باغی – قسط نمبر ۱ – شاذیہ خان

اگر شوہر نے گھر سے نکال ہی دیا تھا،تو اُسے یہاں آنے کی کیا ضرورت تھی،وہیں دروازے پر بیٹھ جاتی۔”امام بخش غصے سے بولا۔وہ بھی بیٹی کو کسی صورت وہاں برداشت نہیں کرپارہا تھا۔ ایک بیٹی بیاہ دی تھی اور دوسری تیار اور تیسری کے لیے بھی جلد ہی انتظام کرنا تھا۔
یہ سن کر نازیہ کے چہرے کا رنگ بدلنے لگا۔اسے معلوم تھا بھائی کے بعد باپ نے بھی اس کا ساتھ نہیں دینا لیکن بہن کے ساتھ بیٹھی فوزیہ کے چہرے کا رنگ یہ ساری باتیں سن کر بدل گیا اور وہ نہایت غصے سے کمرے سے باہر نکلی۔فوزیہ کا باپ اس کی ماں سے کہہ رہا تھا کہ اتنی مشکلوں سے شادی کی تھی،اگر پتا ہوتا کہ شادی کے بعد بھی سارا خرچہ میں نے ہی اُٹھانا ہے ،تو کبھی نہ کرتا۔ گھر کے اخراجات پہلے ہی بہ مشکل پورے ہوتے ہیں۔ اوپر سے یہ سیاپا کیسے پورا ہوگا۔
اسی دوران فوزیہ اپنے کمرے سے نکل آئی اور گھور کر ماں باپ کو دیکھا۔ ”ابااگر تو نے نازیہ کی شادی پہلے ہی دیکھ بھال کرکی ہوتی تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔” اس کے لہجے میں بہت طنز تھا۔
”او چپ کر،تیری زبان بہت چلنے لگی ہے۔” فوزیہ کا باپ غصے سے بولا۔
”سارا قصور تیرا ہے ابا۔ اِک نمبر کے نکمے اور ویلے شخص سے تو نے اپنی پھولوں جیسی نازیہ باجی کی شادی کر دی۔ اب ساری عمر بیٹھ کر رونا ہی ہے اس بے چاری نے۔” فوزیہ بہن کی ہمدردی میں بولی۔
”اپنی بکواس بند کر۔ اب جلد ہی تیرا بھی رشتہ کر دینا ہے میں نے۔” باپ غصے سے بولا۔
”میں کوئی بھیڑ بکری نہیں ہوں ابا جو تو مجھے کسی کے بھی ساتھ یوں ہی ہانک دے گا۔ اور میں’ میں میں کرتی چلی جاؤں گی۔ ابا! کان کھول کے سن لے میں اپنی پسند سے دیکھ بھال کر شادی کروں گی۔” فوزیہ نے تڑخ کر جواب دیا۔
فوزیہ کی ماں نے چپل اُٹھا کر اسے مارتے ہوئے کہا۔ ”بے شرم،بے حیا! اپنے باپ کے سامنے ایسی باتیں کرتی ہے۔ دفع ہو جا یہاں سے ابھی تیری عقل ٹھکانے لگاتی ہوں۔ اب جلد ہی تیرا بندوبست بھی کرنا پڑے گا۔”
فوزیہ اپنا بازو سہلاتے ہوئے منہ بنا کر بولی۔ ”ہاں ایک کا کیا تو ہے،اب بھگت بھی! میں صاف بتا رہی ہوں تم دونوںکو،اگر کسی نے میرے ساتھ زبردستی کی نا،تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہو گا۔” یہ کہتے ہوئے وہ اماں کی دوسری جوتی کے ڈر سے اندر بھاگ گئی۔
فوزیہ کے کمرے میں نازیہ چارپائی پر گہری نیند سوئی ہوئی تھی۔کبھی کبھی رات کے اس پہر کہیں سے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آجاتیں۔فوزیہ بالوں میں پراندہ ڈالے لپ اسٹک لگاتے ہوئے خود سے باتیں کررہی تھی۔ اس کے ہاتھ میں آئینہ تھا۔ ہاتھ میں تھمے آئینے کے عقب میں سوئی نازیہ کا عکس صاف نظر آنے لگا اور فوزیہ نے اس کے چہرے پر شوہر سے پڑی مار کے نشان دیکھے تو دل درد سے بھر گیا۔ وہ پلٹ کر نازیہ کی طرف مڑی اور بڑبڑائی۔
”یہ بھی کوئی زندگی ہے۔ اس سے تو بہتر تھا ماں اس کی شادی ہی نہ کرتی۔ گھر ہی بٹھائے رکھتی تو اچھا تھا۔ میں تو شادی اپنی مرضی سے کروں گی۔” یہ کہتے ہوئے اس کے چہرے پر اک پُراسرا ر سا عزم تھا۔ آئینہ ہاتھ میں لے کر وہ دوبارہ اپنے ہونٹوں پر لپ اسٹک لگانے لگی اور پھر سرخ لبوں سے مسکراتی چارپائی پر دراز ہوگئی۔
٭…٭…٭





