باغی – قسط نمبر ۱ – شاذیہ خان

”تو بتا کون سا گاؤں؟”فوزیہ نے چہک کر پوچھا۔
”میرا لونگ گواچا گا لے یاپھر جگنی۔” ایک سہیلی نے مشورہ دیا۔ فوزیہ نے سر ہلا کر ”میرا لونگ گواچا” کی تان اٹھائی توساتھ بیٹھی لڑکیاں بھی اس کی آواز سے آواز ملانے لگیں۔
چودھرانی کے صحن کے اردگرد موجود محلے کی چھتوں پر بھی لوگوں کا اژدھام تھا۔ان میں خاص طور پر آدھے سے زیادہ وہ لفنگے اور آوارہ لڑکے تھے جن کی بانچھیں اتنی تعداد میں لڑکیوں کو دیکھ کر کھل اُٹھی تھیں۔وہ سب ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ذومعنی اشارے بھی کر رہے تھے لیکن لڑکیاں اپنی دُھن میں مگن گانے میں مصروف تھیں۔اسما نے فوزیہ کواشاروں اشاروں میں گانے سے منع کیااور آنکھوں ہی آنکھوں میں بتایا کہ دیکھ اردگرد لڑکے کیسے تجھ پر سیٹیاں بجا رہے ہیں ،تو گانا نہ گا لیکن وہ منہ بنا کر کر اپنے کام سے لگی رہی جیسے اس نے اسماکے اشاروں کا کچھ نوٹس ہی نہ لیا ہو۔اسما اس پر جل کر راکھ ہوگئی۔
فوزیہ کو اونچی اونچی آواز میں لونگ گواچا گاتے دیکھ کرساتھ ہی بیٹھی خواتین نے اسے مجبور کیا۔
”اے فوزیہ چل اٹھ،اس گانے پر ذرا ناچ کے تو دکھا۔” فوزیہ کے چہرے پر ایک چمک سی ابھری لیکن بھابی پر نظر پڑتے ہی اس نے اپنا سر جھکا لیا اور نفی میں سر ہلا دیا۔
”ہاں فوزیہ چل کھڑی ہو جا،اب زیادہ نخرے نہ کر۔”فوزیہ نے اِدھر اُدھر دیکھا اور بھاگ کرچودھرانی کے پاس آئی اور ان کا دوپٹہ منہ میں دبا کر کان میں بولی۔
”چودھرانی جی!چودھرانی جی!بھابی ناراض ہو گی۔ آپ کہو تو ڈانس کرلوں گی۔”
”او کوئی ناراض نہیں ہوتا،چل کھڑی ہو جا۔”چودھرانی نے کہا تو وہ قدرے پس و پیش کے بعد دوپٹہ کمر سے باندھ کر ناچنے کھڑی ہو گئی، اسما کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔آس پاس کھڑی خواتین بھی اُسے دیکھ کر ذومعنی اشارے کر رہی تھیںلیکن اسے کسی کی پروا نہ تھی وہ بس اپنی دھن میں ناچے جا رہی تھی۔
”دیدوں کا پانی مر گیا ہے لڑکی کا۔” درمیانی عمر کی ایک عورت نے گال پیٹے۔
”توبہ توبہ ہر جگہ ناچنے گانے لگتی ہے۔ماں باپ کی عزت کا بھی کوئی خیال نہیں۔” دوسری عورت نے بھی منہ بنایا۔ بھابی غصے سے فوزیہ کو دیکھتی ہوئی دروازے سے باہر نکل گئی۔ چھت پر موجود لڑکے اس کا ڈانس دیکھ کر ہاتھ پر ہاتھ مار کر ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہوئے ہنس رہے تھے لیکن وہ سب باتوں سے بے پرواہوکر مست سی ناچتی رہی۔ اتنے میں ایک عورت اندر داخل ہوئی اور چودھرانی کے کان میں کچھ کہا تو چودھرانی نے چونک کر ساری عورتوں کی طرف دیکھا اور تالی بجا کر بولیں۔
