باز – فریال سید

باز
فریال سید

“مورے! میں ٹھیک ہو جاؤں گا ناں ؟”
اس نے بڑی بڑی آنکھوں میں ڈھیروں ا مید سموتے ہوئے اپنی ضعیف ماں کے چہرے پہ یقین کی ایک رمق تلاش کی۔
“ہاں میرے بچے تم بالکل ٹھیک ہو جائو گے ۔ اللہ بہت بڑا ہے ، وہ کوئی حل نکال لے گا۔ ”
روشن بی بی نے اپنے چہرے پے مصنوعی خوش امیدی سجاتے ہوئے جنید کو ا مید دلائی ۔
جنید خان، روشن بی بی کا واحد سہارا، ان کا اکلوتا بیٹا تھا، جو پیدائشی طور پر دل کے عارضے میں مبتلا تھا۔ ا س کے والد کا انتقال جنید کے بچپن میں ہی ہو گیا تھا ۔ تب سے اب تک روشن بی بی لوگوں کے گھروں میں کام کر کے اپنا گزر بسر کر رہی تھی اور جنید کی تعلیم کا خرچہ اٹھا رہی تھی ۔ تب ہی ایک دن اسکول سے واپسی پر جنید کی طبیعت بگڑ گئی۔ سرکاری ہسپتال پہنچنے پر پتا چلا کہ جنید کی بیماری خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے اور اگر جلد از جلد آپریشن نہ کیا گیا تو اس کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ اس آپریشن کے لئے کم سے کم پانچ لاکھ روپے درکار تھے۔
5لاکھ روپے “جو روشن بی بی نے کبھی خواب میں بھی نہ دیکھے تھے، کجا ا نکا بند و بست کرنا۔
مگر چودہ سالہ معصوم جنید جس کاسارا بچپن اپنی بیماری سے لڑ لڑ کر گزرا تھا وہ آنکھوں میں مکمل صحت یاب ہونے کا خواب سجائے بیٹھا تھا اور روشن بی بی ا س کی خوش امیدی دیکھ کے صرف ایک بار، ایک کوشش کرنا چاہتی تھیں۔
تب ہی جنید کو جلدی واپس آنے کا کہہ کر وہ اپنی مالکن کے پاس آگئیں۔ ان سے کوئی خاص امید تو نہ تھی مگر پھر بھی وہ ایک کوشش کرنا چاہتی تھی۔
مالکن کے گھر تو عجیب جشن کا سماں تھا۔ صاحب اور بیگم صاحبہ مٹھائی بانٹ رہے تھے ۔ خوشی تھی کہ ان کے چہروں سے عیاں تھی ۔ وہ کچھ دیر اور وہیں کھڑی رہتی اگر بیگم صاحبہ کی نظر ا س پر نہ پڑتی۔
“ارے آؤ آؤ روشن! ادھر کیوں کھڑی ہو؟ آئو تم بھی مٹھائی کھائو۔ دیکھو تمہارے صاحب اپنا کیس جیت گئے۔” جوش سے کہتی بیگم صاحبہ نے روشن کی آنکھوں کے آنسو نہ دیکھے ، ورنہ اِ س طرح مٹھائی نہ تھماتیں۔
“وہ بی بی جی میں نے کہنا تھا کہ۔۔ وہ جی میرا جنید ہسپتال میں ہے۔ اگر آپ میری تھوڑی مدد کردیتے تو۔۔۔”
روشن کے لہجے کی کپکپاہٹ اس کی گھبراہٹ کی غماز تھی۔
” ہاں! کیوں نہیں۔ بتائو کتنے پیسے چاہئیں تمہیں۔”
بیگم صاحبہ نے خوش دلی سے کہا تو روشن کی تھوڑی ہمت بندھی ۔
“وہ جی، اس کے آپریشن کے لیے پانچ لاکھ روپے کی ضرورت ہے اور ڈاکٹر نے کہا ہے کہ اگر جلدی پیسوں کا بندوبست نہ ہوا تو۔۔۔”