فوزیہ چودھرانی کے گھر بیٹھی اس کے سر میں تیل لگاتے ہوئے گپیں بھی لگا رہی تھی۔ چودھرانی نے اُسے اپنی کام والی کے ذریعے پیغام کہلا کر بلایا تھا اور وہ اب ان کو پورے گاؤں کے سچے جھوٹے قصّے مرچ مصالحے لگا کر سنارہی تھی۔ چودھرانی کو جب گاؤں کی خبریں لینا ہوتیں تووہ اسے بلالیتیںاور جاتے جاتے خبروں کے عوض اسے اپنا کوئی نہ کوئی پرانا جوڑا دے دیتیں۔آج بھی وہ دونوں باتیں کررہی تھیں کہ ہلکی ہلکی مالش کے دوران فوزیہ نے انکشاف کیا۔
”چودھرانی جی آپ کو پتا ہے بالی اپنے گھر سے بھاگ گئی ہے۔”
”یہ کون سی نئی بات ہے۔ وہ تو ہر مہینے دو مہینے بعد بھاگی ہوتی ہے۔ اس بار کس کے ساتھ بھاگی ہے؟” چودھرانی نے اس کی بات پر آرام سے ہنستے ہوئے کہا۔
”چودھرانی جی وہ مجھے کون سا بتا کر یا پوچھ کر بھاگی ہے،البتہ سنا ہے اس دفعہ وہ ولایت حسین کے ساتھ گئی ہے۔” فوزیہ منہ بنا کربولی۔
” خیر صلّااُس کے ساتھ بھاگی ہے تو واپس آ جائے گی۔ ولایت حسین نے زیادہ دیر اُسے پاس نہیں رکھنا۔ دیکھ لینا دو تین ہفتوں میں آجائے گی۔” چودھرانی نے بہت آرام سے سکون سے جواب دیا۔
”چودھرانی جی ہمارے اپنے گھر اتنے مسئلے پڑے ہوئے ہیں۔بڑی پریشانی ہے جی، سمجھ نہیں آرہا کیا کریں۔”فوزیہ نے افسردہ لہجے میںکہا۔
”کیا ہوا؟” چودھرانی نے چونک کر اس سے پوچھا۔
”نازیہ پھرگھرآگئی ہے۔ اس کے میاںکمینے، مردود نے مار مار کر اُسے گھر سے نکال دیا ہے۔”فوزیہ کے دکھ بھرے لہجے میں بہن کے لیے بہت پیار تھا۔
”زبان سنبھال کر بات کر فوزیہ، تیرا بڑا بہنوئی ہے۔ احترام سے بات کیا کر اُس کے بارے میں۔”چودھرانی نے اسے جھڑکتے ہوئے کہا۔
”او جی، میں تو اماں سے کہہ دوں گی کہ نازیہ کو طلاق دلوا دے۔”وہ بلبلائی تو چودھرانی نے اسے گھور کر دیکھا۔
”طلاق دلوا کے اسے کہاں رکھے گی تیری ماں؟ چھوٹا سا تو گھر ہے تیرا چار جانوں کو کون کھلائے گا۔” چودھرانی منہ بناتے ہوئے بولیں۔
”چودھرانی جی آپ اُسے اپنے پاس رکھ لیں۔ بڑی سگھڑ ہے وہ، ہر قسم کا کام کرلیتی ہے۔” چودھرانی کے سر کو تیل سے سہلاتے ہوئے فوزیہ نے التجائیہ انداز میں کہا۔
”وہ اپنے گھر کی مالکن ہے اور تو اس کو نوکرانی بنانا چاہ رہی ہے۔” چودھرانی نے سمجھایا۔
”گھر کی مالکن بننے کے بجائے وہ آپ کے گھر نوکرانی بن کر زیادہ سکون میں رہے گی۔” فوزیہ منہ بگاڑ کر بولی۔
”زیادہ زبان چلانے کے بجائے ہاتھ تیز تیزہلا۔” چودھرانی اُسے جھڑکتے ہوئے بولی۔ فوزیہ دونوں ہاتھوں سے چودھرانی کے سر کی تیز تیز چمپی کرنے لگی۔
٭…٭…٭