”چلو چلو اب بس کرو یہ گانا بجانا۔کھانا کھالو سب چل کے،ٹھنڈا ہورہا ہے۔”
”باجی تھوڑا اور،بڑا مزہ آرہا ہے۔” ایک عورت نے ناچتی فوزیہ کو دیکھ کر چسکا لیتے ہوئے کہا۔
”او بس کر فوزیہ،چل کھانا کھا ٹھنڈا ہورہا ہے۔” کسی نے زور سے پکار کر فوزیہ کو بھی روکا تو اس کے ساتھ ہی خواتین میں بھگدڑ مچ گئی۔سب ایک ایک کرکے کھانے کے لیے کھڑی ہو گئیں۔فوزیہ نے بھی رُک کر پھولی ہوئی سانس بحال کی اور دوپٹہ کھول کر چھوٹی بہن کا ہاتھ تھاما اور کھانے کے لیے باہر نکل گئی۔
٭…٭…٭





اسما نے غصے سے کمرے میں داخل ہوکر زور سے دروازہ بند کیا۔دھماکے کی آواز سے سوئے ہوئے رحیم کی آنکھ کھل گئی اور وہ چارپائی سے ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھا اور گھبرا کر مُندی مُندی آنکھوں سے اپنی بیوی اسما کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”اوہ اللہ خیر! کی قیامت آگئی اے؟”
اسما منہ بنا کر اس کے پاس آئی اور تن کر کھڑی ہو گئی۔
”بس میں کہہ رہی ہوں رحیم یہ چھوری ہاتھ سے نکل گئی اے۔”وہ منہ بنا کر بولی۔
”کون؟ کس کی بات کررہی ہے تو؟”اس نے پوری طرح آنکھیں کھول کراسما کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”وہی تیری بہن فوزیہ ،ذرا شرم نہیں ہر جگہ ناچنے گانے شروع ہوجاتی ہے۔”اسما نے بہت نفرت سے جواب دیا۔
”اس کی تو بات ہی مت کر، کمینی شروع سے ایسی ہے۔کیا بتاؤں تمہیں کہ اس کی وجہ سے میں اپنے دوستوں سے کیسی کیسی باتیں سنتا ہوں۔” رحیم نے بہن کے ذکر پر زمین پر تھوکا۔
”اس بے حیا کی وجہ سے میں کتنا شرمندہ ہوئی سب کے سامنے،ارد گردچھتوں پر کھڑے لڑکے بھی اسے ناچتے ہوئے دیکھ رہے تھے مگر اسے تو جیسے کوئی پروا ہی نہیں ہماری۔” دل کی بھڑاس نکال کر اس نے دوپٹہ منہ پر ڈال کر رونا شروع کر دیا۔ رحیم نے اس کے پاس آکر کندھے پر ہاتھ رکھا جو اسما نے جھٹک دیا۔
”او توکیوں روتی ہے؟چپ کرجا،آج آلینے دے اسے، میں خبرلیتا ہوں اس کی۔ہر بار ابا بچا لیتا ہے، آج نہیں چھوڑنا میں نے اُسے۔” وہ غصے میں بکتا جھکتاکمرے سے باہر نکل گیا۔
٭…٭…٭
شادی کے کھانے کا انتظام گھر سے ملحقہ ایک شامیانے میں کیا گیا تھا، فوزیہ اور مُنی کھانے کی میز کے پاس کھڑے کھانا کھا رہے تھے کہ کھاتے کھاتے فوزیہ نے چونک کر اِدھر اُدھر دیکھا،اپنے دوپٹے کے پلو سے دوشاپرنکالے اور بہن سے کہا کہ ذرا آڑ کرلے پھرچاول سے بھری دوپلیٹیں شاپرمیں ڈالیں اور میز کے نیچے چھپا دیں۔قدرے ٹھہر کر اِدھر اُدھر دیکھا کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا، میز کے نیچے رکھا چاول کا شاپر اپنے دوپٹے کے پلو میں چھپاتے ہوئے اس نے مُنی کے کان میں سرگوشی کی۔
