امربیل — قسط نمبر ۱۰

اب دروازے پر ٹھوکریں ماری جار ہی تھیں۔ وہ گالیوں کی آوازیں سن رہی تھی۔ علیزہ گھٹی ہوئی آواز میں رو رہی تھی۔
”علیزہ… ! علیزہ…! فون بند مت کرنا۔ ہم کال ٹریس کرواتے ہیں۔ دیکھو گھبرانا مت۔” وہ شہلا کی آواز سن رہی تھی۔ وہ بھی اب رو رہی تھی۔
”علیزہ…! علیزہ…! ” اس نے ریسیور پر اب شہلا کے بھائی فاروق کی آواز سنی۔
”فاروق…! دروازہ ٹوٹنے والا ہے۔ وہ اندر آجائیں گے، وہ ابھی اندر آجائیں گے۔ ” وہ یک دم بلند آواز میں چلا اٹھی۔ دروازہ اب واقعی اتنی بری طرح دھڑدھڑایا جا رہا تھا کہ یوں لگتا تھا وہ کسی بھی لمحے ٹوٹ کر نیچے گر پڑے گا۔
”علیزہ کمرے میں باتھ روم دیکھو… وہاں اگر باتھ روم ہے تو اس کے اندر جا کر دروازہ بند کر لو اور کمرے کی لائٹ آف کر دینا۔ فون اگر باتھ روم کے اندر لے جا سکتی ہو تو لے جاؤ اگر تار لمبی نہیں ہے تو پھرفون اٹھا کر بیڈ کے پیچھے چھپا دو مگر فون بند مت کرنا۔” فاروق بلند آواز میں اسے ہدایات دینے لگا۔
”ہم کال ٹریس کر لیتے ہیں۔ ہم ابھی تم تک پہنچ جائیں گے۔ گھبرانا مت… رو ؤ مت۔”
”مجھے ایک دروازہ نظر آرہا ہے۔ وہ باتھ روم کا ہی ہو گا۔”




”تم وہاں چلی جاؤ… اور اندر جا کر دیکھو، وہاں کوئی ایسی چیز ہے جسے تم اپنے دفاع کے لئے استعمال کر سکتی ہو اور مجھے یہ بتاؤ تم جس گھر کے اندر گئی ہو کیا گاڑی لے کر گئی ہو۔”
”ہاں۔” دروازے پر کوئی چیز ماری گئی تھی۔ علیزہ کے ہاتھ سے ریسیور گر پڑا۔ دروازہ بری طرح ہلا تھا۔ وہ بھاگتے ہوئے باتھ روم کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی اور بولٹ چڑھا لیا۔
باتھ روم میں ایک نظر دوڑاتے ہی اسے اپنے بالکل سامنے ایک اور دروازہ نظر آیا۔ وہ باتھ روم یقیناً دو کمروں کے درمیان تھا اور وہ کمرہ وہی تھا جسے اس نے سب سے پہلے کھولنے کی کوشش کی تھی مگر وہ بند تھا۔ اس نے برق رفتاری سے وہ دروازہ کھولا اور اس کے حلق سے چیخ نکلی۔
کمرے میں سولہ سترہ سالہ ایک لڑکا نائٹ ڈریس میں اس کے بالکل سامنے کھڑا تھا۔ وہ بھی اسے دیکھ کر بے حد خوفزدہ ہو گیا۔ کمرے میں نائٹ بلب جلا ہوا تھا اور باتھ روم کے کھلے دروازے کی روشنی نے صرف اتنی جگہ کو روشن کیا تھا جہاں وہ کھڑا تھا۔
”آپ کون ہیں اور یہاں کیوں آئی ہیں؟” علیزہ کو فوراً اندازہ ہو گیا کہ وہ اس گھر کا ایک فرد ہے اور یقیناً وہ کچھ دیر پہلے ہی اپنے دروازے پر پڑنے والی ٹھوکروں سے خوفزدہ ہو کر اٹھا ہو گا مگر اس نے دروازہ کھولنے کی ہمت نہیں کی اور پھر شاید باتھ روم میں ہونے والا شور سن کر وہ ادھر آیا ہو گا مگر اسی لمحے علیزہ اس باتھ روم سے باہر نکل آئی۔
علیزہ نے مڑ کر باتھ روم کے اس درواز ے کو بھی بند کر دیا۔ ”پلیز میری مدد کرو… یہ لوگ مجھے پکڑنا چاہتے ہیں۔ وہ اس کمرے کا دروازہ توڑ رہے ہیں اور اس کے بعد وہ اس باتھ روم کے دروازے کو توڑ کر یہاں آجائیں گے۔” وہ اندھیرے میں اس لڑکے کے سامنے روتے ہوئے گڑگڑائی۔
