مرد کے چہرے پر حیرت نمودار ہوئی۔ حیران ہوکر کہا۔ ‘‘آٹوگراف؟’’
کرن نے مسکرا کر کہا ۔ ‘‘جی آٹوگراف۔ نہیں دیں گے کیا؟’’
مرد مسکرایا۔ کاغذ اور قلم تھاما اور اس پر اپنے دستخط کردیئے۔ الوداعی مسکراہٹ کرن کی طرف اچھالی اور سدھارا۔
کرن وہیں کھڑی آٹوگراف کو دیکھتی رہی اور مسکراتی رہی۔ یہ اس کے لئے ایک نئی زندگی کی ابتداء تھی۔ دولت و ثروت کی اقتدا تھی۔ کل کو وہ انہی حسین وجمیل لوگوں میں اٹھے بیٹھے گی۔ ہوسکتا ہے ان کے ساتھ ڈراموں میں کام بھی کرنے لگے۔ دنیا میں نام بھی کرنے لگے۔ آج وہ آٹو گراف لے رہی تھی، کل لوگ اس سے آٹوگراف لیں گے، اس کے ساتھ ایک تصویر کھنچوانے کے لئے گھنٹوں انتظارکریں گے۔
یہ سوچ نادر دماغ میں آئی، کرن وجد میں آئی۔ بے حد محظوظ ہوئی اور دل میں مصمم ارادہ کرلیا کہ اب کسی صورت حسن کو ہاتھ سے نہ جانے دے گی، اس کے ساتھ دل پسند زندگی کے مزے لے گی۔
جمعہ کا دن آیا تو اس نے ایک نیا منصوبہ بنایا۔ رات آئی تو یہ چال چلائی کہ اپنے پدرِ بزرگوار کو دودھ میں نیند کی گولی ملا کر پلائی۔ یہ ایک ایسی دوائے عجیب و غریب تھی کہ جو کھاتا، انٹا غفیل ہوجاتا۔ لشکر نوم غالب آتا، نیند میں دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوجاتا۔
باپ کے کمرے کا دروازہ بند ہوا، نیند میں بے دم ہوا تو خوشی خوشی اوپر اپنے کمرے میں آئی۔ نہا دھوکر ایک جوڑا پھڑکتا ثنا صفی ناز کا نکالا۔ عطرلگایا، زیور بیش بہا پہنا۔ گلے میں موتیوں کی مالا، کانوں میں بالیاں، ہاتھوں میں کانچ کی چوڑیاں ، انگلیوں میں انگوٹھیاں۔ پھر بناؤ سنگھار کی باری آئی۔ آنکھوں میں کاجل کی دھار ایسی لگائی کہ شب دیجور بھی دیکھ پائے تو اس کی آنکھ جھپک جائے، رخسار پہ وہ غازہ کہ گلاب بھی دیکھے تو مقابلے کو نہ آئے۔ لب لعلِ شکرخا پروہ سرخی لگائی کہ یاقوت سرخ و شفاف کو شرمائے۔اس عمدہ پوشاک، آرائش بے باک اور بناؤ سنگھار سے جوبن کی آگ بھڑکی تو،
؂دیکھ آئینے میں کہتی تھی کہ اللہ رے میں!
خود آپ ہی اپنے پر عاشق ہوگئی۔ بادۂ حسن کے سرور میں چور ہوگئی۔ جوانی کے نشے میں مست و مخمور ہوگئی۔
اب حسن بدر الدین کی سنیے۔ جمعہ کا دن اس نے جس بے قرار ی سے گزارا۔ خدا جانتا تھا یا وہ۔بار بار آسمان کو دیکھتا تھا کہ شب پردہ دارِ عشاق کہیں جلد آئے تو بندہ سدھارے۔ گھڑیاں گن گن کر رات آئی تو بارے دل کی مراد پائی۔ اٹھ کر نہایا دھویا عمدہ درجے کا حمام کیا، بہت اہتمام کیا۔ نیا جوڑا زیبِ تن کیا، عطر لگایا، بالوں کو ،جیسا کہ حجام نے سکھایا تھا، کنگھی کرکے سرپہ جمایا ، مونچھوں کو بل دے کر مثلِ ہلال بنایا اور جب جوبن و جوانی کی زیبائش سے ایک شہزادہ بلند مرتبہ نظر آنے لگا تو محبوبہ نازنین سے ملنے کی خاطر گھر سے نکلا۔ نکلتے وقت زلیخا کو کھانے کے کمرے میں کاغذات میں سر دیئے بیٹھاپایا لیکن اس سے کوئی تعرض نہ کیا اور چپکے سے نکل آیا۔ کرن کے مکان پر پہنچا تو پھاٹک کے چھوٹے دروازے کو آغوشِ مہربان کی مانند وا پایا۔جیسا کہ کرن نے سکھایا تھا، چھوٹے پھاٹک سے اندر آیا، اوپر نگاہ کی تو ا س کے کمرے میں بتی کو جلتا پایا۔ چہار جانب تاریکی شب چھائی تھی، روشنی صرف کرن کی کھڑکی میں نظر آئی تھی۔
سامنے وہ درخت نظر آیا جس کی بابت کرن نے ہدایت کی تھی کہ اس پر چڑھ جانا، مطلق کوئی ڈردل میں نہ لانا۔ حسن نے درخت کو دیکھا تو خوش ہوا کہ مضبو ط اور بلند و بالا ہے۔ شاخیں کرن کے بلند دریچے کے قریب ہیں، کسی اور درخت کو یہ باتیں کہاں نصیب ہیں۔ یہ سوچ کر درخت پر چڑھا اور شاخوں شاخوں ہوتا ہوا دریچے میں جا اترا۔ کھڑکی کا پردہ ہوا سے لہرایا اور حسن نے دیکھا کہ معشوقہ زہرہ تمثال ، جادو جمال، بلائے جاں ، نور جہاں، مانند بت طناز متمکن ہے اور حوروں کو شرماتی ہے۔ یہ خاتون پری زاد جو بے حجاب و بے نقاب یوں بیٹھی نظر آئی تو حسن کے خرمن خرد پر بجلی گرائی۔ لیلائے حسن کا اس قدر مجنون ہوا اور ایسا والہ و مفتون ہو اکہ اس کی یہ نصیحت مطلقاً یاد نہ رہی کہ چپکے سے آنا اور آہستہ سے کھڑکی کھٹکھٹانا۔ جوش جذبات میں اس زور سے دستک دی کہ خاموشی و تاریکی میں آواز گونج اٹھی۔

اس قدر قصہ کہہ کر شہزاد نے کہا ، اے جہاں پناہ، قدرقدرت، عطار د منزلت، اب رات قریب اختتام ہے اگر جان بخشی ہوگی تو شب کو بقیہ حصہ سناؤں گی،نیت ِ شب بخیر۔

(باقی آئندہ)

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۴

Read Next

امجد صابری انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!