حسن روز محبوبہء ناز نین و دل نشین کرن کو فون کرتا تھا اور اس سے معلوم کرتا تھا کہ پچھلے محلے والے آفتاب کے رشتے کے سلسلے میں کیا ہورہا ہے۔
ادھر حسن کا یہ حال کہ اندیشوں کے سبب سردھنتا تھا، ادھر محبوب کا یہ عالم کہ کب کسی کی سنتا تھا۔ حسن لاکھ لاکھ سمجھاتاتھا، دنیا کا نشیب و فراز دکھاتا تھا کہ رشتے کا معاملہ اپنے ہاتھ میں لے اور اپنے باپ سے صاف صاف کہہ دے کہ آفتاب کے خاندان کا روز گار مالِ حرام تھا، اس کے باپ کا رشوت خوروں میں بڑا نام تھا۔ لیکن وہ تو نشہء حُسن میں چور، بادۂ خود ستائی میں مخمور تھی۔
حسن کی سو باتوں کے جواب میں اٹھلا کر صرف اتنا کہتی۔ ‘‘آپ کیوں فکر کرتے ہیں۔ یہ کوئی پہلا رشتہ تھوڑی ہے؟ رشتے تو میرے روز آتے ہیں اور اتنے آتے ہیں کہ کیا بتاؤں۔ جب وقت آئے گا تو دیکھی جائے گی۔ آپ بھی رشتہ لے آیئے گا۔ ہاں البتہ اپنی بینک بیلنس شیٹ ضرور ساتھ لایئے گا تاکہ ڈیڈی کو تسلی ہوجائے۔’’
حسن کی بلا جانے کہ بینک بیلنس شیٹ کیا ہوتی ہے۔ دل میں سوچا۔ یہ رازِ نہاں ہے ، شاید زلیخا پر عیاں ہے۔ اس سے پوچھنا چاہیے۔ زلیخا سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ ایک جگہ ہے جہاں سود خور بیٹھتے ہیں اور لوگ اپنا پیسہ ان کے پاس حفاظت کی غرض سے رکھواتے ہیں اور اس کی رسید وصول کرتے ہیں تاکہ سند رہے اور بوقت ِضرورت کام آئے۔ اسی رسید کو بینک بیلنس شیٹ کہتے ہیں۔
یہ سن کر حسن سوچ میں پڑگیا کہ کیا کرے۔ ماں کے جواہرات میں سے چند اس نے بیچے تھے اور کچھ رکھ چھوڑے تھے کہ زندگی بہت لمبی ہے اور اس میں ناگہانی واقعات کی کمی نہیں۔ ماں کا اصول تھا کہ آدھا مال تجارت میں لگاؤ، آدھا چھپا رکھو تاکہ ناگہانی کی صورت میں نکالو اور کام میں لاؤ۔ اسی اصول کے تحت حسن نے ہیروں اور اشرفیوں کی فروخت سے جو رقم پائی تھی، کاروبار میں لگائی تھی اور بقیہ جواہرات کو سنبھال رکھاتھا۔ سوچ سوچ کر اسے خیال آیا کہ شہریار نظیرکے پاس جائے اور اس سے ڈرامے میں کام کرنے کا معاوضہ وصول پائے۔ اس رقم کو بینک میں جمع کرائے اور رسید معشوق کے باپ کو دکھا کر اس ناطورۂ زاہد فریب کو عقد ِ نکاح میں لائے۔
یہ سوچ کر وہ شہریار نظیر سے ملنے اس کے دفتر گیا۔ وہاں جاکر معلوم ہوا کہ شہریا رنظیر ڈرامے کے غم میں گرفتار ہے۔ صیدِ تیرا دبار ہے۔
اس کے معاون نے مغموم ہوکر حسن کو بتایا۔ ‘‘کیا بتاؤں کتنے اپ سیٹ ہیں ،سر۔ ساری زندگی کی جمع پونجی ڈوب گئی۔ دن رات پیتے رہتے ہیں بے چارے۔’’ یہ کہہ کر دفتر کا دروازہ کھولا اور کہا۔ ‘‘سر، حسن بدر الدین آیاہے۔’’
