انشاء اللہ — سحرش مصطفیٰ

میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا تھا۔ ائیر ہوسٹس مجھ سے کچھ پوچھ رہی تھی پتا نہیں شاید وہ کچھ کھانے پینے کے بارے میں پوچھ رہی تھی۔ میرا ذہن اس کی بات سمجھنے سے قاصر تھا۔ میں اس وقت کسی اور فیز میں تھا۔ میں نے بات سمجھے بغیر نفی میں سر ہلادیا میں آج انتظار حسین کے ساتھ وقت گزارنا چاہ رہا تھا۔
میرے بی اے کے رزلٹ کے دودن بعد دادا کا انتقال ہوگیا۔ کچھ دن افسوس رہا اور پھر زندگی معمول پر آگئی۔ میرا ایک دوستوں کی محفل میں تفریحاً گایا ہواگانا لوگوں کی سماعت کو بھاگیا، اس کی ویڈیو وغیرہ نہیں تھی۔ یو ٹیوب پہ آڈیو سننے والوں کے دلوں میں یہ آڈیو گھر کر گئی۔ ایک ہفتہ کے اندر اندر پانچ لاکھ ویوز نے مجھے اریب حسین سے سٹار اریب حسین بنا دیا اور پھر دن بدل گئے۔ پاپا خاندان اور حلقۂ احباب کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے خاموش ہوگئے، جو انہیں میرے بارے میں بتاتے تھے کہ اریب کی آواز میں جادو ہے۔ ویسے بھی میرا بیچلرز مکمل ہوچکا تھا، ڈگری مل چکی تھی اور ماں باپ کا سارا مسئلہ ڈگری ہوتی ہے۔ یہ جادو سرحد پار بھی اثر دکھانے لگا تھا۔ چھے ماہ کے اندر اندر پڑوسی ملک سے آنے والی ان آفرز نے میرے اسٹیٹس کو اپ گریڈ کردیا چھلانگ لگا کر میرا شمار سی کلاس سے اے ڈبل پلس میں شمار ہونے لگا۔ امی جی نے مجھے دادا کی یا دلائی اور میں جز بز ہوکر رہ گیا۔
انہیں مناسب طریقے سے سمجھایا کہ اب سرحدوں اور تفریق کا فارمولا ایکسپائر ہوچکا ہے۔ اب ہر طرف ویلیج گلوبل کے نعرے لگ رہے تھے۔ انتظار حسین کی کہانی اب الف لیلیٰ کی ایک داستان بن چکی ہے اور صرف چودہ اگست کے تحت بننے والے ڈراموں میں ہی دہرائی جاتی ہے۔ اب مارکیٹنگ اور کمرشلزم کی حکمرانی ہے اور سب سے بڑی بات کہ فن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی ہے۔ صرف تین سال کے اندر اندر میرے پیروں کے نیچے زمین ریڈ کارپٹ کی صورت اختیار کر گئی۔
کامیابیاں بارش کے قطروں کی طر ح مجھ پر برس پڑیں اور میں ان میں پور پور بھیگ چکا تھا۔ میرے سوشل میڈیا کے آفیشل فین پیج پر تین سال کے اندر اندر چھے ملین فینز بن چکے تھے جن میں مختلف قومیتوں کے لوگ شامل تھے لیکن بڑی تعداد پر انڈین اور پاکستانی۔ سرحد پار مجھے کبھی کسی نازک صورتِ حال کا سامنا نہیں کرنا پڑاتھا۔ کچھ مسئلے تھے لیکن پیشہ ورانہ حسد اور چپقلش تو ہرجگہ ہوتی ہے۔ انتظار حسین دادا کے انتقال کے ساتھ ہی سوچکا تھا اور آج بہت دنوں بعد انتظار حسین کی واپسی ہوئی تھی۔
