اُوپر حلوائی کی دکان — علینہ معین

بات آئی گئی ہو گئی اور آخر مہندی کی تقریب شیداں اور میداں کے تباہ کن ڈانس پر اختتام پذیر ہوئی۔ وہ بھی پا صدیق نے مداخلت کی تب جا کر۔ تقریب سے پوری طرح لطف اندوز ہونے والے تمام مہمان اِدھر اُدھر چارپائیوں پر بے سدھ سو رہے تھے۔ مگر نیند پا صدیق کی آنکھوں سے دور تھی۔ اس کی نظروں کے آگے وہی کالا چشمہ اور گھنگھرو والا پراندا ڈالے کوئی اِدھر اُدھر آجا رہا تھا۔ صبح صبح خالہ شیداں اور پا صدیق ایک طرف بیٹھے چپکے چپکے کچھ بات کر رہے تھے۔ وہ منہ دھونے نلکے کی طرف آئی تو دھیان کنیز کی طرف چلا گیا۔ ”ضرور کنیز باجی کے منہ پر پھوڑے بن گئے ہوں گے” رات والی شرارت یاد آتے ہی مسکراہٹ اس کے چہرے پر پھیل گئی ابٹن میں واقعی اس نے تھوڑی سی مرچیں ملا دی تھیں۔ بدلہ بھی تو لینا تھا اُس موٹی سے۔





ناشتا ختم ہوا تو اس نے دیکھا کہ خالہ شیداں پا صدیق کے ساتھ اماں کو بھی ساتھ لئے بیٹھی ہے۔ دوپہر تک ماجرا کھل ہی گیا۔ اماں نے جب شبانہ کو اندر بلوا کر بم پھوڑا کہ خالہ شیداں نے پا صدیق کے لئے شبانہ کا ہاتھ مانگا اور اماں نے خوشی خوشی ہاں کر دی ہے۔ شبانہ تو غصے سے لال پیلی ہو رہی تھی ”اماں تو مجھے اس واسطے لے کے آئی تھی کہ یہ مجھ پہ ترس کھائیں، اماں یہ گنے جیسا پتلا اور لمبا حلوائی میرے لئے رہ گیا ہے؟ میں شہر کی آٹھویں پاس اِس چک جھمری میں آکر نہیں رہنے والی۔ تو نے سوچا بھی کیسے اماں؟” بارات کے لئے تیار ہوتی شبانہ بھڑاس نکال رہی تھی ”مجھے نہیں کرنی اس سے شادی۔ تو کل ولیمہ کھا اس موٹی کا اور واپس چل۔”
وہ بھی اس کی ماں تھی اس کی تو تیوریاں چڑھ گئیں۔ ”نی شبو! اس نے خود تیرا ہاتھ مانگا ہے۔ تو آپ سوچ اس بھینگے پن کے نال کون تجھے بیاہے گا اور ایسے پھیکے شلجم ورگی رنگت کو تو آج کل کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ اپنی دکان ہے خیر سے، ساری علاقے میں مشہور ہے مٹھائی صدو حلوائی کی۔ سب عزت کرتے ہیں ساری عمر سکھی رہے گی خالہ کے گھر۔” اماں کی میٹھی باتوں سے شبانہ پھر بپھر گئی۔ ”اماں یہ صدو حلوائی میرے لئے ہی رہ گیا ہے۔” مگر اگلے ہی پل اس کی چند مختصر بالوں والی چوٹی اماں کے ہاتھ میں تھی اور دوسرے میں باٹا کے نئے سلیپر ۔ ساری عمر میرے سینے پر مونگ دلنے کے سپنے بھل جا۔ تیرے بھینگی کے واسطے کوئی نابینا شہزادہ ہی آئے گا۔” اماں نے بھی حد کر دی تھی شبو نے ہزار طرح سے اماں کو جذباتی کرنا چاہا: ”اماں تیری اک ہی بیٹی ہوں”۔ ”آہو ہے مگر بھینگی”۔ اماں بھی اپنے نام کی ایک تھی۔ ان کے اندر کا دُکھ زبان کی تلخی بن جاتا تھا۔
ادھر بارات سے پہلے صدیق نے اپنے ہاتھ کے بنے گلاب جامنوں کے ساتھ سب برادری والوں کا منہ میٹھا کروایا۔ اماں نے شبانہ کے سوجے منہ میں بھی گلاب جامن زبردستی گُھسیڑا اور دونوں بہنیں تھل تھل وجود کے ساتھ گلے ملنے لگیں۔ ”ستیاناس میر اجو یہاں آگئی اس موٹی کا ویاہ دیکھنے۔” بُڑبُڑاہٹ اماں کے کانوں تک پہنچ گئی۔ ”کنیز آج سے تیری نند ہے خبردار جو اونچا بولی۔” شبانہ پھوں پھاں کرتی اندر چلی گئی۔ ادھر خیر سے بارات آئی نکاح پڑھایا ہی گیا تھا کہ کنیز نے وہ رونا ڈالا کہ دولہا لنگڑا ہے اور مجھے بتایا ہی نہیں اماں نے۔” کنیز کو تو غشی کے دورے پڑ رہے تھے اندر اور باہر کے لوگ اور سسرال والے سمجھ رہے تھے۔ بے چاری دلہن صدمے سے نڈھال ہو رہی ہے ۔ بالآخر پا صدیق کو ہی بلایا گیا۔ بس جی بڑی مشکل معاملہ سمٹا تو رخصتی کا وقت آگیا۔ روتی پیٹتی لال جوڑے میں ملبوس اتنی صحت مند دلہن دیکھ کر ڈولی اٹھانے والوں نے معذرت کر لی لہٰذا مجبوراً گاڑی میں بیٹھنا پڑا۔ ”یا اللہ خیر ہوئے دُلہا کی” شبانہ کو مدقوق سے دُلہا پر ترس آرہا تھا۔ نیچے گرمی کے مارے جان نکل رہی تھی لہٰذا چھت پر آگئی کہ کچھ ہوا لگے۔ اُوپر سے جھانکا تو نلکے پر ایک لمبی قطار نظر آئی چڑیلوں کی۔ معاف کرنا منہ دھونے والیوں کی۔ اس چلچلاتی گرمی سے تو سارے میک اپ نے بہ کر ایک نئی شکل اختیار کر رکھی تھی۔
دل میں اماں سے سخت ناراض تھی۔ شام کو چھت پر ہی ڈیرا ڈال لیا۔ جلے دل کے پھپھولے کس کے سامنے پھپھوڑتی ماں نے تو ایک نہ سننی تھی۔ خود ہی اپنے دکھ پر رو دھو کر دوپٹے کے پلو سے آنسو صاف کیے تو سامنے صدیق سیڑھیاں چڑھتا نظر آیا۔ جل کر منہ موڑے بیٹھ گئی۔ ”شبو منہ کیوں موڑ لیا؟” صدیق مسکرا رہا تھا۔