روشن کی آواز آنسوئوں میں ڈوب گئی اور وہ بات مکمل نہ کر سکی۔ ا س نے ڈرتے ڈرتے نظریں اٹھا کر بیگم صاحبہ کے چہرے کو دیکھنا چاہا تھا۔ آنسوئوں کی دھند کے پار ا سے بیگم صاحبہ کے نقوش سپاٹ ہوتے نظر آئے۔ خوف کی ایک سرد لہر اس کے وجود میں سرائیت کر گئی ۔ جس انکار کا ا سے خوف تھا ، شاید بیگم صاحبہ وہی کرنے والی تھیں ، اور ا س سے آگے وہ سوچنا نہیں چاہتی تھی ۔
“ایسا ہے روشن کہ۔۔” بیگم صاحبہ نے ٹانگ پہ ٹانگ رکھتے ہوئے تمہید باندھی۔
“تمہارے صاحب آج جو یہ ضروری کیس جیتے ہیں، اِس کے لیے ا نھوں نے وکیل کو پانچ لاکھ روپے فیس دی ہے۔ تو۔۔۔” وہ ایک ثانیے کو ر کیں۔
“تو اگر تم پہلے آجاتی تو شاید کچھ ہو بھی جاتا ، پر اب تو ناممکن ہے۔”
بیگم صاحبہ نے اپنی انگلی میں موٹے ہیرے کی انگوٹھی گھماتے ہوئے بات مکمل کی اور روشن بی بی کی آنکھوں سے آنسو ٹوٹ کے برسے تھے۔ وہ بنا کچھ کہے واپسی کے لیے پلٹی۔
“اے میرے پاک خدا! اب میں کیا کروں گی ۔ یہ تو نے مجھے کیسی آزمائش میں ڈال دیا ہے؟ میں کہاں سے لائوں پانچ لاکھ؟ کیا کروں میں آخر؟ شاید میں پہلے آجاتی تو بیگم صاحبہ پیسے دے بھی دیتیں، پر اب تو وہ وکیل کو۔۔۔ وکیل!!!”
روشن بی بی کی آنکھوں میں امید کی لو ٹمٹمائی۔ وہ تیزی سے مڑی اور بیگم صاحبہ تک آئی ۔
“بیگم صاحبہ! وہ جی ا س وکیل کا پتا مل سکتا ہے؟ آپ کی بڑی مہربانی ہو گی جی ۔ خدا کے لیے۔”
بیگم صاحبہ نے تھوڑی دیر ا سے ترش نگاہوں سے گھورا ، پھر صاحب سے ایک کارڈ لے کے اس کی طرف بڑھا دیا۔
خوشی سے نہال ہوتی روشن بی بی نے عجلت میں ان کا شکریہ ادا کیا اور تیزی سے باہر کی طرف بڑھ گئی۔ اس کا ر خ بس اسٹینڈ کی طرف تھا۔ وہاں بس کے انتظار میں کھڑی ایک طالبہ سے کارڈ پہ درج پتے کے بابت پوچھا۔ اس نے خوش دلی سے پتا سمجھایا۔
روشن بی بی کے دل میں امید اور خوف کے ملے جلے احساسات جاگ رہے تھے جن میں شرمندگی کی آمیزش بھی تھی۔ پہلی دفعہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلا نے سے زیادہ ایک خود ار انسان کے لیے اِس دنیا میں کچھ بھی مشکل نہیں۔
اپنے خیالوں میں گم وہ اپنی منزلِ مقصود پہ پہنچ چکی تھی۔
کپکپاتے قدموں کے ساتھ ا س صاف ستھرے آفس میں پہلا قدم رکھا تو گارڈ تیزی سے اس کی طرف بڑھا۔ وہ جانتی تھی اگر ا س نے اپنا مدعا گارڈ کو کہہ سنایا تو اندر کبھی نہ جا پائے گی۔ اِس لئے اسے کارڈ دکھا کر کہا کہ صاحب نے خود بلایا ہے۔
گارڈ نے پہلے جانچتی نگاہوں سے ا سے دیکھا پھر اندر جانے کی اجازت دے دی ۔ وہ ڈرتے ڈرتے اندر کی طرف بڑھی۔