”میرے پاپا اور ممی ٹھیک ہیں…؟” اس لڑکے نے اس سے پوچھا۔
”ہاں وہ ٹھیک ہوں گے، ان لڑکوں کے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہے۔ انہوں نے انہیں نقصان نہیں پہنچایا ہو گا۔ یہ صرف مجھے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔” وہ اب بری طرح رو رہی تھی۔
”میرے پاس موبائل ہے میں نے پولیس کو فون کیا ہے۔۔۔” وہ لڑکا بات کرتے کرتے رک گیا۔ ایک دھماکے کی آواز آئی تھی۔ برابر والے کمرے کا دروازہ یقیناً ٹوٹ گیا تھا۔ وہ دونوں خوفزدہ ہو کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ باتھ روم کا دروازہ اب دھڑدھڑایا جانے لگا تھا۔
”پلیز مجھے کہیں چھپا دو…وہ لوگ یہ دروازہ بھی توڑ دیں گے۔” وہ پوری طرح وحشت زدہ ہو چکی تھی۔
”میرے کمرے کی کھڑکیاں پورچ کی چھت پر کھلتی ہیں، آپ وہاں اتر جائیں اور لیٹ جائیں۔ اندھیرے میں آپ نظر نہیں آئیں گی یا آپ وہاں سے نیچے لان میں اتر سکیں تو… مگر پتا نہیں یہ کتنے لوگ ہیں اگر نیچے کوئی ہوا۔ نہیں آپ بس پورچ کی چھت پر اتر کر وہاں چھپ جائیں۔ اگر یہ لوگ میرا دروازہ دھڑدھڑانا بند نہ کر دیتے تو میں بھی وہیں چھپتا۔ یہ لوگ ابھی دروازہ توڑنے میں بہت وقت لیں گے۔ ہو سکتا ہے تب تک پولیس آجائے۔ اگر پولیس نہیں بھی آئی تب بھی میں ان لوگوں سے یہی کہوں گا کہ آپ میرے کمرے میں آئی تھیں اور پھر میرے کمرے کا دروازہ کھول کر چلی گئیں۔” اس لڑکے نے تیزی سے کھڑکیاں کھولتے ہوئے کہا۔
”اس نمبر پر رنگ کرکے اپنے گھر کا ایڈریس بتاؤ۔” علیزہ نے کھڑکی پر چڑھتے ہوئے اسے شہلا اور نانو کے نمبر بتائے اور لڑکے نے سر ہلا دیا۔
وہ بڑی احتیاط اور خاموشی سے پورچ کی چھت پر اتر گئی۔ اس نے اپنے پیچھے کھڑکیوں کو دوبارہ بند ہوتے دیکھا۔ گھر کا گیٹ اب بند تھا۔ علیزہ کا دل بیٹھنے لگا، باہر چوکیدار نظر نہیں آرہا تھا۔ بالکل خاموشی تھی۔ وہ پورچ کی چھت سے نیچے اترنا چاہتی تھی مگر ہمت نہیں کر سکی۔لان کی تمام لائٹس آن تھیں اور پورچ بھی روشن تھا۔ کوئی بھی اسے نیچے اترتے دیکھ لیتا تو… وہ نہیں جانتی تھی وہ چاروں اندر تھے یا پھر ان میں سے کوئی باہر بھی تھا۔وہ پورچ کی چھت کے سب سے تاریک کونے میں جا کر بیٹھ گئی اور تب ہی اس نے کمرے کو روشن ہوتے دیکھا جس کی کھڑکیوں سے وہ اتری تھی، یقیناً وہ لوگ اب وہاں تھے اور اگر ان میں سے کسی نے کھڑکیوں کے پردے ہٹا دیئے تو… وہ فوراً جان جاتے کہ کھڑکیوں میں کوئی گرل نہیں تھی اور اس کے ذریعے نیچے اترا جا سکتا تھا۔ اس کا پورا جسم خوف سے کانپ رہا تھا۔ وہ دم سادھے وہیں بیٹھی رہی۔
