الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۱

حسن کے اپنے کمرے میں بھی حالات کچھ اطمینان بخش نہ تھے۔ اب اس کمرے کا دوسرا مکین ماموں تھے جو بے شک ایک مرد ِ بزرگ و مقدس و راست باز تھے لیکن پرانی بلغمی کھانسی کے دیرینہ ہمدم و ہمساز تھے۔ نیز خراٹوں سے بھی شوق فرماتے تھے۔ رات سوتے میں ہمہ وقت کھنکھارتے اور کھانستے۔ اور جب کھنکار نہ رہے ہوتے تو باآوازِ بلند خراٹے لیتے۔ تمام رات اس غل و غوغا سے جھوجھنے کے بعد کہیں حسن کو تیسرے پہر نیند آتی تو ماموں ، کہ نہایت نیک مسلمان تھے، تہجد کے لئے اٹھ جاتے۔ خوب کھڑپڑ کرتے، غسلخانے جاتے، غرارے کرتے اور اس قدر کھانستے کھنکھارتے کہ حسن کے کانوں میں خارش ہونے لگتی۔
ایک ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ حسن ہر جگہ بیٹھا اونگھتا نظر آنے لگا اور آنکھوں کے نیچے گہرے حلقے پڑگئے۔ ایسے ہی حلقے زلیخا کی آنکھوں کے نیچے بھی پڑے تھے۔ وہ بے چاری اپنے کمرے میں نسیمہ باجی اور ان کے بچے کے رونے دھونے سے گھبرا کر ممانی کے کمرے میں جاتی تو خدا جانے وہاں کیا بات پیش آتی کہ وہاں سے بھی نکل آتی۔
ایک رات ماموں تہجد کے لئے اٹھے اور ڈرائنگ روم میں جاکر تلاوت میں مصروف ہوئے تو حسن بھی اٹھا کہ ذرا باہر صحن میں جاؤں اور ٹھنڈی ہوا کھاؤں، تھکے ہوئے ذہن کو تقویت پہنچاؤں۔ صحن میں آیا تو دیکھا کہ چاندنی رات میں زلیخا تخت پر بیٹھی ہے۔ گھٹنے بازوؤں کے حلقے میں ہیں اور ٹھوڑی گھٹنے پر ٹکی ہے۔ کسی گہری سوچ میں گم ہے۔ حسن دروازے میں کھڑا بے اختیار اسے دیکھے گیا۔ اس کا گول چہرہ چاند کو مات کرتاتھا، آنکھوں کا پھیلا ہوا کاجل شب ِدیجور سے بات کرتا تھا۔ سلونی رنگت کوری مٹی کی صراحی کو شرماتی تھی، ملاحت بلائیں لینے کو آتی تھی۔ بھرے بدن کو بانہوں میں بھرنے کودل چاہتا تھا۔۔۔
حسن اپنے خیالات پر چونکا ، سرجھٹک کر دماغ میں اٹھنے والے تصور کو جھٹکا اور آگے بڑھ آیا۔ زلیخا اپنے خیالوں میں گم بیٹھی رہی ۔ حسن ہلکے سے کھنکار ا (ماموں کے ساتھ کا اثر تھا) تو زلیخا نے چونک کر سراٹھایا۔ حسن کو دیکھ کر دھیرے سے مسکرائی۔ حسن جاکر پاس بیٹھ گیا۔ بہت دیر دونوں خاموشی سے بیٹھے رہے۔ دونوں ہی جانتے تھے کہ رات کے اس پہر دوسرا یہاں کیوں موجود ہے۔ دل کی بات کرنے کے لئے انہیں الفاظ کی ضرورت نہیں تھی۔
آخر زلیخا نے گہرا سانس لیا اور مدھم آواز میں بولی۔ ‘‘کبھی کبھی میں سوچتی ہوں میرے خاندان میں بھی ایک سے بڑھ کر ایک نرالا کردار موجود ہے۔’’
حسن خاموش رہا، کچھ نہ کہا۔
زلیخا نے ڈرائنگ روم کی طرف دیکھا۔ جہاں سے تلاوت کی آواز آتی تھی اور بولی ۔‘‘ابا کو ہی دیکھ لو۔ ان سے زیادہ ہمت تو منے میں ہے۔ ضد کرکے، سینہ تان کے اپنی کوئی نہ کوئی بات تو منوا ہی لیتا ہے۔ ابا تو۔۔۔’’وہ بات ادھوری چھوڑ کر خاموش ہوگئی۔
