حسن کے ماڈل بننے کی خبر جنگل کی آگ کی طرح محلے، خاندان اور دوستوں میں پھیل گئی۔ زلیخا نے انگریزی میں لکھا وہ مضمون نانی کو ترجمہ کرکے سنایا جو حسن کی تصویروں کے ساتھ چھپا تھا۔ اس میں لکھا تھا کہ ٹی وی پر ایک کھیل پیش کیا جائے گا اور حسن اس میں نواب بنے گا۔ یہ سن کر نانی بے حد خوش وم سرور ہوئی، حسن کے فیل ہونے کی شرمندگی دور ہوئی۔ دور و نزدیک سے مبارکباد کے فون آنے لگے، محلے والے خوشی کے شادیانے بجانے لگے۔ کچھ لوگوں نے ناک بھوں چڑھائی،کچھ نے طعنوں اور تشنیع کی بات بڑھائی۔ لیکن نانی نے کسی کی بات پر کان نہ دھرا اور ہنس ہنس کر سب کو حسن کی لیاقت و قابلیت کی حکایت سنائی۔ دوست مبارک دینے آئے تومحسن نے کوئلوں کی انگیٹھی پر سب کے لئے کباب بھونے، زلیخا نے مٹھائی سے تواضع کی اور سب نے مل کر حسن کی خوشی منائی۔
حسن بدر الدین کو تو خوشیاں مناتے ہوئے یہیں چھوڑ یئے اور اب ذرا ا س کی محبوبہ رشکِ قمر ، نازک کمر کا حال سنیئے۔
کرن کو اپنے حسن پر بہت ناز تھا، درِ خود ستائی ہر دم باز تھا۔ یوں تو جانتی تھی کہ سینکڑوں میں انتخاب ہے، ہزاروں میں لاجواب ہے لیکن جب حسن بدر الدین کو گلی میں آتے جاتے دیکھتی تھی تو دیکھتی ہی رہ جاتی تھی۔ سوچتی تھی کہ واللہ کیا آن بان اور شان ہے، پورے محلے میں ایک یہی دیدارو جوان ہے۔ مہر سیما ، یوسف لقا، کیا شان ، کیا ادا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ شیر مرد پری زاد ہے، واللہ بس یہی میرے ڈیڈی کا داماد ہے۔ اس کے سوا کوئی میری ٹکر کا نہیں۔ دونوں آپ اپنا ہی جواب ہیں، ایسے حسین بھی دنیا میں نایاب ہیں۔
گوکہ اس کی دلی خواہش تھی کہ حسن بدر الدین اس کی محبت میں گرفتار ہو اور باہم کوئی عہد و اقرار ہو، لیکن حسن کو اپنے دوستوں کے سوا کچھ نظر نہ آتا تھا۔ کرن برابر زلیخا سے ملنے کے بہانے جاتی تھی، حسن پر ناز وادا کے تیر چلاتی تھی لیکن کچھ بن نہ آتی تھی۔ غم غلط کرنے کو وہ دوسرے لڑکوں سے ہنسی دل لگی کی باتیں کرتی تھی، دل بہلانے کا سامان کرتی تھی۔ ارادہ تھا کہ ان میں سے بہترین کو چن کر جیون ساتھی بنائے گی، لطفِ زندگانی اٹھائے گی۔
پھر تقدیر نے پلٹا کھایا، خدا نے حسن کا دل پلٹایا۔ ایک دن وہ صبح صبح اس کے گھر گئی تو حسن اس کے عشق میں گرفتار ہوگیا۔ یوں ظاہر کیا گویا پہلی مرتبہ دیکھ رہا ہو۔ والہ وزار ہونے لگا، اس پر نثار ہونے لگا۔