”ناراض لگ رہی ہے” صدیق کا پوچھنا تھا کہ شبو سٹارٹ ہو گئی۔ ”ہے کیا تم میں ایسا اور کام تو دیکھو اپنا۔ اپنا آپ دیکھا ہے کبھی آئینے میں۔ اماں کے ڈر سے ہاں کی ہے میں نے ورنہ کبھی نہ مانتی۔” بھڑاس نکال لی اس نے۔ ”بھینگی ہوں تو کیا ہوا؟ ارمان تو ہیں ناں میرے۔ اماں نے تو سب کو آگ لگا دی اور شکر کا کلمہ پڑھا مجھ سے جان چھوٹے گی۔” بھل بھل روتی شبو کی بھینگی آنکھیں لال ہو گئیں۔
صدیق مسکراتا اس کے قریب آکھڑا ہوا اور بولا: ”دیکھ شبانہ میری بہن میں بھی نقص تھا مگر میری نیت صاف تھی اور اس کا اچھا رشتہ مل گیا اور تجھ پر ترس نہیں کھایا میں نے۔ کل تو مہندی کا تھال اٹھائے سوہنی اتنی لگ رہی تھی کہ میرا دل آگیا تجھ پر۔”
شبو بالآخر شرما ہی گئی۔ ”اور کام کا کیا ہے؟ حلال روزی میں شرم کیسی ؟آٹھ جماعت پاس ہوں تیری طرح۔ مل جل کر رہیں گے تو بات بن جائے گی اور ہاں تیرے سارے ارمان میں پورے کروں گا۔ تو موقع تو دے کر دیکھ۔” ہائے میں مر گئی شبو کو کہاں اُمید تھی کہ پا صدیق ایسی باتیں بھی کرتا ہو گا۔ ”ہائے ظالم شرماتے ہوئے بڑی سوہنی لگ رہی ہے” صدیق نے ہاتھ تھام لئے شبانہ کے اور جیب سے گجرے نکال کر ڈال دیئے کلائیوں میں۔ جون کا بھڑکتا سورج ٹھنڈی مُسکراتی شام کو ہلکی ہلکی لالی دے کر چُھپ رہا تھااور اس کی لالی اب شبانہ کے چہرے پر تھی۔ مطمئن اور پُرخلوص سی، جو اس کا مستقبل جگمگائے گی۔

٭٭٭٭




Loading

Read Previous

لاکھ — عنیقہ محمد بیگ

Read Next

اب تو موت بھی نصیحت نہیں کرتی — اسیرِ حجاز

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!