اس میں کوئی شک نہیں کہ گھر میں کمروں کی تنگی تھی۔ ایک کمرہ ماموں ممانی کا تھا۔ ایک دادی کا جس میں ان کے ساتھ زلیخا اور منا رہتے تھے۔ اور تیسرا سب سے چھوٹا کمرہ حسن کا تھا۔ ممانی اور ماموں کے جھگڑے کے بعد سے ماموں دادی کے کمرے میں رہنے لگے تھے اور منا ممانی کے کمرے میں ۔ رہ گئی زلیخا تو وہ تمام رات جاگ کر پڑھتی تھی اور جہاں جگہ ملے پڑ کر سورہتی تھی۔
اب نسیمہ جو آئی تو یہ فکر ستائی کہ کون کہاں جائے اور کس کمرے میں ڈیرہ جمائے؟ سب سے پہلے ماموں اٹھے اور دوڑ کر حسن کے کمرے میں جاگھسے اور دروازہ بند کرلیا۔ لمحے بعد ہی دروازہ کی جھری کھولی اور جھانک کر حسن کو ایک آنکھ سے تاڑا اور بولے۔ ‘‘آؤ بیٹا ،دونوں ماموں بھانجا مل کر رہیں گے۔ ہیں؟’’ یہ کہہ کر جلدی سے دروازہ پھر بند کردیا۔
ممانی کویہ حرکت باور نہ آئی ، بے حد جھنجھلائی ۔ بگڑ کر چند ناروا الفاظ ماموں اور اپنے سسرال کی شان میں کہے اور اپنے کمرے کی طرف چل دی۔ ہوتے ہوتے باقی لوگ بھی سدھارے اور نانی روتی دھوتی نسیمہ کو تھامے اپنے کمرے میں لے گئیں۔
اگلے دن ماموں مسجد کے بزرگوں کے ساتھ بنے بھائی سے ملاقات کو گئے اور واپسی پر یہ مژدہ لائے کہ نہ صرف یہ کہ بنے نے رجوع کرنے سے انکار کردیا بلکہ گواہان کے روبرو ایک کاغذ پر طلاق بھی لکھ دی۔ حق مہر یہ کہہ کر دینے سے انکار کردیا کہ چونکہ مجھے بچے کی ولدیت میں شک ہے لہٰذا آج تک جو پیسہ اس کی پرورش میں خرچ ہوا ہے، وہ حق مہر سمجھا جائے۔
خاوند کی یہ بے حمیتی سننے میں آئی تو نسیمہ زار زار رونے لگی، اشکوں سے منہ دھونے لگی۔ نانی بھی آبدیدہ ہوئیں۔ کفِ افسوس ملنے لگیں، نسیمہ کو تسلی دینے لگیں۔ ماموں کی آنکھیں بھی ڈبڈاآئیں۔ نسیمہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر تھپکا اور آنسو پونچھتے اپنے یعنی حسن کے کمرے کی راہ لی۔
حسن بدر الدین کی قمست نے راتوں رات ایسا پلٹا کھایا کہ کہاں خوشیوں کے ہنڈولے میں جھولتا تھا، روز ایک نئی خوشخبری وصولتا تھا ،اور کہاں یہ عالم کہ شامت پہ شامت آتی تھی، قسمت آفت پہ آفت ڈھاتی تھی۔ ابھی نسیمہ باجی کی طلاق کے صدمے سے سنبھلنے نہ پایا تھا کہ شہریار نظیر نے بلایا، اور بے حد رویا چلایا اور یہ مژدۂ جگر دوز سنایا کہ ڈرامہ اڑنے سے پہلے ہی نیچے آرہا یعنی فلاپ ہوگیا، ٹھس ہوگیا، پٹ گیا، برباد ہوگیا۔ بڑی دیر تک سرد ھنتا رہا، جو شِ جنون سے تنکے چنتا رہا۔ڈرامہ دیکھنے والوں کو بڑی بڑی گالیاں دیں اور صلواتیں سنائیں کہ: ‘‘گھٹیا ڈراموں، ساس بہو کی کہانیوں کو سرپراٹھاتے ہیں اور اگر کوئی فلانا ڈھمکانا اچھی چیز بنائے تو اسے دیکھتے تک نہیں۔ ارے پیریڈ ڈرامہ تھا یہ ، تاریخی ڈاکیومنٹ، اٹلکچوئل آرٹ پیس۔ اور پتا ہے کیا ریٹنگ آرہی ہے اس کی؟ پوائنٹ ون۔ صرف پوائنٹ ون۔ یہ فلانے ڈھمکانے اسی قابل ہیں کہ ان کو ناگن دکھایا جائے۔’’