اسما اپنے کمرے میں چارپائی پر افسردہ سی بیٹھی اسی بات کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ اگر ساجد اور فوزیہ کا نکاح ہو گیا تو پھر کیا ہو گا۔چہرے پر عجیب سی دردبھری سوگ کی سی کیفیت تھی جیسے کوئی بہت بڑا سانحہ ہوگیا ہو۔ اسی دوران رحیم کمرے میں داخل ہوا۔ وہ تب بھی خاموش بیٹھی رہی اور آنکھ اُٹھا کے کمرے میں داخل ہونے والے اپنے میاں کو بھی نہ دیکھا۔
”تجھے کیا ہوا کیوں منہ لٹکائے بیٹھی ہو؟”وہ کچھ نہ بولی تو رحیم اس کے پاس آکر بیٹھ گیا اور اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھنے لگا۔
”تو ٹھیک تو ہے نا؟ بول نہ کیا ہوا تجھے؟ اماں نے پھرکچھ کہا ہے؟”اس نے تشویش سے پوچھا۔
”میں آج اماں کے ہاں گئی تھی۔ ساجد کہہ رہا تھا اگر فوزیہ سے شادی نہ ہوئی تو وہ خودکشی کر لے گا۔” اسما نے ایسی شکل بنا کر بات کی جیسے کسی بہت قریبی عزیز کے مرنے کی خبر سنا رہی ہو۔
”کیا پاگل ہوگیا ہے وہ؟ اس فوزیہ کے لیے مرا جارہا ہے۔”رحیم بیٹھے سے کھڑا ہو گیا اور طنزیہ انداز میںبولا۔
”ہاں تیری بہن تو اچھے اچھوں کو پاگل کردے۔” اسما بلند آواز میں فوزیہ کو کوسنے لگی۔ ”ہائے میرا گھبرو جوان اکلوتا ویر، ہائے کیا کروں میں، فوزیہ اللہ کرے تو مر جائے۔”
”او بس کردے، میں سمجھاؤں گا ساجد کو کہ ضد چھوڑ دے، تو فکر نہ کر۔”رحیم پریشان ہوکر اسما کو سمجھاتے ہوئے بولا۔
”سب نے سمجھایا ہے اُسے وہ کسی کی نہیں سن رہا۔ کہتا ہے میں نے فوزیہ سے شادی کرنی ہے۔ وہ نہ ملی تو میں تیزاب پی لوں گا۔ اس نے طوطے کی طرح یہی رٹ لگائی ہوئی ہے۔ اماں ابا کل آرہے ہیں اُس کا رشتہ مانگنے رحیمے تو کچھ کر ورنہ ہمارا گھر بھی نہیں بچے گا۔” اب وہ اونچی آواز میں بولنے کے ساتھ ساتھ رو بھی رہی تھی اور سینے پیٹتے ہوئے بولی۔
”لیکن میں کیا کروں۔ اماں تو وٹے سٹے کی شادی پر کبھی راضی نہیں ہوگی۔” رحیم بے بسی سے سرجھکا کر بولا۔
اسما نے اپنی بات کا جواب نفی میں سن کر دیدے پھاڑ ے اورشہادت کی انگلی اٹھا کر رحیم کو دھمکایا۔ ”اپنے ابا سے بات کر اُسے ساری بات بتا، شاید وہ کوئی راستہ نکال لے،اگر میرے ویر کو کچھ ہوگیا، تو کان کھول کر سن لے رحیمے!میں کسی کو نہیں چھوڑوں گی۔بلکہ تجھے اس کا حساب دینا پڑے گا۔”
