انجان راستہ — ثاقب رحیم خان

وہ رہا”
اس نے خوشی سے چیخ ماری اور اچھلتا کُودتا اس جانب یو ں لپکا جس طرح کوئی اپنوں سے بہت عرصہ بچھڑنے کے بعد ملتا ہے اس کے قدم اس راہ کے ہر ذرےّ سے آشنائی کے لیے بے تا ب تھے۔ نزدیک جا کر اسے معلوم ہو ا کہ وہ کمرہ جس سے دھواں نکل رہا تھا اور اردگرد مختلف رنگوں کے کپڑے مختلف جگہوں پر آویزاں کئے گئے تھے دراصل چائے کا ایک چھوٹا سا ہوٹل تھا جس کے درودیوار انتہائی خستہ حال تھے۔ جگہ جگہ مکڑیوں نے جالے بنا رکھے تھے۔ دیورایں دھویں کی وجہ سے کالی ہو چکی تھیں۔ سامنے چولھا رکھا گیا تھا۔ قریب ہی چند عدد بنچ رکھے تھے ۔ ہوٹل کھنڈر نما دکھائی دے رہا تھا لیکن خستہ حالی کی باوجود بھی وہاں کی رونق جمی ہوئی تھی جو شاید وہاں کی خوبیوں میں سے ایک تھی۔ وہاں پر ایک بوڑھا آدمی سفید لبا س میں ملبوس ، سر پر سفید ٹوپی پہنے ہوئے چائے بنانے میں مصروف تھا۔ اس نظارے کو دیکھ کر کئی سوال اس کے عقل کے دروازے پر دستک دینے لگے کہ جہاں ڈھونڈنے سے بھی کوئی نہ ملے وہاں پر چائے کے ہوٹل کا کیا کام۔ اس طرح کے درجنوں سوال وہ اپنے سینے میں دفن کئے جارہا تھا جب سے وہ اس انجان راستے سے نبرد آزما ہوا تھا۔ پاس گیا اور ہوٹل والے بابا سے احتراماََ کچھ الفاظ کہے۔ بابا خاموش رہا۔ کچھ دیر بعد سرہلایا “جی چائے مل سکتی ہے۔”





بابا کے طور طریقے عجیب ہونے کی وجہ سے اس نے پر اسرار اند ا ز میں دیکھا اور ہاتھ کے اشارے سے ایک طرف بیٹھنے کا کہا۔ وہ جاکر بنچ پر بیٹھ گیاجہاں پہلے سے اک شخص بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ اس نے چائے آنے تک پاس بیٹھے آدمی سے گفت گو کر نا چاہی۔
“آپ کی منزل کون سی ہے۔”جواب موصول نہ ہو ا تو ایک بار پھر کوشش کی مگر ناکامی کا سامنا کر ناپڑا۔ یہ جان کر اسے حیرت ہوئی اور تجسس بھی کہ وہ شخص بالکل اس کے نزدیک بیٹھا تھا مگرا س کی بات کا جواب نہیں دے پا رہا تھا۔ جب کہ اس کے بر عکس وہ بابا کی بات سن بھی سکتا تھا اور جواب بھی دے پا رہا تھا۔ جس سے وہ سوالوں کے بھنور میں اور بھی الجھتا جا رہا تھا۔ با با وہا ں سے یہ منظر دیکھ رہا تھا ، سر ہلا کر اسے گفتگو کرنے سے منع کر دیا۔
جب وہ شخص چلاگیا اور چائے تیار ہوگئی تو با با نے اس کے سامنے چائے کا کپ رکھا ۔ واپس ہونے لگا تھا کہ اس نے پیچھے سے آواز دی۔ “بابا جی “با با نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔
“مجھے آپ سے کچھ پوچھنا ہے اگر آپ۔۔۔۔! ”
تھوڑی دیر سوچنے کے بعد وہ بزرگوار اس کے مخالف والے بنچ پر بیٹھ گیا اس سے پہلے کہ وہ بات شروع کرتا بابا کہنے لگا:
“مجھے معلوم ہے کہ تم یہاں کیوں اور کیسے آئے ہو۔”یہ سن کر اس کے ہو ش اڑ گئے کہ جو بات وہ خود اب تک نہیں جا ن سکا وہ یہ بابا اتنی سی دیر میں کیسے جان سکتا ہے۔
جوا ب میں لب ہلا کر منہ سے چند الفاظ نکالنے کی کوشش کی۔ “پر میں تو۔۔۔۔!”
“میں جانتا ہوں تمھیں میر ی بات کی حیرانی ہوگی اور ہونی بھی چاہیے۔”
اُس نے خود کو سنبھالنے کی کوشش کی ۔”آپ میرے بارے میں اور کیا جانتے ہیں؟”
“تمہارے ذہن میں سے پہلے یہی سوال ہوگا کہ اس ویرانے میں ہوٹل کیوں کھول رکھا ہے۔”
اس نے حیران ہوکر بات کاٹ کی۔”جی جی”