حسن اب بھی چپ رہا۔ اس وقت وہ صرف زلیخا کو سننا چاہتا تھا۔
زلیخا نے رنج بھری آنکھیں اٹھا کر حسن کو دیکھا اور کہا۔ ‘‘دوسری طرف ماما ہیں۔ میں نے انہیں کبھی کسی بات سے خوش ہوتے نہیں دیکھا۔ میں سمجھتی تھی میں ڈاکٹر بن جاؤں گی تو ان کی نظروں میں اپنا گرا ہوا مقام پالوں گی۔’’ زلیخا زخمی سی ہنسی ہنسی۔‘‘لیکن انہیں آج بھی وہی اعتراض ہیں کہ میرا رنگ سانولا ہے اور میں اتنی موٹی ہوں کہ کوئی رشتہ نہیں آتا، اور میرے بال روکھے ہیں اور میں پھوپھی پر چلی گئی ہوں۔’’
حسن نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔ ‘‘نانی تو اچھی ہیں۔ تم سے بہت پیار کرتی ہیں۔’’
زلیخا نے اداس مسکراہٹ سے کہا۔ ‘‘ہاں لیکن ان کا لاڈ پیار کس کام کا؟ ماں صرف لاڈ پیار کرنے کے لئے نہیں ہوتی، حسن۔ تربیت بھی اس کی ذمہ داری ہے۔ کاش دادی نے ابا کو اتنا ہتھیلی کا چھالا بناکر نہ رکھا ہوتا، انہیں گھر کا سربراہ بننے کی تربیت دی ہوتی۔’’
بولتے بولتے زلیخا خاموش ہوگئی۔ سوچ میں گم ہوگئی۔ حسن اس کا چہرہ دیکھتارہا۔
زلیخا بڑبڑائی۔‘‘ اور ایک وہ ہیں، محترم ڈان عرف بنے بھائی۔ نہ کوئی تعلیم حاصل کی، نہ ڈھنگ کی نوکری کی۔ اور خود کو پتا نہیں کہاں کا نواب سمجھتے ہیں۔’’
حسن نے سر ہلا کر کہا۔ ‘‘ٹھیک کہتی ہو۔عجیب بات ہے کہ اس غربت کی حالت میں بھی ان کے تکبر کا یہ عالم ہے کہ اپنی حرکاتِ فضول و نامعقول سے باز نہیں آتے۔ عجب بوا بھیجی ہے۔’’
زلیخا نے غصے سے کہا۔ ‘‘اور کیا! کھڑے کھڑے بھابھی کو طلاق دے دی۔ تم سے بدلہ لینے کے لئے اپنے بچے کو disown کردیا۔ شرم نہ آئی کہ دوسروں کے در پہ پلے گا۔’’
اب زلیخا کا پارہ چڑھنے لگا تھا اور وہ تیز تیز بولنے لگی تھی۔ ‘‘اور ابا کو دیکھو۔ کتنا اچھا موقع تھاحالات سنوارنے کا، ماما کے ساتھ ریلیشن شپ بہتر کرنے کا ۔ اب نسیمہ بھابھی آکر دادی کے کمرے میں ٹھہری ہیں تو بھئی آپ اپنے کمرے میں واپس جائیں۔ بیوی کے ساتھ بول چال بحال کریں۔ لیکن نہیں۔ دوڑ کر تمہارے کمرے میں گھس گئے ۔ عمر دیکھو اور حرکتیں دیکھو۔’’
حسن نے آہستہ سے کہا۔ ‘‘زلیخا۔۔۔زلیخا۔۔۔’’
لیکن زلیخاکو اب غصے کے مارے سانس چڑھ رہا تھا۔ سنی ان سنی کرکے بولی۔ ‘‘اور ماما بھی کون سا کم ہیں کسی سے۔ بھئی اتنا شوق ہے کہ ابا آکر کمرے میں رہیں تو سیدھے سیدھے ان سے کہہ دیں۔ لیکن نہیں۔ ان کے سامنے ہلکی نہیں پڑنا چاہتیں، اور ہمارے اوپر بھاری پڑ رہی ہیں۔ غصہ ہم پر نکل رہا ہے۔ نہیں ہم پر نہیں صرف مجھ پر۔ منا تو لاڈلا ہے۔ شامت تو میری آئی رہتی ہے چوبیس گھنٹے۔۔۔’’

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۰

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!