کالے سوٹ میں ملبوس کئی نوجوان وہیں اپنے کام میں مصروف بیٹھے تھے ۔ ان میں سے ایک اس کی طرف متوجہ ہوا۔
“خیر ہے اماں! کس سے ملنا ہے آپ کو؟”
“وہ بیٹا مجھے اِن صاحب سے ملنا ہے۔”
روشن بی بی نے ڈرتے ڈرتے ہاتھ میں پکڑا کارڈ ا س تیکھے نین نقش والے نوحوان کی طرف بڑھایا۔
“ارے اماں آپ کو سر سے ملنا ہے تو یوں کہیں ناں۔ چلیں آجائیں میں ملاتا ہوں آپ کو سر سے۔”
خوش اخلاقی سے کہتا ہو وہ انہیں اپنے ساتھ لیے اپنے سرکے کمرے تک لے آیا۔ ہلکی سی دستک کے بعد اس نوجوان نے دروازہ کھولا تو سامنے کا منظر واضح تھا۔
سیاہ سوٹ میں ملبوس ایک پینتیس چھتیس سال کے ایک نوجوان لڑکے نے مسکراتے چہرے کے ساتھ کھڑے ہوکر اس کا استقبال کیا۔ وہ دل ہی دل میں شرمندہ ہوتی ان کے سامنے والی کرسی پہ آکے بیٹھ گئیں۔
وکیل صاحب نے شائستہ لہجے میں ان کے آنے کی وجہ دریافت کی۔ وکیل صاحب کا پوچھنا تھا کہ روشن بی بی پھوٹ پھوٹ کے رو دی اور اپنی مشکل بیان کر کے مدد مانگی۔ وکیل صاحب ان کو تسلی دیتے ہوئے ان کے ساتھ باہر تک آئے اور جو تیکھے نقش والا نوجوان انہیں کمرے تک لے گیاتھا، اسے مخاطب کرتے ہوئے روشن بی بی کے ساتھ جانے کی ہدایت کی اور پتا کرنے کو کہا کہ آیا روشن بی بی جھوٹ تو نہیں کہہ رہیں؟
وہ نوجوان روشن بی بی کوساتھ لئے اپنی ہی گاڑی میں ہسپتال تک آیا ۔ وہاں جنید اور ڈاکٹر صاحب سے مل کے جنیدکی ساری معلومات اکٹھی کرکے چلا گیا۔ روشن بی بی کے دل میں خوش امیدی جاگی تھی۔
جب کہ نوجوان واپس آفس پہنچا اور وکیل صاحب کو ساری معلومات سے آگاہ کیا ۔ وکیل صاحب تھوڑی دیر خاموش بیٹھے رہے، پھراپنی دراز سے آج صبح ہی ملنے والا پانچ لاکھ روپے کا چیک نکالا اور نوجوان کی طرف بڑھا دیا۔ نوجوان نے سوالیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے چیک تھام لیا۔
“یہ لے جائو اور ا س اماں کے بیٹے کا آپریشن جلد سے جلد کرانے کے انتظامات کرو۔”
نوجوان جونیئر وکیل نے حیرانی سے استفسار کیا:
“لیکن سر یہ آپ کی پہلی بڑی فیس ہے ۔ آپ ایسے کیسے اپنے سارے پیسے۔۔۔”
اس سے پہلے کہ نوجوان وکیل کی بات مکمل ہوتی، سر نے اپنا ہاتھ ا ٹھا کے اسے مزیدکچھ کہنے سے روک لیا۔
“زوئے! (پشتو میں بیٹے کو کہتے ہیں) ایسا نہیں کہتے ۔ کیا پتا خدا میرا امتحان لے رہا ہو۔ میں اسے کیا جواب دوں گا؟”
سر کی بات پہ نوجوان وکیل خاموش ہو گیا۔
جنید کا آپریشن ہو گیا اور وہ مکمل صحت یاب بھی ہو گیا۔ اپنے پیروں پہ چل کے ایک دن وہ اور روشن بی بی وکیل صاحب کا شکریہ ادا کرنے بھی آئے تھے۔ روشن بی بی انہیں ڈھیروں دعائیں دیتیں، جنید کو ساتھ لئے چلی گئیں لیکن پھر وکیل صاحب کی کامیابیوں کا سلسلہ نہ ر کا۔
