”تم این جی او جوائن کرنا چاہتی ہو، وہ جوائن کر و۔”
”نہیں۔ میں ابھی این جی او جوائن کرنا نہیں چاہتی میں کچھ عرصہ جرنلزم کے ساتھ ہی منسلک رہنا چاہتی ہوں۔” علیزہ نے فوراً انکار کیا۔
”تو پھر پرابلم کیا ہے کام کرتی رہو۔”
”مگر یہ وہ جرنلزم نہیں ہے جس کے ساتھ میں منسلک ہونا چاہتی ہوں نہ ہی یہ وہ کام ہے جو میں کرنا چاہتی ہوں۔”
”میں نے تم سے کہا ہے۔ کچھ وقت۔۔۔”
”اگر کچھ وقت کے بعد بھی سب کچھ ایسا ہی رہا تو پھر، پھر مجھے افسوس ہو گا کہ میں نے وقت ضائع کیا اور اتنے عرصہ میں یہ بات کرتے رہنے سے شاید میری ساری تخلیقی صلاحیت بھی ختم ہو جائے۔” علیزہ نے شہلا کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”تم یہ کام کرنا بھی چاہتی ہو اور اس سے خوش بھی نہیں ہو۔ ایسا کرتے ہیں۔ ایڈیٹر سے بات کرتے ہیں۔ انہیں کہتے ہیں، ہمیں شوبز نیوز کے بجائے کوئی دوسرا پیچ دے دیں۔” شہلا نے کچھ سوچنے کے بعد کہا۔
”میں میگزین کے بجائے کسی اخبار کے ساتھ کام کرنا چاہتی ہوں۔” علیزہ نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔
”علیزہ ! تمہیں کوئی تجربہ نہیں ہے۔ تجربے کے بغیر کوئی اخبار بھی تمہیں جاب آفر نہیں کرے گا۔ ذرا حقیقت پسندی سے کام لو۔” شہلا نے کہا۔
”میں جانتی ہوں مگر یہ بند کمرے کی جرنلزم میں نہیں کر سکتی۔”
”کیا مطلب؟”
”آفس بیٹھے بٹھائے پورا میگزین تیار ہو جاتا ہے۔ کھانے کی تراکیب سے لے کر کپڑوں کے ڈیزائنز تک اور آرٹیکلز سے لے کر شوبز کی خبروں تک ہر چیز ادھر ادھر سے اٹھا لی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ Celebrities کے انٹرویوز تک ادھر ادھر سے اکٹھے کئے جاتے ہیں۔ کیا یہ جرنلزم ہے؟”
”تم ضرورت سے زیادہ تنقید کر رہی ہو علیزہ۔”
”نہیں ۔ میں ضرورت سے زیادہ تنقید نہیں کر رہی، میں نے ایک ہفتے میں جو دیکھا ہے وہی بتا رہی ہوں اتنا جھوٹ چھاپا جا رہا ہے کہ مجھے حیرت ہوتی ہے جس مقامی آرٹسٹ کے انٹرویوز کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے اس کے بارے میں اپنے پاس سے خبریں گھڑ کر لگا دی جاتی ہیں۔ وہ آرٹسٹ اچھا ہے جو انٹرویوز دینے پر فوراً تیار ہو جائے جو انکار کرے ، وہ برا ہے اس کا پورا ماضی حال اور مستقبل کھود کر رکھ دو۔ اس کی پرسنل لائف کی دھجیاں اڑا دو۔ اس کی دوسری، تیسری چوتھی شادی کی خبریں شائع کر دو۔ اس کے نام نہاد افیئرز کی تفصیلات چھاپنا شروع کر دو اور یہ سب تب تک کرتے رہوجب تک وہ مجبور ہو کر آپ سے رابطہ قائم نہ کر لے۔ کیا یہ جرنلزم ہے؟ ” وہ خاصی دل برداشتہ نظر آرہی تھی۔
”میں نے تم سے کہا ہے، تم جاب چھوڑ دو۔ فضول کی ٹینشن لینے کی کیا ضرورت ہے اگر تم کسی چیز سے مطمئن نہیں ہو تو وہ مت کرو۔” شہلا نے اپنا مشورہ دہرایا۔
”میں اتنی جلدی جاب چھوڑدوں گی۔ تو نانو کیا کہیں گی میں انہیں دکھانا چاہتی ہوں کہ میرے اندر مستقل مزاجی ہے۔ میں اتنی نازک نہیں ہوں کہ جاب کی ٹینشن سے گھبرا کربھاگ جاؤں۔ وہ پہلے ہی مجھے منع کر رہی تھیں کہ میرا جاب والا ٹمپرامنٹ نہیں ہے اس لئے میرے لئے یہی بہتر ہے کہ میں یہ کام نہ کروں۔”
”ٹھیک ہے تو پھر کچھ عرصہ تک مستقل مزاجی دکھاؤ کام کرو پھر چھوڑ دینا کوئی اخبار جوائن کر لینا۔” شہلا نے ایک بار پھر اس سے کہا۔
”ویسے بھی میں صبح آفس آؤں گی تو ایڈیٹر سے کہوں گی کہ ہمیں مختلف سوشل ایکٹیویٹیز کی رپورٹنگ کے لئے بھجوائیں یہ آفس والا کام نہ دیں۔” شہلا نے لاپروائی سے کہا۔
”وہ مان جائیں گی؟”
”کیوں نہیں مانیں گی۔ فیملی ٹرمز ہیں ان کے ساتھ، اتنا لحاظ تو ضرور کریں گی۔”