”چل مُنی اٹھ، ابا آگیا ہو گا۔اُسے بھی گرم گرم چاول کھلائیں۔”
” باجی تھوڑا سا اور کھانے دے ابھی پیٹ نہیں بھرا،چاول بہت مزے کے ہیں۔”مُنی نے ندیدے پن سے اپنی پلیٹ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
” بس کر دے ندیدہ پن،دیر ہورہی ہے۔جلدی جائیں گے تو ابا بھی گرم گرم چاول کھا لے گا۔” فوزیہ نے اس کے ہاتھ سے پلیٹ واپس میز پر رکھ دی۔
مُنی نے دوبارہ پلیٹ ہاتھ میں پکڑے للچائے انداز میں چاول بھری پرات کی طرف دیکھا۔
”بس کردے تیرے کھانے کے چکر میں ابا کے چاول ٹھنڈے ہو جائیں گے۔” فوزیہ نے منہ بناتے ہوئے اُسے ڈانٹااور منی کاہاتھ گھسیٹتے ہوئے شامیانے سے باہر نکل آئی۔
٭…٭…٭





فوزیہ ایک اندھیری گلی سے مُنی کا ہاتھ پکڑے تیز تیز گزر رہی تھی کہ اچانک گلی کی نکڑ پر اسے بائیکوں پر سوارچند لڑکے کھڑے نظر آئے۔یہ وہی لفنگے تھے جو چھتوں پر کھڑے اس پر سیٹیاں بجا رہے تھے اور آوازیں کس رہے تھے۔
”او!کیا ناچتی ہے رانی، جی چاہتا ہے تو ناچتی رہی اور ہم دیکھتے رہیں۔” فوزیہ اس کی بات پر آگے بڑھتے بڑھتے رُک گئی۔ یہ یقینا اسی پر حملہ تھا۔
”زمین پر آگ لگا دیتی ہے۔ میری رانی بن جا مزے میں رہے گی۔” دوسرے لڑکے نے بھی ہنستے ہوئے جملہ کسا۔
فوزیہ ان کی باتیں سُن کر ایک لمحہ ٹھہری اور مڑ کر واپس آئی اور بات کرنے والے لڑکے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی۔
” کون بول رہا تھا؟میں تم میں سے کس کی رانی بن جاؤں؟ تو کچھ کہہ رہا تھا نا؟اب بول۔”
پہلے لڑکے نے گڑ بڑا کر دوسرے لڑکے کی طرف دیکھا۔
”او کچھ نہیں ہم تو آپس میں بات کر رہے تھے۔” تیسرا لڑکا گھبرا گیا اور جلدی سے بولا۔دوسرا لڑکا سینہ تان کر اپنے دوست کی مدد کرتے ہوئے بولا۔
”تیرا تو نام ہی نہیں لیا،توکیوں بھڑک رہی ہے؟”
”اچھا تو اپنی بہن کی بات کررہا تھا۔” فوزیہ نے ترچھی نظروںسے طنزیہ انداز میں اس کی بات کا جواب دیا۔”دیکھ!اپنی ماں بہنوں کی باتیں گھر بیٹھ کر کیا کر،ورنہ سننے والے غلط ہی سمجھیں گے۔”
”او! زبان سنبھال اپنی تو حد سے بڑھ رہی ہے۔”پہلا لڑکا بات سمجھ کر بھڑک کر آگے بڑھا اور بولا۔
فوزیہ نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے غصے سے کہا۔