گو کہ یہ پہلا واقعہ نہیں تھا جب وکیل صاحب نے یوں کسی کی مدد کی تھی ۔ اِ س سے پہلے بھی انہوں نے کئی لوگوں کی ایسے ہی مدد کی تھی۔ آفس کے باہر کھڑے ہونے والے خوانچہ فروشوں کے قریب سے صبح جب گزرتے تو جیب میں ہاتھ ڈالتے، جتنے پیسے ہاتھ میں آتے ا نہیں دیتے جاتے۔ اپنے ہی گروپ میں کام کرنے والے جونیئر وکلا کی بھی ہر ضرورت کا خیا ل رکھتے۔ ان کی ہر ممکن مدد کرتے۔ یوں دعائیں اور عزت کماتے کماتے، وکیل صاحب بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر نامزد ہو گئے۔ وہ اپنے مخالف سے بہت نمایاں ووٹ حاصل کرکے جیتے گئے۔ وقت گزرتا گیا۔ وکیل صاحب بی بی اے کے موجودہ صدر سے سابق صدر ہو گئے لیکن ان کی کامیابیوں کا سلسلہ ر کا نہیں۔
وہ اب سپریم کورٹ کے وکیل تھے۔ جس کیس کے لیے انہیں منتخب کیا جاتا، جیت ا ن کے موکل کے نصیب میں لکھ دی جاتی۔ اتنی عزت، دولت اور شہرت نے بھی ان کی فطرت نہ بدلی۔ بلکہ اب وہ پہلے سے بھی زیادہ لوگوں کی مدد کرنے لگے تھے اور وقت یونہی گزرتا گیا۔
پھر ایک دن بی بی اے کے موجودہ صدر بلال قاسی کو فائرنگ کر کے شہید کر دیا گیا ۔
وکیل صاحب ا س وقت کیسے پیچھے رہتے ۔ اپنے ساتھی وکلا کو اپنے ساتھ لیے ہسپتال پہنچے جہاں پہلے ہی وکلااور میڈیا کا جمِ غفیر موجود تھا۔ وکیل صاحب اور ان کے ساتھی وکلا بلال قاسی صاحب کی میت لینے میں پیش پیش تھے کہ اچانک ہجوم تھوڑا سا بڑھ گیا۔
وکیل صاحب کے ساتھ ہی اس تیکھے نقش والے نوجوان کو ہجوم نے پیچھے دھکیل دیا تھا۔ انہوں نے ارد گرد نگاہ دوڑائی، باقی سب ہی ساتھی موجود تھے، نہ تھا تو وہ جو ان کا سب سے چہیتا شاگرد اور ساتھی تھا۔ وہ یقینا اسے فون ملاتے اگر میت نکالنے کا شور نہ مچتا۔ وہ سب چھوڑ چھاڑ باقی ہجوم کی طرح بلال قاسی شہید کی میت کی طرف متوجہ ہو گئے اسی اثنا میں ایک زور دار ھماکا ہو گیا ۔ ہر سو بارود کی تیز بو اور دھوئیں کے کالے بادل چھا گئے۔ وکیل صاحب بھی زمین پہ گرے ہوئے تھے۔ انہوں نے آنکھیں کھول کے اطراف کا منظر دیکھنا چاہا مگر۔۔
ان کی آنکھوں میں مسلسل بہتا خون ہرمنزل کو دھندلا رہا تھا ۔ کانوں میں تیز سیٹی سی بج رہی تھی۔ کچھ لوگ ا ن کی طرف تیزی سے بڑھے تھے اور پھر ا نہیں کسی چیز کا ہوش نہیں رہاتھا۔
