الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۱

ابھی اسی وقت چلو۔ سامان پھر آکر لے لیں گے۔’’
ممانی نے ہاتھ نچا کر کہا۔ ‘‘اچھا ! سامان کے بہانے آکر خالہ جی سے ملوگے تاکہ وہ پھر سے رکھ لیں۔ یہ چالاکیاں کسی اور کو دکھانا۔ ابھی اسی وقت اٹھاؤ اپنا سامان اور ہمیشہ کے لئے میرے گھر سے دفعان ہو۔’’
غرض حسن اور نسیمہ باجی نے اپنے کپڑے اور دوسرا ضروری سامان اٹھایا اور ممانی نے انہیں دھکے دے کر گھر سے نکال دیا۔
گلی میں نکل کر حسن نے نسیمہ باجی کا ہاتھ پکڑ ااور انہیں لئے بے مقصد ایک طرف کو چل پڑا۔ نسیمہ باجی تھر تھر کانپتی تھی اور زار زار روتی تھی ۔اشک دامن کی خبر لاتے تھے، آنسو برابر چلے آتے تھے۔
حسن کے پاس انہیں تسلی دینے کا وقت نہ تھا۔ وہ مسلسل یہ سوچنے میں مصروف تھا کہ اب کہاں جائے اور کیا کرے۔ وہ اکیلا ہوتا تو اپنی دکان میں جاکر رہنے لگتا لیکن اب ہمشیرۂ مظلوم اور اس کے پسرِ معصوم کا ساتھ تھا، اس کے ہاتھ میں د ومسکین جانوں کا ہاتھ تھا۔ کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا، اس حال سے نکلنے کی کوئی راہ نہ پاتا تھا۔
ابھی گلی میں چلاجارہا تھا کہ سامنے سے عاصم کی گاڑی آتی دکھائی دی۔ حسن کو دیکھ کر گاڑی رکی۔ عاصم باہر نکلا ، حسن سے کہا۔ ‘‘کہیں جارہے ہو؟ میں تمہارے ہی گھر آرہا تھا۔’’
حسن نے رنج و ملال سے کہا۔ ‘‘اب وہ میرا گھر نہیں رہا۔’’
عاصم نے حیران ہوکر وجہ پوچھی تو حسن نے تمام حال گوش گزار کیا، اسے بھی افسوس سے دوچار کیا۔
عاصم نے تمام حال سن کر کہا۔ ‘‘تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ میرا گھر حاضر ہے۔ وہاں چلو اور جب تک دل چاہے رہو۔’’
حسن نے گومگو سے کہا۔ ‘‘تمہارے گھر والے کیا سوچیں گے؟ ایک دن مہمان ، دو دن مہمان، تیسرے دن بلائے جان۔’’
عاصم نے ہنس کر کہا۔ ‘‘میرے گھر والے کچھ نہیں سوچیں گے کیونکہ وہ تو گاؤں میں رہتے ہیں۔ اس گھر میں تو بس میں ہوں اور ملازم ہیں۔’’
یہ سن کر حسن خوش ہوا اور جناب ِ باری کا شکر بجالایا جس نے دم بھر میں سرچھپانے کا سامان کردیا تھا، بڑا احسان کردیا تھا۔
حسن اور نسیمہ باجی وہاں آئے، عاصم نے ان کے لئے دو کمرے کھلوائے۔ ہر قسم کے سامان سے آراستہ و پیراستہ، قطع دار مکان، فرح بخش و فرح بار، ہر سمت امارت کے آثار، نوکرچاکر بے شمار۔ حسن بے حد خوش ہوا اور عاصم کی مہربانی کا شکریہ ادا کیا اور اس کو دعائیں دیں کہ خدا تم کو اس کا اجر دے کہ تم نے بڑا کام کیا اور بندگانِ خانماں خراب کو آرام دیا۔
رات ہوئی تو زلیخا کا گھبرایا ہوا فون آیا۔ حسن سے حالِ زار کی جویاہوئی تو حسن نے عادت کے مطابق ساری سرگزشت اسے کہہ سنائی۔ کوئی بات اس سے نہ چھپائی۔
