امربیل — قسط نمبر ۱

” گڈ تمہارے اور میرے درمیان یہ دوسری کامن چیز ہے۔ پھر توتمہیں شینل 5کے بجائے212 Men دینا چاہئے تھا۔ ”
اس نے ایک دوسرے پرفیوم کا نام لیتے ہوئے کہا تھا۔
”نہیں مجھے Eternityاور Joy زیادہ پسند ہیں۔ ”
علیزہ نے کچھ جھجکتے ہوئے کہا۔
”اور مجھے Baby Dollاور Ripple”
عمر نے اپنی پسند بتائی تھی ۔ علیزہ کو یک دم اس میں دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔
”عمر اتنا برا نہیں ہے جتنا میں سمجھ رہی تھی۔ وہ اچھا ہے۔ ”
اس نے فوراً نتیجہ اخذ کر لیا تھا۔
”کیا میں یہ پرفیوم دیکھ لوں ؟”




اس نے ہاتھ سے ڈریسنگ کی طرف اشارہ کیا تھا۔
”Sure why not?” (ہاں ، کیوں نہیں۔)
عمر نے دوستانہ انداز میں کہا اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے سے ہٹ گیا تھا۔
وہ بڑے متجسس انداز میں ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھی۔ پرفیومز کا انبار دیکھ کر اس کی سمجھ میں ہی نہیں آ رہا تھا کہ وہ کونسا پرفیوم پہلے اٹھا کر دیکھے۔ اس نے سب سے پہلے سب سے چھوٹی شیشی اٹھائی۔ وہ White Linen تھا۔ وہ باری باری ہر شیشی اٹھا کر دیکھتی رہی۔ کچھ پر فیومز بالکل استعمال نہیں کئے گئے تھے۔
”میں ہر ماہ کچھ اور خریدوں یا نہ خریدوں لیکن پرفیومز ضرورخریدتا ہوں۔ ان کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ ”
وہ پاس کھڑا بتا رہا تھا۔
”لیکن آپ پرفیومز زیادہ استعمال تو نہیں کرتے۔ ”
علیزہ نے ایک پرفیوم ہاتھ میں لیتے ہوئے پوچھا تھا۔
”دن میں نہیں لگاتا، رات میں لگاتا ہوں۔ ”
علیزہ نے اس کے جواب پر کچھ حیرانی سے اسے دیکھا تھا۔
”سونے سے پہلے۔ ”
وہ اس کی حیرانی کی وجہ جیسے جان گیا۔
”کیوں؟”
وہ کچھ اور ہی الجھی تھی۔
”دن کے وقت آپ اتنے بہت سے کاموں میں مصروف ہوتے ہیں کہ پرفیوم انجوائے نہیں کر سکتے۔ ہمارا دھیان دوسری چیزوں کی طرف ہوتا ہے۔ ہاں رات کو آپ کسی بھی پرفیوم کی مہک کو بہت اچھی طرح انجوائے کر سکتے ہیں۔ کیونکہ آپ کسی بھی مہک کو اچھی طرح محسوس کر سکتے ہیں۔اس وقت senses بہت شارپ ہوتی ہیں۔ ”
علیزہ نے بہت توجہ سے اس کی فلاسفی سنی اب وہ اسے خود کچھ پرفیوم دکھا رہا تھا۔ پھر اس نے ایک چھوٹی سی بوتل اٹھائی تھی۔ اس کی طرف وہ بوتل بڑھاتے ہوئے اس نے کہا تھا” یہ Enigmaہے۔ اس ٹیبل پر سب سے قیمتی چیز Extracted Essence ہے۔ یہ پاپا نے گفٹ کیا تھا، ورنہ میں اسے افورڈ نہیں کر سکتا۔ بہت احتیاط سے میں اسے استعمال کرتا ہوں تاکہ یہ جلدی ختم نہ ہو۔ ”
علیزہ کی توجہ اس شیشی پر مرکوز تھی۔ اسے ہاتھ میں لے کر اس نے خوشبو کو محسوس کرنے کی کوشش کی تھی۔ سانس اندر کھینچتے ہی اس نے اپنے اندر ایک عجیب سی تازگی محسوس کی۔
”Exotic” علیزہ نے بے اختیار کہا تھا۔
اس کے ریمارکس پر عمر کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی تھی۔ علیزہ نے ایک دو بار سونگھنے کے بعد اس چھوٹی سی شیشی بند کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ نہیں جانتی کیا ہوا تھا مگر شیشی ایک دم اس کے ہاتھوں سے نکل گئی تھی، اس کے ہاتھ میں صرف ڈھکن رہ گیا تھا۔ ایک ثانیے میں شیشی ڈریسنگ ٹیبل پہ گری اور پھر وہاں سے اچھل کر نیچے کارپٹ پرگری۔ علیزہ نے بے اختیار اسے پکرنے کی کوشش کی تھی۔ مگر اس کی کوشش کامیاب نہیں ہوئی تھی۔ کمرہ یک دم تیز خوشبو سے بھر گیا۔ علیزہ نے مایوسی سے شیشی اٹھالی تھی ۔ اس میں اب صرف چند قطرے باقی تھے۔ اس نے شرمندگی سے عمر کو سر اٹھا کر دیکھا۔
”پتہ نہیں کیسے…۔” اس کی سمجھ میں نہیں آیا ، وہ بات کیسے مکمل کرے۔
وہ چند لمحے خاموشی سے اسے چہرہ دیکھتا رہا ، اور پھر اس نے سکون سے ہاتھ بڑھا کر اس سے شیشی اور ڈھکن لے لیا تھا۔