”تازہ ترین اطلاعات کے مطابق دھماکہ خودکش تھا ، جس میں وکلا کو نشانہ بنایا گیا ۔ ملک دشمنوں کی ایک اور سازش ، جس میں وکلا بری طرح سے متاثر ہوئے ۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق ، دشمن نے سازش کے تحت صدر بلوچستان بار ایسوسی ایشن بلال قاسی کو شہید کیا اور جب وکلا بڑی تعداد میں میت لینے ہسپتال پہنچے تو دہشت گرد نے خود کو دھماکے سے ا ڑا دیا ۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق بھاری جانی نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔ ہمارے نمائندے وقاص علی جائے وقوعہ پہ موجود ہیں آئیے جانتے ہیں ان سے زیادہ ترین صورتِ حال:
”جی وقاص! اب تک کی اطلاعات کے مطابق تقریباً کتنے جانی نقصان کا خدشہ ہے؟”
“جی نادیہ میں اس وقت جائے وقوعہ پہ موجود ہوں، یہاں قیامت کا سا منظر ہے ہر طرف انسانی اعضاء بکھرے پڑے ہیں ۔ جائے وقوعہ کودیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بھاری تعداد میں جانی نقصان کا خدشہ ہے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق پینتیس افراد اس افسوس ناک حادثے میں شہیداور ستر زخمی ہوئے ہیں۔”
“جی وقاص کچھ پتا چل سکا ہے کہ زخمیوں میں کتنوں کی حالت نازک ہے ؟”
“جی نادیہ اس وقت تو یہ کہنا مشکل ہو گا لیکن ہسپتال ذرائع کے مطابق زخمیوں کی حالت بہت خراب ہے اورا یک زخمی کی شناخت بہ طور باز محمد کاکڑ ،سابق صدر بلوچستان بار ایسوسی ایشن کی جا رہی ہے ۔ بازمحمد کا کڑ جو اپنے ساتھیوں سمیت بلال قاسی کی میت لینے سول ہسپتال آئے تھے اس بدترین دہشت گردی میں شدید زخمی ہوئے ہیں۔ جی نادیہ ۔ ۔”
“بہت شکریہ وقاص ہمارے ناظرین کو تازہ ترین صورت حال سے اپ ڈیٹ کرنے کا۔”
ناظرین یہ افسوس ناک مناظر جو آپ اس وقت اپنی ٹی وی سکرینزپردیکھ رہے ہیں یہ کوئٹہ کے سول ہسپتال میں ہونے والے خودکش دھماکے کے ہیں ۔ جس میں تازہ تر ین اطلاعات کے مطابق پینتیس افراد شہید اور ستر کے قریب زخمی ہیں ۔ زخمیوں میں سابق صدر بی بی اے باز محمدکاکڑبھی شامل ہیں۔”
آئیے بات کر تے ہیں ایک دفعہ پھر اپنے نمائندے وقاص سے۔
“جی وقاص! تازہ ترین صورتِ حال سے اپ ڈیٹ کیجئے گا”
“جی نادیہ! ایک افسوسناک خبر سے آپ کو آگاہ کرتا چلوں کر ہسپتال زرائع کے مطابق سابق صدر بی بی اے اور بلوچستان کے جانے مانے وکیل باز محمد کاکڑ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگئے ہیں ۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق شہدا کی تعداد 50 جبکہ زخمیوں کی تعداد 90 ہوگئی ہے۔ زخمیوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے کچھ زخمیوں کو سی ایم ایچ شفٹ کیا جا رہا ہے۔ آئیے بات کرتے ہیں اس واقعے کے عینی شاہد نوجوان سے۔”