شہریار نظیر میز پر سر رکھے پڑا تھا۔ پاس بوتل اور جام رکھا تھا۔ معاون کی آواز پر سر اٹھایا اور لال لال آنکھوں سے حسن کو دیکھنے لگا۔ حسن نے سلام کیا۔
شہریار نے لڑکھڑاتی آواز میں پوچھا۔ ‘‘کیا کرنے آئے ہو؟’’
معاون نے کہا۔‘‘سر یہ اپنی پے منٹ لینے آیا ہے۔’’
شہریار نے پہلے قہقہہ لگایا، پھر غصے میں آیا۔ چلا کر بولا۔ ‘‘پھوٹی کوڑی نہیں ہے میرے پاس ۔ میری بیوی کے زیور بک گئے، میری گاڑی بک گئی۔ مجھ سے پوچھو، پوچھو مجھ سے کہ سالے خر دماغ، الو کے پٹھے تجھے کس خنزیر کے تخم نے مشورہ دیا تھا کہ تاریخی ڈرامہ بنا ؟ تو نے دو بہنوں کی کہانی کیوں نہ بنائی؟ تو نے دیور بھابھی کا افیئر کیوں نہ دکھایا؟ تو نے اِچھا دھاری ناگن کیوں نہ دکھائی؟’’
یہ کہہ کر میز پر پڑا سنگِ مرمراٹھا کر کھینچ مارا، حسن نے اچھل کر وار بچایا۔ شہریار چیخ کر بولا۔ ‘‘بھاگ جاؤ یہاں سے فلاپ ڈرامے کے ہیرو۔ ڈرامہ فلاپ، تم فلاپ، میں بھی فلاپ، میرا سارا پیسہ فلاپ ہاہاہاہا۔۔۔’’
یہ کہہ کر سر میز پر گرادیا اور دھاڑیں مار کر رونے لگا۔
معاون نے جلدی سے دروازہ بند کیااور حسن سے کہا۔ ‘‘بس یہی حالت ہے آج کل ان کی ۔ سوری یار پیسہ تمہیں اب کوئی نہیں مل سکتا ان سے۔ ہاں البتہ چائے پلاتا ہوں تمہیں۔’’
بے چارہ حسن حیران پریشان اس ماجزائے عبرت خیز پر غور کرتا ہوا بیٹھ گیا۔ ابھی اسی سوچ میں گم تھا کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے کہ اپنے نام کی پکار سنائی دی۔ سر اٹھا کر دیکھا تو ایک نوجوان لڑکی کو اپنی طرف دیکھتا پایا۔
وہ حسن کے پاس آئی اور خوشی خوشی یہ بات سنائی۔‘‘اف مجھے، یقین نہیں آرہا میری آپ سے ملاقات ہورہی ہے۔ آج میں آئی ہی اس لئے تھی کہ یہ لوگ مجھے آپ سے انٹرویو کا وقت دلوادیں۔ میں لیڈیز میگزین میں لکھتی ہوں۔ کیا بتاؤں کتنی فرمائشیں وصول ہوتی ہیں ہمیں آپ کے انٹرویو کی۔ معاف کیجئے گا ،ڈرامہ آپ کا فلا پ ہوگیا لیکن آپ ہٹ ہوگئے ہیں۔ میری ساری فرینڈز آپ کی فین ہیں۔’’
یہ کہہ کر فون نکالا اور خوشی خوشی حسن کے ساتھ اپنی تصویر لی۔ وہیں بیٹھے چائے پیتے اس نے حسن سے انٹرویو لیا اور جب اسے یہ معلوم ہوا کہ حسن کپڑوں کی تجارت کرتاہے اور اس کی اپنی دکان ہے تو بہت خوش ہوئی اور بولی۔ ‘‘آپ کو تو کوئی ایڈورٹائزنگ نہیں کرنی پڑتی ہوگی نا؟ بس اپنی تصویریں لگادی ہوں گی اور عورتیں ٹو ٹ پڑتی ہوں گی آپ کو دیکھنے۔ اف میری فرینڈ ز کو پتا چلے گا تو اتنی ایکسائٹڈ ہوں گی۔ ہم آئیں گے آپ کی دکان، آپ سے ملنے۔’’
وہ لڑکی تو حسن سے یہ باتیں کہہ کر خوشی خوشی سدھاری مگر حسن کو ایک خیال سجھا گئی۔ وہاں سے اٹھ کر سیدھا دکان کو آیا اور بندو، نعیم اور محسن کو بلا کر دیر تک ان سے گفتگو کرتا رہا۔
٭……٭……٭