الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۱

حسن نے دھیمی آواز میں کہا۔ ‘‘زلیخا ۔۔۔ سنو۔۔۔’’
زلیخا غصے سے بولی۔ ‘‘مجھے سمجھ نہیں آتی ، میرا قصور کیا ہے۔ اب تو ان دونوں کو۔۔۔’’
حسن نے زلیخا کا ہاتھ پکڑ لیا۔ زلیخا کی چلتی زبان یکدم رک گئی اور اس نے چونک کر پہلے اپنے ہاتھ کو پھر حسن کے چہرے کو دیکھا۔
حسن نے آہستہ سے کہا۔ ‘‘زلیخا۔۔۔ کچھ لوگوں کے لئے اولاد آزمائش ہوتی ہے اور کچھ لوگوں کے لئے ماں باپ آزمائش بن جاتے ہیں۔ جیسے میں اور تم۔ میں اپنے ماں باپ کے لئے آزمائش تھا، تمہارے لئے ماں باپ آزمائش ہیں۔’’
زلیخا یک ٹک حسن کی صورت دیکھنے لگی۔
حسن نے کہا۔‘‘یہ اللہ کی نعمتیں ہیں۔ کچھ کو دیتا ہے، کچھ کو نہیں دیتا، کچھ کو دے کر لے لیتا ہے۔ جن سے اولاد کی نعمت چھن جائے، وہ جیتے جی مرجاتے ہیں۔ کوئی ان سے کیوں نہیں پوچھتا جن کے ماں باپ چلے جائیں اور وہ تمام عمر اس پچھتاوے کی آگ میں جلتے رہیں کہ ماں باپ کو سوائے دکھ کے کچھ نہ دیا۔ ان کی خامیوں پر غصہ کیا، ان کی خواہشوں کو سنی ان سنی کردیا۔ کوئی اس سے کیوں نہیں پوچھتا جس کی زندگی کی صرف ایک خواہش ہوکہ اپنی جان دے کر بھی ایک موقع ملے تو باپ کے قدموں میں گر کر اس سے معافی مانگے ، ماں کو صرف ایک مرتبہ بتادے کہ جتنی محبت وہ اس سے کرتی ہے، اتنی نہ سہی، اس کا ہزارواں حصہ وہ بھی اس سے کرتا ہے۔ یہ نعمتیں سدا پاس نہیں رہتیں، زلیخا۔ نہ میرے ماں باپ رہے نہ تمہارے ہمیشہ رہیں گے۔ رہ جائے گا تو صرف پچھتاوا۔’’
حسن نے زلیخا کی آنکھوں کو پانی سے بھرتے دیکھا۔ اس نے نظر یں جھکالیں۔ اس کی نظر حسن کے ہاتھ کے نیچے دبے اپنے ہاتھ پر پڑی۔ حسن نے اسے ہاتھوں کو دیکھتا پایا تو اس کے ہاتھ پر سے اپنا ہاتھ ہٹالیا۔ زلیخا نے بازو پھر سے گھٹنوں کے گرد باندھ لئے اور ٹھوڑی گھٹنے پر ٹکالی۔ بہت سے لمحے خاموشی سے گزر گئے۔ پھر زلیخا یکدم دھیمی آواز میں ہنس پڑی۔
حسن نے حیران ہوکر پوچھا۔‘‘شہزادی پہلے روئی کیوں اور پھر ہنسی کیوں؟ صاف صاف بتاؤ، راز ِنہانی ذرا نہ چھپاؤ۔’’
زلیخا نے دل گرفتگی سے کہا۔ ‘‘روئی اس لئے کہ میں نے اپنے آپ کو اس مقام پر کھڑے دیکھا جہاں تم ہو۔ اور میں نے اپنے دل کی وہی کیفیت پائی جو تمہاری ہے۔’’
زلیخا نے آنکھ سے ڈھلکا آنسو ہاتھ کی پشت سے صاف کیا اور نم آنکھوں کے ساتھ مسکرا کر بولی۔ ‘‘اور ہنسی اس لئے کہ جب تمہارے منہ سے عقلمندی کی کوئی بات سنتی ہوں تو یقین نہیں آتا۔’’
حسن نے سنجیدگی سے کہا۔‘‘زندگی بڑی بے رحم استاد ہے، زلیخا۔ اس کے سبق جب ماں باپ سکھاتے ہیں تو بڑے پیار سے سکھاتے ہیں۔ جو نہیں سیکھتا، اس کا معاملہ زندگی اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے۔ ذرا ذرا ساسبق سکھانے کے لئے ٹھوکروں پر رکھ لیتی ہے اور تب تک رکھے رہتی ہے جب تک شاگرد کو سبق ذہن نشین نہیں ہوجاتا۔’’
زلیخا حیران نظروں سے حسن کو دیکھے گئی، گویا یقین نہ آتا ہو کہ یہ باتیں حسن کے منہ سے سن رہی ہے۔
اچانک پیچھے سے آواز آئی۔‘‘ارے حسن میاں، تم یہاں بیٹھے ہو۔’’
مڑ کر دیکھا تو ماموں کو کھڑا پایا۔ حسن کو صحن میں دیکھ کر بے حد مسرور محظوظ ہوئے تھے۔ خوشی سے دانت نکال کر بولے۔ ‘‘ارے حسن میاں تم یہاں بیٹھے ہو؟ اچھا ہے، اچھا ہے۔ چلو ٹہلنے چلیں۔ پوپھٹ رہی ہے، طلوعِ آفتاب دیکھیں گے ۔علامہ تو تاکید فرماگئے ہیں کہ۔۔۔
کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ۔’’
حسن نے شرارت سے کہا۔ ‘‘ممانی کو بلاؤں؟ انسان کو چاہیے بیوی کے ساتھ ٹہلنے جائے ا ور پوپھٹتے دیکھے۔’’
ماموں نے گھبرا کر دل پر یوں ہاتھ رکھا کہ گویابند ہوا چاہتا ہے۔ گھبرا کر بولے۔‘‘آہستہ بولو۔ کہیں سچ مچ آگئی تو پوپھٹنے سے پہلے میرا سرپھٹ جائے گا۔’’
زلیخا ہنس پڑی ۔ اٹھتے ہوئے بولی۔ ‘‘چلیں ابا ۔میں چلتی ہوں آپ کے ساتھ ٹہلنے۔’’
ماموں نے حیران ہوکر کہا۔ ‘‘تم چلوگی؟ پہلے تو کبھی نہیں گئی۔ جب بھی پوچھا، تم نے کہا مجھے پڑھنا ہے۔ آپ اکیلے چلے جائیں۔’’
زلیخا نے آگے بڑھ کرماموں کا بازو پکڑ ا اور مدھم آواز میں بولی۔ ‘‘اب کبھی نہیں کہوں گی ابا۔ جہاں آپ کہیں گے جاؤں گی، جو کہیں گے کروں گی۔’’
ماموں کے چہرے پر سینکڑوں سورج ایک ساتھ طلوع ہوئے۔ آبدیدہ ہوکر زلیخاکا سرتھپکا اور آہستہ سے بولے۔ ‘‘چلو۔’’
ماموں اور زلیخا پھاٹک سے نکل گئے۔ حسن مسکراتے ہوئے انہیں جاتے دیکھتا رہا۔

٭……٭……٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۰

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!