رحیم نے گھبرا کر اسما کی شکل دیکھی اور تسلی دی۔ ”او تُو پریشان نہ ہو۔ میں کچھ کرتا ہوں۔ پہلے اماں کے پاس جاتا ہوں شاید وہ مان جائے۔” یہ کہتا ہوا وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔
٭…٭…٭
گھر میں آج کافی ر ونق سی تھی، فوزیہ، مُنا، مُنی اور نازیہ بچوں کے ساتھ ٹی وی دیکھ رہے تھے بلکہ ٹی وی دیکھنے سے زیادہ شور مچا رہے تھے۔امام بخش نے اس کے کمرے میں داخل ہو کر چیختے ہوئے کہا۔
”آواز تو ہلکی کر دے،اس گھر میں تو رات کو بھی سکون نہیں ہے۔ میں سونے لگا ہوں۔”
فوزیہ نے دوڑ کر ٹی وی کی آواز ہلکی کی۔ ٹی وی پر کوئی فنکارہ ناچ رہی تھی باپ کے جاتے ہی فوزیہ بھی اسی انداز میںناچنے لگی۔ سب ہنسنے لگے۔ نازیہ کی بچیاںتالیاں بجارہی تھیں پھر وہ خالہ کے ساتھ ناچنے بھی لگیں۔
”تیرے اندر تو لگتا ہے کسی میراثن کی روح گھسی ہوئی ہے جہاں ڈھولکی کی آواز آئی فوراً ناچنے لگی۔ تجھے تو کسی میراثی کے گھر پیدا ہونا چاہیے تھا۔” نازیہ بے اختیار ہنستے ہوئے بولی۔
”اگر میں میراثن ہوں، تو اس میں کون سا عجیب ہے؟ کیا وہ انسان نہیں ہوتے؟” فوزیہ نے اس کی بات سن کر منہ بنایا پھر گردن اکڑا کر پوچھا۔
”پراُن کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔”اسی انداز میں منہ بناتے ہوئے نازیہ نے جواب دیا۔
”عزت یہاں صرف پیسے والوں کی ہوتی ہے،اگر میراثیوں کے پاس پیسہ آجائے تو وہ بھی چودھری بن جاتے ہیں۔” فوزیہ کا طنزیہ جواب سن کر نازیہ خاموش ہو گئی،کیوں کہ وہ جانتی تھی غلط فوزیہ بھی نہیں کہہ رہی تھی۔ آج کل پیسا ہی ساری قدر تھا کام اچھے کرو یا برے کسی کو فرق نہیں پڑتا۔کوئی نہیں پوچھتا کہ جو روٹی کھا رہے ہیں وہ کس کمائی سے آئی ہے۔ روٹی ہونی چاہیے اور اگر چُپڑی کھلانے والا ڈاکو بھی ہو تو کوئی نہیں پوچھتا۔کل یہی باتیں برائی سمجھی جاتی تھیں اور آج عزت کی پیمائش تسلیم کر لی گئی ہیں۔
”تم دیکھنا ایک دن میں ایک نام ور فلم سٹار بنوں گی۔ سارا بندوبست کیا ہوا ہے میں نے۔ کس سے رابطہ کرنا ہے، کس کے پاس جانا ہے۔” فوزیہ اپنی سادگی میں سوچے سمجھے بغیر بول رہی تھی۔