”اونہیں،میرا نام فوزیہ بتول ہے فوزیہ بتول ،یاد رکھ اور میرا چہرہ بھی یاد رکھ۔آئندہ کوئی بکواس کی تو بخشوں گی نہیں۔” یہ کہہ کر وہ مُنی کا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھ گئی۔
٭…٭…٭
جیسے ہی فوزیہ گرما گرم چاول لے کرگھر کے اندر داخل ہوئی،صحن میں کھڑا رحیم اسے دیکھ کر بھڑک کر اس کے پاس آیااور غصے سے لال پیلا ہوتے ہوئے بولا۔
”تجھے ذرا شرم نہ آئی سب کے درمیان ناچتے ہوئے؟”
فوزیہ نے سنی ان سنی کرتے ہوئے شاپر سے چاول نکال کر ڈونگے میں ڈالے اور منہ بناتے ہوئے بولی۔
”سب گھر والے اور محلے والے ہی تو تھے، ایسا کیا ہوگیا؟” اس کے انداز میں بے پروائی اور ڈھٹائی سی تھی۔
”اور وہ جو اوپر چھتوں پر کھڑے لفنگے سب کچھ دیکھ رہے تھے۔”رحیم اس کے ڈھیٹ انداز کو دیکھ کر غصے سے لال پیلا ہوتے ہوئے بولا۔
فوزیہ نے انتہائی بدتمیزی سے بھابی کو ترچھی نظر سے گھورتے ہوئے کہا۔
”تجھے کس لفنگے نے بتایا؟” اسما اس کا اشارہ سمجھ کر تڑپ کر رہ گئی اورپھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
”دیکھا؟ دیکھا!کیسی زبان چل رہی ہے اس کی۔” رحیم غصے میں آگے بڑھا کہ فوزیہ کو ایک تھپڑ لگائے کہ اتنے میں فوزیہ کا باپ دروازے سے اندر کھانستا ہوا داخل ہوا۔
”او کیا تماشا لگایا ہوا ہے تم لوگوں نے ؟چار محلوں تک آواز جارہی ہے۔”
رحیم غصے میںباپ کی طرف بڑھا۔ ”دیکھ ابا اپنی بیٹی کے کرتوت دیکھ!دنیا بھرکے سامنے ناچ رہی تھی۔”
”ہاں ہاں بتا دے، کیا کرتوت ہیں میرے۔ابا پوچھ اس سے میرے کرتوت۔” فوزیہ نے دو بدوجواب دیتے ہوئے کہا۔
فوزیہ کا باپ اتنی دیر میں ہاتھ منہ دھو کر کلی کر کے چارپائی پر بیٹھ گیا تھا،اس نے ان دونوں کو ڈانٹنا اپنا فرض سمجھا۔
”او تم لوگ باز نہیں آؤ گے لڑنے سے،گھر آؤ تو ایک تماشا لگا رہتا ہے۔ لا فوزیہ کی ماں روٹی لا ان کا تو کام ہی ہر وقت لڑنا ہے۔ کبھی سکون سے نہ بیٹھنے دینا۔”
”ابھی لائی۔”ماں نے باورچی خانے سے آواز لگائی اور چند لمحوں میں ٹرے سمیت صحن میں تھی۔اس نے ٹرے اس کے آگے رکھی تو فوزیہ بھی بھاگ کر چاولوں والا ڈونگا لے آئی اور باپ کے آگے لاکر رکھ دیا اور جلدی جلدی چمچ سے اس کی پلیٹ میں چاول ڈال کر دیے۔ پاس کھڑا رحیم یہ سب دیکھ کر غصے سے لال پیلا ہورہا تھا۔
”لے ابا گرم گرم چاول کھا۔چھوٹے چودھری کی شادی سے لائی ہوں تیرے واسطے۔”
”ابا تجھے تو اس کی کوئی غلطی،غلطی لگتی ہی نہیں۔تو نے ہی اسے سر چڑھایا ہے۔ بھگتے گا ایک دن،یاد رکھنا۔”رحیم غصے سے کہتا ہوا اندرکمرے کی طرف چلاگیا۔ فوزیہ نے مسکراتے ہوئے اس کو جاتے دیکھا اور باپ کی پلیٹ میںمرغی کی ران اور چاول ڈالے۔
