کنیزِ بدتمیز نے جو اس کی یہ حالت دیکھی تو زخموں پر مزید نمک چھڑکنے کا ارادہ کیا۔ اپنے کانوں میں پڑی بالیوں کو انگلیوں سے ہلایا اور اٹھلاکر بولی۔ ‘‘یہ سونے کی بالیاں دی ہیں مجھے رشتہ ڈالنے کے لئے۔ شادی پہ چار چوڑیاں بنو اکردیں گے ۔’’
حسن بدر الدین نے جب یہ گفتگو ئے روح فرسا سنی تو جل بھن کے خاک ہوگیا۔ آنکھوں تلے اندھیرا چھایا، مارے غصے کے پیچ و تاب کھایا۔ جھلا کر یہ فقرہ سنایا : ‘‘تجھ پر خدا کی مار ، شیطان کی پھٹکار ۔ کیا شامت آئی ہے یابدن کی ہڈی چلچلائی ہے، یا قضا سرپر کھیلتی ہے کہ میری معشوقہ کا رشتہ کرانے کا شوق چرایا ہے۔ دل میں کیونکر یہ منحوس خیال آیا ہے؟’’
کنیز نے ہنسی سے بے حال ہوتے ہوئے کہا:‘‘اف حسن بھائی جان، آپ بھی نا بڑے مزاقیہ ہیں سچی۔ آپ سمجھتے ہیں آپ ساری دنیا کے لئے بڑا کوئی تحفہ ہیں۔ سب آپ پہ جان چھڑکیں گے، آپ کی مرضی پہ چلیں گے۔ ایسے ہوتا نہیں ہے بھائی جان۔ یہاں ہر کوئی اپنا فائدہ دیکھتاہے۔ کتنے عرصے سے آپ نے معشوقہ معشوقہ کی رٹ لگائی ہوئی ہے۔ رشتہ کیوں نہیں بھیجا ابھی تک ؟ کتناعرصہ میں آپ کو بتاتی رہی کہ آفتاب بھائی مجھے بات سیٹ کرنے کے اتنے اتنے پیسے دے رہے ہیں، آپ نے کیوں نہیں اشارہ سمجھا؟ کیوں نہیں موقع سے فائدہ اٹھایا؟ جو تھپڑ موقع گزرنے کے بعد یاد آئے نا، اسے اپنے ہی منہ پر مار لینا چاہیے۔’’
یہ کہہ کر حسن کو آنکھ ماری اور اپنا پلو جھلاتی ، مزے میں گنگناتی وہاں سے سدھاری۔ حسن چپ چاپ وہاں کھڑا رہ گیا۔ آج کنیز اسے آئینہ دکھا گئی تھی۔ اپنی اب تک کی زندگی اس کی نگاہوں کے سامنے پھر گئی۔ اس نے محبت کے موقعے سے کبھی فائدہ نہ اٹھایا تھا۔جب تک ماں باپ کے پاس تھا۔ وہ سر آنکھوں پر بٹھاتے تھے، آج اس حسرت میں مرتا تھا کہ بس ایک مرتبہ ان کے قدموں میں بیٹھنے کا موقع ملے توپھر کبھی نہ اٹھے۔ اِس زمانے میں آیا تو نانی کا بے پایاں پیار پایا۔ ماموں میں باپ نظر آیا۔ گھر والے،دوست یار سب خلوص سے کام آتے تھے تو حسن کو لگتا تھا یہی میرا حق ہے اور ہمیشہ ایسے ہی ملتا رہے گا۔ اس نے ساری زندگی محبت پائی تھی، اب محبت کھونے کا اندیشہ ہوا تو معلوم ہوا جو محبت ملتی تھی وہ حسن کی خوبیء کردار نہیں، خوبیء قسمت تھی۔ اور اب جو محبت جا تی ہے تو وہ سراسر اپنا قصور ہے، ہنوزدلی دور ہے۔
بصدِ حسرت ورنج حسن وہاں سے چلا اور سیدھا نانی کے کمرے میں پہنچا کہ اس مادرِ مہربان کی گود میں سررکھ کے اپنے دل کی بات کہہ سنائے، ملال و غم سے نجات پائے۔
وہاں گیا تو دل ہلکا ہونے کے بجائے مزید بھر آیا۔ وہاں نسیمہ باجی بیٹھی تھی اور آٹھ آٹھ آنسوروتی تھی۔ گونانی برابر تسلی دیتی تھی لیکن اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی دھار جاری تھی، رقت طاری تھی۔ سسکی بندھی تھی، ہچکی لگی تھی۔ اسے یوں روتا دیکھ کر بے چاری نانی کا بوڑھا دل بھی بھر آتا تھا۔ بہت تسلیاں سن کر نسیمہ باجی چپ کرتی تھی تو اس کا بچہ رونے لگتا تھا۔ اسے خاموش کرایا جاتا تو نسیمہ کے کلیجے میں پھر سے ہوک اٹھتی اور وہ از سر نو مصروف ِ گریہ و زاری ہوتی۔ عجب معاملہ عبرت انگیز تھا، خرابہ ٔ وحشت خیز تھا۔
ایک کونے میں بے چاری زلیخا کتاب گود میں رکھے بیٹھی تھی اور بے بس نظروں سے کبھی روتی دھوتی نسیمہ کو اور کبھی اپنی کتاب کو دیکھتی تھی۔ اس آہ وزاری کے درمیان حسن کیونکر نانی سے بات کر تا اور کیسے اپنے دل کا حال کہنے پاتا۔ دل مسوس کر وہاں سے نکلا اور اپنے کمرے میں آکر پڑا رہا۔