امربیل — قسط نمبر ۱

علیزہ نے ایک نظر ان پلانٹس کو دیکھا تھا اور پھر انہیں دیکھتے ہوئے ، بڑے عام سے انداز میں تبصرہ کیا تھا۔
وہ کچھ مایوس ہو گیا تھا۔
”صرف اچھے ہیں!”
علیزہ نے کچھ الجھی ہوئی نظروں سے اسے دیکھاتھا۔
”تو پھر مجھے کیا کہنا چاہئے؟”
”اپنی رائے دو کہ اچھے ہیں تو کیوں اچھے ہیں، برے ہیں تو کیوں برے ہیں۔”
عمر نے اسے سمجھایا۔
”میں پلانٹس کے بارے میں کچھ نہیں جانتی، اس لئے صحیح رائے دینا تو بہت مشکل ہے۔ آپ کو نانو سے پوچھنا چاہئے، آپ کو زیادہ بہتر طریقے سے بتا سکتی ہیں کہ یہ پلانٹس کیسے ہیں؟”




اس نے عمر سے کہا۔
”میں حیران ہوں کہ تمہیں گارڈننگ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ تمہیں نیچر سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔”
”نہیں، ایسا نہیں ہے مجھے نیچر تو اٹریکٹ کرتی ہے گارڈننگ نہیں۔”
اس نے جیسے قطعی طور پر اسے بتایا تھا۔
”یہ پلانٹس کہاں سے لائے ہو؟”
نانو اسی وقت لاؤنج میں آئی تھیں۔
”قذافی سٹیڈیم سے۔ آپ بتائیں کیسے ہیں۔”
اس نے فوراً نانوسے رائے لینے کی کوشش کی تھی۔
”اچھے ہیں، بہت اچھے ہیں ، مگر قیمت کیا ہے ان کی؟”
نانو نے فوراً تعریف کی تھی مگر ساتھ ہی سوال بھی داغ دیا تھا۔
عمر نے انڈور پلانٹس کی قیمت بتائی تھی۔
”تمہیں زیادہ مہنگے دے دئیے ہیں ان لوگوں نے،ان کو پتہ چل گیا ہو گا کہ تم بہت دیر کے بعد یہاں آئے ہو ،اسی لئے انہوں نے تم سے دوگنی قیمت وصول کی ہے۔”
نانو نے قدرے افسوس سے کہا تھا۔
”یہ کون سی نئی بات ہے گرینی!ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ یہ یہاں کا کلچر ہے۔ وہ کہتے ہیں “Make hay while the sun shines.”
اس نے بہت عجیب سے لہجہ میں کہا تھا۔ علیزہ نے کچھ چونک کر اسے دیکھا وہ اب بھی بول رہا تھا۔
”یہاں سب کچھ بہت خراب ہے، جو سو روپے کی کرپشن کر سکتا ہے وہ سو روپے کی کرپشن کرتا ہے، اور جو دو روپے کی کرپشن کر سکتا ہے وہ دو روپے کی کرپشن کرتا ہے، لیکن ان سب چیزوں سے آپ بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ ایک روپے کی چیز دس میں خرید کر کم از کم یہ تو پتہ چل جاتا ہے کہ دوسرا اپنے فائدہ کے لئے کسی حد تک جا سکتا ہے۔”
وہ پہلی بار اس طرح باتیں کر رہا تھا۔ ورنہ پہلے علیزہ نے ہمیشہ اسے صرف ٹوٹی سڑکوں اور ٹریفک جام کے بارے میں بولتے سنا تھا۔
”تم جوائن کرو گے نا سول سروس ، تو پھر تم چینج لانا، ان چیزوں میں جن پر تمہیں اعتراض ہے۔”
نانو نے اس سے کہا تھا۔
وہ یک دم کھلکھلا کر ہنسنے لگا۔
”آپ بھی بہت عجیب باتیں کرتی ہیں ، گرینی!
”آپ کا کیا خیال ہے کہ میں سول سروس یہ سب ٹھیک کرنے کے لئے جوائن کر رہا ہوں۔ مجھے سوشل ورک کا کوئی شوق نہیں ہے، اور ویسے بھی ایک آدمی کوئی تبدیلی نہیں لاسکتا۔ میں بدلنا چاہوں بھی تو نہیں بدل سکتا۔ یہاں ہر چیز اتنی Rotten (خستہ) اور Rusted(پھپھوندی زدہ) ہے کہ جب تک اگر آپ ایک چیز ٹھیک کریں گے تو پہلے والی اس حالت میں آجاتی ہے۔ ویسے گرینی ! آپ نے کبھی اپنے بیٹوں کوکیوں نہیں کہا۔ آپ کے تو سارے بیٹے سول سروس میں ہیں۔ میری جنریشن کے لئے ریفارم کرنا خاصا مشکل کام ہے۔ مگر مجھ سے پہلے کی جنریشن یہ کام آسانی سے کر سکتی تھی۔ تب لوگ اتنے بگڑے ہوئے نہیں تھے،انہیں کنٹرول کرنا بہت آسان تھا۔”