”تیرا دماغ تو نہیں خراب ہوگیا؟ کیسی الٹی سیدھی باتیں کررہی ہے۔” نازیہ نے دہل کر اس کے منہ پر ہاتھ رکھا۔
”باجی تو ہر وقت یہی کہتی ہے، ایکٹریس بنوں گی، ہیروئن بنوں گی یا گانے والی۔” منی نے بھی فوزیہ کی ہاں میں ہاں ملائی۔
”کیوں؟ مجھ میں کیا کمی ہے؟ لاکھوں سے خوب صورت ہوں، میں کیوں نہیں بن سکتی ایکٹریس؟” فوزیہ نے کندھے اُچکاتے ہوئے بہن سے پوچھا۔
”فوزیہ یاد رکھ وہاں صرف خوب صورت ہونا کافی نہیں ہوتا اور بہت سی چیزیں بھی چاہئیں۔” نازیہ نے جواب دیا۔
”ایک دن میں ضرور ایکٹر بنوں گی اور بہت آگے جاؤں گی۔ تم لوگ بیٹھے ہوئے بس میرا منہ دیکھتے رہنا۔”فوزیہ خلاؤں میں گھورتے ہوئے پورے یقین کے ساتھ بولی۔رات کی خاموشی اور سیاہی گہری ہورہی تھی۔ بالکل فوزیہ کی قسمت کی طرح جس کا فوزیہ کو قطعاً اندازہ نہ تھا۔جن روشنیوں کو وہ منزل سمجھ رہی تھی وہ دراصل منزل نہیں سراب تھا جہاں پہنچنے والے کو وقت کے ضیاع کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔
٭…٭…٭
گلی میں آج کچھ زیادہ ہی سناٹا ہی تھا۔ساجد اپنے ایک دوست کے ساتھ تھڑے پر بیٹھا گپیں ہانک رہا تھا۔ وہ دونوں کب سے بیٹھے دنیا جہان کی فضول باتیں کر رہے تھے،پھر ساجد کو ایک دم کچھ یاد آیا تو وہ دوست سے کہنے لگا۔
”اوئے میںتجھے ایک بات بتانا توبھول ہی گیا کہ میری منگنی ہونے والی ہے۔”
”اوے چپکے چپکے تو منگنی کروا رہا ہے لیکن بتا تو سہی کس کے ساتھ؟”دوست نے حیرت اور تجسس سے پوچھا۔
”میری بہن کی نند فوزیہ بتول کے ساتھ اور کس کے ساتھ۔”ساجد نے فخریہ مگر خبیثانہ انداز میں مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
”واہ کیا بات ہے! اوئے وہ شیرنی راضی ہوگئی تجھ سے منگنی کے لیے؟”دوست نے رشک اور حیرت سے کہا۔
”راضی کیسے نہ ہوگی، میری بہن اُس کے گھر میں ہے۔”ساجد نے طُرّم خان بنتے ہوئے جواب دیا۔”اوریہ سارے نخرے شادی سے پہلے ہوتے ہیں، شادی کے بعد تو اُسے تیر کی طرح سیدھا کردوں گا۔”
”تو تو بڑا خوش قسمت نکلا یار، سارے گاؤں کے لڑکوں کی نظریں تھیں اس پر۔ صحیح جگہ ہاتھ مارا ہے تُو نے۔” ساجد اس کی بات سُن کر بے غیرتوں کی طرح ہنس پڑا۔
٭…٭…٭





