دکان کی یہ شہرت گھر بھی پہنچی۔ ماموں نے آکر نانی کو بتایا ، نانی نے خوش ہوکر حسن کو گلے سے لگایا۔ حسن کی پسند کا کھانا بنایا اور نسیمہ باجی سے حلوہ بنوایا۔ اب وہ نسیمہ باجی کو گھر کے کاموں میں مصروف کرنے لگی تھیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوا تھا کہ ان کا رونا دھونا اور ہر وقت کی گریہ و زاری اور بے قراری کم ہوگئی تھی۔ اکثر وہ ماموں اور نانی کو چائے پیش کرتی نظر آتیں۔ زلیخا کے سر میں تیل لگاتیں اور ممانی کے کپڑے استری کردیتیں۔ اور گوکہ ممانی ان پر تیوری چڑھاتی تھیں اور بہت بڑبڑاتی تھیں کہ گھر کا خرچہ بڑھ گیا ہے۔ لیکن ان سے فائدہ بھی خوب اٹھاتی تھیں۔
چونکہ زلیخا کالج سے شام کو آتی تھی اور آتے ہی کتابوں میں سر دے کر بیٹھ جاتی تھی لہٰذا نسیمہ کی صورت میں ممانی کو گھرمیں ایک کام کرنے والی میسر آگئی تھی۔
یہ صورت ِحال بھی بہت دن نہ رہی۔ ایک دن نسیمہ باجی لاؤنج میں بیٹھی تھیں کہ اچانک بنے بھائی وہاں آن دھمکے۔ انہیں دیکھ کر نسیمہ باجی کی چیخ نکل گئی۔ دوڑ کر نانی کے کمرے میں گھس گئیں اور دروازہ بند کرلیا۔
شام کو حسن گھر آیا تو ممانی کا پارہ چڑھا ہوا پایا۔ نہ زلیخا گھر پر تھی نہ ماموں اور نانی، فقط نسیمہ باجی اور غضبناک ممانی۔ حسن گھبرایا ، پوچھا۔ ‘‘خیر باشد ؟ نسیمہ باجی کی ایسی کون سی خطا ہے کہ آپ اس قدر بد دماغ و خفا ہوئی ہیں ؟ کیا دودھ ابل گیا یا کھانا جل گیا ؟’’
ممانی غصہ ہوکر چلائی۔‘‘تو ُچپ کر ۔ یہ سب عذاب تیری وجہ سے آیا ہے۔ دل چاہتا ہے تیرا گلا دبا دوں۔’’
حسن نے حیران پریشان ہوکر کہا۔ ‘‘میں نے ایسا کیا کیا ہے کہ میرے قتل کی ٹھانی ہے؟ مجھ سے اس قدر کیوں بدگمانی ہے؟’’
ممانی نے طیش سے کہا۔‘‘تو نے زاہد کو سبز باغ دکھا کر اسے دھوکہ دیا۔ ہماری دکان پر قبضہ کیا۔ ہمارے روزگار پر لات ماری۔ بنے کو ساری دنیا میں بدنام کیا۔ زاہد تودنیا کا احمق ترین آدمی ہے، اسے کیا پتا تیری چالاکیوں کا۔ یہ تو بنّا تھا جو تیرے منصوبوں کو خاک میں ملاتا۔ اسی لئے تو نے اس کا پتا کاٹ دیا۔’’
حسن نے کہا۔ ‘‘بنے بھائی کے آگے ان کا کیا آیا۔ پہلے کیوں نہ سمجھ بوجھ کے چوری سے پیسہ کھایا؟’’
