الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۱

یوں تو عاصم کے گھر میں حسن کو ہر طرح کا آرام تھا، دن رات عمدہ عمدہ غذائے لذیذ و نفیس، خدمت کو کئی کئی نوکر چاکر حاضر، گھومنے کو گاڑیاں موجود، لیکن حسن کو ایک فکر مسلسل دامن گیر رہتی تھی۔ اسے خدشہ تھا کہ کہیں عاصم آئیلویو لوکے جذبات سے مغلوب ہوکر اس کے کمرے میں نہ آٹپکے۔ اس خدشے کے پیش نظر وہ دن کا سارا وقت دکان پہ رہتا تھا اور رات کو گھر آتے ہی کمرۂ بند کرکے بیٹھ جاتا تھا۔ روز محبوبہء نازنین کو فون کرتا تھا اور گھنٹوں اس سے باتیں کرتا تھا۔ لیکن عاصم بے چارے نے کبھی حسن کے قریب آنے کی کوشش نہ کی۔ بس دور دور سے حسن کو دیکھ کر ٹھنڈی آہیں بھرتاتھا، انواع و اقسام کے رنج سہتا تھا۔
اچھی بات یہ تھی کہ حسن کو نسیمہ باجی کی طرف سے بے فکری تھی۔ عاصم کی جگہ کوئی اور ہوتا تو حسن انہیں کسی غیر کے گھر چھوڑ کر کام پر جانے سے پہلے سو مرتبہ سوچتا مگر نسیمہ باجی کو کم از کم عاصم سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ ویسے بھی نسیمہ باجی اب بہت سنبھل چکی تھیں۔ اچھی غذا اور آرام نے صحت پر اچھا اثرڈالا تھا۔ ان کا ہر وقت کا رونا دھونا اور گریہ وزاری بند ہوچکی تھی۔ وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبی نظر آتی تھیں اور کبھی کبھی اپنے منے کی کسی شرارت پر ہنس بھی دیتی تھیں۔
حسن جانتا تھا وہ کیا سوچتی رہتی ہیں۔ ساری زندگی وہ کسی کے گھرپر تو نہیں پڑی رہ سکتی تھیں۔ سوچتی ہوں گی اپنا کام شروع کریں اور اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائیں۔ یہ باتیں حسن بھی سوچتا تھا۔ اپنی ماں کے ترکے میں سے جو چیزیں اس نے کسی ناگہانی کے لئے سنبھال رکھی تھیں۔ اب انہیں استعمال کرنے کا وقت آگیا تھا۔ بھلا اس سے بڑی ناگہانی کیا ہوگی کہ انسان راتوں رات بے گھر ہوجائے اور غیروں کے گھرپناہ لینے پر مجبور ہوجائے ؟ حسن صرف اس انتظار میں تھا کہ نسیمہ باجی کی عدت کے جو چند دن رہتے تھے، وہ مکمل ہوجائیں تو کوئی چھوٹا سا مکان دیکھ کر اپنا اور نسیمہ باجی کا ٹھکانہ کرے، نانی کو پھلوں اور مٹھائی کے ٹوکرے دے کر محبوبہ کرن کے گھر رشتہ بھیجے اور بقیہ زندگی نسیمہ باجی کی دیکھ بھال کرے اور زوجہء منکوحہ کے ساتھ عیش و عشرت سے رہے۔
دوسری طرف دکان اچھی چل پڑی تھی۔ بہت سی عورتیں جو کپڑا خریدتی تھیں وہ دکان میں بیٹھے درزی سے ہی سلوالیتی تھیں۔ آہستہ آہستہ یہ کام بڑھا تو درزی بھی اور رکھنے پڑے۔ پہلے ایک سے دو ہوئے، پھر تین اور پھر ہوتے ہوتے پانچ درزی ہوگئے۔ حسن کو انہیں پیچھے کے گودام میں جگہ بناکر دینا پڑی۔ اکثر وہ عورتوں کو لباس کی سلائی اور اس کی بناوٹ کے حوالے سے مشورے بھی دیتا۔ بہت سی عورتیں اس سے فرمائش کرتیں کہ حسن یہ کام بھی شروع کرے اور ڈریس ڈیزائنر بن جائے اور بوتیک کھول لے۔ بندو نے حسن کو سمجھایا کہ ڈریس ڈیزائنر اور بوتیک کیا ہوتا ہے۔ حسن کو یہ مشورہ پسند آیا۔