با با اس کی معصومیت دیکھ کر ہنسنے لگا۔ “جس کو جو کام سونپ دیا جائے وہ اسے کر نا پڑتا ہے چاہے کچھ بھی ہوجائے۔ مطلب یہ کہ اگر یہ جگہ نہ ہوتی تو تم یہاں بیٹھے چائے نہیں پی رہے ہوتے۔”
“بابا یہاں کوئی آتا ہے میرامطلب ہے آپ کی گزر بسر ہوجاتی ہے۔”
“میاں! جس کو جو ملنا ہوتا ہے مل جاتاہے خواہ کسی بھی طریقے سے ہو۔ (تھوڑا سا وقفہ لیا اور دوبارہ بات شروع کردی) ہا ں آجاتے ہیں مسا فر۔”
ہچکچاہٹ تھی اس کے لب ولہجے میں لیکن با با کی بے تکلفی دیکھ کر اس نے بھی تکلف کا ساتھ چھوڑ دیا۔ “اس شخص سے بات کرنے سے آپ نے منع کیوں کردیا۔”
“اس لئے کہ وہ معذور تھا۔”
“مگر وہ تو بالکل ٹھیک تھا دیکھ بھی سکتا تھا سنُ بھی سکتا تھا۔”
“میاں میں نے یہ نہیں کہا کہ وہ جسمانی معذور تھا وہ صر ف تمھیں دیکھنے اور سننے سے قاصر تھا لیکن تمھیں یہ باتیں آہستہ آہستہ سمجھ آئے گی۔”
انکشافات کی بوچھاڑ نے اسے اپنی زد میں لے لیا ہر موڑ پر حیران اور پریشان کر دینے والے سوالوں کے سوا اسے کچھ حاصل نہیں ہو رہا تھا۔
“بابا یہ مختلف رنگ کے کپڑے آپ نے کس لئے باند ھ رکھے ہیں۔” اس نے بات موڑتے ہوئے کہا۔
بابا نے گہری سانس لی اور ٹوپی سر سے اتار کر میز پر رکھ دی۔”
مجھے یہ ہوٹل چلاتے ہوئے چالیس سال ہوگئے۔ بہت سے مسافر آئے اور چلے گئے ۔ کچھ اچھے اور کچھ پر برائی غالب تھی مگر ان سب میں سے یہی چند خاص لوگ تھے اور خاص لوگ آتے رہیں گے۔”
“خاص لوگ۔۔۔۔! کیا مطلب؟” اس کی بے چینی لب پر آگئی۔