وہ اب سنجیدہ ہو گیا تھا۔
”جب تمہارے پاپا اور انکلز نے سول سروس جوائن کی تھی تو میں نے انہیں بھی بہت سی نصیحتیں کی تھیں۔ صرف میں نے ہی نہیں بلکہ تمہارے دادا نے بھی۔ میں آج تک حیران ہوں کہ وہ چاروں ، ان ساری نصیحتوں کو کیسے بھول گئے۔ مجھے نہیں پتہ ان چاروں کو زندگی میں کیا چاہئے تھا۔ میں نے اور معاذ نے انہیں دنیا کی ہر چیز دی تھی ہمارے پاس وہ سب کچھ تھا جو ایک خوشحال زندگی گزارنے کے لئے کافی تھا۔ میرا خیال تھا کہ ان چاروں کو ان چیزوں کے پیچھے بھاگنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر میرا خیال غلط تھا۔ ان چاروں کو اپنی زندگی میں ہر چیز ایک کی تعداد میں نہیں بلکہ درجنوں کی تعداد میں چاہئے تھی۔ جب ذہن میں یہ سب کچھ ہو تو نصیحت الٹا اثر کرتی ہے۔ ان کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے ۔ میں نے جتنا انہیں سمجھانے کی کوشش کی ، وہ ……!”
عمر نے ان کی بات سنتے سنتے بات کاٹی۔
”اس سے ایک بات تو ثابت ہو جاتی ہے کہ گرینی! آپ کی باتوں میں اثر نہیں تھا یا پھر شاید آپ کے سمجھانے کا طریقہ غلط تھا۔ وجہ جو بھی ہو ، بہرحال اب تو سب کچھ جیسا ہو رہا ہے ہونے دیں۔ چیزوں کو اب بدلنا ناممکن ہے اور ناممکن کام کرنے کے لئے جن لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے ویسے لوگ ہماری قوم میں نہیں ہیں۔ میں تو فارن سروس جوائن کرنے کے بعد ڈیڈی کی طرح عیش کرنا چاہتا ہوں، ویسی زندگی گزارنا چاہتا ہوں جیسی وہ گزار رہے ہیں۔ دیکھیں، بات کہاں سے کہاں چلی گئی،میں آپ سے پلانٹس کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔”
اس نے بات کا موضوع بدل دیا تھا۔ علیزہ بڑی بے زاری سے یہ ساری گفتگو سن رہی تھی۔
”میں ذرا ان پلانٹس کولگوا لوں۔ گرینی! آپ چلیں گی میرے ساتھ باہر لان میں؟”
اس نے دادو کو انوائٹ کیاتھا۔




Loading

Read Previous

عکس — قسط نمبر ۱۶ (آخری قسط)

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۲

4 Comments

  • Want to read umeera ahmad books

  • Masha Allah it was an absolute pleasure to reread it I remember i have read this novel only once in my lifetime that too some 10 years before
    Umer Jahangir is a lovely character. Feels like he is so caring towards Alizey but i don’t understand is Alizey intentionally destroying his favourite things but why

  • Ye link open nhi horaha

  • Missing umera Ahmed⁩ s novel s

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!