امربیل — قسط نمبر ۱

نانو بہت سنجیدہ مزاج تھیں۔ وہ بہت زیادہ نہیں بولتی تھیں۔ مگر جب سے عمر آیا تھا سب کچھ بدل گیا تھا۔ وہ اب اکثر قہقہہ لگانے لگی تھیں عمر بہت باتونی تھا، اور اس کی حس مزاح بہت اچھی تھی۔ وہ ہر وقت کوئی نہ کوئی بات ضرور کر دیتا تھا جو ان کو قہقہہ لگا نے پر مجبور کر دیتی تھی۔ نانو عام دنوں میں صرف ضرورت کے وقت ہی بولتی تھیں، لیکن جن دنوں ان کے بچوں میں سے کوئی ان کے پاس رہنے آتا تو پھر ان دنوں وہ بہت خوش پھرا کرتی تھیں۔ مگر عمرکی آمد نے تو جیسے اس خوشی کو دوبالا کر دیا تھا۔ کسی اور کے آنے پر نانو اور نانا میں اتنی تبدیلیاں کبھی نہیں آئی تھیں ، جتنی عمر کے آ نے پر آ گئی تھیں۔




اس وقت بھی نانو کا موڈ ہی دیکھ رہی تھی۔ نانو اب عمر کی باتوں پر بے تحاشا ہنس رہی تھیں۔ وہ انہیں اپنے کسی دوست کا قصہ سنا رہا تھا۔ علیزہ کا دھیان کہیں اور ہی تھا۔
”کیا میری کسی بات پر نانو اس طرح سے ہنس سکتی ہیں؟”
اس نے سوچنے کی کوشش کی تھی اور مایوسی سے غیر محسوس انداز میں سر کو جھٹک دیا تھا۔
”نہیں ،میری کسی بات پر تو یہ کبھی اس طرح نہیں ہنس سکتیں۔ بلکہ یہ تو مجھے بھی یہی کہتی ہیں کہ میں بھی بلند آواز میں نہ ہنسوں۔”
اس نے سوچا تھا۔
”کیا میں کبھی عمر کی طرح……!”
ایک بار پھر اس نے سوچنے کی کوشش کی تھی۔ ایک بار پھر اس کے خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیاتھا۔
”علیزہ ! تمہارے کتنے فرینڈز ہیں؟”
عمر نے اس سے پوچھا تھا۔
”کتنے؟”
وہ اس کے سوال پر کچھ حیران ہوئی تھی۔ چند لمحے تک اس نے کچھ جواب نہیں دیا۔
”جلدی گنتی کرو اور مجھے بتاؤ۔”
عمر نے اس کی خاموشی سے خود ہی نتیجہ اخذ کر لیاتھا۔
”کیا گنتی کروں؟”
وہ کچھ اور حیران ہوئی تھی ۔
”بھئی فرینڈز اور کیا۔”
عمر نے کہا تھا۔
”میری صرف ایک فرینڈ ہے۔”
”I can’t believe it! لڑکیوں کی کم از کم ایک دوست تو نہیں ہو سکتی۔”
عمر کو اس کی بات پر یقین نہیں آیا تھا، اور علیزہ اس کے چہرے کے تاثرات سے جھنجلا گئی تھی۔
”یار!لڑکیاں لڑکوں سے زیادہ سوشل ہوتی ہیں، اور ظاہر ہے پھر فرینڈز تو بننا ہی ہوتے ہیں۔”
عمر کو فوراً ہی اس کی خفگی کا اندازہ ہو گیا۔ اس نے سنبھل کر ایک لاجک پیش کی۔
”میں بہت زیادہ سوشل نہیں ہوں۔”
اس نے جیسے جتایاتھا۔
”But you should be.”، (لیکن تمہیں ہونا چاہئے)کیوں گرینی! میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔”
عمر نے بات کرتے کرتے دادو کی طرف دیکھا۔ وہ یکدم چپ سی ہو گئی تھیں۔
”نہیں عمر! لڑکیوں کے لئے زیادہ سوشل ہونا بھی ٹھیک نہیں ہے۔ آج کل پتہ ہی نہیں ہو تا دوسرے لوگ کس طرح کے ہوں۔”
نانو نے کچھ محتاط ہو کر توجیہہ پیش کی۔
”What do you mean?”
وہ کچھ حیران ہو گیا تھا۔
”کچھ نہیں، بس ویسے ہی……اصل میں علیزہ کو زیادہ لوگوں میں مکس اپ ہونا اچھا نہیں لگتا۔”
نانونے بات کچھ بدلنے کی کوشش کی تھی ۔
”نہیں مگر ایک دوست تو بہت کم ہے۔”
وہ اب بھی حیران تھا،علیزہ کو اپنا آپ اس طرح سے زیر بحث لانا اچھا نہیں لگا تھا۔
”ہر ایک کی اپنی چوائس ہو تی ہے،مجھے اچھا لگتا ہے کہ میری بس ایک ہی فرینڈ ہو ،تو اس میں عجیب بات کون سی ہے؟”
اس بار علیزہ نے روکھے انداز میں عمر سے کہا تھا۔ وہ اس کی بات کے جواب میں کچھ کہتے کہتے رک گیا تھا۔ شاید وہ اس تاثرات سے اس کی اندرونی کیفیات سمجھ گیا تھا۔ علیزہ کو اچانک اپنے لہجے کے کھردرے پن کا احساس ہوا تھا اسے کچھ ندامت سی محسوس ہوئی۔
”ابھی ابھی اس نے مجھے اتنا قیمتی پرفیوم دیا ہے اور میں پھر بھی اس کے ساتھ اس طرح کر رہی ہوں۔”
اس نے جیسے اپنے آپ کو یاد دہانی کروانے کی کوشش کی تھی۔
”میری فرینڈ بہت اچھی ہے۔ وہ اسکول سے میری فرینڈ ہے ،اس کے علاوہ اور کوئی مجھے اچھا نہیں لگا، بس اسی لئے یہی میری ایک ہی فرینڈ ہے۔”
اس نے جیسے عمر کی تشفی کرنے کی کوشش کی اس بار اس کا لہجہ کمزور تھا۔




Loading

Read Previous

عکس — قسط نمبر ۱۶ (آخری قسط)

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۲

4 Comments

  • Want to read umeera ahmad books

  • Masha Allah it was an absolute pleasure to reread it I remember i have read this novel only once in my lifetime that too some 10 years before
    Umer Jahangir is a lovely character. Feels like he is so caring towards Alizey but i don’t understand is Alizey intentionally destroying his favourite things but why

  • Ye link open nhi horaha

  • Missing umera Ahmed⁩ s novel s

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!