”ابا یہ بوٹی کھا مزے کی ہے، اماں آجا تو بھی کھا لے۔” فوزیہ نے پاس کھڑی ماں کو آواز لگائی۔
”تو ہی کھا اپنے باپ کے ساتھ بوٹیاں،میں کھاچکی ہوں اپنی دال روٹی۔”ماں نے منہ بنا کر جواب دیا۔





”لے اماں تو خفا کیوں ہورہی ہے۔”فوزیہ اسے غصے میں دیکھ کر مسکرائی ۔
” تو کیا ہار پہناؤں تجھے؟صحیح توکہہ رہا تھارحیم۔” ماں نے بیٹے کی طرف داری کی۔اُسے بھی فوزیہ کی حرکتیں ایک آنکھ نہیں بھاتی تھیں۔
فوزیہ نے باپ کی پلیٹ میں ایک اوراچھی سی بوٹی چاولوں کے ساتھ ڈالی اور غصے سے کہا۔
”کیا صحیح کہہ رہا تھا، جو اس کی بیوی کہہ دے وہ صحیح ہے۔ وہ تو چاہتی ہے ابا اور بھائی مجھے ڈانٹتے رہیں۔تو جانتی ہے وہ کس بات کا بدلہ لے رہی ہے مجھ سے۔”
” تو بھی جان بوجھ کر جلاتی ہے اُسے۔” ماں کے ہاتھ میں پانی کا گلاس تھا جو اس نے باپ کے آگے رکھا اور اس کے غصے کو دیکھ کر ہولے سے بولی۔
”کوئی نہیں جلاتی، میری ذرا سی خوشی بھی برداشت نہیں اسے۔ہر بات کی شکایت آکر بھائی کو لگا دیتی ہے۔”
باپ نے دستر خوان سے ہاتھ پونچھے اور ماچس کی تیلی سے دانتوں میں خلال کرتے ہوئے بولا۔ ”او چھوڑ یہ باتیں،تو بھی نا ہر وقت میری بیٹی کے پیچھے پڑی رہا کر۔جا ذرا چائے تو بنا کر لا فوزیہ، آج بہت تھک گیا ہوں میں۔”
”ابھی لائی ابا، تو کمر سیدھی کر۔ اماں تیرے لیے بھی بناؤں؟”اس نے رک کر ماں سے پوچھا۔
”نہ تو اپنے ابا کو ہی پلا۔”اماں غصے سے کہہ کر اندر کمرے میں چلی گئی۔ فوزیہ مسکراتے ہوئے باورچی خانے کی طرف بڑھی۔اُسے معلوم تھا کہ ابا کو اس کی ایسی باتوں پر کبھی اعتراض نہیں ہواتھا جب ہی تو وہ کھلم کھلا یہ سب کرلیتی تھی۔اس کے خیال میں جب مردوں کوہر طرح کی آزادی ہے تو عورتوں کی گردن کیوں مڑوڑی جاتی ہے۔ یہ نہ کرو، وہ نہ کرو،یوں نہ چلو، یوں نہ ہنسو۔ ابا نے اُسے کبھی نہیں ٹوکاتھاجس کا فائدہ وہ اکثر اٹھا لیتی تھی۔
٭…٭…٭
آج ٹی وی پر میڈم نور جہاںکا پروگرام آنے والا تھا۔وہ سہ پہر سے ہی چھت پر ٹنگی ٹی وی کا انٹینا ٹھیک کرنے میں لگی ہوئی تھی۔ارد گرد چھتوں پر موجود لڑکے اسے انٹینا ٹھیک کرتے دیکھ کر معنی خیز اشارے کررہے تھے، لیکن فوزیہ سب سے بے پروا اپنے کام میں مگن تھی۔اس نے نیچے جھانک کر اونچی آواز میں چیختے ہوئے بہن سے پوچھا۔
”مُنی جلدی بتا اب ٹھیک ہوا ٹی وی؟تصویر صاف آرہی ہے؟”
نیچے کھڑی مُنی صحن میں آکر چیخی۔”نہیں باجی! تھوڑا اور ہلا ابھی بھی تصویر صاف نہیں آرہی۔”
