اِک فیصلہ — حنادیہ احمد

’’جو وقت گزر جاتا ہے ارسلان وہ پھر لوٹ کے نہیں آتا اور ماضی کو بھلا کے آگے بڑھ جانا ہی عقل مندی ہے۔ جو میری قسمت میں لکھا تھا میں نے اسے خوش دلی سے قبول کرلیا تھا اور میرے خدا کا مجھ پہ کرم تھا کہ اختر اک بہت ہی اچھے انسان نکلے اور ابھی بھی میں نے اپنی قسمت کو قبول کرلیا ہے، اب یہی بچے میری کائنات ہیں، مجھے انہی کے ساتھ اپنی زندگی گزارنی ہے، ان کی بہتر پرورش ہی اب میرا مقصد ہے اور اب اس میں کسی کی کوئی گنجائش نہیں۔ میں دعا کروں گی کہ آپ کی زندگی میں ایک بہترین لڑکی آئے جو آپ کو اور آپ کی ذات کو سمیٹ لے۔ اگر میں نے آپ کا دل دکھایا ہو تو مجھے معاف کردیں، میں ایک ماں ہوں اور مجھے اس وقت اپنے لیے نہیں بلکہ اپنے بچوں کے لیے سوچنا ہے۔‘‘
یہ کہہ کے ناہید کمرے سے باہر چلی گئی اور ارسلان دل سے دعا کرنے لگا کہ ناہید کا فیصلہ صحیح ثابت ہو اور وہ ایک دفعہ پھر سے قسمت کے اس فیصلے کو ماننے پہ مجبور ہوگئے۔
٭…٭…٭
امی آج ہم لیٹ آئیں گے آپ ہمارا انتظار مت کیجئے گا۔ ’’کاشف اور مائرہ ناہید کے کمرے میں آکر ماں کو رات کے کھانے پر انتظار نہ کرنے کا کہہ کر چلے گئے۔
کاشف کی شادی کو تین ماہ ہونے کو تھے، مائرہ شادی سے پہلے بھی جاب کرتی تھی جو اس نے شادی کے بعد بھی جاری رکھی۔ ناہید نے بیٹے سے جب مائرہ کا نوکری چھوڑنے کا کہا تو کاشف نے ماں کو یہ کہہ کر چپ کرا دیا کہ اس نے خود بھی تو ساری عمر پہلے اسکول میں ٹیچر اور پھر کالج میں لیکچرار کام کیا تو مائرہ کے کام کرنے پہ بھی کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔
ناہید جو بیٹے کو بتانا چاہتی تھی کہ اس نے ساری عمر نوکری اس لئے کی کہ اپنے بچوں کے اخراجات اپنے بل بوتے پر پورے کرسکے۔ ابا میاں نے بیوہ بیٹی کے نام پہ گھر کا آدھا پورشن کردیا تھا اور کچھ رقم اختر کے آفس والوں نے اس کے اکاونٹ میں جمع کروادی تھی لیکن اس کے آگے بھی اخراجات کا ڈھیر تھا جس کو مدِنظر رکھتے ہوئے ناہید نے جاب کا فیصلہ کیا تھا، لیکن وہ یہ بات اپنے بیٹے کو کہہ نہ پائی، جانتی تھی کہ ان کا بیٹا بیوی کی محبت میں آنکھیں بند کئے بیٹھا ہے، اس کو سمجھانا بے کار ہے۔ ایسا ہوتا ہے، بیٹے جب ماں کے قد سے اونچے ہوجائیں تو ان کو ماں نظر نہیں آتی۔
ہفتے کے چھے دن دونوں میاں بیوی شام کو واپس لوٹتے اور کھانا ناہید کے ساتھ کھا کر گھر سدھار لیتے۔ اتوار کے دن دونوں دیر سے اُٹھتے اور شام ہوتے گھر سے باہر چلے جاتے، یہ کہہ کر کہ سارا ہفتہ ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع نہیں ملتا اس لیے تھوڑا وقت ایک ساتھ گزارنا چاہتے ہیں… ایسے میں ناہید یہ کہتے کہتے رک جاتی کہ بیٹا سارا ہفتہ ماں کے ساتھ وقت گزارنے کا بھی تو ٹائم نہیں ہوتا، کیا یہ ایک دن ماں کے ساتھ گزارنے کا خیال نہیں آتا؟؟؟
٭…٭…٭