“دیکھومیاں!کچھ مسافر ایسے تھے جنہوں نے کسی نہ کسی طرح یہاں گزارے ہوئے چند لمحوں کو یادگار بنایا ہوتو ہر ایک کی یا د میں ، میں ایک کپڑا باند ھ لیتا ہوں۔ پچھلے چالیس برسوں میں بہت سے آئے مگر یہی چند تھے جن کی تا ثیر نشانی کے طور پر ان کپڑوں کی صورت میں رہ گئی ہے جو میں نے باند ھ رکھے ہے۔”
بابا کی باتیں سُن کر جہاں وہ ایک اُلجھن سے رہائی حاصل کر تا وہاں صورت حال کی پیچیدگی کی وجہ سے دوسرے اُلجھن میں مبتلا ہوجاتا ۔ بابا نے با ت جاری رکھی۔
“تم بھی خاص میں سے ہو۔”
“میں ۔۔۔۔!”یہ بات سن کر وہ چھونگ گیا۔
“ہاں تم، پہلے تو میں سمجھا کہ تم باقی لوگوں کی طرح ہو مگر اس شخص کا تمھیں محسوس نہ کر نا اور تمھاری کھوج کی جستجوسے مجھے اندازہ ہو اکہ تم خاص ہو کسی ایسی چیز کی کھوج میں ہوجو خاص ہے ۔ تمھارا کھوج الگ ہے ان عارضی چیزوں سے تمھارا تعلق نہیں بن رہا ہے اور نا ہی بنے گا۔”
“کیا مطلب میں سمجھا نہیں۔” اس کو اپنے اوسان خطا ہوتے ہوئے محسوس ہوئے۔
“سمجھ جاؤ گے جب نشیب و فراز کی بستی سے ہو کر گزروگے جہاں جابہ جا آزمائشو ں کے نشیمن ہیں۔ اب اٹھ جائو شام ہورہی ہے سورج ڈھل رہا ہے۔” بابا اٹھ کھڑا ہوا اور ٹوپی میز سے اٹھالی۔
“لیکن بہ ظاہر تو آپ نے بہت سے سوالات کا جواب دے کر میری الجھن ختم کی تو وہاں ان جوابات میں بہت سی باتیں ایسی تھی جو میر ی سوچ سے بالاتر تھی۔” اس نے الجھتے ہوئے بابا سے کہا۔
“یہی تو ہمارا المیہ ہے ہم جس کو جواب سمجھتے ہیں اس میں بھی درحقیقت بہت سے سوا ل چھپے ہوتے ہیں۔ لیکن فکر نہ کرو تم پر وقت کے ساتھ ساتھ یہ راز عیاں ہوتے جائیں گے۔” بابا مسکرایا۔
اس کی یا د کا کپڑا آویزاں کر کے بابا نے اسے رخصت کردیا۔
“تم بھی دوسروں سے مختلف ہو تمھاری نشانی مجھے تمھاری یاد دلاتی رہے گی اور باقی آنے والے مسافروں کو بھی، جو اس آہنگ سے جُڑے ہوں یا شناسائی رکھتے ہوں۔”
سورج ڈھل چکا تھا۔ شام کی تیرگی میں وہ ویر ان سڑک پر چل نکلا تھا ان پوشیدہ سوالوں کے جواب جاننے جن سے نبردآزمائی تھی۔ ایک موڑ پر پہنچ کر راستہ تقسیم ہوا تھا۔ ایک طرف دشوارگزار راستہ تھا اور دوسری جانب گھنااندھیرا جنگل تھا۔ سیدھا راستہ اختیار کر نا چاہا مگر درپیش مشکلات اور سختیوں سے ذہین میں پلنے والے اندیشے کی وجہ سے اس نے اند ھیر جنگل کو ترجیح دی۔ اپنے اند ر کی آواز کو دبایا، ضمیر کو ٹیس پہنچائی، صر ف ان آسانیوں کے لیے جو دوسرے راستے سے قدرے آسان تھی۔ گھنے اند ھیرا جنگل میں ظاہر آرام و سکون کی غرض سے وہا ں پڑاو ڈالا۔ من کی اضطرابی کیفیت کسی صورت کم ہونے کو نہ تھی۔ وہاں کی ظاہری آسائشوں سے بھی تعلق نہ بن سکا۔ با با کی ساری کہی ہوئی باتیں یا د آنے لگی۔ وہ اٹھا اور چلنے کا ساماں کیا۔ چند قدم لئے تو جنگل کے اُس پار چمک دار روشنی نظر آئی۔ پوری آب وتاب سے چمکنے والی روشنی کو دیکھ بے اختیار منہ سے نکلا۔
“یہی تو ہے وہ۔”
اس بار کی حالت گوشہ نشیں تھی۔ روشنی اسے اپنی جانب مبذول کر ارہی تھی۔ روح کو جس چیز ، جس منزل کی تلاش تھی وہ سامنے منتظر تھی۔ وہ آگے بڑھ رہاتھا کہ پیچھے سے اسے آواز سنائی دی۔
“رک جائو۔” آواز سنتے ہی اس کی روح لرز اٹھی ۔ کوئی ایسا تھا جس سے روح کا گہر ا تعلق تھا۔ آگے بڑکر اس کا ہاتھ تھا م لیااور اُس کی آواز اس کے کانو ں میں گونج اٹھی۔
“میری منزل بھی یہی تھی لیکن کوئی ہم سفر نہیں تھا۔”

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

خربوزہ کہانی — عائشہ تنویر

Read Next

اللہ کی مرضی — احسان راجہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!