فوزیہ نے انٹینا پھر گھمایا، ساتھ ہی اس کی نظر ارد گرد کھڑے لڑکوں پر بھی پڑی جو اسے دیکھ کر اشارے کررہے تھے۔ اس نے انہیں گھور کر دیکھا تو اس کی نظر پڑتے ہی اس کی طرف دیکھتے لڑکے اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوگئے۔فوزیہ نے چھوٹے بھائی کو اشارہ کرکے نیچے بھیجا اور پھر انٹینے کو ایک طرف سے دوسری طرف گھمانے لگی۔
”چل مُنے تو دیکھ وہ کیا کررہی ہے۔ ” وہ غصے سے بڑبڑائی۔ ”لگتا ہے آج میڈم کا پروگرام نکل جائے گا۔”
”او مُنی بتا دے ٹھیک ہوئی تصویر؟” انٹینے کو ہلانے کے بعد اس نے ہاتھ جھاڑ کر نیچے جھانکتے ہوئے پوچھا۔
”ہو گئی باجی، آجا نیچے۔”مُنی دوبارہ صحن میں اکر چیخی۔
فوزیہ نے کمر کے گرد لپٹا ہوا دوپٹہ کھولا اور دوبارہ اردگرد کی چھتوں پر موجود لڑکوں کی جانب دیکھا جو اسے ہی گھور رہے تھے۔
” او چلو اپنا کام کرو،کوئی کام وام نہیں ہے تم لوگوںکو۔”وہ غصے سے ان کی طرف دیکھ کر بولی۔
”وہی تو کررہے ہیں،تجھے دیکھنا بھی تو ایک کام ہے۔”ایک لڑکا بڑے گھٹیا انداز میں گردن پر لپٹا رومال کھول کر دوبارہ لپیٹتے ہوئے بولا۔
”ارے واہ!بڑی زبان چل رہی ہے تیری،پچھلی مار بھول گیا؟” فوزیہ طنزیہ انداز میں بولی۔
”تیری خاطر تو سب کچھ قبول ہے، تو ایک مار کی بات کر رہی ہے۔”
فوزیہ غصے سے نیچے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگی۔”تو چل نیچے میں آرہی ہوں، آج خالہ نے تیری ایک ہڈی نہیں چھوڑنی،اس دن بچ گیا تھا تو۔” پھر بُڑ بُڑاتی ہوئی سیڑھیوں سے نیچے اتر گئی۔
٭…٭…٭





شام ہوچکی تھی اورگانوں کا پروگرام شروع ہونے والا تھا۔ فوزیہ نے صحن میں ایک چھوٹا سا ٹی وی سیٹ رکھاتھا۔وہ اس کی لیڈ لگانے کی کوشش کررہی تھی اور مُنی اور مُناچارپائی پر اچھل کودرہے تھے۔
”آرام سے بیٹھو تم دونوں ،کیا اچھل کود لگا رکھی ہے۔”اسی وقت ماں اندر کمرے سے ڈانٹتے ہوئے بولی۔
تینوں خاموشی سے بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی کے آگے جمع ہوکر بیٹھ گئے کیوں کہ گانوں کا پروگرام شروع ہونے والا تھا۔
” شکر ہے باجی ٹی وی صاف آنے لگا۔” مُنی نے فوزیہ کو دیکھ کر خوش ہوکر کہا۔
بھائی نے آواز کم دیکھ کر مُنی سے کہا۔ ”منی پروگرام شروع ہوگیا، ذرا آواز تیز کردے۔”
مُنی نے فوزیہ کو میڈم کا گانا کوعقیدت سے دیکھتے اور گنگناتے ہوئے دیکھ کر پوچھا۔
”باجی تجھے میڈم نور جہاں اتنی پسند کیوںہے؟ ”
” پتا نہیں کیوں،مگر بچپن سے سُن رہی ہوں۔ مُنی مجھے ان کے سارے گانے یاد ہیں۔” وہ آنکھیں میچ کر بڑی عقیدت سے بولی ۔