اور پھر اچانک اس نے دور کہیں پولیس سائرن کی آواز سنی۔ اس کا ر کا ہوا سانس یک دم بحال ہونے لگا۔ اسے اندازہ تھا کہ سائرن کی آواز گھر کے اندر بھی جا رہی ہوں گی، اور وہ چاروں لڑکے اب وہاں نہیں ٹھہریں گے۔ پھر اچانک اسے احساس ہوا کہ سائرن کی صرف ایک آواز نہیں ہے۔ ایک سے زیادہ پولیس کی گاڑیاں سائرن بجا رہی تھیں۔ اس نے یک دم نیچے پورچ میں دروازہ کھلنے اور کچھ بھاری قدموں کی آواز یں سنیں۔ پھر اس نے ایک لڑکے کو بھاگ کر گیٹ کی جانب جاتے ہوئے دیکھا۔ وہ پورچ کی چھت پر سر نیچے کر کے لیٹ گئی۔
نیچے پورچ میں کوئی گاڑی اسٹارٹ ہو رہی تھی۔ پھر اس نے ایک گاڑی کے دروازے کی آواز سنی۔ اس نے پھر بھی گردن نہیں اٹھائی۔ وہ وہیں گہرے سانس لیتے ہوئے لیٹی رہی۔
پورچ میں اب یک دم کچھ اور آوازیں آنے لگی تھیں۔ اس نے ایک عورت کی آواز سنی۔ علیزہ جان گئی کہ گھر کے افراد باہر نکل آئے تھے۔ وہ چاروں لڑکے یقیناً وہاں سے جا چکے تھے۔ علیزہ اب بھی اٹھنے کی ہمت نہیں کر پائی۔ اسے اپنا وجود بے جان لگ رہا تھا۔ اسے کچھ دیر پہلے کے واقعات پر یقین نہیں آرہا تھا۔ پہلی بار اسے اپنے جبڑے اور ہاتھ میں تکلیف کا احساس ہونے لگا۔
علیزہ نے آہستہ آہستہ اٹھنے کی کوشش کی۔ اٹھ کر بیٹھنے کے بعد اس نے اپنے گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹ کر منہ چھپا لیا۔ سائرن کی آوازیں اب بہت قریب آتی جا رہی تھیں۔ وہ شاک کے عالم میں چہرہ گھٹنوں میں چھپائے ہوئے بیٹھی رہی۔
اگلے دس منٹوں میں اس نے اس گھر کے بالکل سامنے پولیس کی ایک موبائل رکتے ہوئے دیکھی۔ سائرن کی آواز کانوں کو پھاڑ رہی تھی۔ علیزہ نے ایک نظر اس گاڑی پرڈالی اور پھر گردن دوبارہ اپنے گھٹنوں میں پھنسالی۔
سائرن کی آواز اب بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ بہت ساری گاڑیوں کے ٹائروں کی آوازیں سن سکتی تھی۔ مگر وہ گردن نہیں اٹھا پا رہی تھی۔
”آپ ٹھیک ہیں؟” اس نے اچانک اپنے قریب ایک آواز سنی۔ علیزہ نے سر اٹھایا۔ اس کے سامنے پورچ کی چھت پر وہی سولہ سترہ سالہ لڑکا کھڑا تھا۔ مگر اب اس کے ساتھ تیرہ چودہ سالہ ایک اور لڑکا بھی تھا۔ وہ یقیناً ان ہی دو کھلی کھڑکیوں سے کود کر آئے تھے۔
”وہ لوگ چلے گئے ہیں… پولیس آگئی ہے۔ خطرے والی کوئی بات نہیں۔ میرے ممی ، پاپا اور بہن بھائی بالکل ٹھیک ہیں۔ ” وہ بڑی خوشی کے ساتھ اسے بتا رہا تھا۔
وہ مسکرانا چاہتی تھی مگر اسے احساس ہوا کہ وہ مسکرا نہیں سکتی۔ وہ کچھ بھی نہیں کر سکتی۔ وہ صرف اس کا چہرہ دیکھتی رہی اور پھر اس نے گردن موڑ کر باہر سڑک دیکھی۔ گیٹ ایک بار پھر کھلا ہوا تھا اورسڑک پولیس کی گاڑیوں سے بھری ہوئی تھی۔ سائرن اب آہستہ آہستہ بند ہو رہے تھے۔ وہ گیٹ کے اندر اور باہر پولیس کی یونیفارم میں ملبوس بہت سے لوگوں کو دیکھ سکتی تھی۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۸

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!