الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۱
(سارہ قیوم)
بائیسویں رات
رات آئی تو شہرزاد شیریں بیان نے کہانی یوں سنائی کہ جب سفاک ، بے رحم بنے بھائی نے کھڑے کھڑے نسیمہ کو طلاق دی اور اپنی راہ لی تو گھر بھر پر برق گر پڑی اور سب کو سانپ سونگھ گیا۔ سب لوگ حیران و ششدر تھے، بے قرار ومضطر تھے۔ آخر اس سناٹے کو ماموں کی آواز نے توڑا۔ وہ بھرائے ہوئے لہجے میں بولے۔ ‘‘انا للہ وانا علیہ راجعون۔’’
اس درد بھری آواز کا سننا تھا کہ سامعین کی چھاتی بھر آئی، اس ظلم درد انگیز کی تاب نہ آئی۔ نانی کے منہ سے چیخ نکل گئی اور وہ دھاڑیں مار کر رونے لگی۔ ممانی بھی حیران پریشان مثل ِپیکرِ تصویر خاموش تھی، ہمہ تن گوش تھی۔ زلیخا کے چہرے پر خاموش آنسو بہتے تھے۔
اسی خاموشی سے اٹھ کر اس نے تھر تھر کانپتی نسیمہ کے ہاتھ سے بچے کو لیا اور نسیمہ کا بازو پکڑ کر تخت پر بٹھایا۔ نسیمہ کا چہرہ کورے لٹھے کے مانند سفید تھا، جانے اس کے دل میں کیا بھید تھا؟
حسن کے دل میں شعلہء آتشیں بل کھاتا تھا، نائرہ ٔ غضب سینے میں مشتعل ہوا جاتا تھا۔ دل تو چاہتا تھا کہ اسی وقت جائے اور بنے بھائی کو واصلِ جہنم کرے ،لیکن جانتا تھا کہ اس وقت سوال و جواب میں بات ضرور بڑھے گی، یہ بیل منڈھے نہ چڑھے گی۔
وہ آگے بڑھ کر نسیمہ کے پاس بیٹھ گیا اور کہا۔ ‘‘باجی، مجھے حیرتِ کمال ہے کہ یہ کیا حال ہے۔ لیکن سچ پوچھو تو ایسے شوہر سے تم بے شوہر کی بھلی۔ روز روز کے مرنے سے ایک مرتبہ مرنا اچھا۔ خس کم جہاں پاک۔’’
یہ سن کر نسیمہ نے پھٹی پھٹی نگاہوں سے حسن کو دیکھااور ٹوٹتی ہوئی آواز میں بولی۔ ‘‘میرا دنیا میں کوئی نہیں۔ نہ آگا نہ پیچھا۔۔۔ میں کہاں جاؤں گی ؟ کیا کروں گی؟’’
یہ کلامِ رقت التیام سن کر حاضرین ِجلسہ میں ہر ایک مصروفِ گریہ وزاری تھا، آنسوؤں کا دریا آنکھوں سے جاری تھا۔ خود نسیمہ کے دل و دماغ بھی بھر آئے۔ اشک خونیں دامن کی خبر لائے۔ روئی چلائی، کپڑے چاک کئے، نالہ ء ہائے درد ناک کئے۔
آخر ماموں اپنی جگہ سے اٹھے ۔بہ صد شفقت و ہمدردی نسیمہ کے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا:
‘‘بیٹی ،تم فکر نہ کرو۔ جہاں تک میر اعلم ہے، ایک نشست میں طلاق نہیں ہوتی۔ میں کل بنے کے پاس جاؤں گا۔ مسجد سے چند بزرگوں کو بھی ساتھ لے جاؤں گا۔ ہم سمجھائیں گے تمہارے میاں کو۔ کوئی نہ کوئی حل نکل ہی آئے گا انشاء اللہ ۔ تب تک تم ہمارے پاس رہو ۔ اس کو اپنے ماں باپ کا گھر سمجھو۔ ’’
یہ ہمدردانہ کلام سن کر نسیمہ اور بھی پھوٹ پھوٹ کر روئی۔ نانی نے محبت سے اس کے آنسو پونچھے اور کہا۔ ‘‘ٹھیک کہتا ہے زاہد، اسے اپنے ماں باپ کا گھر سمجھو۔’’
ممانی جزبز ہوئی اور کہا۔ ‘‘لیکن یہ رہے گی کہاں؟ اتنے کمرے ہی نہیں گھر میں ۔’’