”میرا بس چلے تو میں بھی ان کی طرح گانا گاؤں، تو دیکھنا مُنی ایک دن میں بھی…” ابھی اس نے اپنی بات پوری نہیں کی کہ ماں کمرے سے صحن میں داخل ہوئی اور اس کی بات سُن کر غصے سے بولی۔
”تو دیکھنا ایک دن اسی بات پر تیرے جوتے پڑیں گے،لوگ بُرا بھلا کہیں گے، ہر وقت گانے بجانے کی باتیں، چل جاجاکر روٹی ڈال،تیرا باپ آج جلدی آنے کو کہہ گیا ہے۔”
”تُو تو ہر وقت مجھے بددعا ہی دیتی رہنا اماں، اللہ نہ کرے جوتے پڑیں، تو دیکھنا ایک دن میں بھی کتنی مشہور ہو جاؤں گی۔میڈم کی طرح لوگ مجھے بھی میرے گانے کی وجہ سے یاد رکھیں گے۔”فوزیہ نے منہ بنا کرماں کو جواب دیا۔
” کوئی اچھا کام کرکے مشہور نہ ہونا،بس ان گانے والیوں کی طرح مشہور ہونے کا شوق ہے۔” ماں تنک کر خفا ہوتے ہوئے کہنے لگی۔
”یہ کیا بات ہوئی؟ گانا گانا کوئی بُرا کام ہے؟” فوزیہ نے بُرا مانتے ہوئے۔
”تو بتایہ کون سا اچھا کام ہے؟میں تو جلد از جلد تیری شادی کا سوچ رہی ہوں۔” ماں بھی اسی انداز میں بولی۔
”مجھے نہیں کرنی شادی وادی، مجھے تو گانا گانا ہے اور بہت مشہور ہونا ہے۔”فوزیہ نے جواب دیا۔اس کی نظریں ابھی تک ٹی وی سکرین پر ہی تھیں۔
”بہت دیکھ لیے خواب مہارانی نور جہاںصاحبہ! اب اپنی اوقات پر آجائیں اور نیچے آکر روٹی ڈال لیں۔” فوزیہ کی ماں طنزاً بولی۔
”اماں تجھ سے تو بحث کرنا فضول ہے،بس مجھے یہ پروگرام دیکھنے دے۔یہ ختم ہوتا ہے تو روٹی ڈالتی ہوں۔”فوزیہ ہاتھ جوڑتی ہوئی بولی۔اس نے اپنی پوری توجہ ٹی وی پر چلتے میڈم کے پروگرام کی طرف مرکوز کردی۔ ساتھ ساتھ وہ گنگنا بھی رہی تھی۔ ”پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے،تو لاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے۔” اب اس نے اپنی آواز اور اونچی کی اور ساتھ پاؤں میں بندھی کسی نادیدہ پائل کی طرف اشارہ بھی کیاجیسے ماں کو جلانے کی کوشش کررہی ہو۔
ماں نے اُسے دیکھا، بُرا سا منہ بنایا اور بولی۔
”یہ لڑکی نہیں سدھرنے والی۔کام وام چھوڑ کر انہی دھندوں میں پڑی رہے گی۔” اور یہ کہہ کر کمرے سے باہر نکل گئی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

آرٹیکل بی-۱۲ – عظمیٰ سہیل

Read Next

بدی کے بدلے نیکی

One Comment

  • Kmaaal drama and kmaaal kahani…lekin ansu se bhri hui. Zindagi ki talkhion se bhri hui…. Plz make it ava4in download form

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!