امربیل — قسط نمبر ۱۰

”میں اس کے ڈرائیور کے ساتھ کیوں نہیں آئی یا اپنی گاڑی وہاں چھوڑ کر میں اس کی گاڑی لے آتی۔ کم از کم یہ لوگ گاڑی کو اتنی جلدی نہ پہچان لیتے۔ ” وہ خود کو کوس رہی تھی۔
ایک ذیلی سڑک سے دوسری ذیلی سڑک پر مڑتے ہوئے اسے احساس ہو رہا تھا کہ وہ بری طرح اس علاقے میں پھنس چکی ہے۔ وہ یہ تک نہیں پہچان پا رہی تھی کہ وہ کس سڑک پر ہے۔ اسے یہ بھی خوف تھا کہ گاڑی کی ٹنکی میں زیادہ پیٹرول نہیں تھا اور گاڑی کبھی بھی بند ہو سکتی تھی یا اس طرح چکر لگاتے لگاتے اس کا ٹائر فلیٹ ہو جاتا تو…
”مجھے کسی گھر کے اندر داخل ہوجانا چاہئے… کسی بھی گھر کے اندر… اور پھر ان سے مدد لینی چاہئے۔” اس نے یک دم فیصلہ کر لیا۔ علیزہ نے کارچلاتے ہوئے اب گھرو ں کے گیٹ دیکھنے شروع کر دیئے اور پھر ایک موڑ ہوئے وہ گاڑی ایک گھر کے کھلے گیٹ کے اندر لے گئی۔
وہ گاڑی روکے بغیر سیدھا پورچ میں لے گئی اور وہاں کھڑی گاڑی کے پیچھے اسے روک دیا۔ اس نے اپنے پیچھے گیٹ کی طرف سے آتے ہوئے چوکیدار کو چلاتے سنا۔
علیزہ نے برق رفتاری سے کار کا دروازہ کھولا اور نیچے اتر آئی۔ ” گیٹ بند کر دو۔” اس نے چلا کر چوکیدار سے کہا۔ مگر وہ اس کی طرف آتا رہا۔ اسے اچانک خوف محسوس ہونے لگا کہ لڑکوں کی گاڑی بھی اسی طرح کھلے گیٹ سے اندر آسکتی ہے۔ اگر انہیں یہ شک ہو گیا کہ یہ اس کا اپنا گھر نہیں ہے تو…
”گیٹ بند کردو… کچھ لوگ میرے پیچھے آرہے ہیں۔” وہ بلند آواز میں چلائی اور تب ہی اسے اندازہ ہوا کہ چوکیدار اس کی بات سن نہیں پا رہا۔ وہ خاصا دور تھا اور مسلسل اس کی طرف آرہا تھا۔