’’ارے ناہید تم یہاں؟؟ خیریت…‘‘ ناہید جو ڈاکٹر کے کمرے سے باہر نکل رہی تھی اتنے سالوں بعد ارسلان کو سامنے دیکھ کے حیران رہ گئی۔
’’ہاں! بس ڈاکٹر کو دکھانے آئی تھی، کل سے تھوڑی طبیعت خراب تھی اور ویسے بھی اب اس عمر میں تو طبیعت اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے۔‘‘ ناہید نے مسکرا کے جواب دیا۔
’’آپ یہاں کیا کررہے ہیں؟ اور سلمیٰ کہاں ہے؟‘‘ ناہید نے ارسلان کو اکیلا دیکھ کر سوال کیا۔
’’سلمیٰ اندر بہو کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس ہے، پوتے کو بخار ہوا ہے بس اسی کو دکھانے آئے ہیں۔ اب بوڑھے ہوگئے ہیں تو سمجھو گھر کا ڈرائیور بن گئے ہیں۔ ’’اپنی بات مکمل کرکے ارسلان خود ہی ہنسنے لگا۔ تم بتاؤ اکیلی آئی ہو یا بچے آئے ہیں ساتھ؟ سنا تھا ماشاء اللہ حارث ڈاکٹر بن گیا ہے اور باہر مزید کورس کرنے گیا ہے، بہت ہی قابل اولاد ہے تمہاری۔‘‘ ارسلان نے توصیفی انداز میں کہا۔
’’ہاں! وہ تو دو سال پہلے ہی کاشف کی شادی کے فوراً بعد باہر چلا گیا تھا۔‘‘ ناہید کی آنکھیں حارث کی تعریف سن کے چمکنے لگیں۔
’’اور کاشف اور بہو کیسے ہیں؟ بہو نہیں آئی تمہارے ساتھ؟‘‘ ارسلان نے اس کو اکیلا بیمار دیکھا تو پریشانی سے پوچھا۔
’’کاشف اور مائرہ بھی ایک سال ہوا ملک سے باہر چلے گئے ہیں، کمپنی کی طرف سے کاشف کو بھیجا گیا ہے۔‘‘ ناہید نے آزردگی سے کہا۔
’’اور تم نے جانے دیا؟ حد کرتی ہو ناہید، تم ان کو جانے ہی نہ دیتیں، ضد پکڑ لیتیں، مانا کہ تم بہت ہمت والی ہو لیکن اب اس عمر میں جب تمہیں ان کی زیادہ ضرورت ہے تو تمہیں ان کو اپنے روکنا چاہئے تھا۔‘‘ ارسلان کی بات سُن کے ناہید نے بہ مشکل اپنے آنسو روکے، وہ ارسلان کے سامنے اپنا بھرم کھونا نہیں چاہتی تھی اس لیے اپنے جذبات پہ قابو پاتے ہوئے بولی:
’’میں نے خود کاشف کو اجازت دی ورنہ کاشف تو جانا ہی نہیں چاہتا تھا، لیکن میں نہیں چاہتی تھی کہ بچوں کی ترقی کی راہ میں میری وجہ سے کوئی رکاوٹ آئے، یہی تو وقت ہے ان کے کچھ کر دکھانے کا اور پھر میں اکیلی کہاں ہوں اللہ خوش رکھے میرے بھائی، بھابھی، بھتیجے سب تو ہیں میرے ساتھ۔‘‘ ناہید نے جبری مسکراہٹ چہرے پر لاتے ہوئے کہا۔ زندگی میں ایسے مقام آتے ہیں جب ہم کسی طرح بھی اپنا بھرم کھونا نہیں چاہتے۔
’’ہاں! یہ تو ہے۔‘‘ ارسلان نے تائیدی انداز میں سرہلایا…
’’اچھا اب میں چلتی ہوں سلمیٰ کو میرا سلام کہنا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے ناہید نے قدم آگے بڑھا دئے اور ارسلان اس کو جاتا دیکھتا رہا۔
٭…٭…٭
آج اتنے سالوں کے بعد ارسلان کو دیکھ کر ناہید اپنے ماضی میں گم ہوگئی تھی۔ کب اس کی آنکھیں نم ہوئیں اسے پتا ہی نہ چلا۔ کہنے کو تو اس نے اپنا بھرم ارسلان کے آگے رکھ لیا تھا لیکن کوئی اس کے دل سے پوچھے کے آج وہ کتنی اکیلی ہے۔ جب اپنے بچے ہی ساتھ چھوڑ جائیں تو بھانجے بھتیجے جو بھی کرلیں تو یہ ان کا احسان ہوتا ہے، مہربانی ہوتی ہے۔ وہ ان کا فرض نہیں۔ پوتا پوتی کی چہکار ہے اس کے آنگن میں نا ہی بہو بیٹے کے قہقہے۔ کاشف نے بیٹے کی تصویریں بھیجی تھیں۔ کوئی ناہید کے دل سے پوچھے کہ صبح اٹھتے اور رات سوتے وقت اپنے پوتے کی تصویریں دیکھ کر اس کوگود میں اٹھانے کی خواہش کس شدت سے اس کے دل میں جاگتی ہے۔ بیٹے ماں کو پیسے بھیج کر سمجھ لیتے ہیں کہ اپنا فرض پورا کردیا لیکن شاید اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ ماں کو پیسے کی نہیں بلکہ وقت اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ارسلان آج اس سے پوچھ رہا تھا کہ اس نے کاشف کو جانے کیوں دیا؟ اس سے اجازت لی ہی کب تھی؟ اس نے صرف بتایا تھا۔ نہ بھی بتاتا تو بوڑھی ماں کیا کرسکتی تھی؟
آج ارسلان کو دیکھ کر زندگی میں پہلی بار وہ اپنے فیصلے کو لے کر بے چین ہورہی تھی۔ کیا واقعی اس نے اس وقت جذباتیت کا فیصلہ کرلیا تھا؟ کیا اس نے اپنے بچوں کو سوچ کر اپنی ذات کو پیچھے کرکے غلط فیصلہ کیا تھا؟؟ صحیح کہا تھا ارسلان نے بچے سہارا تو بن سکتے ہیں، زندگی کا ساتھی نہیں یہ سوچ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔




Loading

Read Previous

آبِ حیات — قسط نمبر ۱۵ (تبارک الذی) آخری قسط

Read Next

امّی — شاکر مکرم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!