عابد دکان میں رکھی چیزوں کی صفائی کر رہا تھا کہ گلی سے گزرتی فوزیہ پر نظر پڑی تو اس نے آوازدے ڈالی۔
”اے فوزیہ ! آج دکان پہ نہیں آؤ گی؟ نیا سامان آیا ہے دیکھو گی نہیں؟”عابد نے اسے نئے سامان کا لالچ دیتے ہوئے کہا۔
”رہنے دے، میرے پاس پیسے نہیں ہیں خریداری کے لیے۔” فوزیہ نے منہ بنا کر جواب دیا۔
”تجھ سے پیسے کب مانگ رہا ہوں، آکر چیزیں تو دیکھ۔ بالکل نیا سامان لایا ہوں۔”
فوزیہ نے کچھ دیر سوچا اور پھر اندر داخل ہو گئی۔سامنے دیوار پر ہی فلم ایکٹرسوں کے بڑے بڑے پوسٹرز لگے ہوئے تھے وہ غور سے ان کو دیکھنے لگی۔ عابد نے اسی کی محویت کو محسوس کر لیا۔
”تجھے پسند ہیں یہ پوسٹرز؟ اگر چاہئیں تو لے جاؤ۔”وہ اسے لالچ دے رہا تھا۔
”نہیں مجھے نہیں چاہئیں میں تو اس لیے دیکھ رہی ہوں کہ ایک دن تو دیکھنا میرا پوسٹر بھی ہوگا ان ایکٹرسوں کے ساتھ تیری اسی دکان میں۔”اس نے بڑے فخریہ انداز میں جواب دیا۔
”کیا مطلب ہے تیرا؟” عابد نے چونک کرپوچھا۔
”مطلب یہ کہ میں بھی ایکٹرس بننا چاہتی ہوں۔”فوزیہ نے کہا اور عابد نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
”میں نے اپنی تصویریں بھی مختلف پروڈیوسروں کو بھیج دی ہیں، دیکھنا ایک دن مجھے بھی کال آئے گی، کسی نہ کسی پروڈیوسر کی۔ ”وہ اپنی رو میں کہتی رہی۔
”یہ تو اچھا کام نہیں ہے، لوگ ایسی عورتوں کو اچھا نہیں سمجھتے۔” عابد نے تشویشی انداز میں کہا۔
”اگر لوگ انہیں اچھا نہیں سمجھتے، تو پھر تو نے کیوں ان کے پوسٹر اپنی دکان میں لگائے ہوئے ہیں؟” اس کے بگڑنے پر عابد تھوڑا گڑبڑا گیا۔
”دیکھ فوزیہ وہ بڑی غلط جگہ ہے، وہاں بہت بُرے بُرے لوگ ہوتے ہیں، جو تجھے غلط راہ پر ڈال سکتے ہیں۔”عابد نے وضاحت دی۔
”ابھی تک کوئی ایسامائی کا لال پیدا نہیں ہوا جو فوزیہ بتول کے ساتھ چھیڑ خانی بھی کرسکے۔” فوزیہ نے دو ٹوک انداز میں جواب دیا۔