”مجھے خود بھاگ کر گیٹ بند کر دینا چاہئے۔” اس نے سوچا اور ایک قدم بڑھایا اور عین اس وقت اس نے کھلے گیٹ کے سامنے سڑک پر ایک گاڑی کو آہستہ آہستہ رکتے ہوئے دیکھا۔ وہ چاروں گاڑی میں بیٹھے ہوئے گردنیں موڑے اندر کا جائزہ لے رہے تھے اور علیزہ ان کے بالکل سامنے تھی۔ اس نے پلک جھپکتے میں ان کو گاڑی روکتے اور پھر تھوڑا سا پیچھے ہوتے دیکھا اور وہ جان چکی تھی کہ وہ لوگ گاڑی اندر لانے والے ہیں۔
وہ سر پٹ گھر کے اندرونی دروازے کی طرف بھاگی اور اسے کھول کر اندر داخل ہو گئی۔
وہ اس گھر کا لاؤنج تھا۔ علیزہ نے ایک عورت کو چیختے سنا۔ اس نے اس عورت پر توجہ دیئے بغیر پلٹ کر اس دروازے کو بند کیا اور اسے لاک کرنے کی کوشش کرنے لگی۔ اسے ایک پل میں اندازہ ہو گیا کہ وہ دروازہ لاک نہیں ہو سکتا تھا۔ اس کی چابی لاک ہول میں نہیں تھی۔ دروازے پر کوئی چٹخنی بھی نہیں تھی۔
علیزہ نے مڑ کر لاؤنج میں دیکھا۔ وہاں ایک عورت اور مرد حواس باختہ اسے دیکھ رہے تھے۔
”کون ہو تم، اندر کیوں آئی ہو؟” مرد چلایا۔
”پلیز مجھے چھپا لیں۔ میرے پیچھے کچھ لڑکے ہیں، وہ اندر آرہے ہیں۔” وہ ان سیڑھیوں کی طرف بھاگتی ہوئی بولی۔ جو اس نے لاؤنج میں دیکھی تھیں۔ پلک جھپکتے میں وہ سیڑھیوں پر تھی۔
”نہیں، تم ہمارے گھر سے چلی جاؤ۔ نکلو یہاں سے۔” وہ مرد کہہ رہا تھا۔ مگر علیزہ رکی نہیں۔
اس نے باہر کچھ بھاگتے قدموں کی آوازیں سن لی تھیں اور وہ جانتی تھی کہ لاؤنج کا دروازہ کسی بھی وقت کھل سکتا ہے۔
برق رفتاری سے سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے وہ اوپر کی منزل پر آگئی اور ایک کوریڈور میں داخل ہوئی ۔ وہاں کچھ کمروں کے دروازے نظر آرہے تھے۔ اس نے پہلا دروازہ کھولنے کی کوشش کی۔ وہ نہیں کھلا، وہ لاکڈ تھا۔
تب ہی اس نے لاؤنج میں شور سنا۔ وہاں بہت سے لوگوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ مرد اب بلند آواز میں چلا رہا تھا۔ علیزہ بھاگتی ہوئی اگلے دروازے پرپہنچی اور ہینڈل پر ہاتھ رکھ کر دروازہ کھول دیا۔ دوسرے ہی لمحے وہ کمرے کے اندر تھی۔ اس نے پلٹ کر دروازہ بند کر دیا۔ کی ہول میں لگی ہوئی چابی اس نے گھما کر دروازے کو لاک کر دیا اور اس کے بعد اوپر لگا ہوا بولٹ چڑھا دیا۔
وہ ایک بہت بڑا کمرہ تھا اور اس کی لائٹ آن تھی۔ بستر کی سلوٹوں سے محسوس ہو رہا تھا کہ وہاں چند لمحے پہلے کوئی سویا یا لیٹا ہوا تھا مگر اب وہاں کوئی بھی نہیں تھا اور تب ہی اس کی نظر بیڈ سائیڈ ٹیبل پر رکھے ہوئے فون پر پڑی۔ اکھڑے ہوئے سانس اور پسینے سے بھیگے ہوئے وجود کے ساتھ وہ چیل کی طرح فون پر جھپٹی ، اس نے برق رفتاری سے ریسیور اٹھا کر شہلا کا نمبر ملانا شروع کر دیا۔ اسے سیڑھیوں پر کسی کے بھاگتے قدموں کی آواز سنائی دی۔ وہ لوگ یقیناً اب اوپر آرہے تھے۔ اس کا سانس رکنے لگا۔ وہ کسی بھی لمحے اس تک پہنچنے والے تھے بیل ہو رہی تھی مگر کوئی بھی ریسیور نہیں اٹھا رہا تھا۔
”یا اللہ… یااللہ… اللہ کے واسطے فون اٹھاؤ۔” وہ التجائیہ انداز میں بڑبڑانے لگی اور تب ہی دوسری طرف سے ریسیور اٹھا لیا گیا۔
”ہیلو۔” اس نے شہلا کی آواز سنی مگر اس سے پیشتر کہ وہ کچھ بولتی ، اس نے ساتھ والے دروازے پر کسی کو ٹھوکر مارتے سنا اور پھر کوئی بلند آواز میں گالیاں دیتے ہوئے اسے دروازہ کھولنے کے لئے کہنے لگا۔
”شہلا! میں علیزہ ہوں۔” اس نے اکھڑے ہوئے سانس کے ساتھ سرگوشی میں کہا۔ وہ ابھی اس کا دروازہ نہیں بجا رہے تھے اور وہ چاہتی تھی کہ انہیں یہ شک نہ ہو کہ وہ اس کمرے کے بجائے ساتھ والے کمرے میں ہے۔
”علیزہ تم… تم گھر پہنچ گئی ہو؟” شہلا نے دوسری طرف سے اس سے پوچھا۔
”میں گھر نہیں پہنچی ہوں۔”
”کیوں اور تم اتنا آہستہ کیوں بول رہی ہو؟” شہلا کی آواز میں حیرت تھی۔
”شہلا پلیز ! اس وقت کوئی سوال مت کرو صرف میری بات سنو۔ میں مصیبت میں ہوں، وہ لوگ میرے پیچھے آئے تھے۔ میں ایک گھر میں گھس گئی ہوں اور ایک کمرے سے تمہیں فون کر رہی ہوں۔ وہ لوگ بھی اندر آچکے ہیں۔ اور اب ساتھ والے کمرے کا دروازہ کھلوانے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔۔” اسے دوسری طرف سے شہلا کی چیخ سنائی دی۔
”پلیز! پلیز میری مدد کرو… وہ مجھ تک پہنچ جائیں گے۔” علیزہ کی ہمت جواب دے گئی وہ رونے لگی۔
”تم کہاں ہو…؟ کس گھر میں ہو؟”
”مجھے کچھ پتا نہیں… مجھے کچھ بھی پتا نہیں… مگر میں تمہارے ہی علاقے میں ہوں۔ ”
”گھر کا ایڈریس بتا سکتی ہو؟”
”نہیں۔”
”گھر کی کوئی نشانی؟ ”
”نہیں… نہیں۔” وہ گڑگڑائی اور تب ہی اس نے اپنے کمرے کے دروازے کے باہر ایک آواز سنی۔
”مجھے لگتا ہے ، وہ یہاں ہے۔ اس کمرے کی لائٹ آن ہے۔ نیچے جا کر چابیاں لاؤ۔”
”شہلا… شہلا! وہ میرے کمرے تک پہنچ گئے ہیں۔” اس نے روتے ہوئے اسے بتایا۔
”ممی…!ممی…! موبائل سے پولیس کا نمبر ملائیں… ممی! موبائل سے پولیس کا نمبر ملائیں۔” اس نے شہلا کو چلا کر اپنی ممی کو ہدایت دیتے سنا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۸

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!