علیزہ کو اس وقت بے تحاشا بھوک لگ رہی تھی۔ یکے بعد دیگرے اس نے تقریباً سارے بسکٹ کھا لئے۔ عمر خاموشی سے اسے دیکھتے ہوئے چائے پیتا رہا۔ جب اس نے چائے کا کپ ٹرے میں رکھ دیا تو عمر نے اس سے کہا۔
”اب بات شروع کرتے ہیں۔” علیزہ نے اس سے کوئی سوال نہیں کیا۔ وہ ٹرانس میں آئے ہوئے کسی شخص کی طرح اسے اٹک اٹک کر ساری تفصیلات بتاتی رہی۔ عمر اس سے چھوٹے چھوٹے سوال پوچھتا رہا۔ گفتگو کے دوران اس نے علیزہ کے ہاتھ پر لگی ہوئی وہ خراشیں بھی دیکھیں جن سے ابھی تک خون رس رہا تھا۔ علیزہ نے گاڑی میں بیٹھنے کے بعد اپنے بیگ سے ٹشو نکال کر ہاتھ کو صاف کرنے کی کوشش میں ناکام ہونے کے بعد وہ ٹشو اس پر لپیٹ دیا۔ اپنی بات کے اختتام پر اس نے عمر کو خاموشی سے گاڑی سے اترکر گھر کے اندر جاتے دیکھا۔
اس بار اس کی واپسی آدھ گھنٹہ کے بعد ہوئی۔ عباس بھی اس کے ساتھ تھا۔ مگر گاڑی کی طرف آنے کے بجائے وہ دونوں ایک بار پھر پولیس کی گاڑی کی طرف چلے گئے۔ دس منٹ تک وہاں کھڑے کچھ پولیس والوں سے باتیں کرتے رہے۔
پھر علیزہ نے ان دونوں کو اپنی طرف آتے دیکھا۔ عباس پسنجر سیٹ کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گیا۔ جبکہ عمر نے پچھلا دروازہ کھول کر پچھلی سیٹ پر رکھی ہوئی ٹرے نکالی اور اسی شخص کو تھما دی جو پہلے وہ ٹرے لایا تھا۔ پھر وہ خود بھی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ علیزہ نے اسی وقت اپنی گاڑی کو گیٹ کے اندر سے باہر آتے دیکھا۔ اسے کوئی پولیس والا ڈرائیو کر رہا تھا۔
عمر نے اب اپنی گاڑی اسٹارٹ کر لی۔ عباس کے پاس ایک وائرلیس سیٹ تھا جسے اس نے ہینڈ بریک کے پاس رکھ دیا۔
”پہلے تو ہاسپٹل چلتے ہیں، تھوڑی فرسٹ ایڈ تمہیں مل جائے۔ اس کے بعد پھر گھر چلیں گے۔ گرینی کو میں نے بتا دیا ہے تمہارے بارے میں…اور شہلا تم سے بات کرنا چاہتی ہے۔ تم اسے کال کر لو۔”عمر نے اپنا موبائل اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ علیزہ نے تھکے تھکے انداز میں موبائل لے لیا۔
”تھینک گاڈ تم ٹھیک ہو… میری تو جان پر بنی ہوئی تھی۔ ” کال ملتے ہی شہلا نے اس سے کہا۔
”لو ممی سے بات کرو۔” علیزہ نے باری باری شہلا کی ممی، پاپا اور دونوں بہن بھائیوں سے بات کی۔ پھر اس نے فون بند کرکے عمر کی طرف بڑھا دیا۔
”علیزہ ! میں تو تمہاری بہادری پر حیران ہوں۔ تمہیں توپولیس میں ہونا چاہئے۔” عباس خاصی شگفتگی سے کہہ رہا تھا۔ علیزہ مسکرا نہیں سکی۔
”کیوں عمر…! ہم لوگ تو اسے خوامخواہ ڈرپوک سمجھتے تھے۔ مگر یہ تو خاصی جرأت مند خاتون ثابت ہوئی ہیں۔”
”نہیں۔ میں نے تو کبھی بھی علیزہ کو بزدل نہیں سمجھا۔ ” علیزہ اپنے بار ے میں کی جانے والی گفتگو کو کسی دلچسپی کے بغیر سنتی رہی۔ وہ جانتی تھی کہ وہ نہ اس کی جرات سے متاثر ہوئے تھے اور نہ ہی اس نے ایسا کوئی کارنامہ کیا تھا۔ وہ صرف اسے چیئر اپ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
ہاسپٹل میں فرسٹ ایڈ کے بعد اسے کوئی انجکشن لگا دیا گیا۔ وہ واپس گاڑی میں آکر بیٹھی تو عمر نے اس سے کھانے کا پوچھا۔
”نہیں، مجھے بھوک نہیں ہے۔” علیزہ نے انکار کر دیا۔ ”میں صرف گھر جانا چاہتی ہوں۔” اس نے کہا۔
گاڑی چلنے کے کچھ دیر بعد اسے احساس ہوا کہ وہ لوگ اسے گھر نہیں لے جا رہے ہیں۔ عمر خلاف عادت گاڑی بہت آہستہ چلا رہا تھا اور بار بار ذیلی سڑکوں پر گاڑی موڑ رہا تھا۔ وہ دونوں آپس میں کوئی گفتگو نہیں کر رہے تھے۔ علیزہ کو اپنے اعصاب پر عجیب سا نشہ طاری ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ اسے کوئی سکون آور انجکشن دیا گیا ہے۔