جہاز لینڈ کرچکا تھا۔ میں باہر آیا، ’’مجھے انڈیا اور پاکستان میں کوئی خاص فرق محسوس نہیں ہوتا دونوں جگہ کا کلچر، رہن سہن اور زمینی نظارہ سب یکساں ہیں۔‘‘ یہ بات میں نے ایک انٹرویو کے دوران کہی تھی اور اب اس وقت اسلام آباد ائیرپورٹ پرہونقوں کی طرح کھڑے میرا دل چاہا تھا کہ میں چیخ چیخ کر سب کو بتاؤں کہ فرق تھا بہت واضح فرق تھا۔ میں کسی کے کاندھے پر سر رکھ کر رئووں لیکن کس کے اور عین اسی وقت انتظار حسین پھر میرے سامنے آگیا لیکن اس کے کاندھے پر سر کیسے رکھوں وہ تو خون آلود تھا اور اور اس کا چہرہ بھی دردناک تھا۔
’’میں نے اسے ہر جگہ تلاش کیا تھا لیکن دودن تک اس کا کچھ پتا نہ لگا۔ میرے ذہن میں بار بار اس کی صورت گھومتی اور پھر دودن بعد وہ واپس آگیا لیکن ایک لاش کی صورت۔ اس کے جسم کا کوئی ایسا حصّہ ایسا نہ تھا، جو خون آلود نہ ہو۔ انگلیاں، ناک، سر، پاؤں، خوبصورت وجیہہ چہرہ اور اس کی خوب صورت آواز تک خون آلود تھی۔ انہوں نے انتظار حسین کی زبان کاٹ کر اس کی پھٹی ہوئی خون آلود قمیص کی جیب میں رکھ دی‘‘ داداجی یہ بتاتے رو پڑتے تھے اور یہ وہ مرحلہ ہوتا تھا، جب میری کوفت اپنی عروج کو پہنچ جاتی تھی۔ انتظار حسین اپنے خاندان کے واحد شہید تھے اسے ایک معجزہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ ہمارا خاندان کچھ مشکلات سہ کرہی سہی لیکن صحیح سلامت پاکستان پہنچ گیا تھا سوائے انتظار حسین کے۔
اسلام آباد ائیرپورٹ سے ہوٹل تک سفر کرتے ہوئے بھی وہ میرے ساتھ تھا اور ائیرپورٹ سے ہوٹل تک جانے والے راستے پر میں یہ سوچے جارہا تھا کہ انہوں نے انتظار حسین کی زبان کیوں کاٹی تھی۔ شاید اپنی مرضی کی کوئی بات کہلوانے کی کوشش کی گئی ہو یا پھر دلیل اور ٹھوس ثبوت کے ساتھ سب کو اپنی طرف متوجہ کرنے والی وہ آواز ان کے کانوں کے لئے ناسور بن چکی ہوگی۔ پھر اس آواز کو مزا چکھانے کے لئے اسے کاٹ کر پھینک دیا گیا ہو۔ درد اور تکلیف سے تڑپتے ہوئے انتظار حسین کو چیلنج کیا گیا ہو کہ اب بول کر دکھا ’’بن کر رہے پاکستان۔‘‘ اس وقت وہ ساری تکلیف سہنے کے بعد بھی انتظار حسین نے سوچا ہوگا کہ کوئی بات نہیں میری جان چلی بھی گئی تو میری قربانی رائیگاں نہیں جائے گی کہ میری آنے والی نسلیں اس ذلت سے محفوظ رہیں گی۔ اچانک میں چونکا۔ ’’وہ کہتا تھا کہ بھائی جان دیکھئے گا سر زمینِ پاکستان پر سب سے پہلے سجدہ کرنے والا مسلمان انتظار حسین ہوگا اور وہ سجدہِ شکر ہوگا۔ اِن شاء اللہ!‘‘ دادا کی آواز اور انتظار حسین کی ادھوری خواہش۔ میں نے چونک کر کیب سے باہر جھانکا اور چند لمحوں بعد میری تلاش مجھے نظر آگئی۔ میری تلاش ایک مسجد تھی۔ میں نے کیب رکوائی اور تیزی سے اس مسجد کے اندر داخل ہوگیا۔ اگلے ہی لمحے میں سجدے میں تھا، یہ سجدہ انتظار حسین کی ادھوری خواہش تھی۔ آنسو تھے کہ زار و زار نکل پڑے۔ نہ جانے انتظار حسین کی موت پر یا اپنی زندگی پر اور اب میں یہاں وفاقی دارالحکومت کے اس پانچ ستارہ ہوٹل کے کمرے میں تکیے میں منہ لپیٹے شرمندہ ہورہا تھا۔