”it’s alright.”
” یہ قیمتی تھا مگر میرا فیورٹ نہیں۔ ”
علیزہ اس کی اس بات پر ایک دم اضطراب کا شکا ر ہو گئی تھی۔
”I am sorry، میری وجہ سے۔۔۔۔۔!”
اس نے کچھ کہنے کی کوشش کی تھی مگر عمر کی حرکت نے اسے ہکا بکا کر دیا تھا۔ اس نے ڈریسنگ ٹیبل سے ایک اور پرفیوم اٹھایا اور دیوار پرکھینچ مارا۔ شیشی ٹوٹتے ہی کمرہ ایک بار پھر تیز خوشبو سے بھر گیاتھا۔
”چیزیں ٹوٹنے کے لئے ہی ہوتی ہیں ،اور بعض دفعہ تو چیزیں توڑنے میں مزہ آتا ہے۔ ہے نا علیزہ! آؤ ایک ایک پرفیوم اور توڑیں۔ ”
اس نے پرسکون انداز میں کہتے ہوئے ڈریسنگ ٹیبل سے دو پرفیوم اٹھا لئے اور ایک اس کی طرف بڑھا دیا۔ وہ جیسے کرنٹ کھاکر پیچھے ہٹی تھی۔ اس کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔
”آپ بہت عجیب ہیں۔ ”
اس نے کچھ بے چین ہو کر عمر سے کہا تھا۔
”اس کو میں کیا سمجھوں، complimentیا Comment (تعریف یا تبصرہ)
عمر کا اطمینان برقرار تھا۔ وہ یک دم بہت الجھ گئی تھی۔ عمر نے دونوں پرفیوم ایک بار پھر ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ دئیے، اور پھر ایک اور پرفیوم اٹھاکر اس کی طرف بڑھایا Ecstacy یہ میں تب لگاتا ہوں جب خود کو بہت اکیلا محسوس کرتا ہوں۔ ”
اس نے سلسلہ وہیں سے جوڑنے کی کوشش کی تھی ، جہاں سے ٹوٹا تھا۔ علیزہ نے ہاتھ نہیں بڑھایا۔ وہ اب اس کمرے سے بھاگ جانا چاہتی تھی۔ وہاں اس کی ساری دلچسپی یک دم ختم ہو گئی تھی۔
”یہ پرفیوم نہیں دیکھنا چاہتیں؟”
عمر نے بڑے دوستانہ انداز میں پوچھا۔ علیزہ نے نفی میں سر ہلا دیا۔ عمر نے اس کی آنکھوں میں ابھرتی ہوئی نمی کو دیکھ لیا تھا، اور کمال مہارت سے نظر انداز بھی کر دیا تھا۔Chanel 5 کی بوتل اٹھا کر اس نے ڈھکن اتارا تھا اور پھر بڑے آرام سے علیزہ کے بالوں پر اس نے اسپرے کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ بے اختیار ایک قدم پیچھے ہٹی تھی۔ اسے اپنی گردن اوربالوں پر نمی محسوس ہوئی۔
”یہ پرفیوم دنیا کی سب سے اچھی اور precious (مکمل) لڑکیوں کے لئے ہو تا ہے، اور علیزہ میرا خیال ہے ،تم ان لڑکیوں میں شامل ہو۔”
اس نے سائفن کو پریس کرنا چھوڑ دیا۔ ڈھکن بند کرتے ہوئے اس نے ایک بار پھر پرفیوم ٹیبل پر رکھ دیا۔ علیزہ کی سمجھ میں ہی نہیں آیا وہ کس قسم کا رد عمل ظاہر کرے ، عمر بہت عجیب قسم کا تھا۔ اس نے chanel5اٹھا کر باہر نکلنا چاہا تھا۔
”اب تو تم ناراض نہیں ہو نا؟”
علیزہ نے اپنے پیچھے عمر کی آواز سنی تھی۔ اس نے مڑ کر عمر کودیکھا تھا۔ وہ وہیں ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا۔
علیزہ نے کچھ کہنے کی بجائے صرف سر ہلا دیا۔ عمر کی مسکراہٹ کی دلکشی میں اضافہ ہو گیا تھا۔
“So Aleezah we are friends, and true friends are friends for ever.”
(تو علیزہ ہم دوست ہیں اور سچے دوست ہمیشہ دوست رہتے ہیں۔)
علیزہ نے اسے کہتے ہوئے سنا تھا۔ اس کے چہرے پر بھی ایک مسکراہٹ نمودار ہو گئی تھی۔




Loading

Read Previous

عکس — قسط نمبر ۱۶ (آخری قسط)

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۲

4 Comments

  • Want to read umeera ahmad books

  • Masha Allah it was an absolute pleasure to reread it I remember i have read this novel only once in my lifetime that too some 10 years before
    Umer Jahangir is a lovely character. Feels like he is so caring towards Alizey but i don’t understand is Alizey intentionally destroying his favourite things but why

  • Ye link open nhi horaha

  • Missing umera Ahmed⁩ s novel s

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!