”تُو تو بڑی جی دار عورت ہے فوزیہ بتول۔”عابد اس سے متاثر ہوتے ہوئے بولا۔
‘میں عورت نہیں لڑکی ہوں۔”فوزیہ بگڑ کر بولی۔
”ہاں ہاں میرا مطلب وہی ہے۔”عابد کھسیا گیا۔
”ویسے ایک بات تو بتا، تو ہر وقت دکان پر عورتوں سے مٹھار مٹھار کر باتیں کرتا رہا ہے، تیری بیوی تجھے کچھ نہیں کہتی۔”فوزیہ نے عابد کو غور سے دیکھا اور طنزیہ انداز میں بولی۔ اُسے تشویش تھی کہ عابد عورتوں سے اتنی باتیں کرتا ہے اس کی بیوی ضرور ناراض ہوتی ہوگی۔
”میری تو ابھی شادی نہیں ہوئی۔” وہ ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے بولا۔
”یہ بھلا کیسے ہوسکتا ہے؟” فوزیہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔
”ہوکیوں نہیں سکتا؟”عابداسی انداز سے بولا۔
”تُوتودبئی رہ کے آیا ہے، اچھا خاصا کھا کمابھی لیتا ہے، پھر بھی تجھے ابھی تک کوئی لڑکی کیوں نہیں ملی؟”فوزیہ نے حیرت سے پوچھا۔
”گاؤں کی کوئی لڑکی مجھے پسند ہی نہیں آئی اور نہ کوئی میرے دل کو لگی۔”عابد نے مسکراتے ہوئے اپنی آنکھیں اس پر جما دیں۔
”کیا مطلب دل کونہیںلگی؟مجھے بتا تجھے کیسی لڑکی چاہیے؟میں تجھے ڈھونڈ کر دیتی ہوں۔” فوزیہ نے آنکھیں پھیلا کر اپنی خدمات پیش کیں۔
”بالکل تیرے جیسی!’ ‘عابد نے اس کی بات پر مسکراتے ہوئے کچھ سوچ کر جواب دیا۔
”لے،مجھ جیسی لڑکی سے اس گاؤں کے آدھے سے زیادہ لڑکے شادی کرنا چاہتے ہیں،آج تو بھی ان میں شامل ہو گیا۔”عابد یہ سُن کر کھسیا سا گیا۔
فوزیہ نے دکان سے کولڈ کریم کی ایک شیشی اٹھا کر اس کی خوشبو سونگھی پھر عابد سے بولی۔
”لے کر جا رہی ہوں،پیسے بعد میں دے دوں گی،مر نہ جانا۔” یہ کہہ کر وہ دکان سے باہر نکل گئی اور عابد اُسے جاتے ہوئے دیکھنے لگا اور ایک ٹھنڈی سانس بھری اور آنکھیں بند کرکے فوزیہ کے خیالوں میں کھوگیا۔
٭…٭…٭
فوزیہ کی ماں سارے دن کی تھکی ہاری دن ڈھلتے ہی سستانے کی خاطرچارپائی پر لیٹ گئی۔ رحیم جیسے اسی انتظار میں تھا۔دھیرے سے آکر ماں کے پاؤں دبانے لگا۔ پہلے تو ماں نے مندی مندی آنکھوں سے حیران ہوکر اُسے دیکھا،جب نہ رہا گیاتو بولی۔
”خیر ہے آج ماں پر بڑا پیار آرہا ہے۔”
”ماں پیار تو روز ہی آتا ہے ،تو ہی کوئی نہ کوئی بات کرکے مجھے غصہ دلا دیتی ہے۔ اس گھر میں بس میں ہی ہوں جس سے تو پیار سے بات نہیں کرتی۔”رحیم نے سر جھکا کر ماں سے کہا ،آواز میں ایک شکایت سی تھی۔
”تجھے اپنی بڈھی کی فرماں برداری سے فرصت ملے گی، تو کوئی پیار کرے گا نہ تجھ سے۔تجھے تو نہ بہن نظر آتی ہے نہ ماں۔”ماں نے بھی اس کے شکایتی انداز پر تنک کر جواب دیا۔
”تُو تو ہمیشہ اپنی بیٹیوں کی طرف داری کرتی ہے، میں بھی تو اُن کا بھائی ہوں، اچھا سوچتا ہوں اُن کے لیے،لیکن تیری خواہ مخوا کی طرف داری بہت تکلیف دیتی ہے۔”وہ ہولے ہولے پاؤں دباتے ہوئے ماں سے کہہ رہا تھا۔
”اچھا بتا اس وقت کس بات کے لیے آیا ہے؟” ماں نے سر ہلاتے ہوئے پوچھا جیسے اس کی چاپلوسی کو اچھی طرح سمجھ رہی ہو۔
”اماں!”رحیم نے آنکھیں موندے لیٹی ہوئی ماں کو پھر پکارا۔
”ہاں بول،اب بک بھی دے۔”ماں نے آنکھیں موندے موندے جواب دیا۔
”ماں اب فوزیہ کی بھی شادی ہو جانی چاہیے۔”رحیم نے چاپلوسانہ انداز میں کہا۔




Loading

Read Previous

آرٹیکل بی-۱۲ – عظمیٰ سہیل

Read Next

بدی کے بدلے نیکی

One Comment

  • Kmaaal drama and kmaaal kahani…lekin ansu se bhri hui. Zindagi ki talkhion se bhri hui…. Plz make it ava4in download form

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!