“جی شاہ صاحب! آپ اس دھماکے میں زخمی ہوئے ہیں اور آپ کے بہت سے دوست اور ساتھی وکلا اس واقعے میں شہید ہوئے ہیں ، آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟”
صحافی نے تیکھے نقوش والے نو جوان کے سامنے مائک کیا ۔ نوجوان ایمبولینس میں لیٹا ہوا تھا ، اس کا ایک بازو اور ایک ٹانگ پٹیوں میں جکڑے ہوئے تھے ۔ رنگت بے حد زرد تھی لیکن چہرے پر بہادری کا ڈیرہ تھا۔
“جی بس اللہ معاف کرے قیامت تھی جو آکر گزر گئی۔ یہ ایک پری پلینڈ سازش تھی ہمارے خلاف۔ میرے سارے ساتھی شہید ہو گئے اپنے گروپ میں سے میں واحد بچا ہوں ۔ ہمارے سر باز محمد کاکڑ صاحب ایک بہترین انسان تھے ان کی شہادت سے جو خلا۔ ۔ ۔”
“جی آپ کا بہت بہت شکریہ۔”
نادیہ جیسا کہ آپ نے عینی شاہد کی باتیں سنی ۔ انہوں نے اس واقعہ کو پری پلینڈ سازش قرار دیا ۔ میں اپنے ناظرین کو بتاتا چلوں کہ کسی عینی شاہد سے سب سے پہلے بات ہمارے چینل نے کی ہے ۔ جی ہاں! ہم نے اپنی روایت قائم رکھتے ہوئے سب سے پہلے آپ کو اس خبر سے آگاہ کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔”
نمائندہ اب بھی بہت کچھ کہہ رہا تھا یہ سوچے بنا کہ وہ تیکھے نقوش والا عینی شاہد اِ س وقت کیاسوچ رہا ہے اور وہ عینی شاہد نمائندے کی پیٹھ دیکھ کر سوچ رہا تھاکیاواقعی انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہماراباز ، پاکستان کا باز اب نہیں رہا؟
کیا انہیں اندازہ ہے کہ وہ باز کتنے لوگوں کے لئے مسیحا تھا ؟
المیہ یہ نہیں کہ کسی نے باز کی شہادت سے ہونے والے نقصان پر افسوس نہیں کیا ، المیہ تو یہ ہے کہ اس دھماکے میں اور ہر دھماکے میں جانے کتنے باز شہید ہوتے ہیں۔ ایسے باز جوسچے پاکستانی اور نیک مسلمان ہوتے ہیں ۔ دشمن ہمیشہ ہمارے بازوں پر ہی حملہ کرتی ہے ۔
لیکن ہمیں نہ خبر ہوتی ہے نہ فرق پڑتا ہے ۔ ہاں دوسے تین دن افسوس ہوتا ہے۔ ہم احتجاج کرتے ہیں، سوگ مناتے ہیں اور پھر زندگی دوبارہ اپنی ڈگر پر چل پڑتی ہے ۔ فرق صرف تب پڑتا ہے جب ہم یاہمارا کوئی اپنا ایسی د ہشتگردی کی زد میں آتا ہے۔
وہ نوجوان سوچ رہا تھا کہ کہیں یونہی ہمارے باز شہید ہوتے گئے تو ہمارے ملک میں باز ختم نہ ہوجائیں ۔ پھر اس ملک کے جنیدوں کی امدادکون کرے گا ؟
وہ تیکھے نقوش والا نوجوان وکیل سوچ رہاتھا اور سوچے جا رہا تھا، کیوں کہ اس حادثے نے ا سکی زندگی میں جو خلا کیا تھا، وہ کبھی پرُ نہیں ہونا تھا۔ یہ سانحہ اس کی زندگی میں ہمیشہ کے لئے آکر ٹھہر چکا تھا۔

Loading

Read Previous

حد – صبا خان

Read Next

فتور – ماہ وش عدیل کرمانی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!