اس سے پہلے کہ وہ عمر سے گھر نہ لے جانے کے بارے میں پوچھتی اس نے وائرلیس پر کوئی پیغام آتے سنا۔ عباس نے پیغام سننا شروع کر دیا۔
”پکڑ لیا۔۔۔” علیزہ یک دم چونک گئی۔ ”مگر دو لڑکے ہیں چار نہیں۔ گاڑی کی نمبر پلیٹ وہی ہے… تو ٹھیک ہے یہ وہی ہوں گے۔ تم لوگوں نے ان سے باقی دو کا پوچھا ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ دو ہی تھے۔ ان دونوں نے باقی دو کو ڈراپ کر دیا ہو گا۔ وہ مان نہیں رہے ہیں، تو منواؤ، پوچھو ان سے ، کدھر چھوڑ کر آئے ہیں باقی دونوں کو۔ نہیں پولیس اسٹیشن نہیں لے کر جانا۔ ہم لوگ وہیں آتے ہیں۔ ” عباس نے وائرلیس بند کرتے ہوئے عمر سے کہا۔
”گاڑی پکڑلی ہے مگر اس میں دو لڑکے ہیں اور وہ یہ مان ہی نہیں رہے کہ انہوں نے کسی کا تعاقب کیا ہے نہ ہی یہ مان رہے ہیں کہ ان کے ساتھ کوئی اور بھی تھا۔ میرا خیال ہے ان لوگوں نے اس چیز کو پہلے ہی ورک آؤٹ کر لیا ہے اور ان دونوں کو ان کے گھر ڈراپ کر دیا ہے۔” عباس نے ابھی بات ختم کی ہی تھی کہ وائرلیس پر دوبارہ پیغام آنے لگا۔
”کچھ پتا چلا… کیا کہہ رہے ہیں۔ اچھا… ہاں… جس نے اپنا تعارف کروایا ہے، سب سے پہلے اس کی ٹھکائی کرو اور بالکل بے فکر ہو کر کرو۔” عباس نے اوور کہتے ہوئے بات ختم کر دی۔
”حرام زادہ اپنے باپ کا تعارف کروا رہا تھا۔ چیمبر آف کامرس کا وائس پریذیڈنٹ ہے۔” علیزہ نے اس بار ان دونوں کی گفتگو میں مداخلت کی۔
”آپ مجھے گھر کیوں نہیں چھوڑ رہے؟”
”علیزہ! تمہیں ہم وہیں لے کر جارہے ہیں۔ ایک تو تم ان چاروں کو شناخت کرنا، دوسرا اس کے بارے میں بتانا جس نے تمہیں مارا تھا۔” عمر نے اس سے کہا۔
”یہ کام میں صبح کر لوں گی۔ صبح آپ مجھے پولیس اسٹیشن لے جائیں لیکن ابھی میں بہت تھک گئی ہوں۔ مجھے نیند آرہی ہے۔ میں ان لوگوں کا سامنا کرنا نہیں چاہتی۔” علیزہ نے بے بسی سے کہا۔
”اچھا ٹھیک ہے۔” عمر نے گاڑی کی اسپیڈ یک دم بڑھا دی۔
علیزہ کا خیال تھا کہ وہ اسے نانو کے پاس لے کر جا رہا ہے مگر ایسا نہیں تھا۔ دس منٹ بعد انہوں نے ایک بہت پوش علاقے کی ایک ویران سڑک پر ایک پولیس موبائل کے پاس گاڑی روک دی۔ علیزہ کا خون خشک ہونے لگا۔ اس نے موبائل سے کچھ فاصلے پر کھڑی گاڑی پہچان لی تھی۔ وہ ان ہی لڑکوں کی گاڑی تھی مگر اس وقت وہ خالی تھی۔
عباس اور عمر گاڑی سے اتر گئے۔ وہ موبائل کے پچھلے حصے کی طرف چلے گئے۔ کچھ دیر بعد علیزہ نے عباس کو ایک لڑکے کو کالر سے گھسیٹتے ہوئے اپنی طرف لاتے دیکھا۔ وہ ایک پل میں اسے پہچان گئی۔ وہ ان ہی لڑکوں میں سے ایک تھا۔ علیزہ کی کھڑکی کے پاس آکر عباس نے اس لڑکے کے منہ پر ایک زور دار تھپڑ مارا۔
”اندر دیکھو۔” اس لڑکے نے اندر دیکھا۔ علیزہ سے اس کی آنکھیں ملیں اور اس نے آنکھیں چرالیں۔
”میں نہیں پہچانتا۔” اس نے عباس سے کہا۔ عباس نے علیزہ کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”تم پہچانتی ہو اسے؟”
”ہاں… یہ ان میں سے ایک ہے۔” عباس نے ایک اور تھپڑ اس لڑکے کے منہ پر مارا۔
”اب حرام زادے یا تو تم ان دونوں کے بارے میں بتاؤ گے یا پھر میں تمہاری قبر اسی وقت یہاں بنوا دوں گا۔”
”میں بتا دیتا ہوں… وہ … ان دونوں کو گھر چھوڑ آئے ہیں ان کے… سر ! غلطی ہو گئی ہم سے… پلیز معاف کر دیں۔” وہ یک دم عباس کے سامنے ہاتھ جوڑنے لگا۔
عباس نے پولیس کے ایک سپاہی کو اسے موبائل میں بٹھانے کے لئے کہا۔ عباس وہیں کھڑا رہا۔ علیزہ نے عمر کو گاڑی کی طرف آتے دیکھا۔ عباس گاڑی کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گیا۔