زلیخا چپ کی چپ رہ گئی۔ پھر آہستہ سے بولی:‘‘تمہیں پتا ہے۔ ماما غصے کی تیز ہیں۔ ان کی طرف سے میں تم سے معافی مانگتی ہوں۔ پلیز تم گھر واپس آجاؤ۔’’
ابھی زلیخا کی بات پوری نہ ہونے پائی تھی کہ نانی نے فون پکڑ لیا۔ روتے ہوئے کہا۔ ‘‘گھر آجا میرے بچے۔ کوئی رنج دل میں نہ لا۔ یہ گھر تیرا ہے۔ کسی کی مجال نہیں تجھے یہاں سے نکالے۔’’
حسن نے بصد احترام کہا۔ ‘‘نہیں نانی جان۔ میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے گھر میں بدمزگی ہو اور آپ میں اور ممانی میں جھگڑا ہو۔ میں جہاں ہوں آرام سے ہوں۔’’
نانی نے روتے ہوئے کہا۔ ‘‘لیکن میں آرام میں نہیں ہوں۔ تجھے دیکھ دیکھ جیتی تھی ، اب تیرے بغیر کیسے جؤں گی میرے بچے؟’’
اس شفقت و محبت پر حسن کا دل بھر آیا۔ آبدیدہ ہوکر بولا۔ ‘‘میں ملنے آتا رہوں گا نانی جان۔ نسیمہ باجی عدت میں ہیں۔ انہیں اکیلا چھوڑ کر نہیں آسکتا۔نہ ہی انہیں لاکر اس گھر میں رکھ سکتا ہوں۔ جہاں بنے بھائی کا آنا جانا ہے۔’’
بے چاری نانی گوکہ بہت روتی تھی۔ آنسوؤں سے گردِ ملال دھوتی تھی۔ لیکن زمانے کی سرد و گرم چشیدہ تھی۔ جانتی تھی کہ حسن ٹھیک کہہ رہا ہے۔ حسن سے بہت سے وعدے وعہد لے کر نانی نے فون بند کردیا۔
چند دن بعد حسن نانی سے ملنے آیا تو نانی اسے گلے لگا کر پھوٹ پھوٹ کر روئی۔ ممانی نے تیوری چڑھائی لیکن حسن سے کوئی تعرض نہ کیا، جاکر کمرے کا دروازہ بند کرلیا۔ زلیخا اس وقت کالج گئی ہوئی تھی۔
نانی حسن کے لئے کھانا لانے اٹھیں تو کنیز وارد ہوئی۔ حسن کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ آنکھیں مٹکا کر بولی۔ ‘‘پورے محلے میں اتنا سکینڈل بنا ہوا ہے کہ کیا بتاؤں۔ سب کو پتا چل گیا ہے کہ آپ کو باجی نے دھکے مار کر نکال دیا ہے۔ لوگ سو سو باتیں بنارہے ہیں۔’’
یہ کہہ کر حسن کے قریب آئی اور ادھر ادھر دیکھ کر راز داری سے بولی۔ ‘‘لوگ تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ آپ زلیخا باجی کو چھیڑتے تھے، اس لئے ان کی ا می نے آپ کو نکال دیا۔ یہ بات صحیح ہے بھائی جان؟’’
حسن کو اس قدر غصہ آیا کہ مارے غصے کے آگ بجھوکا ہوگیا۔ بددماغ ہوکر کہا۔ ‘‘دفع دور۔ یہ کیا ہرزہ درائی ہے؟ ضرور تیری شامت آئی ہے۔’’
کنیز نے تمسخر سے کہا۔ ‘‘لو میری شامت کیا آنی ہے۔ میں تو مزے سے اپنے گھر میں بیٹھی ہوں۔ شامت تو آپ کی آئی ہے، کیسے دھکے کھا کے گھر سے نکل گئے۔ کتنی بے عزتی خراب ہوئی۔ توبہ توبہ۔۔۔میں نے تو کرن باجی کے ڈیڈی کو بھی بتادیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ دیکھیں ایسے ہوتے ہیں آج کل کے لڑکے، لیکن پچھلے محلے والے آفتاب بھائی ایسے نہیں ہیں، بڑے شریف ہیں۔’’