کرن نے دل میں سوچا فہم المراد، چشم ماروشن دل ماشاد۔ لیکن ایسی بے وقوف نہ تھی کہ عشق کی آگ کو ہوا دیئے بغیر محبت کا دم بھرنے لگتی ۔ عاشق کے سامنے اپنی قدر بڑھانی ہو تو اس کے دل میں شعلہء عشق کو بھڑکانا ضرور ہے، آسانی سے ہاتھ آنا عقل سے بعید و دور ہے۔ یہ سوچ کر وہ اس کے ساتھ لکاچھپی کھیلنے لگی۔ کبھی اشارے سے بلاتی تھی، کبھی بے نیازی دکھاتی تھی۔ ہر دم تذکرہء رقیب سے اس غریب کا دل جلاتی تھی۔
پھر خدا کا کرنا یوں ہوا کہ حسن بدر الدین امتحان میں فیل ہوگیا۔ حسن کا فیل ہونا تھا کہ کرن کے دل سے اس کی سب محبت جاتی رہی۔ اس نے حسن سے محبت سوچ سمجھ کر کی تھی۔ ایک ایک چیز کا حساب لگایا تھا۔ وہ بے ماں باپ کا لڑکا تھا یعنی ساس سسر، دیور، نند کاکوئی جھنجھٹ نہ تھا، حسین و جمیل تھا، خوش مزاج تھا، لائق فائق تھا، انجینئر بن رہا تھا۔ اچھی نوکری لگ جاتی تو وہی اس کے گھر اور پیسے کی مالکن ہوتی اور اگر باہرکے ملک چلا جاتا تو پانچوں گھی میں سر کڑاہی میں ہوتا۔ لیکن جب وہ فیل ہوگیا تو یہ سارے منصوبے دھرے رہ گئے۔ ہزاروں خوبیاں ایک طرف، پیسہ ایک طرف۔ اب وہ اسے اپنے قابل نہیں سمجھتی تھی۔ اس نے بے نیازی سے اسے قطع تعلق کا پیغام بھیج دیا اور خود پچھلے محلے والے آفتاب سے پینگیں بڑھانے لگی۔ گو وہ دیکھنے میں بالکل لنگور تھا لیکن اس کا باپ کروڑ پتی ضرور تھا۔
پھر ایک دن اسے حسن کے نمبر سے پیغام آیا جس میں کسی پارٹی کا احوال تھا۔ پہلے تو اس نے بے زاری سے اس کا پیغام پڑھا اور ایک طرف ڈال دیا۔ پھر دل میں شوق جستجو بھڑکا اور فون اٹھا کر غور سے پیغام پڑھا۔ ابھی پہلا پیغام دیکھ ہی رہی تھی کہ دوسرا پیغام آیا، پھر تیسرا، پھر تصویریں آنے لگیں۔ کرن کی بے زاری اڑن چھو ہوگئی، لیٹے سے اٹھ کر بیٹھ گئی اور بیٹھے سے اٹھ کر کھڑی ہوگئی ۔ اور جب وہ تصویر آئی جس میں ایک حسین لڑکی حسن کا ہاتھ پکڑے بیٹھی تھی تو اسے اس زور کا بجلی کا جھٹکا لگا کہ بے ہوش ہوتے ہوتے بچی۔ وہ تو کبھی خواب میں بھی ایسی پارٹی ، ایسا گھر ، ایسے کپڑے اور ایسے لوگوں کے بارے میں نہیں سوچ سکتی تھی۔ اس نے دل میں سوچا یہ شخص کچھ نہ کچھ کار آمد ضرور ہے۔ اسے ہاتھ میں رکھنا چاہیے۔ ضروری نہیں کہ اس سے شادی کروں ، لیکن کچھ عیش تو کرا ہی سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ایسی پارٹیوں میں جاؤں گی ، مزے اڑاؤں گی۔ دل تو چاہا اسی وقت فون کرکے کہے ، ابھی ابھی آؤ اور مجھے بھی اس پارٹی میں لے جاؤ لیکن اپنا ہاتھ اوپر رکھنا ضروری تھا۔ اس لئے اسے کہہ دیا کہ اچھا تم پر ترس آگیا ہے اس لئے کل فون کرلینا۔