ممانی نے چلا کر کہا۔ ‘‘بکواس بند کر۔ یہی جھوٹ بولے تو نے زاہد کے آگے۔ تیری شہہ پروہ یہ حرکت کر گزرا ورنہ اس کی اتنی مجال کے میرے آگے کھڑا ہو اور میرے بیٹے کو اپنی دکان سے بے دخل کرے؟ اور پھر تو نے اس کو سیلز مین تک نہ رکھا۔ اب دیکھ لیا نادکان کتنی خسارے میں جارہی ہے؟ بنّا ہوتا تو اب تک منافع کا ڈھیر لگا چکا ہوتا۔’’
حسن نے صفائی دیتے ہوئے کہا۔ ‘‘شروع شروع میں تو ہر دکان جمنے میں وقت لیتی ہے۔ اب بفضلہ دکان منافع دینے لگی ہے۔’’
ممانی نے غصے سے کہا۔ ‘‘مجھے تیری کسی بات کا اعتبار نہیں۔ تو بڑا سازشی ہے۔ پہلے دکان ہتھیائی ۔ اب گھر پر بھی قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ اسی لئے تو یہ عورت یہاں لابٹھائی۔’’ ممانی نے لرزتی کانپتی نسیمہ بھابی کی طرف اشارہ کیا۔
حسن نے گھبر اکر کہا۔ ‘‘میں نے کہاں بٹھائی ؟ بنّے بھائی نے بے وجہ طلاق دی۔ اس میں میرا کیا قصور؟’’
ممانی نے بددماغ ہوکر کہا۔ ‘‘تیری وجہ سے دی طلاق ۔ مرد ہے ، غصہ آگیا۔ تیری وجہ سے خالہ نے اسے گھر میں رکھ لیا کیونکہ تو اس کا بھائی بنا پھرتا ہے۔ اب اسی عورت کی وجہ سے میرا بیٹا میرے گھر نہیں آسکتا۔ یہاں اس کی منحوس شکل اسے نظر آتی ہے، بے چارہ پریشان ہوجاتا ہے۔ اٹھا اس کو اور دارالامان چھوڑ کے آ۔’’
حسن نے ناراضی سے کہا۔‘‘ایک بے بس مظلوم عورت پر کیوں ظلم ڈھاتی ہیں ممانی جان؟ میں اپنی بہن کو گھر سے نہیں نکال سکتا۔ شرافت پیر کی زنجیر ہے، حشر کا خوف دامن گیر ہے۔’’
یہ سن کر ممانی کو اس قدر طیش آیا کہ آنکھیں لال انگارہ ہوئیں۔ چلا کر بولیں۔‘‘تو پھر تو بھی نکل، میرے گھر سے نکل، ابھی کے ابھی اس منحوس کو لے اور دفع ہوجا یہاں سے۔’’
حسن نے گھبرا کر کہا۔ ‘‘میں نسیمہ باجی اور بچے کو لے کر کہاں جاؤں گا ،ممانی جان؟’’
ممانی نے ہاتھ پکڑ کر نسیمہ کو اٹھایا اور اسے حسن کی طرف دھکیلا اور کہا۔ ‘‘یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔ میں نے ساری دنیا کے مفت خوروں کو کھلانے کا ٹھیکہ نہیں لیا ہوا۔ دفع ہوجاؤ میرے گھر سے۔’’
حسن نے بصد ِمنت و سماجت کہا۔ ‘‘کچھ خیال کیجئے۔ نسیمہ باجی عدت میں ہے۔’’
ممانی نے چلا کر کہا۔ ‘‘تیری ماں بھی آئی تھی عدت میں میرے پاس۔ اس وقت اس پر ترس کھالیا، اب تک تیری شکل میں بھگت رہی ہوں۔ اسی وقت اسے چوٹی سے پکڑ کر نکال دیا ہوتا تو آج یہ منحوس بھی میرے گلے نہ پڑتی۔’’
ماں کا طعنہ سنا تو حسن تاب نہ لایا، بمشکل خود پر قابو پایا۔ نسیمہ باجی سے کہا۔ ‘‘چلو باجی۔ اب اس سے زیادہ میں نہیں سن سکتا۔