یہ سن کر حسن کو اس قدر صدمہ پہنچا کہ سکتہ طاری ہوا۔ کچھ نہ بول پایا۔ حسن کی یہ حالت دیکھ کر کنیز نے لطف ِ بے اندازہ پایا، حظِ وافر اٹھایا۔ مزے سے گنگناتے ہوئے اپنی راہ لی۔
ابھی اسے گئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ کرن آتی دکھائی دی۔ معشوقہ، دلبر کا رخِ رنگین اتنے عرصے بعد نظر آیا تو حسن کا دل بھر آیا۔ آبدیدہ ہوا اور یوں گویا ہوا۔‘‘جس کسی کو مرضِ عشق نے مصیبت میں گرفتار کیا ہو، جنون سے دوچار کیا ہو، اس کا علاج شربتِ دیدار یار ہے، وصلتِ معشوقہ قلہ دار ہے۔ مگر انسان ضعیف البیان ہے، تقدیر سے پریشان ہے۔’’
کرن نے سٹپٹا کر کہا۔ ‘‘کیا مطلب؟ کیا کہہ رہے ہیں ؟ کچھ سمجھ نہیں آئی۔’’
حسن نے آہ بھر کر کہا۔‘‘اے ناطور ۂ دلفریب، رشک لعتبانِ چینی، سرمایۂ نازنینی۔یہ مت سمجھنا کہ بندہ مالیخولیا میں گرفتار ہے، بس فقط زندگی سے بیزار ہے۔ انواع و اقسام کے صدمے سہتا ہوں، سردھنتا ہوں تنکے چنتا ہوں۔ سوچا تھا روزگار جم جائے تو رشتہ بھیجوں گا۔ تمہیں عقدِ نکاح میں لاؤں گا، تمہارے ساتھ لطف زندگانی پاؤں گا۔ لیکن گھر سے بے گھر ہوا، دربد ر ہوا۔ اب وصل کے بجائے جدائی کا آزار آیا ہے، شہبازِ مصیبت نے مرغِ دل کا اچھا شکار پایا ہے۔’’
یہ کہہ کر اشکبار ہوا، صیدِ تیرا دبار ہوا۔ اسے روتا دیکھ کر کرن کی بھی آنکھ بھر آئی۔ اگرچہ خود اپنے ہی نشہ حسن میں چور رہتی تھی، بے حد مغرور رہتی تھی لیکن عاشق ِ جوان رعنا کا یوں والہ وشیفتہ ہونا اور آہیں بھرنا اور روناایسا نہیں کہ انسان کا دل نہ بھر آئے۔
کرن نے ڈبڈبائی آنکھوں کے ساتھ کہا۔ ‘‘تو اب آپ کہاں رہ رہے ہیں؟ کسی ہوٹل میں؟’’
حسن نے آنسو پونچھ کر کہا۔ ‘‘نہیں۔ اپنے دوست عاصم کے ساتھ اس کے گھر میں رہتا ہوں۔ کبھی کبھی نانی کوملنے آتا ہوں۔’’
کرن نے اداس ہوکر کہا۔ ‘‘آ پ یہاں تھے تو گلی میں آتے جاتے ہی آپ سے ملاقات ہوجاتی تھی۔ اب تو آپ کبھی کبھی نظر آئیں گے۔’’
حسن نے بے تاب ہوکر کہا۔ ‘‘نہیں نہیں۔ تم سے ملے بناکیسے جی پاؤں گا؟ یا خود آؤں گا یا تمہیں بلواؤں گا۔’’کرن نے پوچھا۔ ‘‘کہاں ہے آپ کے دوست کا گھر ؟’’
حسن نے کہا۔ ‘‘ڈیفنس میں۔’’
کرن خوش ہوکر بولی۔ ‘‘ہائے ،مجھے ڈیفنس دیکھنے کا بڑا شو ق ہے۔ ٹھیک ہے میں آپ سے ملنے آؤں گی۔’’ یہ سن کر حسن خوش ہوا۔ ملاقات کی امید پرقرارکیا، کرن کے وعدے پر اعتبار کیا۔

٭……٭……٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۰

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!