پھر قسمت نے یاوری کی اور کنیز نے اسے رسالے میں حسن کی تصویریں لاکر دکھائیں۔ اس جوان طرحدار کی وہ تصویریں دیکھیں کہ رشکِ مہر و ماہ تھا، آہو چشم ، جادو نگاہ تھا تو دل میں دبی محبت کی چنگاری ازسر نو بھڑکی اور آتش عشق نے ہر خیال دیگرکو بھسم کیا۔ کچھ یہ بھی کہ تصویروں کے ساتھ چھپے مضمون میں لکھا تھا کہ حسن بد رالدین ڈرامے میں نواب بنے گا اور بہت بڑے بڑے فنکاروں کے ساتھ کام کرے گا۔ کرن کی نظروں کے سامنے چشم زدن میں ایسی زندگی کی تصویر کھینچ گئی جس میں دولت و ثروت تھی، شہرت وعزت تھی، مشہور لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا، سیرو سیاحت اور آزاد زندگی تھی۔ چشم تصور سے اس نے اپنی تصویریں بھی اسی رسالے میں چھپی دیکھیں جس میں حسن کی چھپی تھیں۔ یہ سارا حساب کتاب اس نے چند لمحوں میں مکمل کیا اور فون اٹھا کر حسن کو فون کیا۔ جمعہ کی ملاقات کا وعدہ کیا، حسن کو قابو کرنے کا ارادہ کیا۔
اگلے دن کالج سے واپسی پر اس نے حسن کے گھر کے سامنے چہل پہل پائی۔ خلقِ خدا اس کی مشتاق نظر آئی۔ ایک بائیک اس کے پاس سے گزر کرحسن کے گھر کے پھاٹک کے سامنے رکی۔ اس پر بیٹھے شخص کے ہاتھ میں کیک نامی مٹھائی کا ایک ڈبہ اور سرخ اور سفید گلابوں کا ایک بڑا گلدستہ تھا، کسی کا اظہار محبت دل بستہ تھا۔ کرن وہیں کھڑے ہو کر یہ رونق بزم اور چہل پہل دیکھنے لگی۔ دل تو چاہتا تھا کہ اندر جائے، اس محفل خورسند کا حصہ بن جائے مگر پاس ِوضع جانے نہ دیتا تھا ، غرورِ حسن دون کی لیتا تھا۔
ابھی کرن وہیں کھڑی یہ تماشائے آفر ینش دیکھتی تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک عظیم الشان ، قوی ہیکل گاڑی اس کے پاس سے گزر کر حسن کے پھاٹک کے سامنے رکی۔ کھٹاک کھٹاک سے اس کے دروازے کھلے اور چار تنو مند ، دیوزاد مرد کو د کر باہر نکلے۔ان کے ہاتھوں میں بندوقیں تھیں، چہروں پر خشونت تھی، ان میں سے تین پہرے پر کھڑے ہوئے، ایک نے بڑھ کر دروازہ کھولا اور گاڑی میں سے ایک بت طناز ، چہرے بشرے سے ممتاز، مردِ شستہ انداز ، مانندِ خورشید طلو ع ہوا۔ کاندھے پر پڑی چادر درست کی اور پھاٹک کی طرف قدم بڑھایا۔ کرن دیکھتے ہی سمجھ گئی کہ ہو نہ ہو یہ انہی اداکاروں میں سے ایک ہے جن کا ذکر رسالے کے مضمون میں تھا اور جو حسن کے ساتھ ڈرامے میں اداکاری کرے گا، یقینا حسن نواب اور یہ اس کا وزیرِ اعلیٰ بنے گا۔
کرن نے جلدی سے آگے بڑھ کر سلام کیا۔ اس مردِ پری زاد نے شائستگی سے سرجھکا کر جواب دیا۔ کرن نے جلدی سے کاغذ قلم آگے بڑھایا اور نزاکت سے بولی۔ ‘‘آٹو گراف پلیز۔’ ’

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۴

Read Next

امجد صابری انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!