”ٹھیک ہے پھر تم صبح آفس آؤ وہیں تفصیل سے بات ہو گی اگر وہ ان ایونٹس کی کوریج کے لئے بھیجنے پر تیار نہ ہوئیں تو پھر میں جاب چھوڑ دوں گی اگرچہ نانو کے سامنے خاصی شرمندگی ہو گی مجھے مگر جو کام مجھے اچھا نہیں لگ رہا، وہ میں نہیں کروں گی۔” شہلا نے اسے تسلی دی علیزہ نے فون رکھ دیا۔
٭٭٭
شہباز منیر کے قتل کو اس نے بڑی دلچسپی کے ساتھ Follow کیا تھا اگرچہ اس دن عمر وہاں سے چلا گیا تھا مگر پھر بھی علیزہ کو امید تھی کہ وہ اس کے قتل کے بارے میں کچھ نہ کچھ ضرور کرے گا۔ خاص طور پر اس لئے کہ یہ قتل اس کی وجہ سے ہوا تھا اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ یہ قتل کس نے کروایا تھا۔
شاید اس لئے اسے امید تھی کہ اگر وہ براہ راست اس بارے میں کچھ نہ بھی کر سکا تو کسی نہ کسی طرح انکل ایاز کا نام ضرور میڈیا میں آجائے گا۔ یہی وجہ تھی کہ اگلے کئی ہفتے تک وہ تمام اخبارات کی ایک ایک خبر پڑھتی رہی۔ شہباز منیر کے قتل نے کچھ عرصہ تک صحافیوں میں ہلچل ضرور مچائی تھی۔ اس کے لئے چند جلوس بھی نکلے تھے اور اس کے اپنے اخبار نے چند روز ہڑتال بھی کی تھی، روز اس کے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ بھی کسی نہ کسی اخبار میں پیش ہوتا رہا مگر پھر اس خبر پر گرد بیٹھنے لگی۔
وزارتِ اطلاعات کی طرف سے اس کی بیوہ کے لئے ایک چیک جاری کر دیا گیا جس کی تفصیل بھی اخبار میں آئی گورنمنٹ کی طرف سے اسے ایک پلاٹ بھی دے دیا گیا یہ قدرے حیران کن تھا خاص طور پر تب جب گورنمنٹ خود جانے والی تھی مگر علیزہ اندازہ کر سکتی تھی کہ اس چیک اور پلاٹ کے پیچھے کس کی مہربانی کار فرما تھی۔
ایک دو ماہ بعد یک دم گورنمنٹ تبدیل ہو گئی اور پولیٹیکل سیٹ اپ کے بدلتے ہی شہباز منیر کا قتل مکمل طور پر بیک گراؤنڈ میں چلا گیا۔ اخبارات کے صفحے اب سیاسی خبروں اور بیانات سے بھرے ہوئے تھے۔ اگلے انتخابات کے بارے میں قیاس آرائیاں جاری تھیں۔ اتنے دھوم دھڑکے میں کس کو یاد تھا کہ شہباز منیر نام کا ایک شخص تھا جس نے ایک دفعہ اپنے ماں باپ کی احمقانہ باتوں کی وجہ سے اپنے ملک کی طرف واپس ہجرت کی تھی۔ وہ اپنی مرضی سے بیسویں صدی سے واپس بارہویں صدی میں آگیا تھا۔ پھر اس نے اپنے ایک دوست کی احمقانہ باتوں میں آکر لوگوں تک سچ پہنچانے کی کوشش کی تھی۔ بارہویں صدی کے لوگوں کے سامنے بیسویں صدی کی جرأت دکھانے کی کوشش کی تھی کیا ہوا تھا؟ کچھ بھی نہیں۔ اس کے ساتھ وہی کیا گیا تھا جو کرنا چاہئے تھے۔ اس ملک کو کس نے کتنا خو ن دیا تھا یہ یاد رکھنے والی بات نہیں تھی۔ اس ملک میں کس نے کتنا خون لیا ہے۔ شاید یاد انہیں ہی رکھا جاتا ہے، شہباز منیر کو بھی بھلا دیا گیا تھا مگر علیزہ کو وہ یاد تھا اور ہر بار اس کا خیال آنے پر اسے عمر سے شکوہ ہونے لگتا اس نے اتنی آسانی سے سب کچھ کیسے بھلا دیا گیا تھا ۔کیا اسے یاد نہیں کہ شہباز منیر کی موت کی وجہ وہی تھا، وہ کم از کم ایک بار اس سے اس بارے میں بات ضرور کرنا چاہتی تھی۔
مگر عمر سے اگلے کچھ ماہ اس کی ملاقات نہیں ہوئی، انکل ایاز اور انکل جہانگیر کے ساتھ اس کی کیا سیٹلمنٹ ہوئی تھی وہ نہیں جانتی تھی مگر وہ اسی دن چلا گیا تھا اس کے بارے میں دوبارہ اخبار میں کوئی خبر نہیں آئی تھی اور نہ ہی وہ معطل ہوا تھا۔ اگلے چند ماہ کے دوران جو واحد خبر علیزہ تک پہنچی تھی، وہ اس کی ایک بہت اچھے شہر میں پوسٹنگ کی تھی اور پھر اس نے اپنا سامان انیکسی سے منگوا لیا تھا۔ وہ سامان لینے خود نہیں آیا تھا۔ اس نے نانو سے فون پر بات کرکے انہیں اپنا سامان منگوانے کے بارے میں بتا دیاتھا اور نانو نے اپنی نگرانی میں اس کے بھجوائے ہوئے ٹرک پر سامان لوڈ کروایا۔
علیزہ نے ایک دن نانو سے شہباز منیر کے قتل کے بار ے میں بات کرنے کی کوشش کی اور وہ اس وقت سن ہو گئی جب نانو نے بہت اطمینان سے کہا۔