امربیل — قسط نمبر ۱

علیزہ اس کے سوال سے زیادہ مسکراہٹ سے گڑ بڑائی تھی۔
”ایسے سوال کی کیا تک بنتی ہے؟”
اس نے عمر جہانگیر کے چہرے سے نظر ہٹاتے ہوئے کچھ جھینپ کر کہا تھا۔
”مجھے کیا پتہ کون سا کلر اچھا لگتا ہے؟”
وہ ہاتھ سے سامنے رکھے ہوئے پلانٹس کو سنوارنے لگی تھی۔
”اوہ……میں نے سوچا ، شاید یہ کلر بہت سوٹ کر رہا ہے۔ اس لئے تم اتنی دیر سے اور اتنے غور سے میرا چہرہ دیکھ رہی ہو۔”
علیزہ نے عمر کے چہرے کو دیکھا تھا ، جس پر مایوسی چھا ئی ہو ئی تھی۔ اسے ان تاثرات کے اصلی یا نقلی ہونے کو شناخت کرنے میں دیر نہیں لگی تھی۔ وہ اب پھر اطمینان کے ساتھ پلانٹس کے ساتھ مصروف تھا۔
”مجھے کیا ضرورت ہے کہ میں آپ کو ”غور” سے دیکھوں۔ میں آپ کو صرف ”دیکھ” رہی تھی۔”
اس نے سرخ ہوتے ہوئے چہرے کے ساتھ وضاحت کی تھی۔




”اور کافی دیر سے بھی تو دیکھ رہی تھیں۔” ”دیرسے اس لئے دیکھ رہی تھی کیونکہ آپ بات کر رہے تھے۔” اس نے جیسے احتجاجاً کہا تھا۔
”اچھا سوری مجھے ایسے ہی غلط فہمی ہو گئی۔ اصل میں لیو(اسد) ہوں نا اس لئے مجھے ایسی غلط فہمیاں اکثر ہوتی ہی رہتی ہیں۔”
اس نے بڑے دوستانہ انداز میں معذرت کرتے ہوئے ، وضاحت کی تھی۔ مگر اس بار علیزہ نے اسے نہیں دیکھا تھا۔ وہ ناگواری سے اپنے سامنے پڑے ہوئے پلانٹس کو دیکھتی رہی تھی۔ وہ خاموش ہو گیاتھا۔ اس نے قینچی اٹھا کراسے کن اَکھیوں سے دیکھا ، وہ کدال کے ساتھ مٹی نرم کر رہا تھا۔
علیزہ نے کپکپاتے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ اپنے سامنے پڑے ہوئے پودے کی ایک بڑی شاخ کاٹ دی تھی۔ سر اٹھا کر اس نے ایک بار پھر عمر کی طرف دیکھا تھا، اور دھک سے رہ گئی تھی۔ وہ اسی کی طرف متوجہ تھا۔ بہت غور سے اسے دیکھتے ہوئے اس کا اپنا چہرہ بالکل بے تاثر تھا۔ وہ اندازہ نہیں کر پائی۔ کہ وہ کس وقت اس کی طرف کب متوجہ ہوا تھا، اور کیا اس نے دیکھ لیا تھا کہ وہ۔۔۔۔”
”سوری……پتہ نہیں یہ کیسے کٹ گئی، میں تو بڑی احتیاط سے انہیں کاٹ رہی تھی۔”
اس نے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہاتھا۔ اپنی بات کے جواب میں اس نے عمر جہانگیر کے چہرے پر ایک خوبصورت مسکراہٹ ابھرتے دیکھی تھی۔
”کوئی بات نہیں، ایسا ہو جاتا ہے۔ تم دیکھنا ، اب یہ بہت تیزی سے بڑھے گا اورپہلے سے زیادہ خوبصورت ہو جائے گا۔ مجھ سے جب بھی کوئی پلانٹ اس طرح کٹتا ہے تو وہ پہلے سے بھی زیادہ اچھا ہو جاتا ہے۔”
اس نے عجیب سی منطق پیش کی تھی۔ وہ اس کی اس حرکت سے بالکل متاثر نہیں ہوا تھا۔ وہ دم سادھے ، ہونٹ بھینچے چند لمحوں تک دیکھتی رہی ، وہ ایک بارپھر پلانٹس کی طرف متوجہ ہو چکا تھا پھر ایک دم وہ اٹھ کر اند ربھاگتی چلی گئی تھی۔
عمر جہانگیر نے پر سکون انداز میں سر اٹھا کر اسے بھاگتے ہوئے اندر جاتے ہوئے دیکھا تھا، پھر اس نے اس پودے کی کٹی ہوئی شاخ کو اٹھا لیاتھا۔ لاؤنج میں داخل ہونے سے پہلے اس نے مڑ کر ایک بار پیچھے دیکھا تھا تو عمر پودے کی اس کٹی ہوئی شاخ کو اٹھا رہا تھا۔ وہ غیر ارادی طور سے دروازہ میں رک گئی۔ وہ کچھ دیر تک اس شاخ پر ہاتھ پھیرتا رہاتھا۔ وہ دور سے اس کے تاثرات نہیں دیکھ پائی تھی۔ مگر دلچسپی سے اسے دیکھتی رہی۔ چند لمحوں کے بعد اس نے اسے اس شاخ کو پودے کے پاٹ میں گاڑتے دیکھاتھا۔ وہ کچھ حیران ہوتی ہوئی اندر آگئی تھی۔




Loading

Read Previous

عکس — قسط نمبر ۱۶ (آخری قسط)

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۲

4 Comments

  • Want to read umeera ahmad books

  • Masha Allah it was an absolute pleasure to reread it I remember i have read this novel only once in my lifetime that too some 10 years before
    Umer Jahangir is a lovely character. Feels like he is so caring towards Alizey but i don’t understand is Alizey intentionally destroying his favourite things but why

  • Ye link open nhi horaha

  • Missing umera Ahmed⁩ s novel s

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!