسوا کرے گی؟” ماں نے غصے سے کہا۔
”یہ تو وقت بتائے گا کہ فوزیہ بتول کیا کرے گی،میری بات یاد رکھنا۔ ” یہ کہہ کر وہ ماںکے پاس سے بڑ بڑاتے ہوئے اُٹھ گئی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

آرٹیکل بی-۱۲ – عظمیٰ سہیل

Read Next

بدی کے بدلے نیکی

One Comment

  • Kmaaal drama and kmaaal kahani…lekin ansu se bhri hui. Zindagi ki talkhion se bhri hui…. Plz make it ava4in download form

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!