عاصم کے گھر میں بہت سے اخبار اور رسالے آتے تھے۔ حسن ان رسالوں میں ملبوسات کی تصاویر غور سے دیکھنے لگا اور اس کی بناوٹ اور سلائی پر غور و خوص کرنے لگا۔ کبھی کبھی کاغذ قلم اٹھاتا اور غراروں ، شراروں ، بشوازوں کی تصویر یں بناتا۔ جب بہت سی تصویری اکٹھی ہوگئیں تو اس نے یہ تصویریں بندو اور نعیم کو دکھائیں، دونوں کو از بس پسند آئیں۔ بندو نے تین چار درزیوں کو اور بٹھایااور فوراً بوتیک کاکام شروع کرایا۔ ماموں کی دکان کا سارا مال بڑی دکان میں منتقل کیا اور اس دکان کو شیشوں اور پھولوں سے سجایا اور چند بتانِ طناز کھڑکی میں دھرے اور انہیں حسن کے بنائے ہوئے کپڑے پہنائے۔ خلق ِ خدا کو بہت پسند آئے۔ اس دکان کے ماتھے پر لکھوایا۔۔‘‘فیشن ہاؤس آف حسن بدر الدین۔’’
دکان بنامِ بوتیک کے افتتاح کی بھی بندو نے عجب ترکیب لڑائی۔ نہ مولوی بلائے نہ قرآن خوانی کرائی۔ خوبصورت سے دعوت نامے چھپوا کر حسن کو دیئے کہ اپنے جاننے والے اداکاروں اور ماڈلوں میں بانٹے اور بصدِ شوق و محبت بلائے۔ حسن کو آئے دن کسی نا کسی اشتہار میں کام کا موقع ملتا تھا اور وہ بہت سے لوگوں کو جانتا تھا۔ اس نے ان تمام ماڈلوں، فوٹوگرافروں اور اداکاروں کو بلایا جن کے ساتھ کام کیا تھا، دوستوں میں نام کیا تھا۔ پولو میچ کے ساتھیوں کو بھی دعوت نامے دیئے۔ عاصم اور غفران نے بھی اپنے امیر امیر دوستوں کو بلایا اور جب افتتاح کا دن آیا تو دکان کو نہایت لطافت و رخوشنمائی سے سجایا۔
سہ پہرسے رات تک دکان پر مشہور و دولتمند لوگوں کا آنا جانا رہا اور انہیں دیکھنے کے لئے لوگوں کے ٹھٹ لگ گئے۔ جو آتا کچھ کھائے پیئے بغیر نہ جاتا۔ اس ایک دن میں دونوں دکانوں میں اتنی بکری ہوئی کہ کبھی نہ ہوئی تھی اور محسن نے اتنا کھانا پکایا کہ تمام زندگی نہ بنایا تھا اور اتنے گاہک آئے کہ بازار کی کل دکانوں پر کبھی نہ آئے تھے۔ حسن کے بنائے ہوئے بہت سے ملبوس بک گئے اور بہت کم بچ گئے۔ اس تمام کا میابی پر حسن اور اس کے دوست جامے میں پھولے نہیں سمائے اور باری تعالیٰ کا شکر بجا لائے۔
اگلے دن زلیخا کافون آیا اور اس نے حسن کو اس کامیابی پر دلی مبارکباد دی اور نانی نے بھی بہت خوشی کا اظہار کیا اور یہ خوشی منانے کی خاطر چائے پر بلایا ۔ حسن نے اگلے دن شام کو آنے کا وعدہ کیا، نانی اور زلیخا کے لئے خوشی سے تحفے لے جانے کا ارادہ کیا۔

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۰

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!