شہریار کا یہ حال دیکھا، صیدِ قلق و ملال دیکھا تو حسن نے اسے تسلی دی اور بہت سمجھایا بجھایا ۔ ہمدردی کے بول پاکر شہریار کے ہاتھ سے طنابِ ضبط چھوٹ گئی، ہمت ٹوٹ گئی۔ دل پرُغم خانہ ٔ ماتم ہوا، لب نالہء زار سے ہمدم ہوا۔ اس قدر رویا کہ جل تھل ایک کردیا۔
بڑی مشکل سے اس سے جان چھڑا کر حسن دکان کو آیا تو وہاں یہ معاملہ ٔ وحشت اثر سننے میں آیا کہ دونوں دکانیں ابھی تک کچھ بھی بیچنے میں ناکام ہیں۔ اب تک ایک بھی گاہگ مطلب کا نہ آیا، اگرچہ دور دور تک ڈھنڈوایا۔ سب لڑکے دکان میں بیٹھے مکھیاں مارتے ہیں اور اگر یہی حالات رہے تو پہلے مہینے کا بجلی کا بل بھی نہیں نکلے گا۔
حسن بدر الدین نے یہ حالات سنے تو تیر ِغم کلیجے کے پار ہوا ، حال بہت ہی زار ہوا۔ بڑا صدمہ اٹھایا۔ ملول و محزون گھرکو آیا تو یہاں ایک نیا فتنہ منتظر پایا۔
کنیزِ بے تمیز اس کے انتظار میں صحن میں کھڑی تھی۔ اسے آتے دیکھا تو پوری بتیسی نکال کر آنکھیں مٹکائیں اور بولی۔ ‘‘ایک خوشخبری ہے آپ کے لئے۔’’
حسن گھبرایا، دل میں سوچا۔ ‘‘اس پاجی عورت سے کسی بھلائی کی امید رکھنا خام خیال ہے۔ حماقت پہ دال ہے۔ مجھے دل لگی کا تختہ مشق بناتی ہے، اب دیکھئے پوٹلی میں سے کیا خبر نکال لاتی ہے۔’’
یہ سوچ کر اس سے بے اعتنائی ظاہر کی اور کہا۔ ‘‘مجھے تیری خوشخبری سے کیا؟’’
یہ کہہ کر آگے بڑھا کہ جلدی سے اپنے کمرے میں جائے، اس بلا سے جان چھڑائے۔
کنیز نے ہنستے ہوئے پکار کر کہا۔ ‘‘جاتے کہاں ہیں؟ بات تو سنتے جائیں۔ نہیں سننی؟ اچھا آپ کی مرضی۔ کرن باجی کی بات تھی۔ میں نے سوچا شاید آپ سننا چاہیں۔’’
کرن کا نام سنا تو حسن کے کان کھڑے ہوئے گھبرا کر پوچھا۔ ‘‘کیا بات ہے؟ سب خیر تو ہے؟’’
کنیزِ بے تمیز نے بے اندازہ لطف اندوز ہوتے ہوئے کہا۔ ‘‘سب خیر ہی خیر ہے بلکہ بڑی خوشخبری ہے۔ آپ کے لئے نہیں، کرن باجی کے لئے۔’’
حسن نے ڈانٹ کر کہا۔ ‘‘اب بول بھی دے کہ ہوا کیا ہے۔’’
اس نے جھوم کر کہا۔ ‘‘پچھلے محلے والے آفتاب بھائی ہیں نا ؟ آج انہوں نے رشتہ بھیجوایا ہے کرن باجی کے گھر۔ باقاعدہ رشتہ۔’’
یہ کہہ کر تیزی سے آگے بڑھ کر حسن کو بازو سے دبوچا اور گھسیٹ کر پھاٹک پرلے جا کھڑا کیا۔ باہر گلی میں کرن کے گھر کی طرف اشارہ کرکے کہا۔ ‘‘وہ دیکھیں! یہاں سے گاڑیاں کھڑی نظر آرہی ہیں ان کی۔ پورا خاندان آیا ہے، یہ بڑی بڑی گاڑیوں میں۔ اور اتنی مٹھائی اور پھل لائے ہیں کہ گھر میں رکھنے کی جگہ نہیں رہی۔ مجھے بھی دیئے ہیں ٹوکرے بھر بھر کے۔’’
حسن بے چارہ اس اچانک صدمے سے دم بخود حیران پریشان ، کچھ بول ہی نہ سکا۔