جتنی نفرت میں نے اس آدمی کی آنکھوں میں دیکھی تھی اگر میں اس کے ہاتھ لگ جاتا تو وہ میرے ساتھ وہی سلوک دُہراتا جو اس وقت انتظار حسین کے ساتھ کیا گیا تھا۔
وہ میری بہنوں کے ساتھ بھی وہی کرتا، جو اس جدوجہد کے دوران ہزاروں عورتوں کے ساتھ دُہرایا گیا تھا بس موقع ملنے کی دیر تھی ۔مجھے اپنا فشار خون بلند ہوتا ہوا محسوس ہواتھا۔
کچھ بھی نہیں بدلا تھا اور بدل بھی نہیں سکتا تھا کیوں کہ چیزوں کے خمیر کبھی نہیں بدلتے۔ رات ہمیشہ سیاہ تاریک ہوتی ہے کبھی روشن نہیں ہوسکتی۔ اسے چاند تاروں اور مصنوعی روشنیوں کے ذریعے روشن بنایا جاتا ہے لیکن رات کی پہچان اندھیرا ہی رہتا ہے۔
کئی دہائیاں پہلے وہ جنگ نفرت اور دلیل کی جنگ تھی اور وہ جنگ آج بھی جاری تھی۔ نفرت اپنی جگہ موجود تھی لیکن دلیل گونگی ہوچکی تھی۔ سوال یہ تھا کہ مجھے اب کیا کرنا چاہیے اور اس وقت ایک مرتبہ پھر انتظار حسین میرے سامنے آیا اپنے شائستہ لہجے اور ٹھوس دلیلوں سے مجھے تسلی دیتا ہوا۔ یہ اتنے سالوں میں میرا اور ان کا پہلاسامنا تھا۔
’’دوستی برُی چیز نہیں ہوتی لیکن اس کے بدلے عزتِ نفس کو گروی رکھنا برُا ہوتا ہے ۔وہ لوگ آج بھی اس آواز کو دبانا چاہتے ہیں، جو کئی سال پہلے اُبھری تھی۔ دلوں کو گرماتی اور حوصلہ بڑھاتی آواز وہ رُک گئے۔ ’’میں نے سوچ لیا ہے میں سب کچھ چھوڑ دوں گا۔ نہیں چاہیئے مجھے ایسی شہرت اور دولت‘‘ میں جذباتی ہوگیا۔
اس خوب صورت لہجے نے ایک بار پھر مجھے رد کیا۔ ’’نہیں اریب آگے بڑھو دوستی بھی رکھو اور نام بھی کماؤ لیکن اپنی شرائط پر اپنی پہچان اور اس پہچان کی حرمت کو برقرار رکھ کر۔ جو دوستیاں یاریاں تضحیک اور ذلت کو پی جانے کی ترغیب دیں وہ دوستی نہیں غلامی ہوتی ہے۔‘‘ وہ آواز میری ہی آواز تھی۔ انہوں نے انتظارحسین کی زبان کاٹ دی تھی لیکن اب میں اُن کی آواز بن چکاتھا۔
پتا نہیں کیوں مجھے ان کے لہجے میں ایک اداسی بھی محسوس ہوئی تھی۔ کیا کچھ نہیں کیا تھا انتظارحسین اور اس کے ساتھیوں نے ہمارے مستقبل کے لیے اپنی عزت، جان، مال سب، قربان کردیا تھا۔ روپیہ چھوڑا، جائداد کو ٹھوکر ماری، اپنے جسم کا خون تک بہا دیا کیوں؟ صرف اور صرف اپنی آنے والی نسلوں کو اس تضحیک اور تحقیر سے بچانے کے لئے، جو میں نے آج سہی تھی ہاں ذلت اور تحقیر کا دریا تھا، جس سے بچانے کے لئے لاکھوں لوگ جان سے گزر گئے اپنی آنے والی نسلوں کی آزادی کے لیے۔ ایسا کون کرتا ہے بھلا؟ عزتِ نفس کو بچانے کے لئے خون کی قر بانی کون دیتا ہے اور وہ بھی میرے جیسے بے حس اور غیر ذمہ دارلوگوں کے لیے۔
دو ملکوں کے درمیان وجود میں آنے والی وہ سرحد صدیوں پرانی اور اپنی جگہ دلوں میں برقرار تھی۔ انتظار حسین، محمد علی جناح ، علامہ اقبال اور سر سید احمد خان جیسے لوگ ایک ہائی آئی کیو لیول رکھتے تھے جو بے حد مہارت کے ساتھ اس اندرونی سرحد کو ٹھوس حالت میں تبدیل کر کے دنیا کے سامنے لے کر آئے۔
میں اریب حسین کو سائیڈ پر رکھ کر انتظار حسین بن گیا تھا۔ ایک واضح، دوٹوک اور مربوط وژن رکھنے والا، مشن کی اہمیت سے واقف، کسی بھی قسم کی بوگس دلیل کے بغیر ۔ میں نے اپنے آس پاس دیکھا اب کچھ نہ کچھ تو کرنا تھا۔ میں انتظار حسین کو واپس نہیں لاسکتا تھا لیکن ان کی آواز تو بحال کرسکتا تھا۔ اچانک میرے ذہن میں ایک سوچ نے رستہ بنایا۔ اگر انتظار حسین میری جگہ ہوتے تو وہ کیا کرتے؟ میں نے اپنا سیل فون اُٹھایا اور سوشل میڈیا پر موجود اپنے سارے آفیشل اکاونٹس پر کچھ تبدیلیاں کیں، کچھ ناگزیر تبدیلیاں۔
تھوڑی دیر بعد مجھے اپنے مینیجر کی کال صول ہوئی، وہ بوکھلایا ہوا تھا۔ فیس بک اور ٹوئیٹر پر میرے آفیشل اکاونٹ کی نئی اسٹیٹس اپ ڈیٹ کے بعد لائن آف کنٹرول کے اس پار سے آنے والے کمنٹس پر۔ میں اسے یہ نہیں بتاسکتا تھا کہ یہ تواس کھوکھلے تعلق کی حقیقت اور اصلیت ہے، اچھاہے سامنے آجائے تاکہ بہت سے اپنوں کی خوش فہمیاں اور بہت سے غیروں کی غلط فہمیاں دور ہوجائیں۔ جہاں تک مالی نقصان کا سوال تھا تو اگر مال کا نقصان آپ کی عزتِ نفس کو بحال کردے تو یہ کوئی بر ا سودا نہیں۔ جس کو میرے ٹیلنٹ کی ضرورت ہوگی وہ اس شرط کے ساتھ بھی میری خدمات حاصل کر سکتا ہے۔ سیل فون آف کرتے ہوئے میں نے ایک نظر اپنے کرنٹ اسٹیٹس، پر ڈالی جہاں لکھا تھا، ’’پاکستان زندہ باد ہے اور ہمیشہ زندہ باد رہے گا ان شاء اللہ!!‘‘ یہ میری شرط تھی۔یہ میری آواز تھی، اریب انتظار حسین خان کی آواز تھی۔ میں نے پہلی دفعہ کہیں اپنا مکمل نام لکھا تھا۔ چوبیس سال لگے تھے مجھے اپنے نام کو مکمل کرنے میں۔ مجھے یقین تھاکہ آج رات بہت اچھی نیند آنے والی ہے ۔ ضمیر کی دی ہوئی تھپکی کمالِ راحت پہنچاتی ہے۔




Loading

Read Previous

ادھوری زندگانی ہے —- لعل خان (پہلا حصّہ)

Read Next

ادھوری زندگانی ہے — لعل خان (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!